دخترجمہوریت صنعف آهن مریم نواز مسلم لیگ ن کی بلا مقابلہ چیف آرگنائزر منتخب

 
0
54

دخترجمہوریت صنعف آهن مریم نواز مسلم لیگ ن کی بلا مقابلہ چیف آرگنائزر منتخب ہوگئی ہیں پاکستان کی سیاست پر نظر ڈالی جائے تو ہمیں خواتین سیاست دانوں کی ایک طویل فہرست نظر آتی ہے جو مختلف سیاسی جماعتوں میں فعال کردار ادا کرنے کے علاوہ وزیر، مشیر اور سفیر اسپیکر کی حیثیت سے نمایاں خدمات انجام دے رہی ہیں لیکن پاکستان کی خواتین سیاست دانوں میں گذشتہ چند برسوں کے دوران جو نام سب سے زیادہ مقبول اور نمایاں طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے وہ سابق وزیر اعظم نوازشریف کی صاحبزادی ”آئرن لیڈی ”,ڈاٹر آف ڈیموکریسی” صِنْفِ آهن” دختر جمہوریت” مریم نواز شریف کا ہے۔ جنوبی ایشیا کی سیاست پر نظر ڈالیں تو یہ حقیقت واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ جنوبی ایشیا کے بیشتر ممالک میں چند سیاسی خاندانوں کوعوام نے ہمیشہ بھرپور انداز سے سپورٹ کیا ہے۔ بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔ان سیاسی خاندانوں کی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور باصلاحیت خواتین نے بھی میدان سیاست میں بڑا نام کمایا ہے۔ مریم نواز اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں انہوں نے کیمرج اور پنجاب یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے اور انگلش لٹریچر میں ماسٹرز کیا ہے۔ بعدازاں کیپٹن صفدر سے ان کی شادی ہوگئی , مریم نواز نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز اس وقت کیا جب جنرل پرویز مشرف نے 1999 ءمیں محمد نوازشریف کی منتخب حکومت کا خاتمہ کردیا تھا اور نوازخاندان اور مسلم لیگ (ن) کے لئے صورتحال مشکل دکھائی دے رہی تھی۔ پاکستان میں وزیر اعظم نوازشریف کی اہلیہ کلثوم نواز، جنرل پرویز مشرف کی آمریت کے خلاف جدوجہد کررہی تھیں۔ مریم نواز نے اپنی والدہ کلثوم نواز کے زیر سایہ ہی سیاسی تربیت حاصل کی ، اس دوران انہوں نے گھریلو، خاندانی اور سیاسی معاملات میں اپنی خداداد صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ 2011 ءمیں انہوں نے باقاعدہ سیاست میں قدم رکھا، انہوں نے جمہوریت کی بحالی اور آمریت کے خلاف جدوجہد میں فعال کردار ادا کیا۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ان کی سیاسی تربیت جنرل مشرف کی آمریت کے مشکل دور میں ہوئی ۔ اس سے قبل وہ مکمل گھریلو خاتون تھیں۔ ابتداءمیں غالباً وہ سیاست میں اس لئے فعال ہوئی تھیں کہ وہ اپنے قائد اور والد کی مدد کرنا چاہتی تھیں۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا ان کی سیاسی سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہوتا گیا اور سیاسی ماہرین انہیں مسلم لیگ (ن) کا نیا ابھرتا ہوا چہرہ قرار دینے لگے۔ جبکہ مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں نے مریم نوازکو وزیر اعظم نوازشریف کی تصویر قرار دیا ,جب 2013 ءکے انتخابات قریب آئے تو پاکستان تحریک انصاف سمیت کئی سیاسی جماعتوں نے سوشل میڈیا کا باقاعدہ استعمال شروع کردیا۔ مسلم لیگ (ن) کو بھی یہ مسئلہ درپیش تھا کہ سوشل میڈیا کے محاذ پر وہ مخالفین کا مقابلہ کیسے کرے؟ لیکن اس موقع پر مریم نواز نہ صرف انتحابی مہم میں بھرپور دلچسپی لی بلکہ مسلم لیگ (ن) کا سوشل میڈیا سیل قائم کرکے مخالفین کی نیندیں اڑادیں ۔ان کے ٹویٹ سے قومی سیاست میں ہلچل مچ جاتی ہے وہ ہر اہم معاملے میں ٹویٹ کے ذریعے اپنی رائے کا اظہار کرتی ہیں۔انہوں نے سوشل میڈیا سیل کو فعال اور موثر بنا کر جہاں مسلم لیگ (ن) کیلئے اہم خدمت انجام دی ہے وہیں مخالفین ان کی کارکردگی سے خائف دکھائی دیتے ہیں اور بعض مخالفین ان پر اوچھے وار کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ اور اب پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا سیل نے انہیں ہی ٹارگٹ بنا رکھا ہے۔ ان کے سیاسی کیریئر میں نومبر 2013 ءمیں ایک اہم پیشرفت اس وقت ہوئی جب انہیں وزیر اعظم یوتھ پروگرام کا چیئرپرسن بنایا گیا۔ انہوں نے اس پروگرام کے ذریعے پسماندہ علاقوں کے نوجوانوں کی مدد بھی کی اور حوصلہ افزائی بھی کی تاکہ ہر علاقے کے طالب علم کو بلا امتیاز اعلیٰ تعلیم کے موقع میسر آسکیں۔ اس کے بعد وزیر اعظم صحت پروگرام . وزیر اعظم فلاحی منصوبوں کومریم نوازنے اپنی صلاحیتوں سے کامیابی کی طرف گامزن کیا اور بلا معاوضہ اور کسی عہدے کے بغیر اپنا قومی فریضہ ادا کرکے اپنے والد وزیر اعظم کے ہاتھ مضبوط کئے
پاکستان میں خواتین نے آمریت، ظلم و جبر اور اپنے معاشرے کی تعمیر و ترقی کے لئے قابل ذکر مثالیں قائم کی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ جنوبی ایشیا کی تاریخ سے ان خواتین کی سیاسی جدوجہد اور قومی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ جنوبی ایشیا کی ان قدآور سیاسی خواتین میں محترمہ فاطمہ جناح ، بیگم رعنا لیاقت علی خان ، بیگم زاہد ہ خلیق الزمان محترمہ شہید بے نظیر بھٹو، اندا گاندھی، بندرا نائیکے اور حسینہ واجد شامل ہیں ۔پاکستان مسلم لیگ (ن) کے جنرل کونسل اجلاس میں شہباز شریف مسلم لیگ ن کےچار سال کیلئے بلا مقابلہ صدر, مریم نواز چیف آرگنائزر , حسن اقبال جنرل سیکریٹری منتخب ہوگئے ہیں۔جنرل کونسل اسلام آباد اجلاس میں پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے شرکت کی۔ مسلم لیگ ن کے صدر اوورسیز اور بین الاقوامی امور کے لیے اسحاق ڈار بلامقابلہ منتخب ہوئے ہیں جبکہ اسحاق ڈار مسلم لیگ ن کے سیکریٹری فنانس بھی منتخب ہوئے ہیں۔عطاء اللّٰہ تارڑ مسلم لیگ ن کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے ہیں۔


اسلام آباد میں مسلم لیگ ن کے جنرل کونسل اجلاس سے خطاب کرتے ہوئےشہباز شریف کا کہنا تھا کہ جو لوگ پارٹی میں رہ کر اسحاق ڈار کی ٹانگیں کھینچ رہے ہیں انہیں پارٹی میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔
شہباز شریف نے کہا کہ میں نے جنرل کونسل کا اجلاس کئی بار مؤخر کروایا، میں اس انتظار میں تھا کہ نواز شریف پاکستان آئیں اور میں یہ ذمہ داری ان کے حوالے کروں، الیکشن کمیشن کی تلوار لٹک رہی تھی، اس لیے آج یہ اجلاس منعقد کیا گیا۔ شہباز شریف کہ ملک کی آبادی کا 60 فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے، مسلم لیگ ن میں اب نوجوان لیڈر شپ کی ضرورت ہے، آپ دیکھیں گے جب نواز شریف واپس آئیں گے تو پاکستان میں سیاست کا نقشہ بدل جائے گا۔ نواز شریف نے 20، 20 گھنٹے کی بجلی کے اندھیرے ختم کیے، نواز شریف نے جگہ جگہ موٹر ویز بنائے، نواز شریف کی غیر موجودگی میں کارکنوں نے مسلسل محنت کی۔وزیراعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم نے جن حالات میں حکومت سنبھالی یہ پھولوں کی سیج نہیں، کانٹوں کی مالا ہے، مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی، دنیا میں تیل کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کر رہی تھی، اتحادی حکومت نے مل کر فیصلہ کیا کہ ہم سخت حالات کا مقابلہ کریں گے، شدید مالی مشکلات کے باوجود بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کیا گیا۔ شہباز شریف کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ آج بھی سینگ پھنسے ہوئے ہیں، پاکستان ترقی کے راستے پر گامزن ہوگا، نواز شریف آئیں، اگلا انتخاب لڑیں اور چوتھی بار ملک کے وزیراعظم بنیں، نواز شریف ملک کی قسمت بدلیں گے، یہ میرا ایمان ہے۔شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ہم نے کل آذربائیجان کے ساتھ گیس کا معاہدہ کیا، ہم ان مشکلات سے نکلیں گے اور نواز شریف کی قیادت میں وہی دور آئے گا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا تھا کہ مودی کامیاب ہوگا تو پاکستان کیلئے بہت فائدہ ہوگا، چیئرمین پی ٹی آئی نے مودی کے گیت گائے، ہم نے تو مودی کی تعریف نہیں کی اور نہ ہی گیت گائے، کشمیر پر سودا نہیں ہوسکتا۔وزیراعظم نے کہا کہ مریم نواز نے جب سے چیف آرگنائزر کا عہدہ سنبھالا، دن رات محنت کر رہی ہیں، اتحادی حکومت کو ہم سب مل کر چلا رہے ہیں، مریم نواز با ہمت بیٹی ہیں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی چیف آرگنائزر مریم نواز کا کہنا تھا کہ کوئی بھی منصوبہ اٹھالیں اس پر ن لیگ اور نواز شریف کا نام درج ہوگا، نواز شریف کا دور ملکی تاریخ سے نکال دیں تو کھنڈرات کے علاوہ کچھ نہیں بچتا۔ مریم نوازنے کہا کہ جب حکومت سنبھالی تو پاکستان ڈیفالٹ کے دہانے پر تھا، مشکل ترین حالات کے باوجود اسحاق ڈار نے پاکستان کی معیشت کو چلایا، پاکستان کی ڈوبتی کشتی کو شہباز شریف نے سہارا دیا، شہباز شریف نے ہمیشہ نواز شریف کو اپنا صدر مانا ہے۔مریم نواز نے مزید کہا کہ مسلم لیگ ن قائد اعظم کی وراثت کی امین ہے، نواز شریف نے مسلم لیگ ن کو عوامی جماعت بنایا، مشکلات کے باوجود نواز شریف نے صبر اور اعلیٰ اخلاق کا دامن نہیں چھوڑا، نواز شریف اس ملک کا بیٹا ہے، ملک کو بنانے والے ہاتھ کبھی بھی ملک کو نقصان نہیں پہنچاتے۔مریم نوازرہنما مسلم لیگ ن نے کہا کہ لیڈر قوم کا استاد ہوتا ہے، لیڈر قوم کیلئے مثال ہوتا ہے، مسلم لیگ ن کارکنوں کی جماعت ہے اس پر سب سے زیادہ حق کارکنوں کا ہے، تا حیات قائد نواز شریف یہاں بیٹھے ہر ممبر اور کارکن کے دل میں بستے ہیں۔ جنرل کونسل کے ایک، ایک رکن کو مبارک باد پیش کرتی ہوں، کارکنان نے مشکل وقت میں جماعت کا ساتھ نہ دیا ہوتا تو جماعت آج یہاں کھڑی نہ ہوتی۔مریم نواز نے یہ بھی کہا کہ نواز شریف پر کیا کیا مشکلات نہیں آئیں، نواز شریف نے کبھی قوم کو یہ درس نہیں دیا کہ گھروں کو جلا دو، میٹرو بس جلا دو، ملک کو بنانے والے ہاتھ کبھی ملک کو توڑ نہیں سکتے، نواز شریف نے کبھی اخلاق کا دامن نہیں چھوڑا، کبھی کبھی تقریر کے دوران جذباتی ہو جاتی ہوں تو نواز شریف کہتے ہیں بیٹا دھیرے بات کیا کرو، نواز شریف نے کبھی کسی کو جلاؤ گھیراؤ کی ترغیب نہیں دی، انہوں نے ہمیشہ کہا بدتمیزی کا جواب تہذیب سے دو، گالی نہیں دو۔مریم نواز نے کہا کہ نواز شریف اور ن لیگ پر بڑی بڑی مشکلات آئیں، ن لیگ کے رہنماؤں نے کبھی روتے پیٹتے اپنی مشکلات نہیں سنائیں، ن لیگ کے رہنماؤں نے ہمیشہ بہادری سے ہر مشکلات کو جھیلا، ن لیگ کے کسی رہنما نے کوئی پریس کانفرنس نہیں کی، چٹان کی طرح جماعت کے ساتھ کھڑے رہے، کبھی کسی نے سنا نواز شریف نے کسی غیر ملکی کو کہا ہو میرےحق میں بات کرو۔مریم نواز نے کہا کہ ملک میں اتار چڑھاؤ آئے لیکن ملک کے مفادات کا سودا نہیں کیا، جب مشکل وقت آیا تو جماعت سیسہ پلائی دیوار کی طرح نواز شریف کے ساتھ کھڑی رہی۔ تبدیلیاں لانے والے جہاں سے آئے تھے وہیں واپس چلے گئے، نواز شریف کو مٹانے والے کئی آئے، کئی چلے گئے، نواز شریف اکیلا پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہے۔مزید یہ کہ مسلم لیگ (ن) جنرل کونسل اجلاس میں سانحہ 9 مئی کی مذمت کی قرار داد منظور کی گئی,پارٹی اعلامیہ کے مطابق کشمیری عوام سے اظہار یکجہتی کی قرار دادیں بھی اتفاق رائے سے منظور کی گئیں۔ اعلامیہ میں مزید کہا گیا کہ جنرل کونسل اجلاس میں نواز شریف کی جرات، ہمت اور بصیرت پر خراج تحسین کی قرارداد منظور کی گئی۔

قرار داد کے مطابق انہوں نے بدترین جبر اور سیاسی انتقام کا ثابت قدمی، صبر اور بہادری سے مقابلہ کیا۔ قرار داد کے مطابق نواز شریف نے اپنی سیاسی حکمت عملی سے بحرانوں اور سازشوں کا منہ موڑ دیا۔ اجلاس میں وزیر اعظم شہباز شریف اور مریم نواز کو خراج تحسین کی قرارداد بھی منظور کی گئی۔ جنرل کونسل کی قرار دادوں میں مطالبہ کیا گیا کہ قومی اداروں میں پھوٹ ڈلوانے والوں کو سخت سے سخت سزا دی جائے اور عوام اور فوج میں دراڑ ڈالنے کی گھناﺅنی سازش کرنے والے کرداروں کو سزا دی جائے۔ قرار داد کے مطابق ایک شخص نے اپنی کرپشن اور قومی خزانے کی نیلامی کے جرم کو چھپانے کیلئے لشکر کشی کی۔ قرارداد کے مطابق قومی یادگاروں اور قومی ہیروز کی علامات کی بے حرمتی کی گئی۔ دشمن کی طرح فوجی تنصیبات پر حملے کیے اور ریڈیو پاکستان کو جلایا گیا۔ قرار داد کے مطابق عوام نے فتنہ و فساد اور سازشی عناصر کو مسترد کیا۔ مزید یہ کہ پاکستان مسلم لیگ (ن)پاکستان کی ایک اہم سیاسی جماعت ہے۔ “ن” سے مراد جماعت کے بانی نواز شریف ہیں۔انتخابی تاریخ کےتحت وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران پاکستان مسلم لیگ سیاسی گھاٹی میں چلی گئی،اس نے 1970 کی دہائی میں بھٹو کے قومیانے کے پروگرام کے جواب میں ایک مضبوط واپسی کی۔ بااثر نوجوان کارکنان ، جن میں نواز شریف ، جاوید ہاشمی ، ظفر الحق ، اور شجاعت حسین شامل تھے ، پارٹی کے قائدین کی حیثیت سے شامل ہوئے اور مسلم لیگ کے ذریعے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا۔

یہ پارٹی نو پارٹیوں کے اتحاد ، پی این اے کا ایک لازمی حصہ بن گئی ، اور اس نے 1977 کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے خلاف مہم چلائی۔ انہوں نے دائیں بازو کے پلیٹ فارم پر انتخابی مہم چلائی اور 1977 کے عام انتخابات میں قدامت پسند نعرے لگائے۔ شریف اور حسین سمیت مسلم لیگ مختلف خیالات کا حامل تھا اور اس نے مسلم لیگ کے مالی اخراجات کے لئے بڑا سرمایہ فراہم کیا تھا۔

یہ وہ وقت تھا جب پارٹی کو دوبارہ زندہ کیا گیا اور ایک بااثر سندھی قدامت پسند شخصیت پیر پگارا کے ساتھ بھٹو مخالف پی این اے میں اس کا منتخب صدر منتخب ہوا۔ 1977 کے مارشل لاء کے بعد ، پارٹی نے اپنے آپ کو دوبارہ تشخیص کیا اور ظہور الٰہی کی سربراہی میں ، جو مسلم لیگ کے مرکزی رہنما تھے ، کے زیر اقتدار ایک طاقتور اولگارچ بلاک کا عروج دیکھا۔ 1984 کے ریفرنڈم کے بعد ، صدر ضیاء الحق ملک کے منتخب صدر بن گئے تھے۔

1985 کے عام انتخابات کے دوران ، ملک کے سیاسی منظر نامے پر ایک نئی مسلم لیگ (ن) ابھری۔

پارٹی نے ضیاء الحق کی صدارت کی حمایت کی تھی اور محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم کے عہدے پر مقرر کرنے کے لئے ان کی حمایت حاصل کی تھی۔ نواز شریف نے صدر ضیاء الحق کی حمایت اور حمایت حاصل کی تھی ، جس نے 1985 میں ان کی صوبہ پنجاب کے وزیر اعلی کے عہدے پر تقرری کی منظوری دی تھی۔
1988 پاکستانی عام انتخابات اور اسلامی جمہوری اتحاد پارٹی کی جدید تاریخ 1988 کے پارلیمانی انتخابات کے دوران شروع ہوئی ، جب سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی سربراہی میں پاکستان مسلم لیگ دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی: ایک کی قیادت فدا محمد خان اور اس وقت کے وزیر اعلی پنجاب نواز شریف کررہے تھے۔
مسلم لیگ پاکستان کے بانیوں کی جماعت تھی۔ لیکن 1947 میں پاکستان کے بننے کے فوراً بعد اسے ٹوٹ پھوٹ کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ 1970 کی دہائی میں ختم ہو گیا۔ اس کا احیاء 1980 کی دہائی کے وسط میں شروع ہوا اور آج پاکستان میں مسلم لیگ ن ہے۔پاکستان مسلم لیگ ن،یا نواز شریف: سابق وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب میاں نواز شریف کی زیر قیادت یہ جماعت 1988ء میں اپنے قیام سے ملکی سیاست میں اہم کردار ادا کرتی چلی آ رہی ہے۔ اسے دیگر مسلم لیگ سے ممتاز کرنے کے لیے پاکستان مسلم لیگ ن کہا جاتا ہے۔ اس جماعت کو 1988ء میں فوجی آمر محمد ضیاء الحق کی موت کے بعد فدا محمد خان نے تشکیل دیا۔ نئی جماعت کے سربراہ فدا محمد خان اور جنرل سیکرٹری نواز شریف تھے۔