وزیر اعظم شہباز شریف کا عالمی مالیاتی ڈھانچے کی تعمیر نو پر زور

 
0
83

وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ دنیا کو عالمی مالیاتی ڈھانچے پر نظر ثانی کرتے ہوئے ’خامیوں‘ کا خاتمہ کرنا چاہیے، دنیا کو اس وقت حقیقت سے آگاہی کے لمحے کا سامنا ہے، آئیے ہم سب یکجہتی اور ہمدردی کے جذبے کے ساتھ چیلنج کا مقابلہ کرنے کا عہد کریں۔دنیا کو موجودہ معاشی اور موسمیاتی انتشار کواصلاح کے موقع کے طور پر استعمال کرنا چاہیے۔ ایک ٹوئٹ میں وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی مالیاتی ڈھانچے کی اصلاحات عوامی پالیسی کے ماہرین، پالیسی پریکٹیشنرز اور عالمی رہنماؤں کی جانب سے مختلف فورمز پر طویل عرصے سے ایک اہم مطالبہ رہا ہے۔موسمیاتی تبدیلی، قدرتی آفات، ماحولیات، قرضوں کی بڑھتی ہوئی سطح اور توانائی کی منتقلی جیسے چیلنجوں کی سنگین نوعیت نے خطرے کی گھنٹی بجائی ہے۔ مسائل کی عالمگیریت نے عالمی مالیاتی نظام کو نمائندہ اور مساوی بنانے کے لیے اس پر نظر ثانی کرنے کے لیے تخلیقی نقطہ نظر کی ضرورت کو جنم دیا ہے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں فرانس میں نیو گلوبل فنانسنگ پیکٹ سمٹ دنیا کے لیے ایک منفرد موقع کی نمائندگی کرتا ہے کہ وہ اکٹھے ہوں اور عالمی مالیاتی نظام کی جامع اصلاحات کے لیے درکار وسیع اصولوں اور اقدامات پر متفق ہوں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ جی۔77 پلس چائنا گروپنگ میں ایک اہم اسٹیک ہولڈر کے طور پر اور موسمیاتی تبدیلی کے خطرے سے بری طرح متاثر ہونے والے ملک کی حیثیت سے پاکستان اس کردار کے لیے بہتر پوزیشن میں ہے۔دفتر خارجہ کی ترجمان کی جانب سے ایک روز قبل جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ سربراہی اجلاس رہنماؤں کو ایک نئے عالمی طرزِ تعمیر کی صورت پر تبادلہ خیال کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے جو پائیدار ترقی، ماحولیات، توانائی کی منتقلی اور موسمیاتی تبدیلی کے ایجنڈے کی مالی اعانت کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔دفتر خارجہ کی ترجمان کی جانب سے ایک روز قبل جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ سربراہی اجلاس رہنماؤں کو ایک نئے عالمی طرزِ تعمیر کی صورت پر تبادلہ خیال کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے جو پائیدار ترقی، ماحولیات، توانائی کی منتقلی اور موسمیاتی تبدیلی کے ایجنڈے کی مالی اعانت کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

سربراہی اجلاس کا مقصد آئندہ 2 سال کے دوران دیگر اہم بین الاقوامی تقریبات اور کانفرنسز کے سلسلے میں بین الاقوامی مالیاتی نظام کی جامع اصلاحات کے لیے درکار اصولوں اور اقدامات کی وضاحت کرنا، شمال اور جنوب کے درمیان زیادہ متوازن اور منصفانہ شراکت داری کی راہ ہموار کرنا ہے۔ پاکستان عالمی مباحثے میں ایک سرکردہ اسٹیک ہولڈر، جی۔ 77 اینڈ چائنا میں ایک رہنما اور موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے سب سے بڑے ترقی پذیر ممالک میں سے ایک کی حیثیت سے سربراہی اجلاس میں ہونے والی بحث میں حصہ لیا۔ٹوئٹر پر جاری اپنے ایک بیان میں وزیراعظم نے کہا کہ عالمی برادری کو شرم الشیخ میں کوپ۔27 میں کیے گئے وعدوں کو پورا کرنا چاہیے، قدرتی آفات سے سپلائی چین میں خلل پڑنے سے اجناس کی قیمتوں اور مہنگائی میں اضافہ ہوا، معاشی نمو رک گئی، دنیا کو موجودہ معاشی اور موسمیاتی انتشار کو اصلاح کے موقع کے طور پر استعمال کرنا چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ ان عوامل کی وجہ سے ترقی رک گئی، سپلائی چین میں خلل پڑنے سے اجناس کی قیمتوں اور مہنگائی میں اضافہ ہوا ، پھر شدید موسمی واقعات میں سے بدترین سیلاب آیا جس سے پاکستان کو 30 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ ایک نئے عالمی مالیاتی معاہدے کے لیے سربراہی اجلاس کے موقع پر میں نے اپنی بات چیت کے دوران عالمی رہنماؤں کی توجہ ان خارجی عوامل کی طرف مبذول کرائی جس سے پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے لیے شدید بحران پیداہوا۔شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ان عوامل کی وجہ سے ترقی رک گئی،

سپلائی چین میں خلل پڑنے سے اجناس کی قیمتوں اور مہنگائی میں اضافہ ہوا ، پھر شدید موسمی واقعات میں سے بدترین سیلاب آیا جس سے پاکستان کو 30 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ عالمی مالیاتی ڈھانچے پر دوبارہ غور اس کا نقطہ آغاز ہو سکتا ہے جہاں آئی ایف آئیز اپنے پروگراموں کو ترقی کے حامی اور ایس ڈی جیز اور موسمیاتی انصاف کے اہداف کے ساتھ منسلک کرنے کے لیے ڈیزائن کرسکتے ہیں۔ ہ دنیا کو اس وقت حقیقت سے آگاہی کے لمحے کا سامنا ہے، آئیے ہم سب یکجہتی اور ہمدردی کے جذبے کے ساتھ چیلنج کا مقابلہ کرنے کا عہد کریں۔ خیال رہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کی دعوت پر نیو گلوبل فنانسنگ پیکٹ (نئے عالمی مالیاتی معاہدے) کے لیے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے پیرس میں موجود تھے۔سربراہی اجلاس کا مقصد ’بریٹن وُڈز سسٹم‘ سے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے ایک نئے عالمی فنانسنگ آرکیٹیکچر کی بنیاد رکھنا ہے تاکہ بیک وقت موسمیاتی تبدیلی، حیاتیاتی تنوع اور ترقی کے چیلنجز سے نمٹا جاسکے اور تمام ممالک کو پائیدار ترقی کے اہداف حاصل کرنے میں مدد ملے۔وزیراعظم نے اسلامی ترقیاتی بینک (آئی ایس ڈی بی) کے صدر ڈاکٹر محمد الجاسر سے نئے عالمی مالیاتی معاہدے سے متعلق کانفرنس میں سائیڈ لائن پر ملاقات کی، شہباز شریف نے 9 جنوری 2023 کو جنیوا میں منعقد ہونے والی کلائمیٹ ریزیلیئنٹ پاکستان بارے میں بین الاقوامی کانفرنس میں آئی ایس ڈی بی کی شرکت پر پاکستانی حکومت اور عوام کی جانب سے ڈاکٹر الجاسر کا شکریہ ادا کیا۔انہوں نے کانفرنس میں آئی ایس ڈی بی کے پاکستان کی سیلاب کے بعد بحالی میں معاونت کے لیے 4.2 ارب ڈالر کی فراہمی کے اعلان کو سراہا، انہوں نے اس فراخدلانہ مالی معاونت میں ڈاکٹر الجاسر کے ذاتی تعاون اور قائدانہ کردار کو تسلیم کیا۔ وزیراعظم نے اس بات پر زور دیا کہ آئی ایس ڈی بی کی پاکستان کے ساتھ مفید شراکت داری ملک کے عوام کو ان کی زندگیوں کی تعمیر نو اور روزگار میں مدد فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت کے پائیدار ترقی کے مقاصد کے حصول میں بھی معاون ہوگی۔انہوں نے ڈاکٹر الجاسر کو ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو صحیح خطوط پر استوار کرنے اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے تمام خدشات کو دور کرنے کے لیے ون ونڈو حل فراہم کرنے کے لیے حال ہی میں تشکیل دی گئی خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے بارے میں بھی بتایا۔ وزیراعظم نے صدر آئی ایس ڈی بی کو جلد از جلد پاکستان کا دورہ کرنے کی دعوت کا بھی اعادہ کیا۔ یاد رہے کہ یکم دسمبر 2022 کو وزیراعظم شہباز شریف نے شرم الشیخ کانفرنس میں ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے ماحولیاتی تبدیلیوں کے چیلنج کو قبول کرنے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ کوپ-27 کے ’لاس اینڈ ڈیمیج‘ فنڈ پر عملی طور کام کرنا ضروری ہے۔وزیراعظم شہباز شریف نے شرم الشیخ میں منعقدہ کوپ-27 کانفرنس میں پاکستان کی کامیاب موسمیاتی سفارت کاری پر متعلقہ اداروں اور بین الاقوامی شراکت داروں کی کاوشوں کو سراہنے کے لیے ہونے والی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ حالیہ سیلاب سے بہت نقصانات ہوئے ہیں۔

سیلاب سے 3 کروڑ 30 لاکھ افراد متاثر ہوئے، ایک ہزار 800 اموات ہوئیں، زراعت، صنعت، لائیو اسٹاک، انفرااسٹرکچر سمیت 30 ارب ڈالر کے نقصانات کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان کے سیلاب متاثرین کی مدد کرنے والے تمام ممالک کا شکریہ ادا کرتے ہیں، مشکل کی اس گھڑی میں کی جانے والی مدد ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ موسمیاتی تبدیلی کےباعث بارشوں سے پاکستان میں بے پناہ تباہی ہوئی حالانکہ موسمیاتی تبدیلیوں کا سبب بننے والی گیسوں کے اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے، ہماری خواہش اور دعا ہے کہ جو پاکستان میں ہوا وہ کسی دوسرے ملک کے ساتھ نہ ہو تاہم یہ تلخ حقیقت ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات اور ان کے نتیجے میں رونما ہونے والی آفات سرحدوں کی پابند نہیں۔وزیراعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ پاکستان کی آواز عالمی سطح پر سنی گئی اور ان کوششوں کی بدولت ’لاس اینڈ ڈیمج فنڈ‘ کا قیام عمل میں آیا، ان کا کہنا تھا کہ یہ بات خوش آئند ہے کہ ترقی یافتہ دنیا نے موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج کی اہمیت تسلیم کی ہے اور شرم الشیخ میں شان دار معاہدہ طے پایا، جس کے نتیجے میں لاس اینڈ ڈیمج فنڈ کا قیام عمل میں لایا گیا، تاہم معاہدوں پر عمل درآمد کی زیادہ اہمیت ہوگی۔ 08 نومبر 2022 کو مصر میں ’کوپ 27‘ موسمیاتی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے زور دیا تھا کہ دنیا کو ہماری مشکلات کو سمجھنا چاہیے، دیگر ممالک بھی ایسی موسمیاتی یا انسانی ساختہ قدرتی آفات کا شکار ہو سکتے ہیں۔عالمی رہنماؤں سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں تباہ کن سیلاب سے 3 کروڑ 30 لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں، یہ تعداد تین یورپی ممالک کی آبادی سے زیادہ ہے، جن میں آدھے سے زیادہ خواتین اور بچے شامل ہیں۔وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ سیلاب کے باعث ملک کے شمال میں 8 ہزار کلو میٹر سے زائد سڑکیں تباہ ہوئیں، 3 ہزار کلو میٹر ریلوے ٹریک کو نقصان پہنچا اور سیکڑوں پل تباہ ہوئے اور کھڑی فصلوں کو نقصان پہنچا ہے۔وزیراعظم نے کہا تھا کہ سیلاب کے باعث ملک میں 30 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ہمارے ملک کا کاربن گیسوں کے اخراج میں حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے، پاکستان کے لیے ترجیحات کبھی بھی واضح نہیں رہیں۔فنانسنگ اور ٹائم لائن دونوں لحاظ سے موافقت کے عالمی ہدف کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے، ہم نے تاحال موافقت اور مالیات کے حوالے سے وعدوں میں توازن نہیں دیکھا، موسمیاتی تباہی کی فرنٹ لائنز پر موجود افراد کی حقیقی بحالی کی ضروریات کو برقرار رکھنے کے لیے موجودہ مالیاتی فرق بہت زیادہ ہے۔انہوں نے کہا تھا کہ نقصانات کو پورا کرنے کا معاملہ کوپ 27 کے بنیادی ایجنڈے کا حصہ بنانا ہوگا تاکہ ان لوگوں کی انسانی ضروریات کو پورا کیا جا سکے جو قرضوں کی وجہ سے عوامی مالی امداد کے بحران میں پھنسے ہوئے ہیں اور پھر بھی انہیں اپنے طور پر موسمیاتی آفات کے لیے فنڈز فراہم کرنے پڑ رہے ہیں۔کلائمٹ فنانس کو واضح طور پر نئے، اضافی اور پائیدار وسائل کے طور پر ایک شفاف طریقہ کار کے ساتھ بیان کیا جانا چاہئے جو ترقی پذیر اور کمزور ممالک کی ضروریات کو اس رفتار اور پیمانے کے ساتھ پورا کرتا ہے، جس کی ضرورت ہے۔شہباز شریف کا کہنا تھا کہ اب اس بات پر مکمل وضاحت ہونی چاہئے کہ موسمیاتی منتقلی اور ترقیاتی مالیات کا کتنا حصہ ہے۔ 2009 میں کوپن ہیگن میں کوپ 15 میں 2020 تک سالانہ 100 ارب ڈالر فراہم کرنے کے وعدے کیے گئے تھے لیکن وہ ابھی تک پورے نہیں ہوئے۔ اقوام متحدہ کے نظام کے تحت یو این ایف سی سی سی کے تمام فریقین کا ایک عالمی موسمیاتی رسک انڈیکس بنایا جانا چاہئے، اس انڈیکس میں سب سے زیادہ کمزور ممالک کے منصوبوں کو کلائمٹ فنانس کے لیے ترجیح اور تیزی سے منظوری ملنی چاہئے۔ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے بوجھ کی واضح تقسیم کے فارمولے کی بحالی کی ضرورت ہے، پیرس معاہدے میں بیان کردہ طریقہ کار سے بھی زیادہ ذمہ داریوں کے وعدے کا احترام کیا جانا چاہئے، پاکستان کی این ڈی سیز میں 2030 کے لیے خواہشات بہت سے ممالک سے پہلے ہی زیادہ ہیں لیکن ہم اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہیں۔حالیہ سیلاب کے دوران ہم نے گندم، پام آئل، تیل و گیس برآمد کیا، ہم نے اپنے تمام وسائل کا رخ لاکھوں سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے موڑ دیا، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے لاکھوں گھرانوں کو امداد فراہم کی جا رہی ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ دنیا کو ہماری مشکلات کو سمجھنا چاہیے، دیگر ممالک بھی ایسی موسمیاتی یا انسانی ساختہ قدرتی آفات کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ہمیں اپنے انفراسٹرکچر کی بحالی اور تعمیر نو کے لیے قرضوں کے بجائے اضافی فنڈ کی ضرورت ہے۔وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ اس ’کوپ 27‘ کے انعقاد سے کنونشن اور پیرس معاہدے کے اہداف میں حصول کے لیے مشترکہ بنیاد میسر آئے گی، یہ اب یا کبھی نہیں کا معاملہ ہے اور ہمارے لیے واقعی کوئی دوسرا کرہ ارض نہیں ہے۔