اسلام آباد (ٹی این ایس)صدر مملکت کی پی ٹی وی کے چھ ملازمین کی 2سال کیلئے ترقی روکنے کی ہدایت

 
0
87

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پی ٹی وی کے چھ ملازمین کی 2سال کیلئے ترقی روکنے کی ہدایت کر دی، ہدایت خاتون کیمرہ مین کو کام کی جگہ پر ہراساں کرنے ، غیر محفوظ اور جارحانہ ماحول پیدا کرنے پر کی گئی ،صدر مملکت نے خاتون کیمرہ مین کی سروس سے برطرفی کو بھی کالعدم قرار دے دیا۔

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ خاتون کے خلاف ضابطے کی پیروی کیے بغیر، غیر ذمہ دارانہ طریقے سے تادیبی کارروائی شروع کی گئی، خاتون کیمرہ مین کے خلاف بدتمیزی اور توہین آمیز کارروائیاں کی گئیں، کام کی جگہ پر ہراساں کرنا ایک عالمی رجحان ہے، جو ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں پایا جاتا ہے، ہراسانی کا عمل مذہب، ثقافت، نسل، ذات، طبقے اور جغرافیائی حدود سے بالاتر ہے، تعلیم اور روزگار تک بہتر رسائی سے لاکھوں پاکستانی خواتین کام کر رہی ہیں ، بہت سے لوگوں کو روزانہ کی بنیاد پر کام کی جگہ پر ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، پاکستان جیسے ملک میں کام کی جگہ پر ہراسانی کے خاتمے کیلئے کوشش کرنی چاہیے ۔

انہوں نے کہا کہ ہراسانی پاکستان کے آئین میں موجود بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے، آرٹیکل 25 جنس کی بنیاد پر کسی قسم کے امتیاز سے منع کرتا ہے ، آئین تمام معاملات میں قانون کے یکساں تحفظ اور مساوات کی ضمانت دیتا ہے، آرٹیکل 34 ریاست کو قومی زندگی کے تمام امور میں خواتین کی مکمل شرکت کو یقینی بنانے کا پابند کرتا ہے ، آرٹیکل 37 (c) میں خواتین کو ملازمت اور کام کی شرائط کے معاملات میں خصوصی حیثیت دی گئی ہے، ہراسانی سے پاک ماحول اعلی پیداواری صلاحیت ، بہتر کارکردگی کا باعث بنتا ہے، ہراسانی کام کرنے والی خواتین کو درپیش سب سے بڑی رکاوٹوں میں سے ایک ہے ۔

صدر مملکت نے پی ٹی وی، عبدالرشید، ضیا الرحمان، مقبول شاہ، محمد منور، اور کنول مسعود کی جانب سے دائر اپیل مسترد کردی ، وفاقی محتسب برائے انسدادِ ہراسیت نے خاتون کو چارج شیٹ کرنے، معطلی کے احکامات، تبادلے کرنے پر ترقی روکنے اور 1 لاکھ جرمانے کی سزا عائد کی تھی ،ضیا الرحمان، عبدالرشید، مقبول شاہ، کنول مسعود، سعید اطہر اور محمد منور پر سزا عائد کی گئی تھی ،صدر مملکت نے ملوث ملازمین پر محتسب کی جانب سے عائد کردہ جرمانے کی سزا مسترد کر دی، شکایت کنندہ نے شکایت کی کہ پی ٹی وی میں ملازمین نے اس پر حملہ کیا ، کیس میں ملزمان پر جنسی ہراسانی کے الزامات ثابت نہیں ہوئے تھے البتہ ، محتسب نے کام کی جگہ پر ہراساں کرنے کے مترادف کارروائیاں کرنے پر سزا عائد کرنے کا فیصلہ دیا، جنسی ہرسانی ثابت نہ ہونے پر صدر ِ پاکستان نے 05.01.2018 کو محتسب کے فیصلے کو مسترد کیا تھا، بعد ازاں، سپریم کورٹ آف پاکستان نے خاتون کیمرہ مین اور اٹارنی جنرل کی جانب سے دائر کردہ سول ریویو پٹیشنز کو منظور کر لیا، فیصلے میں سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابقہ فیصلوں کو مسترد کیا گیا تھا،سپریم کورٹ نے معاملہ صدر مملکت کو ازسرِ نو فیصلہ کرنے کیلئے واپس بھیجا تھا ،سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں لفظ ہراسانی کی تشریح کی تھی، ہراسانی کے دو اجزا ہوتے ہیں، جنسی ہراسانی اور کام کیلئے غیرمحفوظ ، مخالف یا جارحانہ ماحول پیدا کرنا ، فیصلہ کیس کے حقائق جنسی مطالبات کی نوعیت کے دائرے میں نہیں آتے بلکہ مخالفانہ یا جارحانہ کام کے ماحول کے دائرے میں آتے ہیں

بعد ازاں ، صدر مملکت نے جون اور جولائی 2023 میں کیس کی سماعتیں کی ،صدر مملکت نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں معاملے کا نئے سرے سے فیصلہ کیا،ہراسانی کی اصطلاح کو صرف جنسی نہیں بلکہ غیر محفوظ ، مخالف یا جارحانہ ماحول پیدا کرنے کے پہلوئوں کے ساتھ جانچنے کی ضرورت ہے۔ صدر مملکت نے کہا کہ اگر کوئی آجر خواتین کیلئے غیر محفوظ ماحول پیدا کرتا ہے تو یہ ہراسانی کی تعریف میں آتا ہے ، ہراسانی کی اصطلاح کو کام کیلئے غیر محفوظ ، مخالفانہ یا جارحانہ ماحول کے تناظر میں الگ سے پڑھنا چاہیے نہ کہ صرف جنسی مطالبات کے تناظر میں ، صدر مملکت نے محتسب کے فیصلے کو برقرار رکھا اور فیصلے کے خلاف اپیلیں مسترد کر دیںاور کہا کہ پی ٹی وی ہراسانی کے متعلق پروٹوکول بہتر بنائے ، پی ٹی وی اس بات کو یقینی بنائے کہ مستقبل میں ایسے حالات پیدا نہ ہوں، انسدادِ ہرسیت پروٹوکول پر نظرثانی اور ان پر عمل درآمد کی رپورٹ پیش کی جائے ، پی ٹی وی حکم کو تیس دنوں کے اندر لاگو کرے ، پروٹوکول پر رپورٹ محتسب کو جمع کرائے ۔