اسلام آباد(ٹی این ایس) قاہد اعظم محمد علی جناح کا وژن

 
0
121

ہر قوم اپنے مخصوص تاریخی ارتقائی سفر کے بعد اپنا وجود ظاہر کرتی ہے ، جو صدیوں کی ثقافت اور روایات کا امین ہوتا ہے – پاکستان تو نہ جانے کب سے برِ صغیر پاک و ہند میں موجود تھا مگر اِسے کوئی ایسا سنگ تراش نہ مِلا تھا جو برِصغیر کے پتھر کو تراش کر اِس سے پاکستان نکال لیتا – یہ علامہ اقبال ہی تھے جنہوں نے اپریل میں خطبہ الہ باد میں بالآخر یہ اعلان کردیا کہ میں نے اِس پتھر میں ایک صورت چھپی دیکھی ہے جو کہ مسلمانانِ ہند کا آزاد ، الگ اور جدا گانہ ملک ہوگا-
بعد ازاں جب کاریگر کی تلاش شروع ہوئی کہ کون سا ایسا ماہر سنگ تراش ہو جو اس کا چہرہ نکھارے اور تراش کر وہ صورت سامنے لائے تو اِس ضرورت کے تحت حضرت علامہ اقبال نے دوسرا اقدام یہ کیا کہ مسلمانانِ ہند کی عملی زندگی سے مایوس ہو کر لندن لوٹ جانے والے اس وکیل جس نے کبھی مقدمہ نہیں ہارا یعنی محمد علی جناح کو بصد اصرار و تکرار واپس بلایا کہ آئو! اللہ تعالی نے یہ سعادت تمہارے مقدر میں لکھ دی ہے تمہارا فن اور تمہاری مہارت اس قابل ہے کہ برِصغیر کا دس ہزار سالہ تہذیبی پتھر تراش کر اس سے پاکستان کا وجود ظاہر کر سکو –
تاریخ گواہ ہے کہ جب مسلمانوں کے اس وکیلِ اعظم نے مسلمانانِ ہند کا مقدمہ لڑا تو دشمن انگشت بدندان رِہ گئے کہ کیسے وہ مردِ مجاہد کم ترین وسائل ، اپنوں کی مخالفت اور نامساعد حالات کے باوجود اپنی مہم میں کامیاب رہا اور اللہ تعالی اور اس کے حبیبِ پاک ۖ کی بارگاہ میں سرخرو ہوا –
علامہ محمد اِقبال کا ابتدئی زمانہ ہندوستان ہی میں گزرا لیکن انہوں نے زندگی کا سب سے بڑا جہاد مغربیت کے خِلاف کیا اور تہذیبِ اِسلامی اور تہذیبِ مغربی کا فرق اپنی قوم کے سامنے واضح کیا – اِس کے بر عکس قائدِ اعظم کا ابتدائی زمانہ مغرب میں گزرا مگر انہوں نے اپنی زندگی کا سب سے بڑا جہاد گاندھیت اور اکھنڈ بھارت کے خِلاف کیا –
قائدِ اعظم محمد علی جناح ہندو مسلم اتحاد کے سفیر ہونے کے زمانے میں ہندوئوں سے قربت و دوستی کی وجہ سے ہندو ذہنیت کو جس قدر جان گئے تھے ان کا یہی تجربہ پاکستان کے وجود کا موجب بنا -قائد اعظم محمد علی جناح اس بات کا ادراک کرچکے تھے کہ اگر ہندو اقتدار میں آگئے تو مسلمانوں کو کہیں کا نہیں چھوڑیں گے- کیونکہ گاندھی اور ان کے حامیوں کی مثال مچھلی اور بگلے والی تھی ان کی فلاسفی سننے میں بڑی سریلی رسیلی اور نشیلی معلوم ہوتی تھی مگر تھی وہ اجلا بگلا جس کا ہنر ہے مکر کرکے مچھلی ہڑپ کرنا – اِس لئے قائدِ اعظم نے کبھی ان کا اعتبار نہیں کیا اور ہمیشہ مسلمانوں کو ان کی کالی ذہنیت سے آگاہ کرتے رہے –
ہمیں اس حقیقت کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے اگر تحریکِ پاکستان نہ چلتی اور مشاہیرِ تحریک قوم کو بیدار نہ کرتے تو آج پاکستان میں موجود افسران متحدہ ہندوستان کے چپڑاسی ہوتے ، پروفیسر حضرات پرائمری سکولوں کے مالی ہوتے ، جرنیل صوبیدار اور صنعت کار مزدور ہوتے اور آج کے پاکستان کے سیاسی لیڈر متحدہ ہندوستان کے بس اڈوں کے ہاکر ہوتے – آج بھی ہندوستان میں خالص مذہبی مسلمانوں کیلئے ترقی کی کوئی جگہ نہیں ہے صرف انہی مسلمانوں کو ترقی کا حق حاصل ہے جن کی ماں ہندو ہو یا بیوی ہندو ہو یا بہو ہندو ہو یا داماد ہندو ہو – یہ بھی یاد رہے کہ وہاں کی بالادست ہندو ذِہنیت کے تعصب کا یہ معاملہ صرف مسلمانوں کے ساتھ خاص نہیں بلکہ ہندوستان کے پارسی ، عیسائی ، بدھسٹ سکھ اور دیگر سبھی مذاہب کے لوگ اس مشکل سے دوچار ہیں –
یہ اِحسان ہے ہمارے اوپر اللہ جل شانہ کا کہ اس نے ہمیں محمد علی جناح جیسا عظیم قائد عطا کیا اور ہم بد ترین غلامی سے بچ گئے – اِس میں شک نہیں آج بھی پاکستان میں غلامی کی کئی اقسام موجود ہیں مگر یہ ایسی زنجیریں ہیں جنہیں اگر قوم متحد ہو جائے تو نہایت پر امن طریقے سے توڑا جا سکتا ہے – لیکن وہ زنجیریں جو قائد کے ہاتھوں اللہ نے کٹوائیں تھیں ان کی نوعیت مختلف ہوتی – مثلا ناگالینڈ ، نکسل باڑی اور سکھ جو کہ گاندھی جی کی بظاہر سریلی رسیلی اور نشیلی فلاسفی کے نشے میں دھت ہوئے لیکن آج تک تحریکیں چلا رہے ہیں قربانیاں دے رہے ہیں لیکن آزادی کی روشنی انہیں دیکھنا نصیب نہیں ہوئی –
اگر ہم بھی14اگست1947 کو متحدہ ہندوستان سے الگ نہ ہوتے تو آج خالصتان کے سکھوں کی طرح ذلیل و رسوا ہوگئے ہوتے اور ہمارا پرسانِ حال بھی کوئی نہ ہوتا – قائدِ اعظم کے خیالات کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ مسلم انڈیا کو ہندو انڈیا سے بالکل الگ اور ترقی کرتا ہوا دیکھتے تھے اور پر امید تھے کہ (انشا اللہ)دولتِ آزادی ملنے کے بعد ہمارے سامنے بہت سے در وا ہو جائیں گے ، بہت راستے کھلیں گے اور مسلمانانِ ہند کو ترقی و استحکام حاصل کرنے کے پورے مواقع ہاتھ آئیں گے –
ہم جب مسلم انڈیا اور ہندو انڈیا کی بات کرتے ہیں تو ہمارے سامنے اس کے صرف سیاسی اور معاشی مسائل آتے ہیں لیکن حضرت قائدِ اعظم محمد علی جناح کی نظر میں سیاست بھی تھی ، معیشت بھی اور اِس کے ساتھ ساتھ وہ اِسے مذہبی اور سماجی نقطہ نظر سے بھی دیکھتے تھے – بطورِ مثال صرف تین اقتباسات ملاحظہ ہوں :
٭ ہندو مذہب کی شناخت ذات پات ہے جو اس کے مذہبی اور سماجی نظاموں کی اساس ہے — اس کے برعکس دینِ اسلام انسانی مساوات کے تصور پر مبنی ہے – (19جنوری 1940)
٭ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان اختلاف بہت گہرا اور نہ مٹنے والا ہے – ہم اپنے مخصوص کلچر، تہذیب، زبان وادب،آرٹ اور فنِ تعمیر کی بنا پر جداگانہ قوم ہیں – (جولائی1942)
٭ ہمارے ہندو دوست اسلام اور ہندو دھرم کی اصلیت کو سمجھنے سے قاصر ہیں – یہ دونوں صرف و صرف مذہب ہی نہیں بلکہ حقیقت میں وہ دو مختلف اور ممیز یعنی ایک دوسرے سے جدا سماجی نظام ہیں – یہ خیال خواب سے کم نہیں کہ مسلمان کبھی ہندوئوں کے ساتھ مشترک قومیت کے حامل ہوں گے – (مارچ 1940)
قائدِ اعظم انگریزوں اور پنڈتوں کے اندرونی اتحاد ، گٹھ جوڑ اور سازشوں کو سمجھ گئے تھے اور جانتے تھے کہ یہ ہماری ثقافت کو زندہ نہیں چھوڑیں گے اِس لئے قائدِ اعظم کی سٹیٹ منٹس میں بہت مقامات پہ اسلامی ثقافت اور اِسلامی نظریہ کو متحدہ ہندوستان میں درپیش خطرات پہ بات پائی جاتی ہے جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوتا کہ قائدِ اعظم اور ان کو عطا تائیدِ غیبی ہندوستان کی اِسلامی ثقافت کے دفاع کو وجودِ پاکستان کی صورت میں یقینی بنانا چاہتے تھے:
قائد اعظم محمد علی جناح کا کہنا تھا کہ پاکستان نہ صرف ایک قابلِ عمل نصب العین ہے بلکہ اگر تم ہندوستان میں اسلامی نظریہ کو مکمل طور پر نیست ونابود ہونے سے بچانے کے خواہش مند ہو تو یہی نصب العین (یعنی پاکستان)کام آئے گا –
قائدِ اعظم محمد علی جناح کو اللہ تعالی نے انہیں زندگی میں جو کچھ بھی سیکھنے کو دیا اور انہوں نے زندگی میں جو بھی پایا اس کی بارگاہِ خداوندی و بارگاہِ نبوی ۖ میں قبولیت کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ قائد نے اپنی ساری زندگی کی جمع پونجی اور تجربہ اِسلامیانِ ہند کی فلاح و بقا اور ان کے مستقبل پہ صرف کردیا اور اپنی ذات یا اپنے خاندان کیلئے کچھ بھی بچا کر نہ رکھا – اگر وہ خود غرض ہوتے اور دینِ اِسلام اور اس کے ماننے والوں کی حفاظت و محافظت ان کا مطمعِ نظر نہ ہوتی تو آج کیا کچھ ان کے خاندان کو حاصل نہ ہوتا ؟
یہی فرق ہے پنڈت جواہر لال نہرو اور قائدِ اعظم کے اپنی قوم سے خلوص میں ! نہرو صاحب ہزار قابلِ احترام سہی مگر اپنے ملک میں اِس قدر اپنا پرچار کیا اور اپنی اولاد کو دنیا کی نام نہاد بڑی جمہوریت کا سربراہ بنایا کہ کانگریس ان کے خاندان کے بغیر چلنابھی نہیں جانتی ، بھلے اس کی سربراہی ایک غیر ہندوستانی اطالوی خاتون کے پاس ہی کیوں نہ ہو مگر وہ نہرو فیملی کا حصہ ضرور ہونی چاہئے…