اسلام آباد(ٹی این ایس) پاکستان میں نیا ہائبرڈ سسٹم لانے کی تیاریاں؟

 
0
57

تجزیہ کاروں کے بقول اسٹیبلشمنٹ عمران خان کی بدستور مقبولیت سے خائف ہے اوراس کا توڑ تلاش کرنے میں مصروف ہے۔ اس کی کوشش ہے کہ وہ اپنی مرضی کا ایسا سسٹم لائے، جو سب حکومتی لوازمات تو پورے کرے لیکن سیاسی طور پر کمزور ہو۔

پاکستان میں عام انتخابات کے انعقاد کی اصل تاریخ تو فی الحال کسی کو معلوم نہیں تاہم سیاسی پنڈت ملکی اسٹیبلشمنٹ کے داؤ پیچ دیکھ کر یہ اندازے لگانے کی کوششوں میں ہیں کہ آخر وہ کسے اور کب تک برسر اقتدار لانا چاہتی ہے؟

الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے مبہم صورتحال کا سیدھا سا یہی مطلب لیا جا رہا ہے کہ یہ تاخیرعمران خان کی مقبولیت کم کرنے کے لیے مزید وقت حاصل کرنے کا ایک حربہ ہے۔ نادرا میں چئیرمین کی عہدے پر حاضر سروس فوجی افسر کی تعیناتی کی گنجائش نکالنے کے عمل کو بھی شک کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین اور ان کے ساتھیوں کے خلاف پے در پے ہونے والی کارروائیاں بھی انہیں انتخابی عمل سے آؤٹ کروانے کے ایجنڈے کا حصہ قرار دی جا رہی ہیں۔

اسٹیبلشمنٹ کی ترجیح ہائبرڈ سسٹم؟
اس سوال کے جواب میں سیاسی تجزیہ کار حبیب اکرم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ بات درست ہے کہ پاکستان میں کچھ ایسی کوششیں ہو رہی ہیں جن کا نتیجہ ہائبرڈ حکومت کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے۔ ان کے بقول، ”ملکی سیاسی منظرنامے پر ایسے مظاہر دیکھنے میں آ رہے ہیں، جس سے اس تاثر کو تقویت مل رہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی حامی، ایک نیم سیاسی اور نیم جمہوری حکومت کو برسر اقتدار لانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔‘‘

تاہم تجزیہ کار نوید چوہدری اس رائے سے اتفاق نہیں رکھتے۔ ان کا ماننا ہے کہ اس مرتبہ جو بھی حکومت بر سر اقتدار آئے گی، اس پر اسٹیبلشمنٹ کے اثرات اس طرح کے نہیں ہوں گے جیسے دو ہزار اٹھارہ میں بر سر اقتدار لائی جانے والی عمران خان کی حکومت پر تھے۔

نوید چوہدری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”اس دور میں عمران خان محض ایک فرنٹ مین تھے اور معیشت، خارجہ پالیسی اور میڈیا مینجمنٹ سمیت بہت سےکام ان کو لانے والے خود کر رہے تھے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا، ”ان دنوں وزیراعظم عمران خان خود بتایا کرتے تھے کہ انہیں ڈالر کے اوپر جانے کا علم ٹی وی سے ہوا اور یہ کہ انہیں صحافی مطیع اللہ جان کے اغوا کے بارے میں اطلاع بھی میڈیا کے ذریعے ہی ملی تھی۔‘‘

نوید چوہدری کے بقول ابھینندن کی گرفتاری کے بعد ہونے والی قومی مشاورت میں بھی عمران خان کو نہیں بلوایا گیا اور صنعت کاروں سے اہم ملاقاتیں بھی جنرل باجوہ ہی کیا کرتے تھے۔ ”میرا خیال ہے کہ آ ئندہ برسر اقتدار آنے والی حکومت کافی حد تک اونرشپ لے گی اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر چلنے کی کوشش کرے گی۔‘‘

صحافی اور کالم نگار عامر خاکوانی کو بھی یقین ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کی حکومت لانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ اور ملک میں یہ تاثر عام ہے کہ مسلم لیگ نون کو لایا جا رہا ہے۔” شریف فیملی نواز شریف کو وزیر اعظم بنوانے کی خواہش مند ہے جبکہ اسٹیبلشمنٹ کی پسند شہباز شریف ہیں۔ ‘‘

کیا پاکستان میں الیکشن ہونے جا رہے ہیں؟
عامر خاکوانی کہتے ہیں کہ پاکستان پرامریکہ، یورپی یونین اور آئی ایم ایف سمیت بہت سے بین الاقوامی اداروں کی طرف سے انتخابات کرانے کے لیے دباؤ ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بار کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ”فی الحال عدالتوں کا موڈ بھی کچھ ایسا ہی لگ رہا ہے۔ اس کے علاوہ نگرانوں سے حالات سنبھالے نہیں جا رہے۔ اس لئے قوی امکان تو یہی ہے کہ پاکستان میں الیکشن ضرور ہوں گے اور الیکشن کو غیر معینہ یا طویل مدت کے لئے ملتوی نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

تجزیہ کار حبیب اکرم کے مطابق اگر ہم سیاسی جماعتوں کے موقف اور اسٹیبلشمنٹ کی سوچ کو دیکھیں تو اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ الیکشن اگلے سال جنوری کے آس پاس ہوں گے۔

کیا آئندہ انتخابات شفاف اور منصفانہ ہوں گے؟
تجزیہ کار نوید چوہدری انتخابات میں دھاندلی عموماﹰ تین طرح کی ہوتی ہے جس میں پری پول یعنی الیکشن سے پہلے دھاندلی، الیکشن والے دن ہونے والی دھاندلی اور پوسٹ پول یعنی انتخابی عمل مکمل ہونے کے بعد دھاندلی شامل ہے۔

آخری قسم کی دھاندلی میں انتخابی نتائج تبدیل کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ”دو ہزار اٹھارہ میں عمران خان کو لانے کے لیے یہ تینوں طریقے استعمال کیے گئے، وفاداریاں بدلوائی گئیں، پولنگ ایجنٹ باہر نکال کر ٹھپے لگائے گئے۔‘‘

حبیب اکرم کے مطابق پاکستان کا ماضی گواہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اپنی مرضی کی حکومت بنواتی رہی ہے لیکن اس مرتبہ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کام کے لئے دستیاب عناصر اکٹھے نہیں ہو پا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا، ”ماضی میں جب حکومت ختم کی جاتی تھی تو عوام تو وہ اپنے اعمال کی وجہ سے اپنی مقبولیت کھو چکی ہوتی تھی۔ عوامی امنگیں اور اسٹیبلشمنٹ کی سوچ ہم آہنگ ہوتی تھیں۔ عدلیہ بھی ان حالات میں مدد گار ہوتی تھی اب ایسا کچھ بالکل بھی نہیں ہے۔ اب جھرلو پھیرنا آسان نہیں ہوگا۔‘‘

عامر خاکوانی کا خیال ہے کہ آئندہ انتخابات کے دس فی صد بھی منصفانہ ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ”جب آپ ملک کے مقبول ترین لیڈر کو جیل میں ڈال دیں۔ عدالتوں کی ضمانتوں کو بھی نہ مانیں، الیکشن امیدوار توڑ لیں اور اپنے مخصوص انتخابی نشان کو بھی نہ لینے دیں تو کہاں کی شفافیت اور کون کرے گا ایسے انتخابنات کی ساکھ پر اعتبار۔‘‘

کیا پاکستان میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ حکومت آ سکتی ہے؟
اس سوال کے جواب میں زیادہ تر تجزیہ کاروں کا یہی خیال ہے کہ پاکستان میں کوئی اینٹی اسٹیبلشمنٹ حکومت آنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ان کے خیال میں کامیاب سیاسی جماعت خواہ کتنی ہی مقبول کیوں نہ ہو اسے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر ہی چلنا پڑھتا ہے۔

حبیب اکرم کے مطابق پاکستان میں کوئی حکومت اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کی اور کوئی اسٹیبلشمنٹ اینٹی جمہوریت ہونے کی عیاشی کی متحمل نہیں ہوسکتی۔انہوں نے کہا، ’’بحرانوں میں گھرے ملک کی معاشی حالت کو سنوارنے کے لیے سب کو سب کی ضرورت رہے گی۔‘‘

عامر خاکوانی کا کہنا ہے کہ جو جماعتیں اینٹی اسٹیبلشمنٹ ایجنڈے کے ساتھ آگے بڑھتی ہیں انہیں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے لیکن ان کے خیال میں عمران خان اینٹی اسٹیبلشمنٹ تو نہیں مگر وہ آئینی بالا دستی پر اصرار کر رہے ہیں۔