اسلام آباد(ٹی این ایس) کیا سوشل میڈیا موجودہ صدی کا سب سے بڑا فتنہ ہے

 
0
93

کیا موجودہ صدی کا سب سے بڑا فتنہ سوشل میڈیا ہے۔ ’’سوشل میڈیا‘‘ انسانی ایجاد ہے جس کا استعمال روز بروز بڑھتا جارہاہے۔ سوشل میڈیا انسانوں کے لیے مفید ہے یا نقصان دہ۔ اس بارے میں ہمارے معاشرے میں دونوں ذہن رکھنے والے موجود ہیں۔ سوشل میڈیا آج کے انسان کو وہ کچھ دکھا رہا ہے جس کا تصور بھی کچھ سالوں پہلے تک محال تھا۔ شعور کی آنکھ سے دیکھا جائے تو میڈیا اپنی ذات میں اچھا برا نہیں بلکہ اس کا استعمال ہم جیسے کمزور انسانوں کے ہاتھ میں ہے۔ سوشل میڈیا آج کے تیزترین ترقی یافتہ دور کی ضرورت ہے اور اس کے فوائد سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔
جدید دور کی جدت دیکھیے، دور دراز رہنے والوں سے آج واٹس ایپ، اسکائپ، فیس بک کے ذریعے سارے فاصلے بالکل ختم ہو چکے ہیں۔ حج کے دنوں میں سعودی عرب کی براہ راست کوریج دیکھنا، اب کچھ مشکل نہیں رہا۔ میلوں دور مقیم رشتے داروں سے بات چیت ٹیلی فونک ملاقات آج سوشل میڈیا کی بدولت سیکنڈوں کا کام ہے۔ گوگل جیسی سائٹس نے دنیا بھر کی انفارمیشن لا کر ہمارے قدموں میں رکھ دی ہے۔ پہلے کبھی کسی معلومات کے حصول کے لیے دوردراز سفر کرنا پڑتے تھے یا پھر بے شمار کتابیں چھاننی پڑتی تھیں۔ مگر اب ایک لفظ گوگل پر لکھ کر سرچ کرنے سے کیا کچھ کھل کر سامنے آجاتا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ آج کل لوگ بلاگز، ای میگزین وغیرہ پڑھنے کو اخبار و جرائد کی نسبت زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔آج کی جدید ایپلیکشنز کے ذریعے مثلا اقبال کے اشعار پر مبنی ایپ سے آپ کوئی بھی شعر بآسانی تلاش کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر ایپلیکشنز کے ذریعے آپ دنیا بھر کی معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔ٹوئتر اور فیس بک پر موصول ہونے والی خبروں کے ذریعے دنیا بھر میں جو کچھ ہو رہا ہے آپ سب کچھ گھر بیٹھے جان سکتے ہیں۔ ملکی حالات اور سیاست سے بخوبی باخبر رہ سکتے ہیں۔اسی طرح میڈیا میں شامل زوم، واٹس ایپ پر ہونے والی آن لائن کلاسسز ہیں۔ جن کا آج سب سے بڑا فائدہ گھریلو خواتین کو ہے۔ چاہے وہ انگلش کی ہوں یا قران کی کلاسز ہوں۔ اس طرح معاشرے کا بڑا طبقہ آن لائن کاروبار اور مارکیٹنگ کے ذریعے گھر بیٹھے آمدن کما رہا ہے۔ فیس بک وغیرہ پر بننے والے ایسے گروپ جو صحافت کو فروغ دیتے ہیں۔ نئے لکھنے والوں کے لیے سونے کی چڑیا کے مترادف ہیں۔ اس طرح ان کی لکھی ہوئی تحریریں بھی اخبار میں شائع ہو جاتی ہیں۔ فیس بک دوکاروبار کرنے والے مرد و خواتین کے لیے سب سے بہترین جگہ ہے جہاں وہ اپنے کھانوں، کپڑوں، برتنوں کی کھل کر مارکیٹنگ کر سکتے ہیں۔ یہ تھے سوشل میڈیا کے وہ فوائد جن سے کثیر تعداد میں عوام الناس مستفید ہورہے ہیں اب اگر بات کریں سوشل میڈیا کے نقصانات کی تو وہ ہماری ذرا سی لاپرواہی اور بے توجہی کے سبب بے حد خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔
.سب سے پہلے تو ہماری نوجوان نسل بے راہ روی اور بے حیائی کا شکار ہو رہی ہے۔ گوگل پر غلطی سے بھی اگر کچھ غلط سرچ کر دیا جائے تو فحاشی کے وہ اڈے کھل کر سامنے آئیں گے کہ انسان خود اپنے آپ سے شرما جائے۔
اسی طرح ٹک ٹاک جیسی ایپ انسان کو اور بے شرم بناتی ہیں۔ بلیو وہیل جیسی ایپ انسانوں کو اپنی زندگیاں ختم کرنے پر اکساتی ہے۔
فیس بک دنیا کی سب سے زیادہ استعمال ہونے والی ایپ ہے۔ شتر بے مہار معلومات مہیا ہے۔ جس کی کوئی حد یا آخر نہیں۔ ایسی معلومات میں سے صحیح اور سچی بات چننا جان جوکھوں کا کام ہے۔
نائٹ پیکجز دے کر ہماری نوجوان نسل کو جس بے حیائی کی دلدل میں دھنسیا جا رہا ہے اس کے خوفناک نتائج کی ذمہ داری ایک دن خود ہمیں ہی اٹھانی پڑے گی۔ اسی طرح اس کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ نیٹ پر بیٹھ کر آپ کس عمر کے بندے سے بات کر رہے ہیں آپ کو علم نہیں، کہیں ایسا تو نہیں جس بات کی جا رہی ہے وہ بزرگ یا چھوٹا بچہ ہو مرد ہو یا عورت ہو۔ اس طرح کی چیٹنگ کے شدید نقصانات وقتا فوقتا سامنے آتے رہتے ہیں۔ اس ان دیکھی بات چیت نے آج ادب و لحاظ کے سارے بندھن توڑ ڈالے ہیں۔
سوشل میڈیا برائی اور اچھائی کا مشترکہ مجموعہ ہے۔ لہذٰا اس کا استعمال احتیاط سے کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ یہ فیصلہ اب آپ پر منحصر ہے کہ آیا اس کے مثبت استعمال سے ہم دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت بھی سنوار لیں یا دونوں جہانوں کی ناکامی اپنے سر لے لیں۔اﷲ تعالیٰ نے انسان کو عقل و شعور جیسی عظیم نعمت سے نواز کر اشرف المخلوقات کا درجہ دیا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے انسان کو دل و دماغ جیسی بہترین صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ ان صلاحیتوں کے بروئے کار لاتے ہوئے انسان مسلسل ارتقا کی منازل طے کرتا رہا ہے۔

سوشل میڈیا کی وجہ سے فاصلے سمٹ کر رہ گئے ہیں۔ ہزاروں میل دور سے انسان اپنے سارے مسائل گھر بیٹھے حل کرسکتا ہے۔ سوشل میڈیا ہی کی بدولت آج دنیا ایک گلوبل ویلیج بن گئی ہے۔ ریڈیو، ٹیلی ویژن، اخبارات، موبائل فون، انٹرنیٹ ایسی ایجادات ہیں جن کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ انٹرنیٹ دنیا کا سب سے بڑا نیٹ ہے۔ موبائل فون اور انٹرنیٹ کے ذریعے جہاں ہم بہت اہم کام نمٹاسکتے ہیں وہیں ان کے بہت سے نقصانات بھی ہیں۔ ہماری نوجوان نسل کا ایک بڑا حصہ موبائل فون اور انٹرنیٹ غلط مقاصد کے لیے استعمال کررہا ہے۔
موبائل اور انٹرنیٹ کے زیادہ استعمال اور پڑھائی پر کم توجہ کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں بہت سی برائیاں جنم لے رہی ہیں۔ موبائل فون اور انٹرنیٹ کے ذریعے ہماری نسل اپنے ماں باپ کی آنکھوں میں دھول جھونک رہی ہے۔ انٹرنیٹ کے ذریعے بچے اپنے گھر میں ہی ایک کونے میں بیٹھے نازیبا فلمیں اور گانے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ بظاہر وہ اپنے ماں باپ کی آنکھوں کے سامنے کررہے ہوتے ہیں۔ جس سے عموماً لڑکیوں میں بے باکی، بے پردگی عام ہوتی جارہی ہے۔ ہر ٹی وی چینل پر بے ہودگی اور فحاشی عام ہوچکی ہے۔ اگر ٹی وی چینل اسلامی ہے تو اس کے آگے ایک لمبی فہرست بے ہودہ چینلز کی ہوتی ہے۔ آج کل تو ماں باپ بھی بچوں کے ساتھ بیٹھ کر فلمیں اور گانے سن رہے ہوتے ہیں۔ نہ باپ کو بیٹی کی عزت کا احساس ہوتا ہے اور نہ ہی بیٹی کی نظر میں کوئی شرم و حیا ہے۔ ہماری نئی نسل غیر ملکی فلمیں دیکھ کر ان کی طرز زندگی کو اپنا آئیڈیل تصور کرتی ہیں اور خود کو فیشن ایبل بنانے کے لیے نازیبا لباس کا انتخاب کرتی ہیں۔ جہاں سوشل میڈیا نے انسان کو ترقی کی منازل آسان بنادی ہیں وہیں انسان کی منفی سوچ انداز فکر اور سوشل میڈیا کے غلط استعمال کی وجہ سے معاشرہ تباہی کی طرف جارہاہے اور اس کا سبب خود انسان ہے جنسی جرائم میں اضافے کا سبب سوشل میڈیا پہ ڈالا جانے والا فحش مواد فلمیں اور فحش لٹریچر اور موبائل فون نے سونے پہ سہاگہ کا کام کیا اور لوگوں کو اور آسانی ہوگئی ہے دس روپے میں بھردی جاتی ہیں، بچے بچے کے ہاتھ میں موبائل فون ہوتے ہیں کونے کھدروں میں بیٹھ کر یہ فلمیں دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جنسی جرائم بڑھ رہے ہیں۔ بیرونی ممالک میں کال جانے پر بھی پیسے خرچ ہوتے ہیں اور کال آنے پر بھی۔ کیسی عجیب سی بات ہے جن لوگوں نے موبائل فون ایجاد کیا ان پر اتنی سختیاں اور ہمارے ملک میں ٹکے ٹکے پر فحش فلمیں دستیاب ہیں، فری کال۔ ہم تباہی کی طرف جارہے ہیں اور دن بہ دن معاشرہ بگڑتا جارہاہے۔ ذمے داری لینے کو کوئی تیار نہیں ہے۔ سوشل میڈیا کا استعمال برا نہیں ہے اور نہ ہی اس سے کوئی نقصان ہو، اگر ہم خود سے برا نہ بنائیں۔ اس کے لیے ضروری امر یہ ہے کہ والدین اور سرپرست اعلیٰ کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی صلاحیتوں اور ان کے انداز تفکر کو دیکھتے ہوئے ان تک سوشل میڈیا کی رسائی کو آسان یا مشکل بنائے۔ ہمیں اس پھیلتی برائی اور سوشل میڈیا کے غلط استعمال کا سدباب کرنا ہوگا تاکہ آئندہ کی نسلوں کو برائیوں سے پاک ایک خالص اور ستھرا معاشرہ مہیا کیا جاسکے۔ اب تو انسان کے دل میں خوف کم ہوتا جارہاہے وہ یہ بھول گئے ہیں کہ ایک دن انھوں نے اﷲ تعالیٰ کے حضور پیش ہونا ہے اور ہر عمل کا جواب دینا ہے۔سوشل میڈیا نے جہاں ہماری زندگی کو آسان بنا دیا ہے اور معاشرے اور لوگوں پر مثبت اثرات مرتب کیے ہیں وہاں اس کے منفی اثرات بھی دیکھنے میں آئے ہیں۔ جدید سائنس نے ہمارے لئے جہاں بے شمار آسانیاں پیدا کی ہیں وہاں بہت سی مشکلات کو بھی جنم دیا ہے۔سوشل میڈیا ایک ایسا آلہ ہے جو لوگوں کو اظہارِ رائے، تبادلہ خیال، تصویر اور وڈیوز شیئر کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ جس کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا کی بدولت پوری دنیا ایک گاؤں میں تبدیل ہو گئی ہے۔ سوشل ویب سائٹس میں سے زیادہ تر لوگ فیس بک، ٹوئیٹر، یوٹیوب، گوگل پلس اور انسٹاگرام وغیرہ استعمال کرتے ہیں لیکن ہمیں یہ بات ہرگز نہیں بھولنی چاہیے کہ اگر ایک چیز کے فوائد ہیں تو اس کے نقصانات بھی موجود ہیں۔
ہم سوشل میڈیا سے اس بری طرح جڑ گئے ہیں کہ اب دن کا فارغ حصہ اسی سے وابستہ سر گرمیوں میں گزارتے ہیں۔ دور رہنے والے رشتے داروں سے قریب اور قریب رہنے والے رشتے داروں سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا سے جہاں ہم اچھے مقاصد سر انجام دے سکتے ہیں وہاں اس کے نقصانات بھی موجود ہیں۔ جہاں سوشل میڈیا ہمیں وہ معلومات فراہم کرتا ہے جو نیوز چینلز عموماً اپنے ناظرین کو نہیں دکھاتے مثلاً برما اور کشمیر وغیرہ کے حالات و واقعات لیکن اسی کے ساتھ اس کا نقصان یہ ہے کہ تحقیق سے پہلے ہی خبر پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے۔
سوشل میڈیا کے بلاوجہ استعمال کی وجہ سے طالب علم کا بہت سا وقت ضائع ہوتا ہے جس کے باعث عام طور پر تعلیم کا حرج ہوتا ہے، جعلی اکاؤنٹ یعنی فیک اکاؤنٹ کے ذریعے لوگوں کو گمراہ کیا جاتا ہے۔ بے حیائی کا کھلے عام اظہار، بے معنی، بے شائستہ اور بے ہودہ زبان کا ستعمال کیا جاتا ہے۔
سوشل میڈیا کے زیادہ استعمال کی وجہ سے لوگ اپنے والدین، بہن بھائیوں اور رشتے داروں کو وقت نہیں دے پاتے۔ ایک طرف سوشل میڈیا کی وجہ سے مغربی مملک اس کو جاسوسی، پراپیگنڈا کے لئے استعمال کر رہے ہیں تو دوسری طرف اس سے نوجوان نسل متاثر ہو رہی ہے۔ سوشل میڈیا سے ذہنی، اخلاقی اور جسمانی صحت کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔ نوجوان کی بڑی تعداد اس کے ذریعے بہت سے غلط کام بھی کر رہی ہے۔ زمانہ جس رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے جذباتی طور پر ہم بہت پیچھے جا رہے ہیں۔ اپنائیت اور خلوص ختم ہوتا جا رہا ہے۔