اسلام آباد(ٹی این ایس) اسرائیلی جارحیت ;اسلامی ممالک کی خاموشی بڑا سوالیہ نشان

 
0
116

…….بیت المقدس پر تقربیاً 761 سال مسلسل مسلمانوں کا قبضہ رہا۔ تاآنکہ 1948ء میں امریکا، برطانیہ، فرانس کی سازش سے فلسطین کے علاقہ میں یہودی سلطنت قائم کی گئی اور بیت المقدس کا نصف حصہ یہودیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں بیت المقدس پر اسرائیلیوں نے قبضہ کر لیا۔
قبلہ اول یہودیوں کے قبضے سے آزاد کروانے کے لئے دنیا بھر میں کے مسلمان اپنی نمازوں دعا کرتے ہیں ماہ رمضان المبارک کا آخری جمعہ یوم القدس کے نام سے منسوب ہے.بیت المقدس پر اسلام کا پرچم بلند کرتے ہوئے اسلام کے مجاہدین کی روح پرور ویڈیو کلپ دنیا بھر میں وائرل ہوچکی ہے جس میں اسرائیلی پرچم اتار پھینکا گیا جبکہ حماس کے مجاہدین نےبیت المقدس پر اسلام کا پرچم بلند کرتے ہوئے آذان بھی دی,مجاہدین کتنا عرصہ اب وہاں قبلہ اول یہودیوں کے قبضے سے بچانے میں کامیاب ہوتےہیں یہ تو آنے والا وقت بتائے گا مگر اسلامی ممالک بالخصوص عرب ممالک کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا کیونکہ بیت المقدس پر صیہونیوں کا غاصبانہ قبضہ سے اگر واگزار کروالیا ھے تو اب عالمی برادری کو فلسطینی عوام کی امنگوں کے مطابق امن کے لئے پیش رفت کرنا ہوگی اسرائیلی جارحیت پر بین الاقوامی برادری کی خاموشی اسلامی اور خاص عرب ممالک پر بڑا سوالیہ نشان ہے، ایران اور پاکستان صرف دو ممالک ہیں جنہوں نے واضح طور پراسرائیلی جارحیت کی شدید مذمت کی ہےیاد رہےکہ یوم کپور جنگ کے50 سال بعد، جس کا آغاز بھی اسرائیل پر مصر اور شام کے اچانک حملے سے ہوا تھا، فلسطینی عسکریت پسندوں نے بھی یہودیوں کی مذہبی تعطیل کے دن ایک غیر متوقع اور بڑا حملہ کیا ۔ غزہ کی پٹی میں حالیہ دنوں میں تناؤ بڑھ رہا تھا لیکن روایتی فہم یہی تھی کہ حماس یا اسرائیل اس میں اضافہ نہیں چاہتے۔
لیکن حماس حقیقت میں ایک منظم قسم کے آپریشن کی منصوبہ بندی کر رہی تھی۔ راکٹوں سے بھرپور حملہ کیا گیا جن میں سے چند تل ابیب اور یروشلم تک پہنچے۔ اس کے ساتھ ہی فلسطینی جنگجو سمندر، زمین اور فضا سے جنوبی اسرائیل میں داخل ہونا شروع ہو گئے۔عسکریت پسندوں نے کئی گھنٹوں تک اسرائیلی قصبوں اور فوجی پوسٹوں کو گھیرے رکھا، متعدد افراد کو ہلاک کیا اور نامعلوم تعداد میں عام شہریوں اور فوجیوں کر یرغمال بنا کر غزہ کی پٹی میں لے جانے میں کامیاب ہوئے۔ یہ ڈرامائی کارروائی سوشل میڈیا اور مرکزی میڈیا پر براہ راست نشر ہوتی رہی۔اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کے حقوق اور عوام پر غاصبانہ قبضے اور ظلم و ستم کی مذمت کے بغیر امن کی طرف پیش رفت ممکن نہیں۔فلسطینیوں کی زمین کے مسلسل الحاق، غیر قانونی بستیوں، غیر متناسب ردعمل اور قتل عام کا نتیجہ امن کی جانب نااُمیدی اور عدم پیش رفت ہی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق آگے بڑھا جائے یاد رہےکہ بیت المقدس 583ھ بمطابق 1187ء میں ایوبی سلطان صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں صلیبیوں کی شکست کے ساتھ فتح ہوا۔ صلاح الدین ایوبی نے جنگ حطین میں کامیابی حاصل کرنے کے بیت المقدس کا محاصرہ کر لیا اور 20 ستمبر سے 2 اکتوبر تک جاری محاصرے کے بعد شہر فتح کر لیا۔ فتح بیت المقدس کے بعد سلطان نے کسی قسم کا خون خرابا نہیں کیا جس کا مظاہرہ پہلی صلیبی جنگ کے موقع پر صلیبیوں نے کیا تھا۔ 4 جولائی 1187ء کو جنگ حطین میں زبردست شکست کے بعد مسیحیوں کی مملکت یروشلم کمزور پڑ گئی اور کئی اہم شخصیات صلاح الدین کی قید میں چلی گئی۔ ستمبر کے وسط میں صلاح الدین نے عکہ، نابلوس، یافہ، سیدون، بیروت اور دیگر شہر فتح کرلئے۔ جنگ کے شکست خوردہ مسیحی صور پہنچ گئے۔ جہاں حطین کے معرکے کے شکست خوردہ کئی مسیحی جنگجو بھی تھے جن میں بیلین ابیلنی بھی شامل تھا اس نے اپنے اہل خانہ کو واپس لانے کے لیے صلاح الدین سے مطالبہ کیا کہ وہ اسے بیت المقدس جانے کی اجازت دے۔ صلاح الدین نے اس شرط پر اجازت دی کہ وہ ایک دن سے زیادہ قیام نہیں کرے گا لیکن جب وہ وہاں پہنچا تو ملکہ سبلیا نے اس سے شہر کا دفاع کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے فوج کی کمان سنبھالنے کی ہدایت کی۔ بیلین نے ان کا مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے جنگ کی تیاریاں شروع کر دیں اور شہر میں اشیائے خور و نوش اور اسلحے کا ذخیرہ جمع کرنا شروع کر دیا صلاح الدین کی زیر قیادت شام و مصر کی افواج صور کے ناکام محاصرے کے بعد 20 ستمبر 1187ء کو بیت المقدس پہنچ گئیں۔


صلاح الدین اور بیلین کے درمیان مذاکرات ہوئے۔ صلاح الدین بغیر خون خرابے کے شہر حاصل کرنا چاہتے تھے لیکن شہر کے مسیحیوں نے بغیر لڑے مقدس شہر چھوڑنے سے انکار کر دیا اور دھمکی دی کہ وہ پرامن طور پر شہر دشمن کے حوالے کرنے پر اسے تباہ کرنے اور خود مرجانے کو ترجیح دیں گے۔مذاکرات میں ناکامی پر صلاح الدین نے شہر کا محاصرہ کر لیا۔ صلاح الدین کی افواج برج داؤد اور باب دمشق کے سامنے کھڑی ہو گئی اور تیر اندازوں نے حملے کا آغاز کیا۔ اس کے علاوہ منجنیقوں کے ذریعے شہر پر سنگ باری کی گئی۔ صلاح الدین کی افواج نے کئی مرتبہ دیواریں توڑنے کی کوشش کی لیکن مسیحیوں نے اسے ناکام بنادیا۔ 6 روزہ محاصرے کے بعد صلاح الدین نے افواج کو شہر کے دوسرے حصے کی جانب منتقل کر دیا اور حملہ جبل زیتون کی جانب سے کیا جانے لگا۔ 29 ستمبر کو مسلم افواج شہر کی فصیل کا ایک حصہ گرانے میں کامیاب ہوگئیں تاہم وہ فوری طور پر شہر میں داخل نہ ہوئیں اور دشمن کی عسکری قوت کو ختم کرتی رہیں۔ستمبر کے اختتام پر بیلین نے صلاح الدین سے مذاکرات کے دوران میں ہتھیار ڈال دیے۔ صلاح الدین نے مردوں کے لیے 20، عورتوں کے لیے 10 اور بچوں کے لیے 5 اشرفیوں کا فدیہ طلب کیا اور جو لوگ فدیہ نہیں دے سکے ان کا فدیہ سلطان صلاح الدین نے خود ادا کیا یا انہیں غلام بنالیا گیا۔ بعد ازاں سلطان نے فدیہ کی رقم مزید کم کرکے مردوں کے لیے 10، عورتوں کے لیے 5 اور بچوں کے لیے صرف ایک اشرفی مقرر کردی۔ بیلین نے اس پر بھی اعتراض کیا کہ یہ بھی بہت زیادہ ہے جس پر سلطان نے صرف 30 ہزار اشرفیوں کے بدلے تمام مسیحیوں کو چھوڑنے کا اعلان کر دیا۔ دو اکتوبر کو بیلین نے برج داؤد کی چابیاں سلطان کے حوالے کر دیں۔ اس موقع پر اعلان کیا گیا کہ تمام مسیحیوں کو فدیہ کی ادائیگی کے لیے ایک ماہ کا وقت دیا جا رہا ہے جس میں 50 دن تک کی توسیع کی گئی۔ صلاح الدین ایک رعایا پرور اور رحم دل بادشاہ تھا اس نے غلام بنائے گئے مسیحیوں کا فدیہ خود ادا کرکے انہیں رہا کر دیا۔فتح بیت المقدس کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللّٰہ علیہ کا سب سے بڑا کارنامہ یہی تھا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے مسیحیوں سے مسلمانوں کے اس قتل عام کا بدلہ نہیں لیا جو انہوں نے 1099ء میں بیت المقدس کے فتح کے بعد کیا تھا بلکہ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے انہیں حد درجہ رعایت دی۔ فتح کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے مسجد اقصی کو عرق گلاب سے دھلوایا۔فتح بیت المقدس کی خبر یورپ کے مسیحیوں پر بجلی بن کر گری جس کے جواب میں انہوں نے تیسری صلیبی جنگ کا اعلان کر دیا اور انگلینڈ کے رچرڈ شیر دل، فرانس کے فلپ آگسٹس اور جرمنی کے فریڈرک باربروسا کی زیر قیادت ایک عظیم مسیحی لشکر بیت المقدس پر چڑھائی کے لیے روانہ ہوا۔بیت المقدس پر تقربیاً 761 سال مسلسل مسلمانوں کا قبضہ رہا۔ تاآنکہ 1948ء میں امریکا، برطانیہ، فرانس کی سازش سے فلسطین کے علاقہ میں یہودی سلطنت قائم کی گئی اور بیت المقدس کا نصف حصہ یہودیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں بیت المقدس پر اسرائیلیوں نے قبضہ کر لیا۔اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جارحیت کے باعث غزہ میں 1 لاکھ 23 ہزار فلسطینی بے گھر ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی بمباری سے 159 ہاؤسنگ یونٹس مکمل تباہ اور 1210 گھروں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ انسانی امور سے متعلق یو این آفس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں اسکول پر براہِ راست بم باری کی ہے، بم باری کا نشانہ بنائے گئے اسکول میں 225 فلسطینی پناہ لیے ہوئے تھے۔ دوسری جانب امریکی اخبار کا کہنا ہے کہ اسرائیل 48 گھنٹے کے اندر غزہ میں زمینی کارروائی کرے گا۔ حماس کی کارروائی اسرائیل کیلئے پرل ہاربر حملہ ثابت ہوئی واضح رہے کہ 2 روز قبل حماس نے جوابی ایکشن کرتے ہوئے عرب اسرائیلی جنگ کی پچاسویں سالگرہ پر علی الصبح پہلی بار غزہ سے بیک وقت بری، بحری اور فضائی کارروائی کی تھی۔ حماس نے اسرائیل کے جنوبی شہروں میں فوجی اڈوں اور عسکری تنصیبات کو نشانہ بنایا تھا۔ رپورٹس کے مطابق ’آپریشن الاقصیٰ طوفان‘ کے تحت فلسطینی مجاہدین کی بڑی تعداد غزہ کی سرحد پر موجود باڑ ہٹاتے ہوئے زمینی راستے سے اسرائیل کے شہر اشکلون سمیت جنوبی شہروں میں داخل ہوئی جبکہ سمندری راستے اور پیراگلائیڈرز کی مدد سے بھی متعدد حماس ارکان نے حملہ کیا۔ فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے حملے میں اب تک اسرائیل کے سینئر فوجی افسر سمیت 600 سے زیادہ اسرائیلی مارے گئے ہیں۔ اسرائیل نے بریگیڈ کمانڈر سمیت 700 سے زیادہ اسرائیلیوں کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے، اسرائیلی پولیس کا کہنا ہے کہ حماس سے پہلے دن کی لڑائی میں 30 اہل کار مارے گئے۔اسرائیلی فوج کی غزہ پر وحشیانہ بمباری جاری ہے،اسرائیل کی جانب غزہ پر رات بھر حملے کیے گئے جس میں 1 ہی خاندان کے 19 افراد شہید ہو گئے۔ اسرائیلی حملوں میں غزہ میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 413 ہو گئی ہے، 2 ہزار سے زیادہ فلسطینی زخمی ہوئے ہیں۔حماس نے ہفتے کو علی الصبح اسرائیل کیخلاف جوابی کارروائی کرتے ہوئے اسرائیلی دفاعی نظام کو ہلا کر رکھ دیا ہے.امریکی اخبار کے مطابق دفاعی تجزیہ کاروں نے اس حملے کو اسرائیل کیلئے پرل ہاربر حملے سے تشبیہ دی ہے۔اسرائیل کئی دہائیوں سے ٹیکنالوجی کا پاور ہاوس بنا ہوا ہے جہاں دنیا کی سب سے طاقتور سمجھی جانے والی مسلح افواج اور دنیا کی مشہور انٹیلی جنس ایجنسی بھی موجود ہے تاہم ان سب کے باوجود ہفتے کے روز اسرائیلی فوج خود کو اس طرح کے حملے کیلئے تیار نہ رکھ پائی۔
اسرائیلی حکام کے لئے سوالات کھڑے ہوگئے ہیں۔ کس طرح سے دنیا کی غریب ترین آبادی سے اسرائیل پر اس طرز کا حملہ کرسکتا ہے۔؟
اسرائیلی افواج کے سابق ترجمان جوناتھن کونریکس کا کہنا ہے کہ اسرائیل کا پورا نظام ناکام رہا، یہ صرف ایک عنصر نہیں بلکہ اسرائیل کا پورا دفاعی ڈھانچہ ناکام ہوا۔ان کا کہنا ہے کہ یہ اسرائیل کیلئے پرل ہاربر طرز کا حملہ ثابت ہوا ہے۔برطانوی نیوز ایجنسی کا کہنا ہے کہ اسرائیل اسمارٹ بارڈر سسٹم پر کروڑوں ڈالر خرچ کرچکا ہے جن میں سینسرز اور سرنگوں کی تعمیر بھی شامل ہے۔ اسرائیلی حکام اس معاملے کو ضرور اٹھائیں گے کہ آیا ان کی ٹیکنالوجی کس طرح ناکام ہوئی۔ اسرائیل کی انٹیلی جنس ناکامی پر بھی سوالات اٹھائے جارہے ہیں تاہم اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے پر بعد میں غور کریں گے۔ اسرائیل کے سابق وزیراعظم نفتالی بینٹ نے کہا ہے کہ عسکری تاریخ ہمیشہ سے ہی اچانک ہونے والے حملوں سے بھری بڑی ہے، جن میں پرل ہاربر، بارباروسا، یوم کپور کی جنگ شامل ہیں۔ انٹیلی جنس کا اثرورسوخ ایک حد تک ہی ہوتا ہے۔ بتایا کہ ان کے دفاعی میزائل نظام نے کتنے میزائلوں کو ناکارہ بنایا تھا۔ مشرق وسطیٰ کے معاملے پر امریکی محکمہ خارجہ کے سابق مذاکرات کار ایرون ڈیوڈ ملر نے امریکی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ غزہ کے قریب کے علاقوں کو نہیں بچایا جاسکا۔ میرا نہیں خیال اسرائیلی اس حملے کیلئے تیار تھے۔اسرائیلی وزیر دفاع نے غزہ کی مکمل ناکا بندی کا حکم دے دیا، غزہ کیلئے بجلی، خوراک، ایندھن سب بند کر دیا گیا۔ رات کے حملوں کے بعد اسرائیل کی جانب سے غزہ پر دوبارہ فضائی حملے کیے گئے، حماس اور اسلامی جہاد کے 500 سے زائد اہداف کو نشانہ بنایا گیا۔حملوں میں خواتین اور بچوں سمیت 493 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جبکہ 2 ہزار 700 سے زائد زخمی ہوئے۔حماس کے مزاحمت کاروں کی 7 سے 8 مقامات پر اسرائیلی فورسز سے جھڑپیں ہوئیں۔اسرائیلی فوج کے مطابق حماس کےحملوں میں 73 فوجیوں سمیت 700 اسرائیلی مارے گئے۔دوسری جانب القسام بریگیڈز نے دعویٰ کیا ہے کہ حماس کے جنگجوؤں نے غزہ کی پٹی کے گرد یہودی بستیوں میں متعدد اسرائیلی فوجیوں کو یرغمال بنا لیا ہے، یہودی بستیوں میں حماس اور اسرائیلی فورسز کے درمیان شدید جھڑپیں جاری ہیں۔ عرب میڈیا کے مطابق ایرانی وزارت خارجہ نے اسرائیلی دھمکیوں پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے ایران کے خلاف کسی بھی احمقانہ کارروائی کا منہ توڑ اور تباہ کن جواب دیا جائے گا۔ دوسری جانب لبنانی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ حزب اللّٰہ نے اسرائیل کے خلاف کارروائی نہ کرنے کا مشروط یقین دلایا ہے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ حزب اللّٰہ کا کہنا ہے کہ لبنان سے چھیڑ خانی نہ ہوئی تو جنگ میں شامل نہیں ہوں گے۔