اسلام آباد(ٹی این ایس) آرمی چیف کا غزہ سے فلسطینیوں کا جبری انخلا انسانیت کے خلاف جرائم کا عکاس قرار

 
0
70

..آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے غزہ سے فلسطینیوں کا جبری انخلا انسانیت کے خلاف جرائم کا عکاس قراردیا ہےآئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی خود غرضی اور تنگ نظریے کے تحت جبر ہو رہا ہے، اسرائیلی فوج کے مظالم انسانیت اور شہری اقدار کی خلاف ورزی کے عکاس ہیں۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا کہ غزہ سے فلسطینیوں کا جبری انخلا انسانیت کے خلاف جرائم کا عکاس ہے، عالمی برادری اسرائیلی فوج کو جاری مظالم کی حوصلہ افزائی سے باز رکھنے کے لیے متحرک ہو۔
فلسطینی سفیر سے ملاقات میں آرمی چیف نے 1967 سے پہلے سے سرحدی بنیاد پر قائم فلسطینی ریاست کی حمایت کا اعادہ کیا۔
خیال رہےکہ17 اکتوبر ، 2023 کوآرمی چیف جنرل عاصم منیر کی زیر صدارت ہونے والی 260 ویں کورکمانڈرز کانفرنس کے شرکا نے بھی غزہ میں اسرائیل کے طاقت کے استعمال سے معصوم شہریوں کے جانی نقصان پر اظہار تشویش کیا تھا۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیرکا کہنا تھا کہ فلسطینی عوام کو پاکستانی قوم کی مکمل سفارتی، اخلاقی اور سیاسی حمایت حاصل ہے، مسئلہ فلسطین کے پائیدار حل اور مسلمانوں کے مقدس مقامات پر غیر قانونی قبضے کے خاتمے کے لیے اصولی موقف کی حمایت جاری رکھیں گے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق فورم نے غزہ میں اسرائیل کے طاقت کے استعمال سے معصوم شہریوں کے جانی نقصان پر اظہار تشویش کیا۔
دوسری طرف قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی نے عالمی برادری سے اسرائیل اور غزہ کی حکمران حماس کے درمیان مسلح تصادم کے خاتمے کے لیے کردار ادا کرنے کا مطالبہ کردیا۔ شیخ تمیم بن حمد الثانی نے کہا کہ بے گناہ لوگوں کا قتل ناقابل قبول ہے، خواہ وہ کسی بھی قومیت کے ہوں، ہم خطے اور عالمی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس کشیدگی کے بارے میں سخت مؤقف اختیار کریں، اس تنازع سے مشرق وسطیٰ کی سلامتی خطرے میں ہے۔ ہم اس جنگ کو روکنے کا بھی مطالبہ کرتے ہیں، جو پہلے ہی تمام ممکنہ حدوں سے آگے نکل چکی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں فریقین کے لیے استحکام اور سلامتی کی ضمانت کا واحد راستہ منصفانہ اور پائیدار امن کا قیام ہے اور فلسطینی کے عوام کو ان کے تمام جائز حقوق کا ادراک کرنے کے قابل بنانا ہے جیسا کہ بین الاقوامی تنظیموں نے اس بات پر زور دیا ہے۔ مزید یہ کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ حماس کے حملوں کو اسرائیل فلسطینیوں کو دی جانے والے اجتماعی سزا ک لیے دفاع کے طور پیش نہیں کرسکتا۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں انتونیو گوتریس نے غزہ کے لیے انسانی بنیاد پر امداد جاری رکھنے پر زور دیا۔۔
فلسطین کے صدر محمود عباس نے فرانس کے ہم منصب ایمانوئیل میکرون سے کہا ہے کہ عالمی برادری اسرائیل کو غزہ میں جارحیت کرنے سے روکے۔ رپورٹ کے مطابق محمود عباس نے مقبوضہ مغربی کنارے کے شہر رام اللہ میں ملاقات کے بعد کہا کہ صدر میکرون ہم آپ پر زور دیتے ہیں کہ یہ جارحیت روکیں۔ میکرون نے بتایا کہ غزہ میں شہریوں کی مشکلات کا کسی صورت دفاع نہیں کیا جاسکتا ہے جہاں 24 لاکھ افراد موجود ہیں فلسطین کے وزیرخارجہ نے دکھ کا اظہار کیا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی غزہ میں قتل عام نہیں روک پا رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ریاض المالکی سلامتی کونسل کے خصوصی اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں جاری قتل عام اسرائیل کی جانب سے جانتے بوجھتے، منظم انداز میں ہو رہا ہے، فلسطین کے عوام پر اسرائیل نے غیرقانونی قبضہ کیا ہوا ہے اور یہ قتل عام بند ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے روکنا ہماری مشترکہ انسانی ذمہ داری ہے، سلامتی کونسل کی ناکامی ناقابل معافی ہے۔غزہ کی وزارت صحت نے کہا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے 7 اکتوبر کو شروع ہونے والی کارروائیوں میں اب تک 5 ہزار 791 فلسطینی جاں بحق ہوگئے ہیں۔ اسرائیل کی بمباری سے غزہ میں 2 ہزار 360 بچے بھی جاں بحق ہوئے۔ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 704 فسلطینی جاں بحق ہوگئے ہیں۔
یاد رہےکہ ہم سوشل میڈیا پر نسل کشی کے خوفناک مناظر دیکھ رہے ہیں۔ اسرائیل نے غزہ کا مکمل محاصرہ کرکے قتلِ عام مچا رکھا ہے۔ معصوم بچے مارے جارہے ہیں جبکہ پورے کے پورے خاندانوں کو ختم کیا جارہا ہے۔نسل کشی کا یہ منصوبہ دہائیوں پرانا ہے اور اس میں اسرائیل کو پوری مغربی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے۔ امریکا نے اپنے اس اتحادی کے لیے نہ صرف بحری بیڑہ بھیجا ہے بلکہ وہ اس کی سفارتی اور مالی معاونت بھی کررہا ہے جبکہ وہ خود اپنے شہریوں کی صحت کے اخراجات اٹھانے سے قاصر ہے۔ برطانیہ بھی امریکی روش اختیار کیے ہوئے ہے لیکن فرانس جو خود کو آزادی اظہار کا علم بردار کہتا ہے، اس نے فلسطینیوں کی حمایت میں نکالے جانے والے مظاہروں پر پابندی عائد کردی ہے، ایسا ہی کچھ جرمنی میں بھی ہوا ہے۔ جرمنی ایک بار پھر ہولوکاسٹ کے اپنے جرم کا ملبہ مظلوم فلسطینیوں پر ڈال رہا ہے۔ آزادی کے گڑھ تصور کیے جانے والے ان ممالک میں فلسطین کی حمایت کو جرم قرار دیا جارہا ہے جبکہ پولیس رنگ اور نسل سے قطع نظر امن کے حامیوں کو تشدد کا نشانہ بنا رہی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ وہی ممالک ہیں جو آزادی اظہار کے حوالے سے دنیا کو درس دینے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔امتیازی سلوک پر انہیں مغربی میڈیا کی بھی مدد حاصل ہے جو تمام فلسطینیوں کو حماس سے منسلک کررہا ہے۔ یہ میڈیا اسرائیل کے جھوٹ کو قبول کرتا ہے اور اسے اس امید پر بار بار دہراتا ہے کہ وہ سچ لگنے لگ جائے اس بار اس جھوٹ پر کوئی یقین نہیں کررہا۔ عرب دنیا نے اس طرح کے مظاہرے نہیں دیکھے جہاں عوام کی بڑی تعداد نہ صرف اسرائیل کے خلاف بھی آواز بلند کررہی ہےبلکہ اپنی حکومتوں کی کمزوری پر بھی آواز اٹھارہی ہے۔مغربی ممالک میں لاکھوں کی تعداد میں مظاہرین سڑکوں پر آکر دنیا کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ بےشک ان کی ریاست اسرائیل کا ساتھ دے رہی ہو لیکن بڑی تعداد میں عوام فلسطین کے ساتھ کھڑے ہیں۔امریکی کانگریس میں ہونے والے احتجاج اور گرفتاریوں کے بعد مسلمان اور یہودی کانگریس عملے نے کانگریس کے اراکین کو کھلا خط لکھ کر فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے 16 کانگریس اراکین نے بھی جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے دنیا میں اپنی ہی حکومتوں کے خلاف آواز اٹھانے کا سلسلہ جاری ہے۔ آج جب اسرائیل کے جنگی طیارے بچوں کو قتل کرکے مغرب کی تھپکی حاصل کررہے ہیں، آج ظالموں کا وقت ہے، انصاف کا دن نہیں مگر یہ دن ضرور آئے گا۔اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف شدید جارحیت، آبادکاروں کی جانب سے تشدد، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، مقدس اسلامی مقامات کی بےحرمتی اور جدید تاریخ میں نسل پرستی کی بدترین مثال قائم کی ہےلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے زبردستی بےدخل کیا گیا، انہیں ان کے گھروں سے محروم کیا گیا جبکہ انہیں ظلم، بلاوجہ گرفتاریاں اور اجتماعی سزاؤں کا بھی نشانہ بنایا گیا۔ ان کے پورے کے پورے محلوں کو مسمار کردیا گیا اور ان کی جگہ اسرائیلیوں کی غیرقانونی آبادکاری کے لیے راہ ہموار کی گئی۔ ان مظالم نے بےگھر ہونے والے لوگوں کو ناقابلِ بیان مصائب میں مبتلا کیا ہے۔غزہ کے 20 لاکھ سے زائد رہائشی گزشتہ 16 سال سے اسرائیل کی طرف سے مسلط کردہ ناکہ بندی اور ظالمانہ پابندیوں کے خلاف جدوجہد کررہے ہیں اور ان پابندیوں نے ان کی زندگیوں کو تباہ کردیا ہے۔ وہ ایسی جگہ رہتے ہیں جسے دنیا کی سب سے بڑی ’کھلی جیل‘ کہا جاتا ہے۔ناانصافیوں کی اس تاریخ کو مدِنظر رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو فلسطینی مزاحمتی گروہ حماس کی جانب سے 7 اکتوبر کو بڑے پیمانے پر جنگ کا آغاز کرنا زیادہ حیران کن نہیں لگتا۔ اسرائیل کی جانب سے وحشیانہ اور بلاامتیاز جوابی کارروائی نے فلسطین کی المناک داستان میں ایک دردناک باب کا اضافہ کیا ہےاسرائیل نے غزہ کا محاصرہ کرلیا ہے۔ وہ اپنی فوجی طاقت کا مظاہرہ ایک تنگ، غریب، گنجان آباد پٹی پر کررہا ہے جبکہ رہائشی عمارتوں، پناہ گزین کیمپوں اور اسکولوں کو بمباری کا نشانہ بنارہا ہے جوکہ بلاشبہ جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔ اس بمباری سے 700 بچوں سمیت 5 ہزار 791 فلسطینی جاں بحق ہوئے جبکہ تقریباً 5 لاکھ کے قریب فلسطینی بےگھر ہوچکے ہیں اقوامِ متحدہ کے ہیومن رائٹس چیف نے اسرائیل کے محاصرے کو بین الاقوامی انسانی حقوق قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ یورپی یونین کے اعلیٰ سفارت کار جوسیپ بورل نے بھی غزہ کے محاصرے کو غیرقانونی قرار دیا ہے۔ غزہ کے لیے بجلی، پانی، خوراک اور ایندھن کی فراہمی بند کرکے اسرائیل نے ایک خوفناک صورتحال پیدا کردی ہے۔ اسرائیلی فوج نے 11 لاکھ فلسطینیوں کو شمالی غزہ خالی کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی جانب سے تباہ کُن نتائج کے لیے خبردار کیا گیا ہے اور اب غزہ میں انسانی المیے کا سامنا ہے۔اس المیے میں بین الاقوامی برادری کا بھی ہاتھ ہے۔ فلسطینیوں کی حالتِ زار کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے مغربی میڈیا اس مؤقف کی غیرمشروط حمایت کررہا ہے کہ ’اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے‘۔ امریکا جو اسرائیل کا اہم اتحادی ہے اس نے اسرائیل کے لیے مکمل فوجی تعاون کا اعلان کیا ہے، ساتھ ہی مشرقی بحیرہ روم میں ایک طیارہ بردار بحری جہاز بھی بھیجا ہے اور اسرائیل کو ’جدید ہتھیار‘ بھی فراہم کیے ہیں۔مغربی ممالک کی حکومت بے گناہ فلسطینیوں کے جاں بحق ہونے پر وہ چُپ ہیں۔ آرگنائزیشن آف اسلامک کارپوریشن (او آئی سی) نے بیان میں فلسطینی عوام پر اسرائیل کی عسکری جارحیت کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ غیرمستحکم حالات کی وجہ اسرائیل کا فلسطین پر غاصبانہ قبضہ ہے۔ لیکن 57 مسلمان ممالک کی اس تنظیم نے فلسطین کے حق میں اجتماعی اقدامات پر غور نہیں کیا۔ نہ ہی ان عرب ممالک جو گزشتہ سالوں میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرچکے ہیں، سے کہا گیا کہ وہ اسرائیل سے تعلقات منقطع کریں۔درحقیقت اسی پالیسی کے سبب اسرائیل کو حوصلہ ملا ہے اور وہ آزادانہ طور پر غزہ میں اپنے حملوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ عرب لیگ کا ہنگامی اجلاس بھی بلایا گیا جس نے اسرائیل سے غزہ کا محاصرہ ختم کرنے کا مطالبہ کرکے خاموشی اختیار کرلی۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل بین الاقوامی امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کی اپنی بنیادی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہی۔ 8 اکتوبر کو حالات پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے اس کا ہنگامی اجلاس بلایا گیا لیکن یہ اجلاس اس وقت تعطل کا شکار ہوا جب سیکیورٹی کونسل کوئی بیان ہی جاری نہ کرسکی۔ کہا جارہا ہے کہ مغربی ممالک چاہتے تھے کہ سلامتی کونسل حماس کی پُرزور اور سخت الفاظ میں مذمت کرے جبکہ کشیدگی کم کرنے پر ہرگز زور نہ دے۔روسی نمائندے نے کونسل پر جنگ بندی اور بامعنیٰ مذاکرات کے لیے دباؤ ڈالا لیکن وہ کسی کام نہیں آیا۔ 13 اکتوبر کو ہونے والے سلامتی کونسل کے اجلاس میں بھی شدید اختلافات دیکھنے میں آئے۔ روس نے ’انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جنگ بندی‘ کی تجویز دی اور شہریوں کے تحفظ پر زور دینے کے لیے قرارداد پیش کی۔ اس قرارداد کو پی 3 یعنیٰ امریکا، برطانیہ اور فرانس کی جانب سے کوئی توجہ نہ مل سکی,پہلا موقع نہیں کہ اقوامِ متحدہ کسی معاملے کو سلجھانے میں ناکام رہی ہو۔ مسئلہ کشمیر کی مثال ہمارے سامنے ہے جو تقریباً اقوامِ متحدہ کے آغاز سے ہی اس کے ایجنڈے میں شامل رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی متعدد قراردادوں میں اس مسئلے کو حل کرنے اور فلسطین پر اسرائیل کے غیرقانونی قبضے کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ فلسطین کے مسئلے پر کم از کم 88 قراردادیں سلامتی کونسل میں پیش کی گئیں۔ اس مسئلے کا سب سے پرانا حل جو سلامتی کونسل نے پیش کیا وہ دو ریاستی حل تھا جس کے تحت فلسطین عملی اور خودمختار ریاست ہوگا۔ لیکن اسرائیل کو برسوں پہلے سے مغربی ممالک کی حمایت حاصل تھی خاص طور پر سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں نے دو ریاستی حل کو مسترد کیا اور اس کے بجائے ایک ریاست کا ’حل‘ پیش کیا جس کی وجہ سے غیرقانونی طور پر اسرائیلی بستیوں کی توسیع کرکے نہ صرف سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کی گئی بلکہ اس آبادکاری کو روکنے کے لیے بین الاقوامی مطالبات کو بھی نظرانداز کردیا گیا۔
ان قراردادوں پر عمل نہ کرکے عالمی قوتوں نے خود پر سوالات کھڑے کردیے ہیں کیونکہ یہ قوتیں حالات بدلنے کا اختیار رکھتی ہیں لیکن وہ اسرائیل کی غیرمشروط حمایت میں اس قدر اندھی ہوچکی ہیں کہ بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کے دعوے کے برعکس عمل کر رہی ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے کہا کہ موجودہ تنازع ’اچانک کھڑا نہیں ہوا ہے‘ بلکہ اس کے پیچھے ایک ’دیرینہ مسئلہ ہے جو 56 سال پرانے قبضے سے پروان چڑھا‘۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ خونریزی کو بند کیا جائے اور ’اقوامِ متحدہ کی قراردادوں میں پیش کردہ دو ریاستی حل کی روشنی میں مذاکرات کرکے امن بحال کیا جائے۔ اسی طرح اس سرزمین کے لوگوں اور مشرقِ وسطیٰ کے لیے پائیدار استحکام لایا جاسکتا ہے‘۔ انہوں نے اسرائیل پر یہ بھی زور دیا کہ وہ 11 لاکھ لوگوں کے انخلا کے اپنےحکم پر نظرثانی کرے۔ اسرائیل کی غزہ پر زمینی کارروائی اور غزہ پر دوبارہ قبضے کی منصوبہ بندی کے باعث اس تنازع کے نتائج واضح نہیں ہیں۔ اس بات کا خطرہ بھی موجود ہے کہ یہ جنگ خطے میں پھیل سکتی ہے۔ ایک بات جو یقینی ہے وہ یہ ہے کہ خطے میں نارملائزیشن کی تمام کوششیں بالخصوص سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات بنانے کے تمام منصوبے ملیا میٹ ہوچکے ہیں۔ گزشتہ 7 دہائیوں کا نتیجہ بھی ہمارے سامنے ہے اور وہ یہ ہے کہ طاقت اور جبر سے کوئی بھی مظلوم قوم کے جذبہ مزاحمت کو نہیں دبا سکتا۔غزہ کی پٹی میں مقیم فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے اسرائیل کے وحشیانہ مظالم پر مغربی مین اسٹریم میڈیا کی یکطرفہ رپورٹنگ نے اس کی معروضیت کے دعووں کو بےنقاب کیا ہے۔حماس-اسرائیل تنازع میں سچائی کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جارہا ہے۔ ایک جانب جہاں مغربی میڈیا حماس کے حملے کی کوریج زیادہ کر رہا ہے وہیں دوسری جانب غزہ میں بمباری سے ہونے والی تباہی اور ہزاروں مظلوم فلسطینیوں کی اموات جن میں بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے، کو انتہائی کم کوریج دی جارہی ہےاسرائیل کے جنگی جرائم کا دفاع اس جملے سے کیا جارہا ہے کہ ’اسے اپنے دفاع کا حق حاصل ہے‘۔ غزہ کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کردینے والی اس وحشیانہ بمباری کے دوران مارے جانے والے درجن سے زائد عرب صحافیوں کی ہلاکت پر بھی مغربی میڈیا کی جانب سے کوئی احتجاج سامنے نہیں آیا۔ آزادی اور جمہوریت کے علمبردار ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کا یہ دوہرا رویہ چونکا دینے والا ہے۔ مغربی صحافیوں کی بڑی تعداد اسرائیل سے کوریج کررہی ہے وہیں گنتی کے صحافی غزہ میں جنم لینے والے انسانی المیے کی فیلڈ رپورٹنگ کررہے ہیں۔ میڈیا تصویر کا ایک ہی رخ دنیا کو دکھا رہا ہے۔میڈیا کی جانب سے 7 اکتوبر کے واقعات کی صرف حماس کے حملے کے طور پر منظر کشی کی جارہی ہے جبکہ اس حملے کے پیچھے موجود اصل وجہ یعنیٰ فلسطینیوں کی آزادی کی جدوجہد کے پہلو کو مکمل طور پر نظرانداز کیا جارہا ہے۔غزہ میں اس وقت جو قیامت ڈھائی جارہی ہے، ماضی قریب میں ہمیں اس کی مثال نہیں ملتی۔حالیہ رپورٹ میں ہیومن رائٹس واچ نے تصدیق کی ہے کہ اسرائیل، غزہ اور لبنان میں اپنی عسکری کارروائیوں میں وائٹ فاسفورس کا استعمال کررہا ہے جس سے عام شہری سنگین اور دیر تک رہنے والے زخموں سے دوچار ہوسکتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ’دنیا کی گنجان ترین آبادیوں میں سے ایک، غزہ پر وائٹ فاسفورس کے استعمال سے وہاں کی آبادی کے لیے خطرات بڑھ جاتے ہیں جبکہ یہ شہریوں کو غیرضروری طور پر خطرے میں نہ ڈالنے کے بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے‘۔یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی حالیہ فضائی بمباری سے سیکڑوں بچے ہلاک اور زخمی ہوچکے ہیں۔ ’تصاویر اور خبروں سے صورتحال واضح ہے، بچوں پر جلنے کے خوفناک نشانات ہیں، وہ بمباری سے زخمی ہوئے ہیں اور اعضا سے محروم ہوئے ہیں‘۔ ان کیسز کی تعداد میں ہر لمحے اضافہ ہورہا ہے جبکہ اسپتالوں میں جگہ نہ ہونے کے باعث وہ علاج سے بھی محروم ہیں۔ ہلاک اور زخمی ہونے والی ہر قیمتی جان، غزہ میں جنم لینے والے انسانی المیے کی نشاندہی کرتی ہے۔ یورپی ممالک بشمول فرانس، جرمنی اور اٹلی نے مظاہروں پر پابندی لگادی ہے لیکن پابندی کے باوجود لوگ جنگی جرائم کا شکار ہونے والے فلسطینیوں کے حق میں ریلیاں نکال رہے ہیں اور ان سے اظہارِ یکجہتی کررہے ہیں۔ غزہ میں خراب ہوتی صورتحال سے عوام کے غم و غصے میں مزید اضافہ ہوگا۔شہری آبادی پر فاسفورس بمبوں کا استعمال اور لاکھوں لوگوں کو خوراک سے محروم رکھنا، جبری انخلا انسانیت کے خلاف جرائم کا عکاس قراردیاجا رہا ہے,