اسلام آباد(ٹی این ایس) انتخابی نشان کیس: الیکشن کمیشن کی بدنیتی ثابت کرنا ہوگی، چیف جسٹس فائز عیسیٰ

 
0
40

سپریم کورٹ میں تحریک انصاف کو ’بلے‘ کا انتخابی نشان واپس کرنے کے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی جانب سے دائر اپیل پر براہ راست سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کی بدنیتی ثابت کرنا ہوگی۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے انٹرا پارٹی انتخابات اور بلے کے نشان کے معاملے پر سپریم کورٹ آف پاکستان میں پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی درخواست پر سماعت آج دوسرے روز بھی جاری ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے جو اس وقت براہ راست جاری ہے۔
گزشتہ سماعت کا احوال:
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو پشاور ہائیکورٹ سے بلے کا نشان ملنے کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی، جس پر گزشتہ روز قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔ جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بینچ کا حصہ ہیں۔ کارروائی مکمل ہونے کے بعد چیف جسٹس نے عدالتی عملے کو رجسٹرار پشاور ہائیکورٹ سے معلومات لینے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی براہ راست سماعت آج دن 10 بجے تک ملتوی کر دی تھی۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان نے اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ پی ٹی آئی کسی کو زبردستی تو الیکشن نہیں لڑوا سکتی، کیا صرف اس بنیاد پر انتخابات کالعدم قرار دے دیں، پی ٹی آئی کو انتخابی نشان نہ ملا تو کیا اکبر بابر کو نقصان نہیں ہوگا؟
اس پر اکبر بابر ایس کے وکیل احمد حسن نے کہا تھا کہ اکبر بابر کا جرم قانون پر عملدرآمد کے لیے آواز اٹھانا ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا تھا کہ قانون کہتا ہے پارٹی الیکشن کروائیں، نشان تو بعد کی بات ہے، اکبر بابر اتنے عرصے سے پی ٹی آئی کو تنگ کیوں کر رہے ہیں؟
اس پر وکیل احمد حسن نے کہا تھا کہ پی ٹی آئی شاید اکبر بابر کو تنگ کر رہی ہے، ممنوعہ فنڈنگ پر پارٹی سے اختلاف ہوا تھا اس پر چیف جسٹس آف پاکستان نے پر سوال کیا کہ اکبر ایس بابر خود پی ٹی آئی کے خلاف کھڑے ہیں یا ان کے پیچھے کوئی کھڑا ہے؟
اکبر ایس بابر کے وکیل احمد حسن نے دلائل مکمل کر لیے تو عدالت نے حکم نامہ جاری کیا تھا کہ پشاور ہائیکورٹ کے حکم کے خلاف الیکشن کمیشن نے اپیل دائر کی، آگاہ کیا گیا کہ پشاور ہائیکورٹ کا تفصیلی فیصلہ ابھی نہیں آیا، آگاہ کیا گیا تھا کہ عام انتخابات کی وجہ سے معاملہ فوری سماعت کا ہے۔
ہمارا ویک اینڈ برباد کرنے کا شکریہ، چیف جسٹس کے ریمارکس
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر پی ٹی آئی نے ثابت کر دیا کہ ان کے پارٹی الیکشن درست ہے تو ریلیف دینا لازم ہے، الیکشن کمیشن کو بھی انہیں انتخابی نشان دینا لازم ہوگا، اور اگر پی ٹی آئی ثابت کرنے میں ناکام رہی تو پھر انہیں نتائج کا سامنا کرنا ہوگا۔
ان ریمارکس کے بعد چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان کو ہدایت کی تھی کہ کل صبح آپ کے دلائل سے سماعت کا آغاز ہوگا۔ کیس جب تک ختم نہیں ہوگا تب تک سماعت چلے گی۔ ہو سکتا ہے آپ سے کل کچھ پوچھنا پڑ جائے۔ ہمارا ویک اینڈ برباد کرنے کا شکریہ۔
دھرنا کیس اور فارن فنڈنگ کیس کا ذکر
چیف جسٹس نے استفسار کیا تھا کہ دھرنا کیس میں الیکشن کمیشن نے قانون کو کاسمیٹک کہا تھا، وکیل مخدوم علی نے جواب دیا کہ قانون پر عمل کرنے یا نہ کرنے کا آپشن نہیں ہوتا، چیف جسٹس نے کہا تھا کہ 9 سال میں ممنوعہ فنڈنگ کیس نہیں ہو سکا آپ سے؟ حکام الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ ممنوعہ فنڈنگ کے حوالے سے قانونی چارہ جوئی چلتی رہی ہے، چیف جسٹس نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ نے 2018 میں الیکشن کمیشن کو کارروائی کا حکم دیا تھا۔
اکبر ایس بابر اور ان کے وکیل کے دلائل
وکیل اکبر ایس بابر نے کہا تھا کہ میں عدالت کے سامنے مختصر دلائل دوں گا، پشاور ہائیکورٹ میں نوٹس کیا گیا نہ مؤقف سنا گیا۔ کاغذات نامزدگی لینے مرکزی سیکرٹریٹ گئے لیکن کچھ نہیں دیا گیا۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کاغذات نامزدگی کی شکل تو دکھائیں، اکبر ایس بابر بولے ہمیں کوئی کاغذ ہی نہیں ملا تو ان کی شکل کیسی؟

وکیل اکبر ایس بابر نے اپنے دلائل میں کہا تھا کہ اکبر ایس بابر نے پارٹی چھوڑی نا استعفی دیا، الیکشن سے پہلے پی ٹی آئی نے پریس ریلیز جاری کی تھی، ہر شہری کا حق ہے وہ کوئی بھی سیاسی جماعت جوائن کر سکتا ہے، پشاور ہائیکورٹ میں پی ٹی آئی نے کہا اکبر بابر پارٹی رکن نہیں ہیں۔ عدالت نے اکبر ایس بابر سے بانی رکن ہونے کا ثبوت مانگ لیا اور پی ٹی آئی سے اکبر بابر کو نکالنے کی دستاویزات بھی طلب کیں۔
حامد خان صاحب اگلی سماعت پر پوری تیاری کرکے آئیے گا، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے وکیل حامد خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ حامد خان صاحب پوری تیاری کرکے مخدوم علی خان کو بولڈ کرنے آئیے گا، جسٹس مسرت ہلالی نے بھی سوال کیا کہ اسد عمر نے پارٹی عہدہ چھوڑا تو ایسے میں پی ٹی آئی کا آئین کیا کہتا ہے؟ کیا ہنگامی طور پر کوئی سیکریٹری جنرل تعینات ہوسکتاہے؟ چیف جسٹس نے سوال کیا، سیکریٹری جنرل اگر الیکشن کمشنر کی نامزدگی کریں تو بھی ون مین شو نہیں ہوسکتا۔
چیف جسٹس نے پوچھا تھا کہ کیا پشاور ہائیکورٹ نے پارٹی انتخابات پر کوئی رائے دی ہے؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ مختصر فیصلے میں پارٹی انتخابات کا ذکر نہیں، چیف جسٹس نے پوچھا کہ بلے کا نشان تو پارٹی انتخابات درست ہونے کی صورت میں ہی مل سکتا، پشاور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا حکم دیا ہے۔

مخدوم علی خان نے کہا تھا کہ سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا حکم دینے کا مطلب ہے الیکشن کمیشن جائزہ نہیں لے سکتا، چیف جسٹس نے کہا تھا کہ جمہوریت ملک اور سیاسی جماعت دونوں میں ہونی چاہیے، پشاور ہائیکورٹ پارٹی انتخابات درست ہونے کا ڈیکلریشن تو دیا ہی نہیں۔

وکیل مخدوم علی کے دلائل
وکیل مخدوم علی نے اپنے دلائل میں کہا کہ عمر ایوب کو اختیار نہیں تھا کہ نیازاللہ نیازی کو چیف الیکشن کمشنر تعینات کرتے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پی ٹی آئی کا پہلے مؤقف تھا کہ جون 2022 والے انتخابات درست تھے، دوبارہ الیکشن پر جو عہدیدار فارغ ہوئے کیا ان کے حقوق متاثر نہیں ہوئے؟ کیا پہلے والے انتخابات بھی بلامقابلہ تھے؟ لگتا ہے پارٹی انتخابات پر پی ٹی آئی اور الیکشن کمیشن کا پرانا جھگڑا چل رہا ہے۔

وکیل مخدوم علی نے کہا کہ سال 2021 میں انتخابات کا نوٹس جاری کیا تو جواب آیا کہ کورونا کی وجہ سے نہیں کرا سکتے، چیف جسٹس نے کہا کہ جب پی ٹی آئی حکومت میں تھی تو الیکشن کمیشن نے ریلیف دیدیا تھا، وکیل مخدوم علی نے کہا کہ پی ٹی آئی کو حکومت میں ہوتے ہوئے بھی شوکاز دیا تھا، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ نگراں حکومت کے دباؤ میں کام نہیں کر رہے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ کورونا کی وجہ سے پی ٹی آئی کو ایک سال کی مہلت دی تھی، چیف جسٹس نے پوچھا دیکھنا چاہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کا پی ٹی آئی کیساتھ رویہ اب سخت ہوگیا ہے یا پہلے سے تھا، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو وقت مانگنے پر ایک سال دیا پھر کہا انتخابات ٹھیک نہیں ہوئے۔ پہلے پی ٹی آئی سرکاری پارٹی تھی اب شاید نہیں ہے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ پی ٹی آئی آئین کے مطابق چیف الیکشن کمشنر کا انتخاب ہونا ضروری ہے، نیاز اللہ نیازی کا تقرر کسی بھی انتخاب کے بغیر ہوا، بیرسٹر گوہر نے بطور چیف الیکشن کمشنر استعفی دیا جس پر نیاز اللہ نیازی کا تقرر ہوا، عمر ایوب کے سیکریٹری جنرل ہونے کا بھی الیکشن کمیشن کو آگاہ نہیں کیا گیا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا تھا کہ کیا الیکشن کمیشن کو سیکریٹری جنرل کی تبدیلی سے آگاہ کرنا ضروری ہے؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ الیکشن ایکٹ کے تحت آگاہ کرنا ضروری ہے۔ چیف جسٹس نے پوچھا تھا کیا باقی جماعتوں کیساتھ بھی ایسا سلوک ہی کیا جا رہا ہے یا پی ٹی آئی کے ساتھ امتیازی سلوک ہورہا؟ وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ تمام سیاسی جماعتوں کیساتھ یکساں رویہ ہے۔

چیف جسٹس نے پوچھا تھا کہ الیکشن لڑنے کا بنیادی حق ہر شہری اور جماعت کا ہے، الیکشن لڑنے کا بنیادی حق چھین لیں تو آمریت قومی اور نجی سطح پر بھی آ جائے گی، جسٹس مظہر علی نے بھی پوچھا تھا کہ کیا دیگر جماعتوں کے آئین کو بھی اتنی باریکی سے دیکھا جاتا ہے؟ کیا باقی جماعتوں میں بھی بلامقابلہ انتخاب ہوتا ہے یا صرف پی ٹی آئی میں ہوا ہے؟

ریکارڈ دیکھ کر جواب دیں گے، ڈی جی لا الیکشن کمیشن
ڈی جی لا الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ ریکارڈ دیکھ کر جواب دیں گے، آج پارٹی انتخابات نہ کرانے پر 13 سیاسی جماعتوں کو ڈی لسٹ کیا ہے، چیف جسٹس نے کہا تھا کہ یہ بات بہت وزن رکھتی ہے کہ حکومت میں ہوتے ہوئے بھی پی ٹی آئی کو نوٹس کیا گیا تھا۔

جسٹس مسرت ہلالی نے پوچھا تھا کہ پارٹی انتخابات کی آگاہی کے لیے قانون میں کوئی طریقہ کار ہے؟ ہر شخص کے پاس واٹس ایپ کی سہولت تو نہیں ہوتی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا تھا کہ 2 دسمبر سے پہلے پی ٹی آئی کے انتخابات کب ہوئے تھے؟ وکیل مخدوم علی نے کہا تھا کہ پی ٹی آئی کے گزشتہ انتخابات 8 جون 2022 کو ہوئے تھے، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے جون 2022 میں ہونے والے انتخابات کالعدم قرار دیے تھے، چیف جسٹس نے سوال کیا تھا کہ کیا الیکشن کمیشن کا یہ حکم چیلنج ہوا تھا؟ وکیل مخدوم علی نے کہا تھا کہ لاہور ہائیکورٹ میں فیصلہ چیلنج ہوا تھا جو لارجر بینچ کو ریفر کیا گیا لیکن فیصلہ نہ ہوسکا۔

جسٹس مظہر علی نے استفسار کیا تھا کہ ریکارڈ کے مطابق کیس زیر التوا ہونے کے دوران ہی دوبارہ پارٹی انتخابات ہوگئے تھے، چیف جسٹس نے پوچھا تھا کہ کیا دونوں پارٹی انتخابات میں وہی عہدیداران منتخب ہوئے تھے؟ وکیل حامد خان نے کہا کہ اس حوالے سے ہدایات اور ریکارڈ لیکر ہی آگاہ کر سکوں گا، الیکشن کمیشن نے 20 دن میں پارٹی الیکشن کرانے کا کہا تھا اس لیے دوبارہ کرائے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا تھا کہ سارا جھگڑا 22 دسمبر کے انتخابات کا ہے، سب سے پہلے تو ہائیکورٹ کو ڈکلیئر کرنا تھا کہ انتخابات درست ہوئے، انتخابات درست ہوئے تو انتخابی نشان کا مسئلہ آئے گا۔ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ پشاور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی انتخابات درست قرار دینے کا ڈیکلریشن نہیں دیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بنیادی چیز جمہوریت ہے، ملک اور سیاسی جماعتوں میں بھی جمہوریت ہونی چاہیے۔

آپ کس حیثیت سے دلائل دے رہے ہیں، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے پوچھا تھا کہ لاہور ہائیکورٹ میں زیر التوا درخواست کیا واپس لے لی ہے؟ حامد خان نے کہا تھا کہ لاہور ہائیکورٹ کو درخواست غیر مؤثر ہونے سے آگاہ کر دیا ہے۔ بیرسٹر گوہر علی خان نے بتایا تھا کہ ہم پشاور ہائیکورٹ میں فورم شاپنگ کرنے نہیں گئے تھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ فورم شاپنگ کی بات آپ نے کی، میں نے نہیں کی۔ یہاں سے ریلیف نہیں ملا تو وہاں چلے جاتے ہیں۔

چیف جسٹس نے پوچھا تھا کہ جب آپ کی درخواست لاہور میں زیر سماعت تھی تو پشاور کیوں گئے؟ بیرسٹر گوہر نے جواب دیا تھا کیونکہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات پشاور میں ہوئے تھے۔ الیکشن کمیشن نے چیئرمین پی ٹی آئی کو پارٹی عہدے کے لیے نااہل کرنے کے لیے کیس چلایا تھا، پارٹی انتخابات اور چیئرمین پی ٹی آئی نااہلی کیسز ایک ساتھ چلانے کی درخواست کی تھی۔

چیف جسٹس نے کہا تھا کہ کیس لاہور ہائیکورٹ میں زیر التوا تھا تو پشاور ہائیکورٹ نے کیسے سن لیا؟ بیرسٹر گوہر نے کہا کہ پارٹی انتخابات کی حد تک لاہور ہائیکورٹ والا کیس غیرمؤثر ہوچکا تھا، انٹرا پارٹی انتخابات پشاور میں ہوئے تھے اس لیے پٹیشن بھی وہیں دائر کی گئی تھی۔

چیف جسٹس نے بیرسٹر گوہر سے سوال پوچھا تھا کہ آپ کس حیثیت میں دلائل دے رہے ہیں؟ گوہرعلی نے جواب دیا تھا کہ عدالت کی معاونت کر رہا ہوں، چیف جسٹس نے کہا کہ حامد خان سینیئر وکیل ہیں انہیں بات کرنے دیں۔ بیرسٹر گوہر نے کہا تھا کہ باقی کسی جگہ انتخابات کے لیے سیکیورٹی نہیں مل رہی تھی اس لیے پشاور میں انتخابات کروائے۔

پی ٹی آئی کو لاہور ہائیکورٹ کیوں پسند نہیں آئی؟ چیف جسٹس کا استفسار
چیف جسٹس نے استفسار کیا تھا کہ پی ٹی آئی کو لاہور ہائیکورٹ کیوں پسند نہیں آئی؟ وکیل حامد خان نے کہا تھا کہ پشاور کے علاوہ کہیں بھی سیکیورٹی نہیں مل رہی تھی، چیف جسٹس نے پوچھا سیکیورٹی کے لیے عدالت سے رجوع کیا جا سکتا تھا، من پسند عدالتوں سے رجوع کرنے سے سسٹم خراب ہوتا ہے۔

وکیل حامد خان نے کہا تھا کہ لیول پلیئنگ فیلڈ کا مقدمہ عدالت میں زیر التوا ہے، ہر طرف گرفتاریوں کی وجہ سے پشاور میں سیکیورٹی ملنے پر وہاں انتخابات کرائے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا تھا کہ انٹرا پارٹی انتخابات کا ایک کیس لاہور دوسرا پشاور میں کیسے چل سکتا ہے، کیا پشاور ہائیکورٹ میں دائرہ اختیار کا نکتہ اٹھایا تھا؟

وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ پشاور ہائیکورٹ میں دائرہ اختیار سمیت 2 ہائیکورٹس والا نکتہ بھی اٹھایا تھا۔ وکیل حامد کا کہنا تھا کہ جن درخواستوں کا ذکر ہو رہا ہے وہ امیدواروں نے اپنے طور پر دائر کی تھیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا تھا کہ درخواست گزار عمر آفتاب صدر پی ٹی آئی شیخوپورہ ہیں؟ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ درخواست میں کی گئی استدعا پارٹی کی جانب سے تھی، پشاور اور لاہور ہائیکورٹ میں تضاد تو آ گیا ہے۔ کیا لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ پی ٹی آئی نے چیلنج کیا؟

وکیل حامد خان نے کہا تھا کہ پی ٹی آئی بطور جماعت فریق ہی نہیں تھی تو چیلنج کیسے کرتی؟ چیف جسٹس نے دوبارہ پوچھا تھا کہ ایک ہائیکورٹ کے سنگل بنچ کا فیصلہ ہو دوسری ہائیکورٹ کے ڈویژن بنچ کا تو فوقیت کسے ملے گی؟ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ ڈویژن بینچ کے فیصلے کو فوقیت دی جائے گی۔

الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا دوبارہ آغاز کیا اور کہا تھا کہ الیکشن کمیشن نے انٹراپارٹی انتخابات کیس میں 64 صفحات پر مشتمل فیصلہ دیا، الیکشن کمیشن کے پولیٹیکل فنانس ونگ نے بھی انٹراپارٹی انتخابات پر سوالات اٹھائے تھے، الیکشن کمیشن کے مطابق تحریک انصاف کے انتخابات قانون کے مطابق نہیں تھے، پی ٹی آئی کے انتخابات خفیہ اور پیش کی گئی دستاویزات حقائق کے مطابق نہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پی ٹی آئی آئین کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ بہت اچھا آئین بنایا ہے، اس میں تو سب باتوں کا ذکر ہے۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ پی ٹی آئی آئین کے مطابق چیئرمین کا انتخاب ہر 2 سال بعد ہوگا، اور چیئرمین کی مدت ختم ہونے پر اختیار سیکریٹری جنرل کے پاس چلا جائے گا، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس وقت پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل کون ہیں؟ مخدوم علی خان نے کہا کہ اس وقت عمر ایوب ہیں۔ اس سے قبل اسد عمر تھے۔ الیکشن کمیشن کے پاس نہ تو اسد عمر کے سیکریٹری جنرل کے عہدے سے ہٹائے جانے کا ریکارڈ ہے نہ عمر ایوب کی تعیناتی کا ریکارڈ ہے۔ چیف جسٹس نے کہا تھا کہ کیا اسد عمر نے پارٹی چھوڑ دی ہے۔ مخدوم علی نے کہا کہ جی لیکن الیکشن کمیشن کے پاس کوئی معلومات نہیں، اس حوالے سے صرف اخباری خبریں موجود ہیں۔

گمنام گاؤں میں انتخابات کیوں کرائے؟ جسٹس مسرت ہلالی
چیف جسٹس نے سوال کیا تھا کہ پی ٹی آئی کے انتخابات کہاں ہوئے تھے؟ کسی ہوٹل میں ہوئے یا کسی دفتر یا گھر میں؟ وکیل پی ٹی آئی نے جواب دیا تھا کہ چمکنی کے گراؤنڈ میں ہوئے تھے، چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا کوئی نوٹیفیکیشن ہے جس میں بتایا گیا ہو کہ پارٹی الیکشن کس جگہ ہوں گے؟ جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ چھوٹے سے گمنام گاؤں میں انتخابات کیوں کرائے؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ ریکارڈ پر تو کچھ نہیں ہے کہ پشاور میں کس جگہ پارٹی الیکشن ہوا، پارٹی ارکان کو کیسے معلوم ہوا کہ ووٹ ڈالنے کہاں جانا ہے؟ پی ٹی آئی وکلاء جواب نہیں دینا چاہتے تو آگے چلتے ہیں، پارٹی ممبران کو تو معلوم ہونا چاہیے کہ ووٹ ڈالنے کہاں جانا ہے۔

چیف الیکشن کمشنر پی ٹی آئی نیاز اللہ نیازی نے کہا تھا کہ واٹس ایپ پر لوگوں کو بتایا تھا اور لوگ پہنچے بھی تھے، ویڈیو موجود ہیں عدالت میں چلا لیں، چیف جسٹس نے کہا کہ ویڈیوز باہر جا کر چلا لیں ہم دستاویزات پر کیس چلاتے ہیں، آپ کے کتنے رجسٹرڈ ممبر ہیں، نیاز اللہ نیازی نے جواب دیا کہ 8 لاکھ 37 ہزار سے زائد ہمارے ممبر ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آپ کو سن لیتے ہیں آپ بحث کر لیں، نیاز اللہ نیازی کے روسٹرم پر آنے پر چیف جسٹس نے بیٹھا دیا تھا، آپ کے سینئر وکلا موجود ہیں، ہم ہر کسی کو نہیں سن سکتے، آپ کا وکیل کون ہے آپ پارٹی ہیں، یا تو کہہ دیں کے آپ خود وکیل ہیں، نیاز اللہ نیازی نے کہا کہ میرے وکیل حامد خان ہیں۔

آپ مقدمہ کے لیے کب تیار ہوں گے؟ چیف جسٹس کا حامد خان سے استفسار
تحریک انصاف کے وکیل حامد خان کمرہ عدالت جبکہ علی ظفر لاہور رجسٹری سے ویڈیو لنک پر موجود تھے۔ وکیل حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہمیں کوئی نوٹس موصول نہیں ہوا، چیف جسٹس نے کہا تھا کہ کیس کی فائل میں نے بھی نہیں پڑھی، آپ مقدمہ کے لیے کب تیار ہوں گے؟ حامد خان نے جواب دیا کہ پیر کو سماعت رکھ لیں۔

وکیل الیکشن کمیشن مخدوم علی خان نے کہا تھا کہ کل امیدواروں کو انتخابی نشان الاٹ ہونے ہیں، انتخابی نشان کی الاٹمنٹ کا آخری روز ہے، اس کے بعد بیلٹ پیپرز کی چھپائی ہونا ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا تھا کہ پیر تک سماعت ملتوی کرنے کے لیے ہائیکورٹ کا حکم معطل کرنا پڑے گا، ہم تو ہفتے اور اتوار کو بھی سماعت کے لیے تیار ہیں۔

وکیل حامد خان نے چیف جسٹس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس صورت میں تیاری کے لیے کل تک کا وقت دیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا تھا کہ پشاور ہائیکورٹ کا تفصیلی فیصلہ آگیا ہے؟ حامد خان نے کہا کہ نہیں تفصیلی فیصلہ نہیں آیا۔ ہم ابھی بحث کے لیے تیار نہیں، سوموار کو سماعت کرلیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم سوموار اور منگل کو کیس سننے کو تیار ہیں لیکن تب یہ صرف نصابی بحث رہ جائے گی، وکیل حامد خان نے کہا کہ ہفتے کو سماعت کرلیں۔

الیکشن کمیشن اپیل نہ کرے تو اسکے فیصلے بے معنی ہوجائیں گے
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا تھا کہ سیاسی جماعتوں کو ریگولیٹ کرنا اور شفاف انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، حامد خان نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے کہ کوئی ادارہ اپنے فیصلے کے دفاع میں اپیل نہیں کر سکتا، چیف جسٹس نے کہا تھا کہ کسٹم کلیکٹر بھی اپنے فیصلے کیخلاف ہائیکورٹ میں اپیلیں کرتے ہیں، قابل سماعت ہونے کا سوال تو پھر پی ٹی آئی کی ہائیکورٹ اپیل پر بھی آئے گا۔ الیکشن کمیشن اپیل نہ کرے تو اس کے فیصلے بے معنی ہوجائیں گے۔

وکیل حامد خان نے کہا تھا کہ متاثرہ فریق اپیل کر سکتا ہے الیکشن کمیشن نہیں، کیا ڈسٹرکٹ جج خود اپنا فیصلہ کالعدم ہونے کی خلاف اپیل کر سکتا ہے؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ ڈسٹرکٹ جج عدلیہ کے ماتحت ہوتا ہے الیکشن کمیشن الگ آئینی ادارہ ہے، کیا الیکشن کمیشن اپنے خلاف فیصلہ آنے پر سرینڈر کر دے؟

چیف جسٹس نے حامد خان سے مکالمہ کرتا ہوئے کہا تھا کہ اگرچہ میں آپ کے دلائل سے قائل نہیں ہوا لیکن آپ مجھے مزید دلائل سے قائل کرسکتے ہیں۔ حامد خان صاحب ایک آئینی ادارے کا قانونی ادارے سے تقابل نہ کریں۔ آپ نے جو 2 فیصلوں کا حوالہ دیا وہ قانونی اداروں کے حوالے سے ہے۔ حامد خان نے کہا تھا کہ عدالت نے مسابقتی کمیشن اور وفاقی محتسب کے کیسز میں اداروں کو اپنے فیصلوں کیخلاف اپیلوں سے روکا تھا۔

چیف جسٹس نے سوال کیا تھا کہ کیا آئینی اداروں پر ان فیصلوں کا اطلاق ہو سکتا ہے؟ چیف جسٹس نے کہا تھا کہ قانون اور آئین کے تحت قائم ادارے ایک جیسے نہیں ہوسکتے، آئین کے تحت بنا الیکشن کمیشن آئین کے مطابق ہی اختیارات استعمال کرے گا، کوئی ایسا فیصلہ دکھائیں جہاں آئینی اداروں کو اپیلوں سے روکا گیا ہو۔ وکیل حامد خان نے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن کا انحصار آئین نہیں الیکشن ایکٹ پر ہے، چیف جسٹس نے کہا تھا کہ آپ کی بات مان لی تو یہ آئینی ادارے کو ختم کرنے والی بات ہوگی۔

تحریک انصاف کے کل بانی ارکان کتنے تھے؟
چیف جسٹس نے استفسار کیا تھا کہ تحریک انصاف کے کل بانی ارکان کتنے تھے؟ حامد خان نےکہا تھا کہ بانی ارکان کی تعداد 8 سے 12 تھی، چیف جسٹس نے سوال کیا تھا کہ کیا آپ بھی بانی ارکان میں شامل تھے؟ حامد خان نے کہا کہ جی میں بھی بانی ارکان میں شامل تھا۔

وکیل حامد خان نے کہا تھا کہ اکبر ایس بابر تحریک انصاف کے فاونڈنگ ممبر ہیں، اکبر ایس بابر کی جانب سے انٹرا پارٹی انتخابات کے خلاف درخواست دائر کی گئی، چیف جسٹس نے استفسار کیا تھا کہ حامد خان صاحب آپ کیسے کہہ رہے ہیں کہ یہ ان کا پی ٹی آئی سے تعلق نہیں؟ جعلی الیکشن کا الزام ہے ہو سکتا ہے غلط ہو، پارٹی سے نکالنے کا کوئی نوٹیفیکیشن ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ میرے خیال سے تو فاؤنڈنگ ممبر کو تو نکالا ہی نہیں جا سکتا۔

الیکشن کمیشن کو پارٹی انتخابات کیخلاف درخواست کس نے دی تھی؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ کسی آئینی ادارے کا کام خود نہیں کریں گے، الیکشن کمیشن کے وکیل کو کیس کے حقائق سے آگاہ کرنے دیں، پارٹی الیکشن کمیشن کی تقرری کی دستاویز کہاں ہے؟ حامد خان نے کہا کہ عدالت باضابطہ نوٹس جاری کرتی تو آج دستاویزات بھی لے آتے، چیف جسٹس نے دوبارہ پوچھا کہ پی ٹی آئی خود ہائیکورٹ گئی تھی انہیں تو اپیل دائر ہونے پر حیران نہیں ہونا چاہیے تھا، الیکشن کمیشن سے کارروائی کا مکمل ریکارڈ منگوا لیتے ہیں، الیکشن کمیشن کو پارٹی انتخابات کیخلاف درخواست کس نے دی تھی؟

وکیل مخدوم علی خان نے کہا تھا کہ پی ٹی آئی کے ممبران نے پارٹی انتخابات چیلنج کیے تھے، اکبر ایس بابر کی جانب سے ایڈووکیٹ احمد حسن عدالت میں پیش ہوئے ہیں۔ حامد خان نے کہا تھا کہ شکایت کنندگان پی ٹی آئی کے ارکان نہیں تھے، جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا تھا کہ اکبر ایس بابر تحریک انصاف کے رکن کیسے ہیں؟ اکبر ایس بابر کے وکیل نے کہا تھا کہ پی ٹی آئی نے ہماری شکایت پر کوئی تحریری جواب نہیں دیا تھا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اکبر ایس بابر نے خود کو پی ٹی آئی کا بانی رکن لکھا ہے۔

اکبر ایس بابر اب پی ٹی آئی کے رکن نہیں ہیں، حامد خان جذباتی ہوگئے
حامد خان نے کہا تھا کہ پارٹی کا بیان کسی انفرادی شخص کے بیان پر فوقیت رکھتا ہے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جذباتی نہ ہوں، اکبر ایس بابر کے رکن نہ ہونے کی دستاویز دکھا دیں، حامد خان نے اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ اکبر ایس بابر بانی رکن تھے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا تھا کہ بانی رکن تو میرے حساب سے ختم نہیں ہوسکتا، اگر نکالا ہے تو لیٹر دکھا دیں۔

حامد خان نے کہا کہ بانی ارکان اور بعد میں آنے والوں میں فرق کرنا ہوگا، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ پی ٹی آٸی کے پارٹی الیکشن کیخلاف 14 شکایات ملی ہیں۔ چیف جسٹس نے سوال کیا تھا کہ یہ درخواستیں کس نے داٸر کیں؟ وکیل مخدوم علی نے کہا کہ درخواستیں دینے والے تحریک انصاف کے لوگ تھے۔

اکبر ایس بابر کے وکیل روسٹرم پر آگئے اور کہا تھا کہ ہماری درخواست کا کوئی جواب نہیں دیا گیا، اکبر ایس بابر فاؤنڈر ممبر پی ٹی آئی ہے، اکبر ایس بابر پارٹی میں مختلف عہدوں پر تعینات رہے، چیف جسٹس نے پوچھا تھا کہ پھر وہ پی ٹی آئی کے ممبر کیوں نہیں؟ کیا انٹرا پارٹی انتخابات بلا مقابلہ ہوئے تھے؟ وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ 3 پینل تھے 2 نے کاغذات واپس لے لیے۔

وکیل پی ٹی آئی نے کہا تھا کہ ہر آئینی ادارہ قانون کے تحت چلتا ہے اور الیکشن کمیشن الیکشن ایکٹ کے قانون کے مطابق چلتا ہے، چیف جسٹس نے کہا تھا کہ چلیں ہم نے آپ کے اعتراض کو نوٹ کرلیا ہے، آپ کے پاس اعتراضات کرنے کا بالکل حق موجود ہے۔

وکیل پی ٹی آئی نے کہا تھا کہ ہمیں کل ہی نوٹس ملا ہے ہم تیار نہیں ہیں، چیف جسٹس نے پوچھا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے سے ابھی تک یہ بات سمجھ آئی ہے کہ پارٹی نے اپنے ہی آئین کے تحت الیکشن نہیں کرایا، حامد خان صاحب، آپ دستاویزات داخل کرنا چاہتے ہیں ضرور کریں۔ آپ چاہتے ہیں کہ عدالت الیکشن کمیشن کا ریکارڈ منگوالے توہم وہ بھی منگوالیتے ہیں۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن کے کام میں سپریم کورٹ مداخلت نہیں کرے گی، ایک بار سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ بلدیاتی انتخابات کی تاریخ آگے کرنے لگے، میں نے جسٹس جواد ایس خواجہ سے کہا تھا میں اختلافی نوٹ لکھوں گا، میں نے واضح کہا تھا کہ انتخابات کروانا الیکشن کمیشن کا کام ہے، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے میری بات سے اتفاق کیا تھا، الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے، اس کے کام میں کوئی ادارہ مداخلت نہیں کرسکتا، اگرالیکشن کمیشن کوئی غیرآئینی کام کرے تو پھر معاملہ دیکھا جاسکتا ہے۔

وکیل احمد حسن نے اپنے دلائل میں کہا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ قرار دے چکی ہے کہ اکبر ایس بابر پی ٹی آئی کے رکن ہیں، چیف جسٹس نے سوال کیا تھا کہ کیا پی ٹی آئی کے انتخابات بلا مقابلہ ہوئے تھے؟ وکیل مخدوم علی نے کہا تھا کہ پہلے 3 پینل تھے پھر اعلان ہوا تھا کہ سب لوگ دستبردار ہوگئے اور انتخاب بلا مقابلہ ہوا تھا، چیف جسٹس نے کہا تھا کہ سیاست میں تو مقابلے ہوتے ہیں لوگ ٹکٹ کے لیے لڑائیاں کرتے ہیں، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ کسی عہدے پر کوئی مقابلہ نہیں ہوا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا تھا کہ نیاز اللہ نیازی کون ہیں کیا وہ عدالت آئے ہیں؟ نیاز اللہ نیازی عدالت میں پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے سوال کیا تھا آپ وکیل ہیں؟ سب کا بلا مقابلہ متفق ہونا کیا عجیب اتفاق نہیں؟ نیاز اللہ نیازی نے کہا تھا کہ تمام عہدیدار بلا مقابلہ منتخب ہوئے ہیں۔

کیس کی مزید سماعت آج بروز ہفتہ دن 10 بجے تک ملتوی کر دی گئی تھی۔