اسلام آباد(ٹی این ایس) پانچ فروری یوم یکجہتی کشمیر

 
0
154

 کشمیر میں بسنے والے کشمیریوں سے اظہارِ یکجہتی کا دن ” یوم یکجہتی کشمیر ” پانچ فروری کو منایا جاتا ہے۔ پانچ فروری یوم یکجہتی کشمیر منانے کا آغاز کب اور کیوں ہوا؟ یہ قصہ کافی دلچسپ ہے۔ عمومی طور پر قومی سطح پر منائے جانے والے دنوں کی کوئی تاریخی نسبت ہوتی ہے لیکن غالباً پانچ فروری ایک ایسا دن ہے جو قومی سطح پر منایا تو ضرور جاتا ہے لیکن اس دن کی کوئی خاص نسبت یا تاریخی حیثیت نہیں,یوم یکجہتی کشمیر منانے کا سلسلہ گذشتہ 33 سال سے بلا تعطل جاری ہے جس میں پاکستان اور دنیا کے کئی ممالک میں بسنے والے پاکستانیوں کی سیاسی اور مذہبی جماعتیں احتجاجی جلسے منعقد کرتی ہیں اور سرکاری سطح پر تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے۔ اس دن کو منانے کی شروعات کب اور کیسے ہوئی، کس شخصیت نے سب سے پہلے یہ تجویز پیش کی اور وہ کیا حالات تھے جو پانچ فروری 1990 کو یوم یکجہتی کشمیر منانے کا باعث بنے۔.اس دن کو منانے کا آغاز تقسیم کشمیر سے قبل ہی 1932 میں متحدہ پنجاب سے ہو گیا تھا تاہم یہ سلسلہ ٹوٹتا اور جڑتا رہا۔ پاکستان بننے کے بعد بھی کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کیا جاتا رہا تاہم اس کے لیے کوئی خاص دن مقرر نہیں تھا اور یہ سلسلہ بھی مسلسل نہیں رہا۔ شیخ عبداللہ اور اندرا گاندھی کے درمیان ہونے والے معاہدے کے وقت 1975 میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 28 فروری کوکشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کا دن منانے کا اعلان کیا۔ اس دور کی میڈیا رپورٹس بتاتی ہیں کہ یہ احتجاج اس قدر سخت تھا کہ پورا پاکستان بند ہو گیا اور لوگوں نے اپنے مویشیوں کو پانی تک نہیں پلایا۔ یہ دن منانے کی تجویز وزیر اعظم بھٹو کو دینے والوں میں جماعت اسلامی کی سربراہ قاضی حسین احمد کے علاوہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے اس وقت کے صدر سردار محمد ابراہیم خان پیش پیش تھے۔تاہم کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لیے ایک دن مخصوص کرنے کا مطالبہ 1990 میں قاضی حسین نے میاں نواز شریف کی مشاورت سے کیا اور اس کی فوری تائید وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی کی۔ یہ وہ وقت تھا جب بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلح تحریک اپنے ابتدائی مراحل میں تھی اور تنازع کشمیر کے سیاسی طور پر حل ہونے کے امکانات سے مایوس کشمیری نوجوان عسکری تحریک میں شامل ہو رہے تھے۔ ہلاکتوں اور ہجرتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ اسی دوران 29 تا 31 دسمبر 1988 جنوبی ایشیائی ممالک کی تنظیم سارک کا اجلاس اسلام آباد میں ہوا اور ہندوستان کے وزیر اعظم راجیو گاندھی اس اجلاس میں شرکت کے لیے پاکستان آئے۔ اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور محترمہ بے نظیر بھٹو ملک کی وزیر اعظم تھی۔ انہیں مشورہ دیا گیا کہ سارک اجلاس میں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بات نہ کی جائے اور یہ مشورہ مان بھی لیا گیا۔ نتیجتاً نہ صرف سارک اجلاس کے ایجنڈے سے کشمیر غائب ہو گیا بلکہ اسلام آباد میں پارلیمنٹ کی عمارت کے ساتھ ہی واقع پاکستان کے زیر انتظام کشمیرکے ملکیتی ’آزاد جموں وکشمیر ہاوس‘کا سائن بورڈ بھی اتار لیا گیا۔ جب تک اجلاس کے شرکا اور ان کے ساتھ آنے والے وفود اسلام آباد میں موجود رہے، یہ سائن بورڈ بھی غائب رہا۔سارک اجلاس کے دوران مشترکہ پریس بریفنگ میں بھی تنازع کشمیر کے حوالے سے پاکستان اور بھارت کی جانب سے کوئی بات نہ ہوئی البتہ ایک صحافی کے سوال پر راجیو گاندھی بولے کے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کوئی بے چینی نہیں، وہاں کے لوگ پانچ چھ بار انتخابات میں حصہ لے چکے ہیں اوروہ نظام سے مطمئن ہیں، وہاں کوئی آزادی کی تحریک نہیں ہے۔ راجیو گاندھی نے تو ان انتخابات کو کشمیر میں استصواب رائے یا ریفرنڈم کا متبادل قراردیا۔حیران کن طور پر محترمہ بے نظیر بھٹو نے صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ’اس معاملے میں ہمارا اپنا موقف ہے۔میاں نواز شریف اس وقت اسلامی جمہوری اتحاد کے سربراہ اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے۔ جماعت اسلامی اس اتحاد کا حصہ تھی اور اس کے سربراہ قاضی حسین احمد اور میاں نواز شریف کے درمیان گاڑھی چھنتی تھی۔ اسلامی جمہوری اتحاد قومی اسمبلی میں اپوزیشن میں تھا اور پنجاب کی صوبائی حکومت بھی اسی اتحاد کے پاس تھی۔ میاں نواز شریف اور قاضی حسین احمد نے اس معاملے پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔ آنے والے سالوں میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلح تحریک اپنے عروج کی طرف رواں تھی اور بھارت کی افواج اس تحریک کو کچلنے کے لیے طاقت کا کھل کر استعمال کر رہی تھیں۔ نتیجتاً بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کشمیری نوجوانوں کی ہلاکتیں روز کا معمول بن گئیں۔ ہزاروں کی تعداد میں نوجوان عسکری تنظیموں کاحصہ بن گئے۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد میں لوگ اسلحہ اور عسکری تربیت حاصل کرنے کے لیے لائن آف کنٹرول عبور کر کے پاکستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر آنے لگے۔ ان میں ہزاروں کی تعداد میں وہ خاندان بھی شامل تھے جو لائن آف کنٹرول کے قریبی علاقوں کے علاوہ کشمیر کے کئی شورش زدہ علاقوں سے ہجرت کر رہے تھے۔عسکریت پسندوں کی بھارتی فوج کے ساتھ چھڑپوں کے نتیجے میں فوج کی جانب سے آبادیوں پر ہونے والے کریک ڈاؤن میں خواتین اور بچوں سمیت ہر عمر کے لوگوں کی ہلاکت اور خواتین کے ریپ کی اطلاعات بین الاقومی میڈیا میں آنا شروع ہوئیں اور پاکستان میں سیاسی و مذہبی جماعتوں میں بے چینی پیدا ہونا شروع ہوئی۔ جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں نواز شریف کی مشاورت سے کشمیر میں مسلح عسکری تحریک کی حمایت کا اعلان کیا اور پانچ فروری 1990 کو یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر منانے کا اعلان کر دیا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کشمیر کے معاملے پر پہلے ہی اپوزیشن کے نشانے پر تھی لہٰذا وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے بغیر تاخیر اس اعلان کی تائید کی اور آنے والے سالوں میں پانچ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر منانے کے باقاعدہ سلسلہ شروع ہو گیا۔ تاہم اس دن کو سرکاری طور پر منانے کے آغاز 2004 میں ہوا جب اس وقت کے وزیر اعظم ظفر اللہ خان جمالی اور وزیر امور کشمیر و گلگلت بلتستان آفتاب احمد خان شیرپاو نے یہ دن سرکاری طور پر منانے کے اعلان کیا۔ پانچ فروری 2004 کو وزیر اعظم جمالی نے مظفرآباد میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی اور جموں وکشمیر کونسل کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا۔ تب سے یہ روایت چلی آ رہی ہے کہ ہر سال اسی دن یہ مشترکہ اجلاس منعقد ہوتا ہے اور وزیر اعظم پاکستان یا ان کا نامزد نمائندہ اس اجلاس میں ضرور شامل ہوتا ہے۔کشمیریوں کے اظہار یکجہتی کی تاریخ محض اتنی نہیں بلکہ اس کی جڑیں تاریخ میں بہت گہری ہیں۔ 1931 کا سال ریاست جموں و کشمیر کی تاریخ میں سیاسی اتھل پتھل اور مہاراجہ ہری سنگھ کی شخصی حکومت کے خلاف سیاسی تحریکوں کا سال تصور کیا جاتا ہے۔ اپریل کے مہینے میں جمعے کے خطبے کے موقع پر امام مسجد مصر کے حکمران فرعون کے بنی اسرائیل کے ساتھ رکھے گئے ناروا سلوک کے موضوع پر خطاب کر رہے تھے کہ پولیس نے انھیں خطبہ جاری رکھنے سے اس بہانے روک دیا کہ یہ موضوع عوام میں مہاراجہ کی حکومت کے خلاف بغاوت کے جذبات پیدا کر سکتا ہے۔ چند ہفتوں بعد جون میں جموں جیل اور اس کے چند روز بعد سرینگر میں توہین قرآن کے دو مبینہ واقعات یکے بعد دیگرے پیش آئے۔ ان دونوں مبینہ واقعات نے ریاست جموں و کشمیر کے مسلمانوں میں اضطراب کی لہر دوڑا دی۔ محقق رشید تاثیر لکھتے ہیں کہ سرینگر میں ان واقعات کے خلاف احتجاج کی ایک زبردست لہر اٹھی۔ شمال مشرقی سرحدی صوبے کا ایک نوجوان عبدالقدیر خان جو ایک انگریز سیاح کے ساتھ ان دنوں سرینگر میں مقیم تھا، اچانک ایک احتجاجی مظاہرے میں نمودار ہوا اور اس نے مہاراجہ کے محل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ احتجاج سے کچھ حاصل نہ ہو گا، ’اس محل کو آگ لگا دو۔ اسلحہ ہمارے پاس نہیں لیکن پتھر اور اینٹیں تو ہیں‘۔ احتجاجی مظاہروں میں عوام کی بڑے پیمانے پر شرکت کا ذکر کرتے ہوئے سرینگر کے ممتاز مصنف پریم ناتھ بزار لکھتے ہیں کہ احتجاج میں بھرپور عوامی شرکت کا سبب مہاراجہ کی انتظامیہ کا شہریوں کے ساتھ کیا جانے والا بدترین سلوک تھا۔ عبدالقدیر کی تقریر ایک بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوئی جس نے کشمیری سیاست کی جہت ہی بدل ڈالی۔ بغاوت پھیلانے کے جرم میں عبدالقدیر خان کو حراست میں لے لیا گیا۔ عبدالقدیر کی تقریر نے کشمیری مسلمانوں میں بیداری کی ایک ناقابل یقین لہر پیدا کی۔ سینکڑوں لوگ عبدالقدیر خان کی ایک جھلک دیکھنے عدالت کے باہر جمع ہو جاتے تھے۔ 13 جولائی 1931 کو بھی قدیر خان کے کیس پر بحث ہو رہی تھی کہ عوام کا ایک ہجوم امنڈ آیا۔ ایک نمایاں تعداد عدالت کے احاطے میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئی اور ایک بہت بڑی تعداد باہر رہ گئی۔ ظہر کی نماز کے وقت پولیس اور مظاہرین کے درمیان دھکم پیل شروع ہوئی جو جلد ہی فائرنگ میں بدل گئی۔ اکیس افراد موقع پر ہلاک ہوگئے جنھیں اکھٹے ایک ہی جگہ دفن کر دیا گیا۔ اس قبرستان کو ’مزار شہیدا‘ کہا جاتا ہے اور ہر سال ان شہدا کی برسی لائن آف کنٹرول کے دونوں حصوں میں نہایت عقیدت اور احترام کے ساتھ منائی جاتی ہے۔ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح انڈیا اور بالخصوص پنجاب میں پھیلی۔ امرتسر، لاہور، لکھنؤ اور دہلی سمیت کئی ایک شہروں میں مہاراجہ ہری سنگھ کی حکومت اور کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ علامہ محمد اقبال بھی اس احتجاج کی اپیل کرنے والوں میں شامل تھے۔ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا تو علامہ اقبال بھی اس کمیٹی کے رکن تھے اور بعد میں انھیں کمیٹی کا سربراہ بھی بنا دیا گیا۔ اگرچہ ہندو پریس نے اس کمیٹی کے قیام کی سخت مخالفت کی لیکن کمیٹی نے کشمیریوں کی مدد کے لیے عطیات جمع کیے اور قابل وکلا کی خدمات بھی حاصل کیں جن میں پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ سر ظفراللہ خان بھی شامل تھے۔سر ظفر اللہ خان نے سرینگر کی عدالتوں میں پیش ہو کر زیرحراست کشمیریوں کے مقدمات کی مفت پیروی کی۔گرچہ باہمی اختلافات کی وجہ سے کشمیر کمیٹی چند سال بعد غیر مؤثر ہو گئی لیکن ہر سال 14 اگست کو کشمیریوں کے اظہار یکجہتی کی روایت ڈال گئی۔ قیام پاکستان کے بعد بھی اگرچہ کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ اور سفارتی کوششوں کی حد تک محدود ہو گیا تھا لیکن پچاس کی دہائی میں پاکستان کے سیاستدانوں سابق وزیر اعظم چودھری محمد علی، جماعت اسلامی کے بانی امیر مولانا سید ابوالاعلی مودودی، نواب زادہ نصراللہ خان اور چودھری غلام عباس نے مشترکہ طور پر کشمیر کمیٹی قائم کی تاکہ حکومت اور عوام کو کشمیریوں کی حمایت کے لیے منظم اور سرگرم کیا جاسکے۔ فروری 1975 میں کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لیے ایک بار پھر ملک گیر ہڑتال ہوئی۔22 برسوں کی طویل سیاسی کشمکش کے بعد بالاخر شیخ عبداللہ نے انڈین حکومت کے ساتھ ایک معاہدہ، جسے ’اندرا، عبداللہ ایکارڈ‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، کر کے کانگریس کی مدد سے دوبارہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کا اقتدار حاصل کر لیا لیکن اس بار وہ وزیراعظم نہیں وزیراعلیٰ بننے پر راضی ہوئے۔ پاکستان اور اس کے زیر انتظام کشمیر میں اس معاہدے پر سخت ردعمل سامنے آیا۔ چنانچہ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اعلان کیا کہ فروری کے آخری جمعہ کو ایک پرامن ہڑتال کی جائے گی۔یہ ایک تاریخی اور غیر معمولی ہڑتال تھی۔ گلیوں میں ہُو کا عالم اور سڑکیں سنسان تھیں۔وزیراعظم ذولفقار علی بھٹو انڈیا کے زیر انتطام کشمیر میں بھی بہت مقبول تھے۔ اقوام متحدہ میں کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے وزیر خارجہ کے طور پرجوش انداز میں کی جانے والی تقریروں نے انھیں کشمیریوں میں بے پناہ مقبولیت عطا کی تھی۔بے نظیر بھٹو اور قاضی حسین احمد اور کو دنیا سے رخصت ہوئے کئی برس گزر چکے ہیں لیکن ہر سال پانچ فروری کو ان دونوں رہنماؤں کو یاد کیا جاتا ہے جنھوں نے کشمیریوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرنے کی اس انوکھی روایت کا آغاز کیا جو تمام تر سیاسی اُتار چڑھاؤ کے باوجود قائم و دائم ہے۔