اسلام آباد(ٹی این ایس) جنوبی پنجاب میں کم عمری کی شادی

 
0
164

 جنوبی پنجاب میں کم عمری کی شادی ایک پیچیدہ‘سنگین اور حساس مسئلہ ہے۔ اگرچہ وقت اور حالات کیساتھ ساتھ ایسی غیر فطری اور غیر قانونی شادیوں کی شرح میں میں کمی ہوئی ہے مگر اب بھی صورتحال تشویشناک ہے۔ جنوبی پنجاب کے طول و عرض میں کسی نہ کسی شکل میں ونی کی رسم آج بھی زندہ ہے والد،بھائی اور کسی خاندان کے مرد کے جرم کی سزا ایک بچی کو ملتی ہے جسے صلح کیلئے مقتول خاندان کے سامنے بطور دیت ڈال دیا جاتا ہے۔صدیوں سے یہ رسم جاری ہے جس کی بھینٹ ہزاروں بچیاں چڑھ چکی ہیں گزشتہ دس سال کے دوران تقریبا 931 شادیاں اس رسم کے طور پر سرانجام دی جا چکیں ہیں۔جنوبی پنجاب کے ان علاقوں میں قانون کی علمبردار صفر ہے قانون نافذ کرنے والے ادارے کچے کے ڈاکووں کی سرکوبی کرنے میں ناکام ہیں تو قانون قبائلی سرداروں کو کیسے قابو کرسکتا ہے کہ وہ اپنے علاقے میں کم عمری کی شادی نہ ہونے دیں۔ جبکہ پولیس ریکارڈ کے مطابق ایک بھی ایف آئی آر درج نہیں ہوسکی اگرچہ قوانین موجود ہیں مگر یہ قوانین نافذ بھی ہو۔اس حوالہ سے پالیسی بنانے اور اپنانے کی اشد ضرورت ہے۔ تعلیم، قانون اور سماج طاس کی جڑ صنفی عدم مساوات اور اس عقیدے میں ہے کہ لڑکیاں اور عورتیں لڑکوں اور مردوں سے کمتر ہیں۔ یہ غربت، تعلیم کی کمی، نقصان دہ سماجی اصولوں اور طریقوں اور عدم تحفظ کی وجہ سے بدتر بنا ہوا ہے۔ ونی کی رسم نہ صرف جنوبی پنجاب میں رائج ہے بلکہ مختلف ناموں سے یہ رسم صوبہ کے پی کے،سندھ اور بلوچستان میں بھی پوری مضبوطی کے ساتھ نافذ ہے۔کے پی کے میں ونی کو سوارہ کہا جاتا ہے جبکہ سندھ اور بلوچستان میں بھی اسی طرح کی رسمیں ہیں جن کے ذریعے دو خاندانوں میں صلح کی خاطر جرگہ یا پنچایت کے ذریعے بطور جرمانہ ہرجانہ لڑکیاں دی جاتی ہیں بعض اوقات تو کم سن لڑکیاں بڑی عمر کے لوگوں سے بیاہی جاتی ہیں اور اسی کو ونی کہا جاتا ہے۔ونی ایک روایت ہے قدیم زمانہ میں قبیلوں اور خاندانوں میں دشمنیوں اور قتل و غارت کو روکنے کے لیے جرگے اور پنچایت کا نظام رائج تھا اور اسی کے ذریعے اس طرح کے فیصلے کیے جاتے تھے عموماً قتل و اغوا کے فیصلوں میں دو خاندانوں کی رنجش ختم کرنے کے لیے اور دونوں خاندانوں میں بھائی چارہ قائم کرنے کے لیے لڑکیوں اور خاندانوں کی باقاعدہ رضا مندی سے یہ فیصلے ہوتے تھے تاکہ آیندہ اس طرح کے واقعات نہ ہوں۔ مغل بادشاہ جلال الدین اکبر نے دور شہنشاہیت میں ہندوؤں کی رسم ستی اور مسلمانوں کی رسم ونی یا سوارہ کے خاتمے کے لیے کوششیں کیں لیکن وہ مکمل طور پر کامیاب نہ ہو سکا۔ مغلوں کے بعد انگریزوں نے بھی اس کوختم کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ان فرسودہ رسومات کو ختم نہ کر سکے۔برصغیر پاک و ہند کے قبائل میں صدیوں سے ایسی انسانیت سوز روایات چلی آ رہی ہیں جنہیں بہت ممکن ہے کہ وہ لوگ بھی اچھا نہ سمجھتے ہوں، جو اس پر عمل پیرا ہیں، اس کے باوجود یہ رسمیں آج بھی ہمارے معاشرے میں نہ صرف رائج ہیں بلکہ تواتر کے ساتھ اس فرسودہ رسم کی وجہ سے معصوم بچیوں کی زندگی برباد ہونے کی دکھ بھری خبریں منظر عام پر آتی رہتی ہیں۔ونی یا سوارہ ملک کے مختلف قبائل میں رائج ایک ایسی رسم ہے جس میں کم عمر لڑکیاں بطور ہرجانہ تاوان یا دیت مخالف قبیلے کے عمر رسیدہ لوگوں سے بیاہ دی جاتی ہیں، یا یہ کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ غلام بنا کر حوالے کردی جاتی ہیں، تاکہ دونوں خاندانوں میں صلح ہو سکے، ونی یا سوارہ کی عمومی وجہ قتل کے نتیجہ میں ہونے والی صلح ہوتی ہے۔ جس کا شکار چار سال سے لے کر چودہ سال تک کی نوعمر لڑکیاں بنتی ہیں، ظلم کی انتہا یہ ہے کہ ان لڑکیوں کی شادی کسی عمر رسیدہ شخص سے کی جا رہی ہوتی ہے، جیسے کہ ایک دس سال کی لڑکی کی شادی ایک چوراسی 84 سال کے بوڑھے شخص سے کرا دی گئی ہے۔قدیم زمانے میں قبیلوں میں امن و امان قائم رکھنے کے لئے جرگہ یا پنچایت ہوا کرتی تھیں جنہیں ہم دیسی عدالتی نظام سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ جو ہمارے ہاں قبائل میں آج بھی موجود ہیں اور پوری طرح رائج و متحرک بھی ہیں۔ ان جرگوں اور پنچائتوں کے اپنے قاعدے قانون اور رسم و رواج ہوتے ہیں۔ ونی یا سوارہ بھی ان ہی میں سے ایک رسم ہے جو دو خاندانوں یا قبیلوں کے درمیان صلح کیلئے استعمال کی جاتی ہے، اس جیسی اور بہت سی رسمیں ہیں جیسے کاروکاری، ستی اور امتحان بے گناہی وغیرہ وغیرہ۔ونی کی رسم افسوسناک ترین پہلو انسانیت کی بدترین تذلیل ہے جو بنیادی انسانی حقوق کی بھی سراسر خلاف ورزی ہے۔ یعنی ایسی کم عمر مظلوم بچیوں کو دشمنوں کے حوالے کیا جانا جنہوں نے ابھی زندگی کی ابتداء بھی صحیح سے نہیں کی ہوتی، وہ پوری طرح مجبور و مظلوم اور بے یار و مددگار ہوتی ہیں کہ دشمن ان کے ساتھ جو سلوک چاہے روا رکھے۔ اپنے باپ یا بھائی کے گناہوں کی پاداش میں عمر بھر کی سزا بھگتنے کے لئے دشمنوں کے حوالے کی جا رہی ہوتی ہیں، اصل گناہگار کی زندگی پر کوئی خاص فرق نہیں پڑتا لیکن وہ بے گناہ جو کسی اور کے گناہ کی بھینٹ چڑھ گئی ہوتی ہے۔باقی ساری زندگی روز جیتی ہے اور روز مرتی ہے۔ یہاں تک کہ جانوروں سے بد تر زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی ہے۔ ہمارے دیہات اور قبائل کے ماحول سے سب ہی واقف ہیں، جس معاشرے میں عورت کی کوئی سماجی حیثیت ہی نہ ہو تو پھر ایک دشمن کی بیٹی کو کتنا سکون اور زندگی کی آسائش ملتی ہوگی۔ جبکہ وہ انتہائی کم عمری میں غیروں کی غلامی میں دیدی گئی ہو۔ یہ ایک سراسر غیر انسانی گھناؤنا فعل ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ ماضی قریب کی مثالیں موجود ہیں جن میں کئی کئی درجن بچیاں ونی کی گئیں۔ اور کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت وقت شہروں کے ساتھ ساتھ دیہاتوں اور قبائلی علاقوں میں رہنے والی عورتوں کی فلاح بہبود اور حقوق کی حفاظت کے لئے یقینی اقدامات کرے، ان عورتوں کو ان کے تمام جائز حقوق کی آگہی دی جائے بلکہ حقوق ادا بھی کیے جائیں انہیں بھی اپنی مرضی سے زندگی گزارنے شادی کرنے اور جیون ساتھی چننے کی آزادی ہونا چاہیے۔