اسلام آباد(ٹی این ایس) حکومت کا عوام دوست بجٹ بنانے کا فیصلہ؟

 
0
125

حکومت کا عوام دوست بجٹ بنانے کا فیصلہ؟.مہنگائی کم کرنے کے لیے حکومت نے آئندہ بجٹ کو عوام دوست بنانے کی تیاری کر لی ہے بلاشبہ مہنگائی کا عفریت پھنکار رہا ہے جس نے عوام کی زندگی اجیرن بناکر رکھ دی ہے ۔آئی ایم ایف کی موجودگی میں حکومت عوام دوست بجٹ دے پائے گی؟حکومت کے لیے منتظر بڑے چیلنجز میں معیشت سرفہرست ہے، کیا نئی حکومت عوام کو کوئی ریلیف دے سکے گی؟ مہنگائی کم کر سکے گی؟ عوام دوست بجٹ دے پائے گی؟ کون سے سخت فیصلے ہیں جو انھیں کرنے پڑیں گے؟ آئندہ مالی سال 25-2024 کے لیے وفاقی بجٹ اگلے ماہ 7 جون کو پیش کیے جانے کا امکان ہے جس میں 9300 ارب خسارے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔آئندہ مالی سال 25-2024 کے لیے وفاقی بجٹ اگلے ماہ 7 جون کو پیش کیے جانے کا امکان ہے جس میں 9300 ارب خسارے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔اطلاعات کے مطابق آئندہ مالی سال کے لیے وفاقی بجٹ اگلے ماہ 7 جون کو پیش کیے جانے کا امکان ہے۔ بجٹ میں وفاق کے اخراجات کا ابتدائی تخمینہ 16 ہزار 700 ارب روپے ہو سکتا ہے اور مالیاتی خسارہ 9300 ارب رہنے کا امکان ہے۔ بجٹ میں وفاق کے اخراجات کا ابتدائی تخمینہ 16 ہزار 700 ارب روپے ہو سکتا ہے جس میں سود اور قرضوں پر اخراجات کا تخمینہ 9 ہزار 700 ارب روپے لگایا گیا ہے۔ بجٹ میں سبسڈیز کا ابتدائی حجم 1500 ارب روپے ہو سکتا ہے۔ بجٹ میں ٹیکس آمدن کا ابتدائی تخمینہ 11 ہزار ارب روپے سے زائد ہوسکتا ہے جس میں ڈائریکٹ ٹیکسز کی مد میں 5300 ارب روپے جمع ہونے کا امکان ہے جب کہ 680 ارب روپے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں جمع ہونے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔ وفاقی بجٹ میں سیلز ٹیکس سے 3850 ارب روپے سے زائد، کسٹم ڈیوٹی مد میں 1100 ارب روپے سے زائد جمع ہونے کا امکان ہے جب کہ نان ٹیکس آمدن کا ابتدائی تخمینہ 2100 ارب روپے ہو سکتا ہے۔ بجٹ میں پٹرولیم لیوی مد میں 1100 ارب روپے جمع ہونے کا ابتدائی تخمینہ لگایا گیا ہے۔بجٹ میں وفاق کے اخراجات کا ابتدائی تخمینہ 16 ہزار 700 ارب روپے ہو سکتا ہے جس میں سود اور قرضوں پر اخراجات کا تخمینہ 9 ہزار 700 ارب روپے لگایا گیا ہے۔بجٹ میں سبسڈیز کا ابتدائی حجم 1500 ارب روپے ہو سکتا ہے۔بجٹ میں سبسڈیز کا ابتدائی حجم 1500 ارب روپے ہو سکتا ہے۔ پاکستانی حکام اور آئی ایم ایف کے درمیان آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ سے متعلق اعداد و شمار کا تبادلہ کیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف کو وفاقی بجٹ کے حجم، اخراجات، ترقیاتی بجٹ، محاصل اور سبسڈیز کی تفصیلات دی گئی ہیں۔ وفاقی بجٹ میں اخراجات کا ابتدائی تخمینہ 24 ہزار 710 ارب روپے لگایا گیا ہے جب کہ حکومت کے جاری اخراجات کے لیے 22 ہزار 37 ارب روپے کا تخمینہ ہے۔ بتایا گیا ہے کہ آئندہ مالی سال وفاقی ترقیاتی بجٹ کا حجم 2 ہزار 590 ارب روپے ہو گا، وفاقی ترقیاتی پروگرام 890 ارب روپے اور صوبائی ترقیاتی بجٹ ایک ہزار 700 ارب روپے کا ہوگا۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کی بنیاد پر ترقیاتی پروگرام کو آگے بڑھایا جائے گا، دفاع کے لیے 2 ہزار 152 ارب روپے مختص ہوں گے، سود اور قرضوں پر اخراجات کا ابتدائی تخمینہ 9 ہزار 787 ارب روپے ہے، 8 ہزار 517 ارب روپے مقامی اور ایک ہزار 158 ارب روپے غیر ملکی بیرونی قرض پر سود ہوگا۔ آئندہ وفاقی بجٹ میں سبسڈی کا حجم ایک ہزار 509 ارب روپے لگایا گیا ہے، توانائی کے شعبے کے لیے سبسڈیز کا ابتدائی حجم 800 ارب روپے تک ہے۔ بجٹ دستاویز میں بتایا گیا ہےکہ آئندہ مالی سال حکومت کی مجموعی آمدن کا تخمینہ 15 ہزار 424 ارب روپے ہے، آئندہ مالی سال ایف بی آر کے ٹیکس محاصل کا تخمینہ 11 ہزار 113 ارب روپے رکھا گیا ہے۔ بجٹ دستاویز کے مطابق براہِ راست ٹیکسوں کا حجم 5 ہزار 291 ارب روپے رکھے جانے کا امکان ہے، وفاقی ایکسائز ڈیوٹی 672 ارب روپے اور سیلز ٹیکس 3 ہزار 855 ارب روپے رکھنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے، کسٹمز ڈیوٹی کی مد میں ایک ہزار 296 ارب روپے وصولی کا تخمینہ لگایا گیا ہے جب کہ نان ٹیکس آمدن کا ابتدائی تخمینہ 2 ہزار 11ارب روپے تک لگایا گیا ہے۔ بجٹ میں پیٹرولیم لیوی کی مد میں 1080 ارب روپے کی آمدنی کا اندازہ لگایا گیا ہے، گیس انفرا اسٹرکچر ڈیولپمنٹ سر چارج کی مد میں 78 ارب روپے آمدن کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ آئندہ مالی سالکا وفاقی بجٹ 7 جون کو قومی اسمبلی میں پیش کیے جانے کا امکان ہے۔