اسلام آباد(ٹی این ایس) قدرتی آفات سے نمٹنا حکومت کی اولین ترجیح……………..؟

 
0
99

((اصغر علی مبارک) ) حکومت دستیاب مالی وسائل کے ذریعے موسمیاتی خطرات پر قابو پانے کیلئے پرعزم ہے,پاکستان نے دس سال کے دوران تاریخ کے دو بدترین سیلابوں کا سامنا کیا ہے مگراس تباہی کے باوجود سرکاری پلیٹ فارمز کے ذریعے موسمیاتی تبدیلی سے لاحق خطرات کے پیش نظر خاطر خواه پالیسی مرتب نہیں کی گئی۔ پاکستان نے اپنی پہلی قومی موسمیاتی تبدیلی پالیسی 2012 میں تیار کی تھی اور موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات، خاص طور پر انتہائی واقعات میں پاکستان کے اعلی خطرے کے پیش نظر، پالیسی کا بڑا فوکس موسمیاتی لچکدار ترقی اور موافقت پر تھا۔واضح رہے کہ 11 مئی کو سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو پاکستان کلائمیٹ چینج ایکٹ 2017 کے تحت پندرہ دن کے اندر اتھارٹی قائم کرنے اور موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے فنڈز کا قیام مکمل کرنے کا حکم دیا تھا۔21 مارچ کو ہونے والی سماعت میں، اٹارنی جنرل برائے پاکستان نے عدالت کو یقین دہانی کرائی تھی کہ ایکٹ کے تحت ایک ماہ کے اندر کونسل کا اجلاس منعقد کیا جائے گا جس میں اتھارٹی کے قیام کے ساتھ ساتھ فنڈ سے متعلق سوالات کو حل کیا جائے گا۔ بعد ازاں 17 مئی کو وزیراعظم شہباز شریف نے پاکستان موسمیاتی تبدیلی اتھارٹی کے قیام کی منظوری دی تھی۔ وزیراعظم کی جانب سے موسمیاتی تبدیلی اتھارٹی کے قیام کی منظوری پاکستان موسمیاتی تبدیلی ایکٹ 2017 کے تحت دی گئی تھی۔ 26 مئی کو وزارت موسمیاتی تبدیلی کی جانب سے موسمیاتی تبدیلی اتھارٹی کے قیام کے لیے اتھارٹی کے چیئرپرسن اور ممبران کی تقرری کے عمل کا آغاز کردیا گیا تھا پاکستان نے پیرس کلائمیٹ ایکارڈ 2015 کے بعدعالمی سطح پر اپنا حصہ ڈالنا قبول کیااور پاکستان نے اپنی پالیسی کو اپ ڈیٹ اور اس پر فوکس کیا تھا ۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات سے متاثر ہیں۔ ملک کے سماجی و اقتصادی حالات متوقع درجہ حرارت کے لیے اس کے خطرے کو مزید بڑھاتے ہیں۔
پاکستان کے ‘اربن فاریسٹ پروجیکٹ’، ‘کلین گرین پاکستان’ پروگرام کا مقصد پاکستان کے رقبے کے کم از کم 15 فیصد تک پھیلانا تھا ۔ مزید برآں پالیسی کا بڑا زور سہولت فراہم کرنے کے لیے ‘ایکو سسٹم ریسٹوریشن انیشیٹو پر تھا ۔ماحولیاتی طور پر اہدافی اقدامات کے ذریعے پالیسی میں مختلف شعبوں کے ماحولیاتی تبدیلیوں کے خطرات کو اجاگر کیا گیا تھا یہ مختلف شعبوں جیسے پانی، زراعت، جنگلات، ساحلی علاقوں، حیاتیاتی تنوع اور دیگر کمزور ماحولیاتی نظام کے مسائل کو حل کرنے کے لیے پالیسی اقدامات کا احاطہ کرتے تھے ۔
اس حقیقت کے باوجود کہ عالمی گرین ہاؤس گیس کے اخراج میں پاکستان کا حصہ بہت کم ہے ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے میں عالمی برادری کے ایک ذمہ دار رکن کے طور پر اس کے کردار کو نمایاں کیا گیا پاکستان کا عالمی کاربن اخراج میں حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے لیکن ہم موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں آنے والی آفات کے نشانے پر ہیں۔موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں صرف عالمی تپش میں اضافہ نہیں ہورہا بلکہ اس کے باعث کئی خطوں میں تیز اور بے موسم بارشیں، ریکارڈ برف باری، ہوا میں نمی کا تناسب بڑھنا یا گھٹنا، زیادہ سردی یا زیادہ گرمی کا ہونا شامل ہے، یعنی کہ ہم انسانوں نے قدرتی نظام کو تلپٹ کر ڈالا ہے اور اب ہم اس کے نتائج بھگت رہے ہیں، جیسا کہموسمیاتی تبدیلی کی بنیادی وجہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں اضافہ ہے، انسانوں کی جانب سے ایسی سرگرمیوں میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے جس سے زمین کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے، جب سے تیل، گیس اور کوئلے کے استعمال کا آغاز ہوا ہے دنیا کا مجموعی درجہ حرارت تقریباً 1.2 ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ گیا ہے، یہ ایندھن گاڑیاں چلانے، کھانا پکانے، گھروں کو گرم رکھنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ جنگلات کو بے دریغ ختم کرنے سے بھی گلوبل وارمنگ یا عالمی تپش میں اضافہ ہوا ہے مزید برآں آفات کی تیاری، استعداد کار میں اضافے، ادارہ جاتی مضبوطی سے متعلق مناسب اقدامات, ٹیکنالوجی کی منتقلی اور بین الاقوامی تعاون کو بھی پالیسی کے اہم اجزاء کے طور پر شامل کیا گیا عالمی سائنسی جریدے بایو سائنس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سال 2023کے تین ماہ یعنی جون، جولائی اور اگست ریکارڈ گرم ترین تھے جو تقریباً ایک لاکھ 20 ہزار برسوں میں سب سے زیادہ گرم تھے۔ مذکورہ رپورٹ میں سائنس دانوں نے دنیا کو خبردار کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی زمین پر زندگی کے وجود کے لیے خطرہ بن رہی ہے۔یہ خطرے کی بات ہے کہ پاکستان میں سات ہزار سے زیادہ گلیشیئرز موجود ہیں جبکہ ہمالیہ اور ہندو کش پہاڑی سلسلے میں گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کے علاقوں میں لگ بھگ تین ہزار گلیشئل لیکس بن گئی ہیں۔ یعنی یہ نہریں گلیشیئرز کے پگھلنے کے باعث بنی ہیں۔ ان تین ہزار میں سے تین درجن کے قریب ایسی نہریں ہیں جو کسی بھی وقت سیلاب کی صورت اختیار کر سکتی ہیں موسمیاتی تبدیلی کو روکا تو نہیں جاسکتا مگر اس کے آگے بند ضرور باندھا جاسکتا ہے حکومتوں اور سائنس دانوں کی جانب سے کیے جانے والے مختلف اقدامات تو ایک طرف مگر ایک عام آدمی بھی موسمیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات کو کم سے کم کرنے میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہےموسمیاتی تبدیلی کے بارے میں وزیر اعظم کی کوآرڈی نیٹر رومینہ خورشید عالم کا کہنا ہے کہ حکومت نے موسمیاتی خطرات سے نمٹنے کی صلاحیت کو قومی سطح پر مربوط بنانے کے لئے مختلف پالیسیاں شروع کی ہیں۔ اسلام آباد میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارا موافقت کا قومی منصوبہ موسمیاتی تبدیلی کی پالیسی اور آبی پالیسی موسمیاتی خطرات سے نمٹنے کیلئے رہنما اصول فراہم کرتی ہے۔موسمیاتی آفات کے باعث پاکستان کو ہونے والے نقصانات کا ذکر کرتے ہوئے رومینہ خورشید عالم نے کہا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے دوچار ممالک میں سے ایک ہے۔انہوں نے موسمیاتی تبدیلی کے خلاف استعداد بڑھانے کے لئے موسمیاتی اور قدرتی آفات کے خطرات سے نمٹنے کے لئے مالی اعانت کی فوری ضرورت کو اجاگر کیا رومینہ خورشید عالم نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے مختلف آفات خاص طور پر سیلاب اور گرمی کی شدت اب پاکستان میں بڑے پیمانے پر سماجی و اقتصادی نقصانات کی ایک بڑی وجہ ہیں، حکومت بار بار آنے والی اور شدت سے پیدا ہونے والی آفات کے خلاف ملک کی ریزیلینس کو بڑھانے کیلئے تمام تر پالیسی اقدامات کر رہی ہے۔موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے خلاف پاکستان کی ڈھال کو مضبوط بنانے کے حوالے سے اجلاس میں رومینہ خورشید عالم نے کہا کہ خراب معاشی حالات کے باوجود حکومت ملک میں دستیاب مالی وسائل کے ذریعے ماحولیاتی اور موسمیاتی خطرات پر قابو پانے کیلئے پرعزم ہے۔انہوں نے کہاکہ موسمیاتی تبدیلی پاکستان پر نمایاں طور پر اثر انداز ہوتی ہے اور یہ زندگی اور ماحولیات کے مختلف پہلوؤں کو متاثر کرتی ہے، موسمیاتی موافقت کی تعمیر کے ساتھ ساتھ لوگوں اور ماحولیات کے علاوہ معاش کے تحفظ کیلئے آفات سے نمٹنے کیلئے تیاریوں کو بہتر بنانے پر توجہ دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ دوسری طرف امریکن بزنس کونسل آف پاکستان کی جانب سے سالانہ ماحولیاتی، سماجی، اور گورننس (ای ایس جی) ایواڈز کی تقریب سے خطاب کرتےہوئے وزیر اعظم کی کوآرڈی نیٹرنے کہا ملک میں مقامی طورامریکی کاروباری اداروں کی جانب سے ماحولیاتی تغیرات کے خاتمے کو سنجیدگی سے لینا خوش آئند ہے۔ تقریب میں 100 سے زیادہ نمایاں ملٹی نیشنل سی ای اوز، بزنس لیڈرز، سرکاری افسران اور ماحولیاتی ماہرین بشمول بروک ڈی مونٹلوزین، اکنامک کونسلر اور یو ایس ایمبیسی نے شرکت کی، جن میں اے بی سی کی ملیحہ فاروق اسماعیل، اے بی سی کی سیکرٹری جنرل عائشہ سروری، یو ایس ایڈ کی سینئر پارٹنرشپ ایڈوائزر کنول بخارےکے علاوہ سسٹمز لمیٹڈ ،پراکٹر اینڈ گیمبل پاکستان، مونڈیلیز پاکستان، میک ڈونلڈز ، فلپ مورس اور اے بی سی کی ایگزیکٹو کمیٹی اور جنرل باڈی کے ارکان نے شرکت کی انہوں نے ایوارڈز تقسیم کیے اور جیتنے والوں کو مبارکباد دی۔امریکن بزنس کونسل کی جانب سے منعقد ہونے والا دوسرا ای ایس جی ایکسی لینس ایوارڈز کمپنیوں کے لیے خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ ایوارڈزکا مقصد ایسے کاروباروں کو خراج تحسین پیش کرنا ہے جنہوں نے پائیداری اور سماجی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس موقع پر پاکستان اور امریکا کے درمیان دیرینہ شراکت داری پر روشنی ڈالتے ہوئے بروک ڈی مونٹلوزین نے کہاپاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ امریکا طویل عرصے سے پاکستان کی سب سے بڑی برآمدی منڈی رہا ہے، جس نے صرف 2021 میں 5 بلین ڈالر سے زیادہ کا پاکستانی سامان درآمد کیا، جو کسی بھی دوسرے ملک سے کہیں زیادہ ہے۔سینیٹر شیری رحمان نے اپنے خطاب میں پانی کی ذمہ داری، افرادی قوت میں صنفی شمولیت اور پائیدار ترقی کے لیے اختراعی حل کی اہمیت پر زور دیا تاکہ پاکستان مزید سازگار اور ترقی پر مبنی کاروباری ماحول فراہم کرے گا۔ انہوں نے کہاکہ نجی شعبہ اس وقت سب سے زیادہ موثر ہوتا ہے جب وہ حکومت کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے۔ آب و ہوا ایک قومی سلامتی کا موضوع ہے اور اس پر بات چیت جاری رہنی چاہیے۔تقریب میں ریچارج پاکستان، جو کہ پاکستان کے موسمیاتی موافقت اور تخفیف کے منصوبے میں سب سے بڑی سرمایہ کاری میں سے ایک ہے، کے کردار پر بھی روشنی ڈالی گئی۔ ریچارج گرین کلائمیٹ فنڈ اور حکومت پاکستان کے درمیان 77.8 ملین ڈالر کی شراکت داری ہے جس میں کوکا کولا فاؤنڈیشن، یوایس ایڈ اور ڈبلیو ڈبلیوایف پاکستان سمیت دیگر شراکت داروں سے 12 ملین ڈالر کی اضافی سرمایہ کاری اور تکنیکی تعاون شامل ہے۔ تیزی سے پائیداری اور ذمہ دار کاروباری طریقوں پر مرکوز ہونے والی دنیا میں ماحولیاتی، سماجی، اور گورننس (ESG) کے تصور نے نمایاں توجہ حاصل کی ہے۔ سالانہ اے بی سی ای ایس جی ایوارڈز نے پاکستان میں اس عالمی معیار کو متعارف کرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔وزیر اعظم کی کوآرڈینیٹر برائے موسمیاتی تبدیلی رومینہ خورشید عالم نے کہا ہے کہ جنگلات کے موثر تحفظ اور انتظام کے لیے درخت لگانے میں کمیونٹیز کو شامل کرنا ناگزیر ہے۔ جمعرات کو موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی رابطہ کی وزارت سے یہاں جاری بیان کے مطابق انہوں نے کہا کہ مقامی کمیونٹیز اکثر روایتی علم اور طرز عمل رکھتے ہیں جو جنگلات کے پائیدار انتظام میں حصہ ڈالتے ہیں، اس لیے وہ جنگلات کے تحفظ، قدرتی وسائل کے انتظام اور حیاتیاتی تنوع کے تحفظ میں موثر کردار ادا کرسکتے ہیں۔ رومینہ خورشید عالم نے کہا ہے کہ بہت سے ایشیائی ممالک میں کمیونٹی پر مبنی جنگلات کے انتظام کے طریقوں نے یہ ظاہر کیا ہے کہ جب کمیونٹیز وسائل کی معلومات اور ملکیت کے ساتھ مضبوط ہوتی ہیں تو وہ جنگلات کے فرنٹ لائن محافظوں کے طور پر کام کرتی ہیں ، اس کے علاوہ وہ غیر قانونی سرگرمیوں کی نگرانی اور رپورٹ کرنے میں بھی مدد کرسکتے ہیں اور جنگلات کے تحفظ کی وکالت کرسکتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی کوآرڈینیشن کی وزارت نے آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کے ساتھ ساتھ ملک میں درختوں کے احاطہ کو بڑھانے کے لیے صوبوں میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تعاون سے درخت لگانے کی ایک پرجوش مہم شروع کی ہے۔وزیر اعظم کی موسمیاتی تبدیلی کی کوآرڈینیٹر نے کہا کہ شراکت داری کا مقصد بی آئی ایس پی کی مالی امداد سے مستفید ہونے والوں کے بڑے پیمانے پر ملک گیر نیٹ ورک کو استعمال کرنا اور انہیں ملک بھر میں درخت لگانے کی مختلف سرگرمیوں میں شامل کرنا ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ درخت لگانے کی سرگرمیوں میں بی آئی ایس پی سے مستفید ہونے والوں کی اتنے بڑے پیمانے پر شمولیت سے ماحولیاتی ذمہ داری کو فروغ دینے اور پاکستان کو سرسبز بنانے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ خواتین استفادہ کنندگان اور ان کے اہل خانہ کی ایک بڑی تعدادنے پلانٹ فار پاکستان ڈے کے موقع پر شجرکاری کی مختلف سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔یاد رہے کہ گزشتہ کئی سالوں کے دوران کلائمیٹ چینج (موسمیاتی تبدیلی) کے حوالے سے ملک اور بیرون ملک کافی کانفرنسز اور سیمینارز ہوچکے اور یہ سلسلہ جاری ہےحال ہی میں سبز معیشت کے لیے صنفی بااختیار بنانے پر علاقائی پارلیمانی اراکین کی کانفرنس ہو ئی ,گرین اکانومی کے لیے صنفی بااختیار بنانے پر علاقائی پارلیمانی کانفرنس میں کوئی ٹھوس کوششیں نظر نہیں آئیں لیکن چند منتخب افراد کو ڈیجیٹل پوڈ کاسٹ پر دیکھا گیا اگرچہ یہ تین دن کی کانفرنس تھی لیکن چند گھنٹوں کے بعدہی ختم ہو گئی۔ عملی طور پر صرف پہلا سیشن معلوماتی تھا جس میں اہم مقررین نے اپنی تقریریں کیں اس کے بعد ہال خالی تھا اور کوئی نہیں جانتا کہ کیا ہو رہا ہے بدانتظامی سرفہرست تھی۔۔ ہمارے ہاں ملکی میڈیا پر بھی موسمیاتی تبدیلی سے متعلق آگہی فراہم کی جاتی ہے، مگر موسمیاتی تغیرات جس تیزی سے تباہی پھیلارہے ہیں، پاکستان اس کے آگے بند باندھنے کے لیے مکمل طور پر تیار نہیں۔