اسلام آباد(ٹی این ایس) پاک روس تعلقات درست سمت میں گامزن

 
0
69

(..اصغر علی مبارک…)روس اور پاکستان کے سفارتی تعلقات مئی 1948ء کو قائم ہوئے تھے، جب پاکستان نے سوویت یونین کے ساتھ سفارتی تعلقات کا آغاز کیا۔ ان تعلقات نے وقت کے ساتھ مختلف مراحل طے کیے ہیں، روس اور پاکستان کے تعلقات میں بعض چیلنجز بھی موجود ہیں، جن میں علاقائی سیاست اور عالمی سطح پر ابھرتے ہوئے مسائل شامل ہیں۔ تاہم، دونوں ممالک نے سفارتی مذاکرات کے ذریعے ان چیلنجز کا سامنا کرنے کی کوشش کی ہے اور اپنے تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں صدر مملکت آصف علی زرداری نے روسی نائب وزیراعظم الیکسی اوورچوک سے ملاقات کے موقع پر کہا کہ پاکستان اور روس کے مابین روابط بڑھانے اور بارٹر ٹریڈ پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ایوانِ صدر سے جاری بیان کے مطابق صدر آصف علی زرداری سے روس کے نائب وزیر اعظم الیکسی اوورچوک نے وفد کے ہمراہ ملاقات کی اور ملاقات میں پاکستان اور روس کا تجارتی اور اقتصادی تعاون، علاقائی روابط بڑھانے اور دوطرفہ تعلقات مضبوط بنانے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے اجلاس میں دونوں ممالک کا علاقائی روابط، تجارتی اور اقتصادی تعلقات بڑھانے کے عزم کا اعادہ کیا گیا اور دونوں ممالک نے زراعت، تحفظ خوراک، کاروبار، تعلیم، ریلوے، سائنس اور ٹیکنالوجی، عوامی روابط جیسے اہم شعبوں میں باہمی سودمند تعاون کو فروغ دینے پر زور دیا۔ صدر مملکت آصف علی زرداری نے ملاقات کے دوران کہا کہ پاکستان اور روس کے مابین روابط بڑھانے، بارٹر ٹریڈ پر غور کرنے کی ضرورت ہے، دونوں ممالک کے عوام اور کاروباری اداروں کے مابین روابط بڑھانا ہوں گے۔ ویزا قواعد میں نرمی، ریلوے اور براہ راست پروازوں سے پاک-روس روابط بڑھائے جا سکتے ہیں۔ ایوان صدر کے اعلامیے کے مطابق ملاقات میں زراعت کے شعبے میں دوطرفہ تعاون بڑھانے پر بھی بات چیت کی گئی اور کہا گیا کہ زرعی شعبے میں پاکستان اور روس کے مابین مشترکہ منصوبے شروع کرنے کے وسیع امکانات موجود ہیں۔ تجارتی اور اقتصادی تعاون بڑھانے کے لیے پاکستان کا 75 رکنی تجارتی وفد اکتوبر میں روس کا دورہ کرے گا۔ روسی نائب وزیراعظم الیکسی اوورچوک کا کہنا تھا کہ روس پاکستان کے ساتھ غذائی تحفظ،سائنس اور ٹیکنالوجی، تعلیم، روابط اور ریلوے کے شعبوں میں تعاون بہتر بنانے کا خواہاں ہے۔ اکتوبر میں روسی وزیراعظم کے دورہ پاکستان سے دوطرفہ تعلقات مزید مضبوط ہوں گے، روس تمام مذاہب اور مسلم ثقافت کا بے پناہ احترام کرتا ہے اور روس نے قرآن پاک کی بے حرمتی کی مذمت کی۔1950ء کی دہائی میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مزید خراب ہوئے جب پاکستان نے امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کیے اور سیٹو اور سینٹو جیسے معاہدوں کا حصہ بنا۔ اس دوران سوویت یونین نے بھارت کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کیے سوویت یونین کے خاتمے کے بعد، روس اور پاکستان کے تعلقات میں نمایاں بہتری آئی۔ 1990ء کی دہائی میں دونوں ممالک نے تعلقات کو نئے سرے سے ترتیب دیا اور اقتصادی و تجارتی شعبوں میں تعاون کو فروغ دیا۔ 2000ء کی دہائی میں دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون بھی بڑھا، جس میں روس کی طرف سے پاکستان کو ہتھیاروں کی فروخت شامل تھی حال ہی میں، روس اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں مزید بہتری آئی ہے۔ دونوں ممالک نے توانائی کے شعبے میں بھی تعاون کو فروغ دیا ہے، جس میں شمال-جنوب گیس پائپ لائن منصوبہ شامل ہے۔ اس کے علاوہ دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ فوجی مشقیں بھی منعقد ہو چکی ہیں، جو کہ ان کے بڑھتے ہوئے دفاعی تعاون کا ثبوت ہیں آج کل دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں نمایاں بہتری آئی ہے اور مختلف شعبوں میں تعاون بڑھ رہا ہے پاک روس تعلقات درست سمت میں گامزن ہیں،روسی نائب وزیراعظم الیکسی اوورچک کی قیادت میں روسی وفد ایک اسسمنٹ مشن ہے جو ماسکو میں اعلیٰ سطح پر اپنی رپورٹ پیش کرے گا، اس دورہ کے بعد دونوں ممالک آگے بڑھیں گے۔پاکستان روس متعدد شعبوں میں تعاون کے لیے مفاہمت نامے پر دستخط کیے ہیں۔ توانائی میں تعاون آگے بڑھے گا‘ باہمی دلچسبی کے امور جس میں تجارت، معیشت پر بات چیت کی گئی ہے اور توانائی میں شعبوں میں تعاون کو بھی آگے بڑھایا جائے گا۔روس کے نائب وزیراعظم الیکسی ورچوک نے کہا کہ تجارت، معیشت اور کلچرل تعلقات مضبوط کریں گے، تفصیلی بات چیت ہوئی ہے کہ روس پاکستان کی معیشت میں کیسے مدد کر سکتا ہے۔ بزنس اور عوامی رابطوں پر بھی بات چیت کی گئی ہے، روس کے وزیراعظم کی ایس سی او میں شرکت متوقع ہے۔ روسی نائب وزیراعظم کا کہنا تھا کہ روس رواں برس برکس کی میزبانی کر رہا ہے، ہمیں خوشی ہے کہ پاکستان برکس کی رکنیت کے لیے اپلائی کیا ہے، ہمارے پاکستان سے اچھے تعلقات ہیں اتفاق رائے سے پاکستان رکن بن سکتا ہے۔اسلام آباد میں نائب وزرائے اعظم پاکستان اور روس نے مشترکہ پریس کانفرنس کی، اس موقع پر اسحاق ڈار نے کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے لیے پاکستان روس کا مشکور ہے۔ افغانستان کے معاملے میں بھی پاکستان اور روس کا تعاون جاری ہے، پاکستان اور روس کے تعلقات درست سمت میں جا رہے ہیں پاکستان نے بھی برکس کی رکنیت کے لیے اپلائی کیا ہے اور ہم اس کی حمایت کرتے ییں۔ نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ برکس کی رکنیت کے لیے ایک طریقہ کار ہے، طریقہ کار کے تحت ہی پاکستان برکس کی رکنیت کے لیے اپلائی کر رہا ہے، تمام رکن ممالک کی اتفاق رائے سے ہی حمایت ملتی ہے الیکسی اوورچک نے کہا ہے کہ روس سے تعلقات کیلئَے پاکستان کو مغربی دباو مسترد کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ وہ نئی دہلی کی طرح جرات مند اور اگر ماسکو کے ساتھ اقتصادی تعلقات بڑھانا چاہتا ہے تو مغرب کے دباؤ کا مقابلہ کرے۔پاکستانی وفد رواں ماہ کے آخر میں وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی احسن اقبال کی قیادت میں ماسکو کا دورہ کرنے والا ہے جس میں مختلف شعبوں میں دوطرفہ تعاون بڑھانے کے طریقوں اور ذرائع پر بات چیت کی جائے گی۔ ابتدائی طور پر وزرا کے وفود بھیجنے کی تجویز تھی تاہم اب حکومت نے وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال اور اعلیٰ حکام پر مشتمل وفد بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان میں وفاقی سیکرٹری کے برابر رینک والے روسی نائب وزراء نے پاکستانی وزرا سے ملاقاتیں کیں اور اقتصادی تعلقات کو فروغ دینے کے طریقہ کار پر تبادلہ خیال کیا۔ ملاقاتوں میں دونوں جانب سے اقتصاد کی مضبوطی کیلئے مختلف آپشنز پر تبادلہ خیال کیا گیا، اس دوران دونوں جانب سے کہا گیا کہ زمینی راستے سے تجارت کیسے کی جا سکتی ہے جبکہ اس وقت تجارت کے لیے افغانستان اور ایران ہی دو راستے ہیں۔
روس نے پاکستان کو دو طرفہ تجارت کے لیے مقامی یا تھرڈ پارٹی کرنسیوں (چینی آر ایم بی یا یو اے ای درہم) اور روسی بینکنگ میسجنگ سسٹم استعمال کرنے کی تجویز دی ہے تاکہ دوسرے ممالک کے دباؤ سے بچا جا سکے۔
یہ تجاویز روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے رواں برس جولائی میں آستانہ میں ایس سی او سربراہی اجلاس کے موقع پر پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف کو دی تھی۔ روسی نائب وزیراعظم الیکسی اوورچک نے کہا ہے کہ روس سے تعلقات کیلئَے پاکستان کو مغربی دباو مسترد کرنا ہوگا۔ قیام پاکستان کے بعد اگرچہ پاکستان کے وزیر خارجہ ظفراللہ خان اپریل 1948 میں روسی وزیر خارجہ سے سفارتی تعلقات کے قیام سے متعلق ملاقات کر چکے تھے تاہم ایسا ہونے میں سات ماہ کا عرصہ لگا۔دوسری جانب پاکستانی حکمرانوں کی خواہش تھی کہ وہ امریکہ کے کیمپ میں ہو لیکن جب مئی 1949 میں انڈیا کے وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے آئندہ برس امریکہ کے دورے کا اعلان کیا تو پاکستان کو سخت مایوسی ہوئی۔کچھ ہی عرصے بعد پاکستان کی جانب سے لیاقت علی خان کے دورہ ماسکو کا اعلان ہوا۔ اگر یہ دورہ ہو جاتا تو لیاقت علی خان ایک کامنز ویلتھ ملک کے پہلے وزیراعظم ہوتے جو سوویت یونین کے کیمپ میں جاتے۔تاہم یہ دورہ نہ ہو سکا اور اس کی بجائے یہ خبر آ گئی کہ لیاقت علی خان مئی 1950 میں امریکہ جائیں گے سوویت یونین کی بجائے امریکہ کا انتخاب کرنے کی بنیادی وجہ معاشی امداد بیان کی گئی تھی۔ پاکستان کو خدشہ تھا کہ ایک نیا ملک ہونے کے ناطے پاکستان کی معیشت اور دفاع کو مضبوط کرنے کے لیے جو معاشی مدد چاہیے وہ سوویت یونین فراہم نہیں کر سکے گا۔ مگر اس کی ایک توجیہہ یہ بھی دی گئی تھی کہ سوویت معاشرہ مارکسزم اور ایتھیسٹ (خدا کو نہ ماننے والے) نظریات کا حامل ہے جو مذہب اسلام کے منافی ہے۔لیاقت علی خان کا امریکہ کا دورہ سرد جنگ میں پاکستان کا امریکی کیمپ میں داخل ہونے کا واضح پیغام تھااس دوران 1950 میں مشہور راولپنڈی سازش کیس بھی ہوا جب کمیونسٹ خیالات کے حامل جنرل نے لیاقت علی خان کی حکومت کے خلاف ناکام فوجی بغاوت کی۔ سرد جنگ میں انڈیا نان الائنمنٹ موومنٹ کا حصہ بنا اور غیر جانبداری کی پالیسی اپنائی مگر پاکستان سیٹو اور سینٹو جیسے اتحاد کا حصہ بنا جو سوویت یونین سے پھیلنے والے کمیونزم کو روکنے کے لیے بنائے گئے تھے۔ یوں پاکستان امریکہ کا اعلانیہ اتحادی بن گیا۔روس اور پاکستان کے تعلقات میں کچھ بحالی حسین شہید سہروردی کے دور میں ہوئی۔ اس دوران پاکستان میں سوویت فلموں کی نمائش، ثقافتی وفود کے دورے اور صنعت و زراعت میں بہتری کے حوالے سے ہونے والے دوروں سے حالات کچھ بہتر ہوئی۔ 1956 میں امریکی صدر نے حسین شہید سہروردی کی حکومت سے پشاور کے قریب خفیہ انٹیلیجنس سینٹر کے قیام کے لیے پشاور ایئر سٹیشن کی سہولت حاصل کر لی اور پھر 1960 میں جب صدر ایوب نے امریکی جاسوسی طیارے کو پروازوں کی اجازت دی تو اسی سال مئی میں پشاور ایئر فیلڈ سے اُڑان بھرنے والے سی آئی اے کے جاسوس طیارے یو ٹو کو سوویت ایئر ڈیفنس نے مار گرایا۔جہاز کے پائلٹ کو گرفتار کر لیا گیا اور طیارے کی باقیات سے سوویت انسٹالیشنز کی تصاویر برآمد کر لی گئیں۔یہ وہ دن تھا جب سوویت وزیر اعظم نے پاکستان کو ’آگ سے نہ کھیلنے‘ کی دھمکی دی اور کہا کہ پشاور کو میزائلوں سے تباہ کر دیا جائے گا۔کتاب ’ڈسنچانٹڈ ایلائز‘ کے مطابق نکیتا خروشچیف نے یوٹو واقعے کے بعد ماسکو میں ایک اجلاس کے دوران کہا تھا کہ ’ہم ان ملکوں کو متنبہ کرتے ہیں جو اپنی سرزمین سوویت مخالف مقاصد کے لیے استعمال ہونے دیتے ہیں۔‘’آگ سے مت کھیلیں! ترکی، پاکستان اور ناروے کی حکومتوں کو واضح طور پر معلوم ہونا چاہیے کہ وہ اس لڑائی میں شریک ہیں۔‘ 1962 میں انڈیا اور چین کے درمیان جنگ ہوئی تو امریکہ اور انڈیا کے درمیان تعلقات بہتر ہونا شروع ہوئے۔ چونکہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا محور انڈیا تھا، اس لیے پاکستان نے سوویت یونین سے تعلقات میں بہتری کی کوشش کی۔ دونوں ملکوں کے درمیان تیل کی تجارت کا معاہدہ ہوا۔اپریل 1965 میں پاکستان کے صدر ایوب خان نے روس کا دورہ کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات خراب ہو رہے تھے۔ انڈیا اور پاکستان کے درمیان 1965 کی جنگ میں روس نے ثالث کا کردار ادا کیا اور معاہدہ تاشقند طے پایا۔دونوں ملکوں میں تعلقات بہتر ہوئے مگر 1971 کی جنگ میں روس نے کھل کر انڈیا کا ساتھ دیا تو پاکستان کے تعلقات ایک بار پھر ختم ہوئے۔ اس دوران انڈیا اور سوویت یونین کے درمیان بیس سالہ دوستانہ معاہدہ بھی طے پایا اور دفاعی ساز و سامان کی خریداری بھی کئی گنا بڑھی۔انڈیا اور سوویت کی قربتیں بڑھیں تو پاکستان اور امریکہ بھی ایک بار پھر قریب ہوئے۔ پاکستان نے چین اور امریکہ کے تعلقات میں کشیدگی کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ پاکستان کی سفارتی کوششوں سے 1972 میں امریکی صدر رچرڈ نِکسن چین کے دورے پر آئے۔ 1972 میں ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے پہلے وزیر اعظم تھے جنھوں نے سوویت یونین کا دورہ کیا۔ ان کا دوسرا دورہ دو سال بعد یعنی سنہ 1974 میں ہوا۔پاکستان اب امریکی اتحاد کا حصہ نہیں تھا مگر سوویت یونین کے ساتھ یہ تعلقات اب جلد ہی افغانستان میں جنگ کی نذر ہونے کو تھے۔ سنہ 1979 میں سوویت افواج افغانستان میں داخل ہوئیں تو پاکستان کے فوجی سربراہ جنرل ضیاالحق نے امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اور ’افغان مجاہدین‘ کی مدد کی۔پاکستان اور روس کے تعلقات میں آنے والے کشیدگی سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد تک برقرار رہی۔2001 کی دوسری افغان جنگ کے نتیجے میں پاکستان نے طالبان کی حمایت ختم کرتے ہوئے امریکہ کا ساتھ دیا تب بھی پاکستان روس تعلقات میں زیادہ بدلاؤ نہیں آیا۔ 2007 میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں ایک اہم موڑ تب آیا جب اپریل 2007 میں روس کے وزیر اعظم پاکستان کے دورے پر آئے۔ یہ کسی بھی روسی وزیراعظم کا پاکستان کا پہلا دورہ تھا۔اس کے جواب میں سنہ 2011 میں اس وقت کے پاکستانی صدر آصف علی زرداری نے روس کا دورہ کیا اور اپنے روسی ہم منصب ولادیمیر پوتن کو پاکستان کے دورے کی دعوت دی جو انھوں نے قبول کر لی۔صدر پوتن کا اکتوبر 2012 میں پاکستان کا ہونے والا دورہ نامعلوم وجوہات کی بنا پر منسوخ کر دیا گیا۔ مگر پاکستان روس کے تعلقات میں آہستہ آہستہ بہتری آتی رہی اور اس دوران دونوں ممالک کے درمیان چند دفاعی معاہدے بھی ہوئے۔ خیال رہے کہ یوکرین تنازع سے قبل دونوں ممالک کے سربراہان کے درمیان ہونے والی ٹیلیفونک گفتگو کے دوران روس کی جانب سے وزیراعظم کو ا مدعو کیا گیا تھا۔پاکستان سرد جنگ کے دوران اور اس کے بعد سے امریکی کیمپ میں رہا ہے پاکستان سٹریم گیس پائپ لائن منصوبے سے متعلق معاہدے کو بہت اہمیت دی جا رہی ہےکراچی سے قصور تک 1100 کلومیٹر طویل پائپ لائن کا پاکستان سٹریم گیس پائپ لائن منصوبے میں جو پہلے نارتھ ساؤتھ پائپ لائن کے نام سے جانا جاتا تھا، سالانہ 12.4 ارب کیوبک میٹر گیس منتقل کرنے کی صلاحیت ہے۔اس معاہدے پر پہلی بار سنہ 2015 میں دستخط کیے گئے تھے جس کے تحت روس اس پراجیکٹ کو تعمیر اور 25 برس تک آپریٹ کرے گا اور اس کے بعد اسے پاکستان کے حوالے کرے گا۔اس منصوبے کا نام بدل کر ’پاکستان سٹریم‘ پائپ لائن کر دیا گیا ہے اور اس کی پارٹنر شپ سٹرکچر کو کچھ اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے تاکہ یہ منصوبہ روسی کمپنیوں پر امریکی پابندیوں کی صورت میں متاثر نہ ہو۔اس منصوبے میں پاکستان کا حصہ 74 فیصد ہو گا اور منصوبے پر کل 2.3 ارب ڈالر لاگت آئے گی۔پاکستان کو توانائی کی کمی کا سامنا ہے اور خصوصاً موسم سرما میں ملک بھر میں گیس کی کمی ہو جاتی ہے۔ ایسے میں پاکستان سٹریم منصوبے سے اس مسئلے کو حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری آئی ہے لیکن دونوں ملکوں نے چھوٹے چھوٹے اقدام اٹھائے ہیں جن کی حیثیت علامتی ہے۔پاکستان اور روس کے مابین تعاون کبھی اس درجے کا نہیں ہو گا جو پاکستان کا امریکہ اور چین کے ساتھ ہے لیکن اس کے باوجود وزیر اعظم کا روس کا دورہ تعلقات میں بہتری کے عمل کو شروع کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔جہاں پاکستان کی کوشش ہے کہ وہ روس سے بہتر معاشی شراکت داری قائم کرے، ماسکو کی دلچسپی اسلام آباد سے سکیورٹی تعلقات قائم کرنے میں ہے۔جہاں پاکستان کی کوشش ہے کہ وہ روس سے بہتر معاشی شراکت داری قائم کرے، ماسکو کی دلچسپی اسلام آباد سے سکیورٹی تعلقات قائم کرنے میں ہے۔ دفاعی معاہدے پر دستخط کیے جس کے بعد روس نے چار روسی ساختہ ایم ائی 35 ایم جنگی ہیلی کاپٹر پاکستان کو فروخت کرنے کا معاہدہ کیا۔ پاکستان اور روس افغانستان انٹرا ڈائیلاگ کے بارے میں بھی یکساں مؤقف رکھتے ہیں اور وہ دونوں ملک ٹرائیکا، کواڈ گروپ، ماسکو فارمیٹ اور افغانستان پر استنبول پراسیس کے بھی حامی ہیں