کانگو سے بچاؤ کے لیے حکومت پنجاب پہلے سے زیادہ سرگرم

 
0
757

لاہور: اگست 28(ٹی این ایس)گزشتہ سال کے تلخ تجربہ کے پیش نظر حکومت پنجاب اس بات کو یقینی بنانے کے لیے سنجیدگی سے کوشاں ہے کہ اب کے کانگو وائرس کسی طرح جانی نقصان کا باعث نہ بنے۔
بنیادی طور پر جانوروں کی جلد پر موجود خون چوسنے والے کیڑے،جسے پنجابی میں چیچڑ کہتے ہیں سے پھیلنے والے اس جان لیوا وبائی مرض کو طبی اصطلاح میں CONGO HAMORRHAGIC FEVER CRIMEAN یا (CCHF)کہتے ہیں۔
اس مرض کی تشخیص 1944 میں ہوئی تھی۔مگر اس کا نام اڑھائی عشروں کے بعد اس وقت پڑا جب 1969 میں اس وباء نے افریقی ملک کانگو کو اپنی لپیٹ میں لیا۔کرائمین اور کانگو کے مرکب سے (CCHF)کے طور پر اسکا نام وجود میں آیا۔
پاکستان میں اسکی تاریخ 1976 سے ملتی ہے جب بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں یہ مقدر جانور کے جانو کے ضیائع کا باعث بنا تھا۔سن 2000 میں 91 افراد اس وائرس کی بھینٹ چڑھے تھے تاہم سال گزشتہ کے دوران عید الاضحی موقع پر اس وائرس نے پورے ملک کو لپیٹ میں لیا تھا۔سینکڑوں لوگ متاثڑہوئے تھے جن میں درجنوں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔خاص بات یہ کہ کانگو کے مریضوں کے علاج کے دوران کئی ڈاکٹر اور طبی عملے کے افراد بھی اسکی لپیٹ میں آئے۔
پنجاب میں اس کے باعث کئی ہلاکتیں ہوئی تھیں۔لاہور،راولپنڈی،فیصل آباد اور بہاولپور سمیت صوبہ کے نصف درجن سے زائد شہر اسکی لپیٹ میں آگئے تھے۔سب سے زیادہ متاثر بہاولپور ہوا جہاں مریضوں کے علاج کے دوران تین ڈاکٹر اور طبی عملے سے وابستہ کئی اہلکار بھی متاثر ہوئے تھے۔جن میں بعد ازاں ایک ڈاکٹر صغیر سمیجا اور ایک نرس کی جان بھی چلی گئی تھی جس پر وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے بہاول وکٹوریہ ہسپتال کے سپرانٹنڈنٹ کو معطل کر دیا تھا۔
اس واقع کے بعد وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر مذکورہ وبائی مرض سے نمٹنے کے لیے ڈاکٹروں اور طبی عملے کی
خصوصی تربیت کا پروگرام بنایا گیا جس کے تحت پنجاب بھر کے ہزاروں ڈاکٹروں اور طبی عملے سے وابستہ لوگوں کو علاج معالجہ کے دوران حفاظتی تدابیر اختیار کیئے جانے کے طریقے سیکھائے گئے۔
دوسری طرف وباء کو مزید پھیلنے سے روکنے اور متاثرین کے علاج ومعالجہ کے لیے تمام سرکاری ہسپتالوں میں ہنگامی حالت نافض کر کے خصوصی انتظامات کرنے کے علاوہ مویشی منڈیوں میں موجود لاکھوں جانوروں کو سپرے کئیے گئے۔صرف فیصل آباد ہی میں 26877جانوروں کو سپرے کیا گیا۔
گزشتہ سال کے تجربہ کے پیش نظر حکومت پنجاب نے اس بار اس وباء کے امکانات کو ختم کرنے کے لیے نسبتا زیادہ سنجیدگی اور تیاری کے ساتھ مہم شروع کر رکھی ہے۔دوسرے صوبوں کے مقابلے میں حکومت پنجاب کو اس شعبہ میں اس لحاظ سے بھی برتری حاصل ہے کہ اس نے گزشتہ سال سیہی اس ضمن ایک ڈھانچہ تشکیل دیا ہوا ہے۔
اس بار عید الضحی ٰ کے موقع پر جانوروں کو منڈیوں میں لائے جانے سے پہلے ہی انتظامات کئے گئے ہیں۔نہ صرف مویشیوں کے باقاعدہ معائنے کے بعد ہی ان کے کانوں پر فٹنس ٹیگ لگائے جاتے ہیں بلکہ منڈیوں میں میڈیکل ٹیمیں بھی متعین کی گئی ہیں۔دوسری طرف کانگو وائرس اور اس سے بچاؤ کے بارے میں آگاہی دینے کے لیے حکومت پنجاب میڈیا پر سرگرمی کے ساتھ نظر آرہی ہے۔اس مہم میں کانگو کی وجوہات،علامات اور اس سے بچاؤ کی تدابیر کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کرنے کے علاوہ ڈاکٹروں اور طبی عملے کو بھی وضع کردہ ایس او پیز پر سختی سے عمل کرنے کی ہدایت کی جا رہی ہے۔