( اصغر علی مبارک )
مراکش (ٹی این ایس) مراکش کشتی حادثہ میں بچ جاینوالے پاکستانی وطن واپس پہنچ گئے جبکہ وفاقی تحقیقات ادارے (ایف آئی اے) کے تفتیشی افسر نے ان افراد کے بیانات قلمبند کیے۔ دفتر خارجہ پاکستان نے گزشتہ ہفتے واضح کیا تھا کہ مراکش کشتی حادثے میں زندہ بچ جانے والے پاکستانیوں کو وطن واپس لایا جائے گا اور اس حوالے سے وزارت خارجہ مراکشی حکام سے رابطے میں ہیں۔ترجمان کا کہنا تھا کہ کشتی حادثے سے متلق مراکش حکام کے ساتھ مکمل تحقیقات اور محتاط روابط کے بعد ان افراد کو پاکستان واپس بھیج دیا جائے گا، جب کہ رباط میں پاکستانی سفارت خانہ امدادی سرگرمیوں کی نگرانی اور وطن واپسی کے لیے کام کر رہا ہے۔بعد ازاں، آج مراکش کشتی حادثہ میں بچ جانے والے 7 پاکستانی وطن واپس پہنچ گئے، انہیں اسپین اور اٹلی سے ڈی پورٹ کرکے واپس لایا گیا ہے۔واپس آنے والے پاکستانیوں نے ایف آئی اے کے تفتیشی افسر کو بیانات قلمبند کروائے جس میں ان کا کہنا تھا کہ انسانی اسمگلرز کی جانب سے تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا، ایف آئی اے نے بیانات کی روشنی میں تحقیقات کا دائرہ وسیع کردیاہے۔ دوسری جانب، مراکش کشتی حادثے میں بچنے والے پاکستانیوں کی تفصیلات سامنے آگئی ہیں، پاکستانی سفارخانے کی سرکاری دستاویزات کے مطابق 4 پاکستانی شہریوں کے پاس شناختی دستاویزات موجود نہیں ہیں، مراکش کشتی حادثے میں بچنے والے پاکستانیوں کی تعداد 22 ہے۔دستاویز میں بتایا گیا کہ بچنے والوں میں مدثر حسین، وسیم خالد ، محمد خالق ، عبدالغفار، غلام شاہ میر، علی حسن، عمر فاروق، بلاول اقبال، ارسلان میر اور عرفان احمد شامل ہیں۔مراکش کشتی حادثے میں بچ جانے والے پاکستانیوں نے انکشاف کیا ہے کہ ڈوبنے والی کشتی کے مسافروں سے کھلے سمندر میں تاوان مانگا گیا، تاوان دینے والے 21 پاکستانیوں کو چھوڑدیا گیا جب کہ زیادہ تر اموات سرد موسم اور تشدد کے باعث ہوئیں۔مراکش کشتی حادثے میں زندہ بچ جانے والے پاکستانیوں نے وزیراعظم شہباز شریف کی تشکیل کردہ کمیٹی کو بیانات میں ہوشرما انکشافات کیے یاد رہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے مراکش کے لیے ایک حکومتی ٹیم بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا، جس میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل (نارتھ) منیر مارتھ، ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ سلمان چوہدری اور وزارت خارجہ اور انٹیلی جنس بیورو کے نمائندے شامل تھےکشتی حادثے میں زندہ بچ چانے والے پاکستانیوں نے تحقیقاتی ٹیم کو بتایا کہ مراکش کشتی حادثہ نہیں بلکہ قتل عام تھا، مراکش میں ڈوبنے والی کشتی کے مسافروں سے کھلے سمندر میں تاوان مانگا گیا تھا، تاوان دینے والے 21 پاکستانیوں کو چھوڑ دیا گیا۔ ابتدائی بیانات میں متاثرین کا کہنا تھا کہ کشتی میں سوار بیشتر لوگ سرد موسم اور تشدد کے باعث ہلاک ہوئے، کشتی میں موجود افراد کو کھانے پینے کی قلت کا بھی سامنا تھا۔رپورٹ کے مطابق زندہ بچ جانے والوں نے بتایا کہ اسمگلروں کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر ان پر تشدد کیا جاتا تھا اور بعض مسافروں کو سمندر میں پھینک دیا گیا۔ مراکش کی بندرگاہ دخلہ کے قریب کشتی حادثے میں زندہ بچ جانے والے عزیر بٹ نے بتایا کہ ہمارا سفر 2 جنوری کو شروع ہوا مگر 5 جنوری کو رات کی تاریکی میں کشتی کو ایسے ویران مقام پر روک دیا گیا تھا جہاں سے کوئی دوسری کشتی نہیں گزر رہی تھی۔انہوں نے بتایا کہ اسمگلروں نے کشتی پر موجود سردی گرمی سے بچانے والا ترپال، ہمارے کپڑے، کھانے پینے کی اشیا، موبائل سب کچھ چھین لیا تھا اور کشتی کو اسی مقام پر بند کر کے خود دوسری کشتی میں بیٹھ کر چلے گئے۔ اسمگلروں نے کشتی کو لاک کیا ہوا تھا جس کی وجہ سے وہ پانی کی سطح پر خود بھی بہت زیادہ نہیں چل سکتی تھی۔گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک اور پاکستانی شہری مہتاب شاہ کے مطابق اگلی صبح کچھ لوگ ایک اور کشتی میں سوار ہو کر آئے اور انہوں نے منڈی بہاالدین کے 4 لڑکوں کو اپنے پاس بلانے کے بعد ان کے سر اور چہرے پر ہتھوڑے سے ضربیں لگائی جس کے بعد انہیں سمندر میں پھینک دیا۔انہوں نے کہا کہ ان 4 لڑکوں کو سمندر میں پھینکنے کے بعد باقی سب لوگوں کو لاتوں، مکوں اور ڈنڈوں سے مارا گیا، ہم لوگ سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ وہ ہمیں کیوں تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں۔مہتاب شاہ کا مزید کہنا تھا کہ وہ ایک ایسا علاقہ تھا جہاں پر سمندر میں کوئی بھی کشتی نہیں گزر رہی تھی، 10 دنوں تک اسمگلر روزانہ ایک دوسری کشتی پر وہاں پہنچتے تھے اور کچھ لوگوں پر تشدد کرکے انھیں سمندر میں پھینک دیتے تھے۔اس سے قبل، واکنگ بارڈرز کی سی ای او ہیلینا مالینو نے ایکس پر اپنی پوسٹ میں کہا تھا کہ’ ڈوبنے والوں میں سے 44 کا تعلق پاکستان سے تھا، جنہوں نے گزشتہ 13 دن اذیت میں گزارے لیکن کوئی انہیں بچانے کے لیے نہیں آیا۔واضح رہے کہ 16 جنوری کو مغربی افریقہ کے راستے غیر قانونی طور پر اسپین جانے والی کشتی حادثے کا شکار ہوگئی تھی جس میں 44 پاکستانیوں سمیت 50 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔تارکین وطن کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم واکنگ بارڈرز نے کہا ہے کہ مغربی افریقہ سے کشتی کے ذریعے اسپین پہنچنے کی کوشش کے دوران حادثے کا شکار ہوئی۔مراکش کے حکام کا کہنا تھا کہ حادثے کا شکار ہونے والی تارکین وطن کی ایک کشتی سے 36 افراد کو بچایا گیا جس میں 86 تارکین وطن سوار تھے، جن میں 66 پاکستانی بھی شامل تھے۔ بعد ازاں، ترجمان دفتر خارجہ نے حادثے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسپین جانے کی کوشش کے دوران حادثے کا شکار ہونے والی تارکین وطن کی کشتی میں 80 مسافر سوار تھے، دفتر خارجہ نے بچنے والے 21 پاکستانی شہریوں کی فہرست جاری کی تھی۔ حکومت نےانسانی اسمگلنگ روکنے کیلئے سخت اقدامات کا فیصلہ کیا ہے حکومت پاکستان نے تارکین وطن کی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے سخت اقدامات کا فیصلہ کرتے ہوئے مہاجرین کی اسمگلنگ کی روک تھام کا ترمیمی بل سینیٹ میں پیش کردیا گیا۔ سینیٹ میں تارکین وطن کی اسمگلنگ کی روک تھام کا ترمیمی بل وزارت داخلہ کی جانب سے پیش کیا گیا۔ ترمیمی بل کے متن کے مطابق مہاجرین کی اسمگلنگ کرنے والے شخص کو 10 سال قید اور ایک کروڑ روپے جرمانہ ہوگا۔مہاجرین کی اسمگلنگ کے لیے دستاویز تیار کرنے پر 10 سال سزا اور 50 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا جب کہ غیر قانونی طور پر رہائش پذیر شخص کو پناہ دینے والے شخص کو 5 سال قید اور 20 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔بل میں مزید کہا گیا کہ متاثرہ شخص کی موت یا زخمی ہونے، غیر انسانی سلوک کرنے کی صورت میں مجرم کو 14 سال تک سزا اور ایک کروڑ روپے جرمانہ ہوگا۔ بل کے اغراض و مقاصد کے مطابق مجرموں کے تیز ٹرائلز کے لیے اسپیشل عدالتیں تشکیل دی جائیں گی۔ خیال رہے کہ گزشتہ روز وزیراعظم شہباز شریف نے یونان کشتی حادثے کی تحقیقات میں سست رفتاری پر وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سربراہ احمد اسحٰق جہانگیر کو عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ اس سے 2 روز قبل، یونان کشتی حادثے میں ملوث ایف آئی اے کے ایک انسپکٹر، 2 سب انسپکٹرز، 2 ہیڈ کانسٹیبل اور 8 کانسٹیبلز کو نوکری سے برخاست کر دیا گیا تھا۔ اس سے قبل بھی کشتی حادثات میں ملوث 37 اہلکاروں کو ملازمت سے برخاست کیا جا چکا ہے۔ واضح رہے کہ 16 دسمبر کو یونان کے جنوبی جزیرے گاوڈوس کے قریب کشتی الٹنے کے متعدد تارکین وطن سمیت 40 پاکستانیوں کی موت ہو گئی تھی۔ بعد ازاں، 16 جنوری 2025 کو مغربی افریقہ کے راستے غیر قانونی طور پر اسپین جانے والی کشتی حادثے کا شکار ہوگئی تھی جس میں 44 پاکستانیوں سمیت 50 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ واکنگ بارڈرز کی سی ای او ہیلینا مالینو نے ایکس پر اپنی پوسٹ میں تصدیق کی تھی کہ ڈوبنے والوں میں سے 44 کا تعلق پاکستان سے تھا، جنہوں نے گزشتہ 13 دن اذیت میں گزارے لیکن کوئی انہیں بچانے کے لیے نہیں آیا۔ اس کے علاوہ بیرون ممالک میں پاکستانیوں کے بھیک مانگنے کے بڑھتے واقعات کی روک تھام کے لیے وزارت داخلہ نے انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کا ترمیمی بل بھی سینیٹ میں پیش کردیا ہے، بل میں منظم بھیک مانگنے کی تعریف بیان کی گئی ہے۔وزارت داخلہ کی جانب سے سینیٹ میں پیش کیے گئے بل میں منظم بھیک مانگنے کی تعریف بیان کی گئی ہے۔ترمیمی بل کے متن کے مطابق جو شخص منظم بھیک مانگنے کے لیے کسی کو بھرتی کرے، پناہ دے، اسے 7 سال قید اور 10 لاکھ روپے تک جرمانہ ہوگا۔
بل میں مننظم بھیک مانگنے کی وضاحت بھی کی گئی ہے جس سے مراد دھوکہ دہی، زبردستی، ورغلا کر بہانے سے بھیک مانگنے میں ملوث کرنا ہے جب کہ کسی عوامی مقام پر خیرات مانگنا یا وصول کرنا بھی اس میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ، قسمت کا حال بتا کر ،کرتب دکھا کر بھیک مانگنے کو بھی اس کیٹگری میں شامل کیا گیا ہے، جب کہ کسی بہانے سے اشیا فروخت کرنا، بار بار گاڑیوں کی کھڑکیوں پر دستک دینا، زبردستی گاڑیوں کے شیشے صاف کرنا بھی منظم بھیک مانگنے کے زمرے میں آئے گی۔بل میں منظم بھیک مانگنے کی مزید وضاحت کرتے ہوئے بتایا گیا کہ کسی نجی احاطے میں داخل ہو کر بھیک مانگنا یا خیرات وصول کرنا، کسی زخم، چوٹ، بیماری، معذوری کو دکھا کر ہمدری حاصل کرکے پیسے وصول کرنا بھی اس میں شامل ہے۔ علاوہ ازیں، خود کو بطور نمائش استعمال ہونے دینا بھی منظم بھیک مانگنے کے زمرے میں آتا ہے۔ بل کے اغراض و مقاصد میں بتایا گیا کہ گلف کو آپریشن کونسل (جی سی سی) ممالک کے مطابق حج، عمرہ، زیارت کے دوروں پر آنے والے کچھ پاکستانی بھیک مانگنے میں ملوث پائے گئے ہیں۔ پاکستانی حکام پر زور گیا کہ بھیک مانگنے والے اور ان کے پیچھے موجود گینگ کے خلاف سخت کارروائی کی جائے کیوں کہ ملوث ایجنٹ اور گینگ آسانی سے قانونی کارروائی سے بچ جاتے ہیں۔ بل میں مزید کہا گیا کہ بھیک مانگنا کسی ایسے قانون میں جرم نہیں ہے جو ایف آئی اے کے دائرہ اختیار میں ہو،اس مسئلہ کی حساسیت کے پیش نظر، بھیک مانگنے کو جرم قرار دینے کی اشد ضرورت ہے۔یاد رہے کہ 21 نومبر 2024 کوحکومت پاکستان نے 4300 بھکاریوں کو نو فلائی لسٹ میں ڈال دیا تھااور بھکاریوں کو بیرون ملک بھیجنے والے مافیا کے خلاف حکومتی اقدامات سے متعلق بھی سعودی عرب کو آگاہ کردیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق وزیر داخلہ محسن نقوی نے سعودی عرب کے نائب وزیر داخلہ ڈاکٹر ناصر بن عبدالعزیز الداؤد سے ملاقات کی تھی ، اس دوران انہوں نے بھکاریوں کو بیرون ملک بھیجنے والے مافیا کے خلاف اقدامات سے متعلق انہیں آگاہ کیا تھا۔ملاقات کے دوران پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر نواف بن سعید احمد المالکی بھی اس موقع پر موجود تھے۔ وزیر داخلہ نے سعودی نائب وزیر داخلہ کو بتایا تھا کہ سعودی عرب جانے والے بھکاریوں کے خلاف زیرو ٹالرنس کی پالیسی اپناتے ہوئے تقریباً 4 ہزار 300 بھکاریوں کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالے گئے دونوں رہنماؤں نے ملاقات کے دوران قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے پر عمل درآمد اور سعودی عرب میں قید 419 پاکستانی قیدیوں کی وطن واپسی کے لیے قانونی عمل جلد مکمل کرنے پر بھی اتفاق کیاتھا۔واضح رہے کہ گزشتہ ماہ ایف آئی اے نے عمرہ زائرین کے بھیس میں سعودی عرب جانے والی پرواز پر سوار 16 مبینہ بھکاریوں کو اتار دیاتھایہ گرفتاریاں سیکریٹری سمندر پار کی جانب سے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں اس انکشاف کے ایک روز بعد ہوئی کہ پاکستان سے بھکاریوں کی ایک بڑی تعداد غیر قانونی طریقوں سے بیرون ملک جارہی ہے بیرون ممالک سے پکڑے گئے بھکاریوں میں سے 90 فیصد کا تعلق پاکستان سے ہوتا ہے، عراقی اور سعودی سفیروں نے ان گرفتاریوں کی وجہ سے اپنی جیلیں بھر جانے کی شکایت کی تھی سیکریٹری سمندر پار پاکستانی نے کہا کہ ہمارے فقیر سب سے زیادہ باہر جا رہے ہیں، جتنے فقیر گرفتار ہوتے ہیں ان میں سے 90فیصد پاکستانی ہوتے ہیں، عراقی اور سعودی سفیر ہمیں کہتے ہیں کہ آپ وہی مجرم ہمارے پاس بھیجتے ہیں جس سے ان کی جیل بھر گئی ہے، اب یہ ٹریفیکنگ کا مسئلہ ہے، ہمارے اتنے افراد اس لیے ڈی پورٹ ہو رہے ہیں کہ وہ بھکاری بن جاتے ہیں، یہاں سے جہاز بھر بھر کر بھکاری بیرون ملک جا رہے ہیں، حرم کے اندر سے جتنے جیب کترے پکڑے جاتے ہیں ان میں زیادہ تر پاکستانی ہیں جبکہ یہ زیارت پر بھی بھیک مانگنے جاتے ہیں۔سمندر پار پاکستانی بھکاری زیادہ تر عمرہ ویزا پر جاتے ہیں یہ ورک ویزا پر نہیں جاتے