تحریر: ڈاکٹر نائف العتیبی
مصنف پاکستان میں سعودی عرب کے سفارت خانے میں پریس اتاشی کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
اسلام آباد، ہفتہ، 22 فروری 2025 (ٹی این ایس): گزشتہ ہفتے ریاض میں امریکی وزیر خارجہ اور ان کے روسی ہم منصب کے درمیان ہونے والی ملاقات نے عالمی توجہ حاصل کی اور روس-یوکرین جنگ کے خاتمے کے امکانات کو تقویت دی۔ اس ملاقات کے بعد ایک سوال بہت سے ذہنوں میں گردش کر رہا ہے: “دنیا ریاض پر اعتماد کیوں کرتی ہے؟”
آخر کیوں مشرق و مغرب کے ممالک کئی دہائیوں سے تنازعات کے حل، بحرانوں کے خاتمے، اور جنگوں کو روکنے کے لیے ریاض کا رخ کرتے ہیں؟ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس کی وجہ سعودی عرب کا سیاسی وزن ہے۔ تاہم، جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ویٹو پاور رکھنے والے بڑے ممالک بھی امن کے لیے ریاض کی جانب دیکھتے ہیں، تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ معاملہ محض سیاسی اثر و رسوخ سے بڑھ کر ہے۔
دیگر افراد کا ماننا ہے کہ سعودی عرب پر عالمی اعتماد اس کی مضبوط معیشت اور مالیاتی اثر و رسوخ کی بدولت ہے۔ لیکن اگر یہی پیمانہ ہوتا، تو کئی بڑی معیشتیں بھی وہ مقام حاصل کر چکی ہوتیں جو ریاض کو حاصل ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اعتماد کسی دن میں پیدا نہیں ہوا بلکہ کئی دہائیوں کی سفارتی کوششوں، دیانت داری اور حقیقی امن کے عزم کا نتیجہ ہے۔
سعودی عرب کی غیر جانبداری، منصفانہ پالیسی، اور دیرپا اور منصفانہ حل فراہم کرنے کی صلاحیت نے اسے ایک ایسا مقام دیا ہے جہاں عالمی رہنما ملاقات کرتے ہیں، اس کی رائے طلب کرتے ہیں، اور تنازعات کے حل کے لیے اس پر انحصار کرتے ہیں۔ یہی عوامل ریاض کو ایک عالمی سفارتی مرکز میں تبدیل کر چکے ہیں۔
اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو کئی ایسے مواقع نظر آئیں گے جہاں سعودی عرب نے عالمی امن کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا: 1989 میں سعودی عرب نے طائف معاہدہ کرایا، جس نے لبنان میں 15 سالہ خانہ جنگی ختم کر کے ملک میں امن و استحکام کی بنیاد رکھی۔ 1990 میں جب عراق نے کویت پر حملہ کیا تو سعودی عرب نے نہ صرف کویت کی آزادی کے لیے عالمی حمایت حاصل کی بلکہ خود بھی بھرپور کردار ادا کیا۔ 1980 کی دہائی میں دونوں ممالک کے درمیان سیاسی کشیدگی ختم کرنے میں سعودی عرب نے کلیدی سفارتی کردار ادا کیا، جس کے نتیجے میں سفارتی تعلقات بحال ہوئے، سرحدیں کھلیں، اور ویزا پابندیاں ختم ہوئیں۔ 1980 میں جب شام نے اردن کی سرحد پر 20,000 فوجی تعینات کیے، تو اس بحران کو پرامن طریقے سے حل کرنے میں مرحوم سعودی وزیر خارجہ شہزادہ سعود الفیصل نے کلیدی کردار ادا کیا۔
ریاض نے ہمیشہ امن مذاکرات، بین المذاہب مکالمے، اور عالمی تنازعات کے حل کے لیے سفارتی کوششوں کی قیادت کی ہے۔ سعودی عرب کا کردار محض ایک طاقتور معیشت کا نہیں بلکہ ایک ایسے ملک کا ہے جو دنیا کو جوڑنے اور عالمی استحکام کو یقینی بنانے کے لیے عملی اقدامات کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا ریاض پر اعتماد کرتی ہے