خیبر پختون خواہ (ٹی این ایس) سیاسی تبدیلی کا امکان اور گرینڈ قبائلی جرگہ

 
0
37

خیبر پختون خواہ (ٹی این ایس) میں گزشتہ چند دنوں سے خیبر پختون خواہ میں ہوں اس دوران پشاور میں مولانا فضل الرحمٰن کے جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) ف فاٹا کے زیرِ اہتمام گرینڈ قبائل جرگے میں نے شرکت کی اور گورنر ہاؤس کا بھی دورہ کیا اور کے پی کے میں سیاسی تبدیلیوں کے بارے میں ان سے بات کی۔ جس میں سیاسی تبدیلی کےامکان کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ میں صوبائی حکومت کو آفر کرتا ہوں کہ 11 سنیٹرز میں سے 5 ہمیں دے دیں 6 خود لے لیں، ورنہ 35 آزاد ایم پی ایز ہیں ہم ان سے بات چیت کر کےاپنا جنرل سنیٹر نکالنے کی کوشش کریں گے خیبرپختونخوا کی سیاست میں بڑی تبدیلی کی بازگشت، صوبے کی اپوزیشن جماعتوں کی اہم مشاورت حتمی مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔ گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی، وفاقی وزیر امیر مقام، وزیراعظم کے مشیر پرویز خٹک اور جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے درمیان غیر رسمی ملاقات ہوئی۔یہ ملاقات پرویز خٹک کی رہائش گاہ پر ان کی ہمشیرہ کے انتقال پر تعزیت کے بعد ہوئی، جس میں صوبائی سیاسی صورتحال، ضم شدہ اضلاع کے مسائل اور امن و امان کی صورتحال پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔ اپوزیشن قیادت نے آئندہ سینیٹ انتخابات میں مشترکہ حکمت عملی اپنانے اور متحدہ لائحہ عمل کے تحت الیکشن لڑنے کا اصولی فیصلہ کرلیا ہے۔ ملاقات میں ضم شدہ اضلاع میں بدامنی، عوامی تشویش اور وزیراعظم کی جانب سے قائم کمیٹی کے کردار پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
ادھر گورنر فیصل کریم کنڈی اور امیر مقام کے درمیان گورنر ہاؤس پشاور میں بھی علیحدہ ملاقات ہوئی، جس میں آئندہ سیاسی حکمت عملی پر غور کیا گیا۔ ملاقات کے بعد یہ طے پایا کہ گورنر ہاؤس میں اپوزیشن اراکین اسمبلی کی ایک بڑی بیٹھک جلد بلائی جائے گی، جس میں اہم فیصلے متوقع ہیں۔ خیبرپختونخوا میں اپوزیشن کی سرگرمیوں میں تیزی ممکنہ تبدیلیوں کی نشاندہی کر رہی ہے، مزید یہ کہ گرینڈ قبائل جرگے نے قبائل میں دہشت گردی کے واقعات اور ٹارگٹ کلنگ پر اظہارِ تشویش کرتے ہوئے امن کی بحالی اور عوام کے جان و مال کے تحفظ کے لیے مؤثر اقدامات کا مطالبہ کیا۔جرگے کے شرکاء نے قبائل میں جرگہ سسٹم کی بحالی کے لیے قائم کردہ کمیٹی پر تحفظات کا اظہار کیا۔شرکاء نے کہا کہ قبائلی عوام کی نمائندگی اور ان کی رائے کے بغیر کوئی فیصلہ قبول نہیں ہو گا۔ اس کے علاوہ اس دوران الیکشن کمیشن آف پاکستان نے خیبر پختونخوا اسمبلی کی مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلہ جاری کر دیا۔ الیکشن کمیشن نے خیبر پختونخوا میں مخصوص نشستوں سے متعلق ن لیگ کی درخواست منظور کر لی۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اقلیتی نشست پر ن لیگ اور جے یو آئی ف میں ٹاس ہو گا۔ کے پی اسمبلی میں ن لیگ 9، جے یو آئی 9، پی پی 5، پی ٹی آئی پی اور اے این پی کو ایک، ایک اضافی نشست ملی ہے۔ ن لیگ کو خیبر پختونخوا اسمبلی میں اقلیتی نشست بھی مل گئی جبکہ ایک خاتون کی مخصوص نشست پر اے این پی اور پی ٹی آئی پی کے درمیان ٹاس ہو گا۔ اس کے علاوہ پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان اور مشیرِ اطلاعات خیبر پختونخوا بیرسٹر سیف کے درمیان ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آگئی۔ ملاقات میں سینیٹ انتخابات کے امیدواروں کے ناموں کو حتمی شکل دے دی گئی۔ بیرسٹر سیف نے سابق وزیراعظم کو خیبرپختونخوا کے بجٹ سے متعلق بریفنگ دی، جبکہ سینیٹ کے لیے نامزدگیوں پر بھی تفصیلی مشاورت کی گئی۔عمران خان نے مشال یوسفزئی کو سینیٹر بنانے کی ہدایت جاری کی، جس پر ثانیہ نشتر کی سیٹ پر مشال یوسفزئی کا نام فائنل کر دیا گیا۔ذرائع کے مطابق منظور شدہ فہرست میں مراد سعید، فیصل جاوید، مرزا آفریدی اور پیر نور الحق قادری جنرل نشستوں کے امیدوار ہیں جبکہ ٹیکنوکریٹ نشست کے لیے اعظم سواتی اور خواتین کی نشست پر روبینہ ناز کا انتخاب کیا گیا ہےواضح رہے کہ گورنر کے پی فیصل کریم کنڈی کے سیکریٹریٹ پشاور سے جاری کیے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے صوبائی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کی تحریری ہدایات جاری کی ہیں۔خط میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق مخصوص نشستوں پر منتخب اراکین کی حلف برداری کو یقینی بنایا جائے۔گورنر کے پی کے پرنسپل سیکریٹری کے خط میں کہا گیا ہے کہ قانون کے مطابق صوبائی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کا معاملہ گورنر کو وزیرِ اعلیٰ کے ذریعے بھیجا جانا ضروری ہے۔خط میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 109 اے کے تحت صوبائی اسمبلی کا اجلاس فوری بلایا جائے۔ اس دوران خیبرپختونخوا کے عوام نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی صوبائی حکومت کی کارکردگی پر سوالات اٹھا دیئے ہیں۔ گیلپ کی جانب سے کیے گئے رائے عامہ کے جائزے میں 58 فیصد عوام نے کہا کہ ان کی رائے میں صوبائی حکومت کے ترقیاتی فنڈز میں کرپشن کی جارہی ہے، اسی سے جڑے ایک سوال کے جواب میں 40 فیصد شہریوں نے پنجاب کے مقابلے میں خیبرپختونخوا میں زیادہ کرپشن کا دعویٰ بھی کیا۔سروے کے مطابق 73 فیصد شہریوں کی رائے میں سرکاری نوکریاں میرٹ پر نہیں ملتیں، جب کہ 59 فیصد نے بے روزگاری میں اضافے کی نشاندہی کی۔60 فیصد شہریوں نے رائے دی کہ خیبرپختونخوا حکومت کام کے بجائے احتجاج میں وقت ضائع کر رہی ہے، 73 فیصد شہریوں نے صوبے میں سفارشی کلچر پروان چڑھنے کی شکایت کی، جب کہ 66 فیصد ووٹرز نے منتخب نمائندوں سے وعدہ خلافی کا شکوہ کیا سروے کے دوران 58 فیصد رائے دہندگان نے خیبرپختونخوا میں امن وامان کی صورت حال پر اطمینان کا اظہار کیا۔سروے میں عوام کی اکثریت نے موجودہ گنڈاپور حکومت کے مقابلے میں ماضی کی محمود خان اور پرویز خٹک کی پی ٹی آئی حکومتوں کی کارکردگی کو ٹرانسپورٹ کے شعبے میں بہتر قرار دیا۔ رپورٹ اپریل سے جون کے دوران تیار کی گئی جس میں 3 ہزار افراد سے انٹرویوز کیے گئے تھے۔ مزید یہ کہ گزشتہ ہفتے باضابطہ طور پر عدالت نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی مخصوص نشستیں حکمران اتحاد و دیگر کو دینے کا فیصلہ دیا ہے۔ عدالت کے اس فیصلے پر چند حلقوں نے نشاندہی کی کہ سپریم کورٹ کے نئے بنائے گئے بینچ نے وہی فیصلہ دیا جس کی توقع تھی۔ تاہم لوگ یہ سوچتے رہے کہ سیاسی جماعتیں پارلیمنٹ میں اضافی نشستیں کیسے حاصل کر سکتی ہیں حالانکہ انہوں نے تو انتخابات میں بھی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کی تھی۔ مخصوص نشستیں کسی بھی سیاسی جماعت کی جانب سے براہ راست پارلیمان میں جیتی جانے والی نشستوں کی بنیاد پر مختص کی جاتی ہیں لیکن پی ٹی آئی کو شمار نہیں کیا جارہا ۔ اب حکمران اتحاد کے پاس مضبوط اکثریت ہے، بتایا جارہا ہے کہ قوانین کی ایک طویل فہرست ہے جس میں تبدیلی کے ارادے ہیں۔ ان میں موجودہ ’ہائبرڈ‘ نظام کو قانونی سرپرستی فراہم کرنا، سرکاری اختیارات کے ذریعے کسی کے کنٹرول کو مضبوط کرنا یا 18ویں ترمیم کے کچھ حصوں کو کالعدم کرنا بھی شامل ہوسکتا ہے۔ یہ صرف نئے قوانین تیزی سے منظور کروانے کے حوالے سے نہیں۔ کنال منصوبہ بھی واپس آسکتا ہے جبکہ 2022ء میں کیے گئے عدم اعتماد کے ووٹ کے بعد ایک بار پھر اسی طریقے سے خیبرپختونخوا میں بھی پی ٹی آئی حکومت کو گھر بھیجنے کی بھی باتیں ہورہی ہے۔ اب فیصلے کیے جائیں گے کیونکہ انہیں فیصلے کرنے کا اختیار ہے جبکہ عوامی ردعمل کوئی رکاوٹ نہیں۔ سیاسی جماعتیں تو بہت پہلے ہی ہمت ہار چکی ہیں۔ یہ سب اس وقت ہورہا ہے کہ جب دہشتگردانہ حملوں میں دوبارہ اضافہ دیکھا جارہا ہےجبکہ ان دہستگردانہ حملوں میں اموات ہورہی ہیں، موسمیاتی تبدیلی کے اثرات مرتب ہورہے ہیں، حتیٰ کہ غربت میں بھی اضافہ ہورہا ہے جب اقتدار مضبوط ہوجاتا ہے تو اس کی کمزوری کی جانب سفر بھی آہستہ آہستہ شروع ہوجاتا ہے۔ ملک کی بات کریں تو مسلم لیگ (ن) کی جانب سے پی ٹی آئی کا دھرنا روکے جانے کے بعد ایسا لگتا تھا کہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے اقتدار کو کوئی چیلنج نہیں کرے گا۔ لیکن پھر پاناما آیا۔ کچھ عرصہ پہلے تک سندھ میں پی پی پی کی حکمرانی مضبوط نظر آتی تھی لیکن پھر کنال منصوبے کا اعلان ہوا۔ 2006ء میں جب سپریم کورٹ نے اسٹیل ملز کی نجکاری کو منسوخ کیا تو پرویز مشرف بھی ایسی ہی پوزیشن میں تھے۔ تو کوئی نہیں جانتا کہ اچانک انہیں کن مسائل کا سامنا کرنا پڑے۔یہ یاد رکھیں کہ وفاقی حکومت کی جانب سے نو ضم شدہ اضلاع میں جرگہ سسٹم کو بحال کرنے کی تجویز کو سابقہ قبائلی ایجنسیز کی نیم خودمختار حیثیت بحال کرنے کی جانب پہلے قدم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ پرانے نظام کی دوبارہ واپسی کے حوالے سے شاید ابھی کوئی خاص منصوبہ بندی نہیں کی گئی لیکن وزیر اعظم کی جانب سے اس معاملے پر وفاقی وزیر برائے امور کشمیر و گلگت بلتستان کی سربراہی میں کمیٹی بنانے کے فیصلے نے شدید تحفظات کو جنم دیا ہے۔
کمیٹی کے اراکین کے حالیہ اجلاس زیادہ تر وفاقی حکومت کے حکام نے اضلاع میں جرگہ نظام کو بحال کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ رپورٹ کے مطابق سابق قبائلی اضلاع میں مؤثر متبادل نظامِ عدل کو فروغ دینے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ جرگہ سسٹم جو تنازعات کے حل کا روایتی طریقہ ہے، 2018ء میں 25ویں آئینی ترمیم کے ذریعے 7 قبائلی ایجنسیز کے انضمام کے بعد ختم کردیا گیا تھا۔خیبرپختونخوا حکومت نے کمیٹی کی تشکیل کو مسترد کرتے ہوئے اسے صوبائی معاملات میں وفاق کی مداخلت قرار دیا ہے۔ یوں اسلام آباد اور پشاور کے درمیان تعطل مزید شدت اختیار کر گیا ہے۔ 2018ء میں بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی کے تناظر میں خیبرپختونخوا میں فاٹا کے انضمام کو نیم خودمختار علاقوں میں لاقانونیت کے خاتمے، انہیں قومی دھارے میں لانے اور اس کی آبادی کو بہتر طرز حکمرانی اور ترقی فراہم کرنے کی جانب ایک اہم قدم کے طور پر دیکھا گیا تھا۔ لیکن 7 سال گزر جانے کے باوجود یہ وعدے پورے نہ ہوسکے۔ ضم شدہ اضلاع میں بنیادی انفرااسٹرکچر کی ترقی اور لوگوں کی زندگیوں میں بہتری لانے کے لیے محدود مالی وسائل کی وجہ سے متعدد چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔گزشتہ 7 سالوں کے دوران وفاقی حکومت نے انضمام شدہ اضلاع کو نہ تو سالانہ 100 ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز فراہم کیے اور نہ ہی قومی مالیاتی کمیشن کے ایوارڈ میں اس کا تین فیصد حصہ انہیں مہیا کیا۔ وفاقی حکومت اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی صوبائی انتظامیہ کے درمیان جاری محاذ آرائی سے صورت حال مزید خراب ہوئی ہے۔ خطے میں عسکریت پسندی کے دوبارہ سر اٹھانے سے ضم شدہ اضلاع میں حکومتی نظام مکمل طور پر تباہ ہوگیا ہے۔ ان مسائل سے نمٹنے کے بجائے ایسا لگتا ہے کہ وفاقی حکومت پرانے نوآبادیاتی نظام کی جانب لوٹنے کی کوشش کر رہی ہے جو وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں یعنی فاٹا کی پسماندگی کی بنیادی وجہ تھا۔ فاٹا متنازع فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن اور پولیٹیکل ایجنٹس کے زیرِانتظام تھا۔ تنازعات کا تصفیہ وفاقی حکومت کے مقرر کردہ قبائلی عمائدین اور ’ملک‘ پر مشتمل مقامی جرگوں نے کیا۔ اس علاقے میں عدالتوں کا کوئی دائرہ اختیار نہیں تھا جبکہ یہ براہ راست وفاق کے ماتحت تھے۔ آئین اور قوانین کی شقیں وہاں لاگو نہیں ہوتیں۔ فاٹا کی نیم خودمختار حیثیت نے حکومت کو اس وقت لاتعلقی ظاہر کرنے کا موقع دیا کہ جب یہ خطہ عسکریت پسندوں کے تربیتی مراکز میں تبدیل ہوگیا اور پھر سوویت افواج کے خلاف لڑنے کے لیے ملک کے اندر اور باہر سے عسکریت پسندوں کو افغانستان بھیجا گیا۔ لیکن اس صورت حال کا یہ بھی نتیجہ نکلا کہ فاٹا عسکریت پسندی کا گڑھ بن گیا جس سے خود پاکستان کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوگیا۔ یہ اسٹریٹجک طور پر اہم علاقے پر ریاستی رٹ کے مکمل خاتمے کا بھی باعث بنا۔ اس خلا کو دہشتگرد گروہوں نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) جیسے گروہوں نے پُر کیا اور انہوں نے علاقوں کا کنٹرول سنبھال لیا۔جہاں ایک جانب پے در پے فوجی آپریشنز سے بڑے پیمانے پر عسکریت پسندوں سے علاقے کو خالی کروایا گیا وہیں اس نے ایک بڑا انسانی بحران بھی پیدا کیا کیونکہ لاکھوں مقامی باشندوں کو تصادم کی صورت حال سے بچنے کے لیے اپنے گھر اور کاروبار چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔ ان میں سے زیادہ تر شاید اپنی تباہ شدہ زمینوں پر واپس آ چکے ہوں لیکن بہت سے لوگ روزگار کی تلاش میں دیگر علاقوں میں نقل مکانی کرچکے ہیں۔ قبائلی علاقوں کو قومی دھارے میں ضم کرنے کی ایک وجہ وہاں ریاست کی رٹ قائم کرنا اور تنازعات کی وجہ سے تباہی کا شکار ہونے والے علاقوں میں ترقیاتی کام کرنا تھا لیکن 7 سال گزر جانے کے باوجود اضلاع کے لوگوں کی حالت زار میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ مالی وسائل کے فقدان کی وجہ سے انتظامی اور نظامِ عدل درہم برہم ہوچکا ہے۔ اس سے عوام کی ناراضی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ تشویشناک بات ضم شدہ اضلاع میں عسکریت پسندی کی واپسی ہے جو انتظامیہ اور نظام عدل کے کمزور ہونے کی وجہ سے ہوئی ہے۔ فوج انتہا پسندوں کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ صرف فوجی آپریشنز سے شورش زدہ علاقوں میں امن و استحکام نہیں آسکتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اصلاحاتی پروگرام میں تیزی لائی جائے۔ فوری طور پر سول قوانین نافذ کرنے والی سروسز کو مضبوط کرنے اور ترقیاتی کاموں کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔مزید یہ کہ خیبرپی کے کے ضم شدہ اضلاع (سابقہ فاٹا) میں جرگہ نظام کی بحالی اور دیگر امور کے حوالے سے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوا تھا اجلاس کی صدارت وفاقی وزیر ر امیر مقام نے کی ، اجلاس میں فیصل کریم کنڈی نے خصوصی شرکت کی۔ امیر مقام نے کہا تھا قبائلی عمائدین اور قانونی ماہرین کو اس مشاورتی عمل میں شامل کیا جائے گا سابقہ قبائلی علاقوں کو مرکزی دھارے میں شامل کرنے پر چند جماعتوں کے علاوہ سیاسی جماعتوں میں وسیع تر اتفاق رائے پایا جاتا تھا۔ لیکن اب اس وقت حکمران جماعت کی جانب سے انضمام کی اصلاحات پر نظر ثانی کافی دلچسپ ہے۔ رپورٹس بتاتی ہیں کہ سابق فاٹا کو وفاقی حکومت کے تحت واپس لانے کا اقدام کیا جا رہا ہے۔
درحقیقت خیبرپختونخوا اسمبلی نے کانوں اور معدنیات سے متعلق قانون سازی نہیں کی جس کے ذریعے وفاقی حکومت کو کانوں کا کچھ کنٹرول حاصل ہوجاتا۔ سابق قبائلی علاقوں میں نایاب و دیگر معدنیات کے بڑے ذخائر موجود ہیں وفاقی حکومت کی جانب سے فاٹا کی سابقہ اصلاحات پر نظرثانی اور وہاں جرگے کے نظام کی بحالی کے حوالے سے کچھ شکوک و شبہات ضرور پیدا ہوئے ہیں۔ غیرمصدقہ رپورٹ بتاتی ہیں کہ اصلاحات سے پیچھے ہٹنے کے اقدام کی ایک وجہ خطے میں بڑھتی شورش کے حوالے سے سیکیورٹی  کے خدشات ہیں