اسلام آباد (ٹی این ایس) پاکستانی معیشت مستحکم ; آئی ایم ایف کی پاکستان کیلئے ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کی منظوری

 
0
23

اسلام آباد (ٹی این ایس) انٹرنیشنل مانیٹری فنڈمانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) نے کہا ہے کہ پاکستان میں 2025 کے بعد مزید ترقی کرے گا عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال میں پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 13 ارب 92 کروڑ 10 لاکھ ڈالرز رہنے کا تخمینہ ہے، جبکہ آئندہ مالی سال 26-2025 میں ذخائر 17 ارب 68 کروڑ 20 لاکھ ڈالرز رہنے کا امکان ہے۔
آئی ایم ایف نے رپورٹ میں کہا ہے کہ آئندہ مالی سال 26-2025 کے دوران پاکستان کی معاشی شرح نمو میں اضافے ہو سکتا ہے جبکہ رواں مالی سال معاشی نمو 2.6 فیصد رہنےکی توقع ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان نے رواں مالی سال کے لیے معاشی شرح نمو کا ہدف 3.6 فیصد مقررکر رکھا ہے۔

آئی ایم ایف کے مطابق آئندہ مالی سال پاکستان کی معاشی شرح نمو 3.6 فیصد رہنے کا امکان ہے۔

عالمی مالیاتی ادارے نے رواں مالی سال کے مقابلے میں آئندہ مالی سال پاکستان میں مہنگائی میں اضافےکا امکان ظاہر کر دیا، رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال اوسط مہنگائی 5.1 فیصد رہنےکا امکان ہے۔

رپورٹ کے مطابق اگلے مالی سال پاکستان میں اوسط مہنگائی کا تخمینہ 7.7 فیصد لگایا گیا ہے، جبکہ گزشتہ مالی سال پاکستان میں اوسط مہنگائی 23.4 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی۔

 

آئی ایم ایف رپورٹ کے مطابق آئندہ مالی سال پاکستان میں بے روزگاری میں کمی ہوسکتی ہے، رواں مالی سال پاکستان میں بے روزگاری کی شرح 8 فیصد رہنے کا تخمینہ ہے، جبکہ اگلے مالی سال بے روزگاری کی شرح 7.5 فیصد رہنے کا امکان ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ کے پاکستان میں نمائندے، ماہر بینیچی نے سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ پالیسی انسٹیٹیوٹ (ایس ڈی پی آئی) میں اپنے انٹلیکچر میں پاکستان میں بدلتے ہوئے معاشی منظرنامے پر روشنی ڈالی اور پاکستان کی معاشی اور موسمیاتی اصلاحاتی ایجنڈے کے لیے فنڈ کی مسلسل حمایت کا اعادہ کیا۔ ایس ڈی پی آئی میں ماہرینِ معیشت، محققین اور پالیسی ماہرین سے خطاب کرتے ہوئے بینیچی نے کہا کہ مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ اور پاکستان میں ترقی 2025 اور اس کے بعد مزید مضبوط ہونے کی توقع ہے پاکستان پر بات کرتے ہوئے بینیچی نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسیلٹی کے تحت ملک کی کارکردگی ’ اب تک مضبوط رہی ہے’ ، اور انہوں نے مئی 2025 میں آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ کی جانب سے پہلے جائزے کی کامیاب تکمیل کو ایک اہم سنگِ میل قرار دیا آئم ایف کے نمائندے نے کہا کہ’ ابتدائی پالیسی اقدامات نے بیرونی چیلنجز کے باوجود معاشی استحکام بحال کرنے اور سرمایہ کاروں کا اعتماد دوبارہ قائم کرنے میں مدد دی ہے انہوں نے زور دیا کہ ڈھانچہ جاتی اصلاحات پاکستان کی طویل المدتی معاشی پائیداری کے لیے کلیدی حیثیت رکھتی ہیں، خاص طور پر ایسی اصلاحات جو ٹیکس کے نظام میں برابری کو مضبوط بنائیں، کاروباری ماحول کو بہتر کریں اور نجی شعبے کی قیادت میں سرمایہ کاری کو فروغ دیں۔ انہوں نے آئی ایم ایف کے ریزیلیئنس اینڈ سسٹین ایبلٹی فیسیلٹی کے تحت پاکستان کی موسمیاتی اصلاحات کی پیش رفت کو بھی اُجاگر کیا۔ بینیچی کے مطابق، آر ایس ایف ایسے ممالک کو مدد فراہم کرنے کے لیے ڈیزائن کی گئی ہے تاکہ وہ موسمیاتی خطرات سے نمٹنے کی صلاحیت کو بہتر بنا سکیں اور بین الاقوامی موسمیاتی وعدوں کو پورا کر سکیں۔ آر ایس ایف کے تحت اصلاحات کے کلیدی شعبوں میں عوامی سرمایہ کاری کی منصوبہ بندی کو بہتر بنانا، پانی کے وسائل کے مؤثر اور پائیدار استعمال کو فروغ دینا، آفات سے نمٹنے کی تیاری اور مالی معاونت کے لیے ادارہ جاتی ہم آہنگی کو بہتر بنانا، اور موسمیاتی ڈیٹا کی دستیابی اور شفافیت کو بڑھانا شامل ہیں۔ آر ایس ایف کے ذریعے تعاون نہ صرف پاکستان کی موسمیاتی مزاحمت کو مضبوط کرے گا بلکہ سبز سرمایہ کاری کو بھی متحرک کرے گا اور ایک زیادہ ماحول دوست معاشی سمت کو فروغ دے گا ۔ تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ ’ بڑھتی ہوئی تجارتی کشیدگی، جغرافیائی سیاسی تقسیم اور عالمی تعاون کی کمزوری عالمی معاشی منظرنامے پر غیر معمولی غیر یقینی صورتحال پیدا کر رہی ہے جس سے محتاط اور دور اندیش پالیسی اقدامات کی فوری ضرورت اجاگر ہوتی ہے۔

پاکستان نے معیشت کو مستحکم کرنے اور اعتماد کی بحالی میں نمایاں پیش رفت کی ہے جس پر عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کے لیے تقریباً ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کی نئی قسط کی منظوری دے دی ہے، جو اس کے دوہری نوعیت کے بیل آؤٹ (37 ماہ کے توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) اور موسمیاتی توجہ کی حامل ریزیلیئنس اینڈ سسٹین ایبلٹی سہولت (آر ایس ایف) کے تحت جاری کی جا رہی ہے رپورٹ کے مطابق یہ فیصلہ پیر کو واشنگٹن میں آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس کے بعد سامنے آیا۔ بورڈ کے بیان میں کہا گیا کہ ’پاکستان کی مضبوط پروگرام عمل درآمد نے حالیہ تباہ کن سیلاب کے باوجود، استحکام کو برقرار رکھا ہے اور مالیاتی و بیرونی شعبے کی صورتِ حال میں بہتری آئی ہے‘ بیان میں زور دیا گیا کہ پاکستان کی پالیسی ترجیحات بدستور میکرواکنامک استحکام کے تحفظ اور اُن اصلاحات کے فروغ پر مرکوز ہیں، جو سرکاری مالیات کو مضبوط بنائیں، مسابقت کو بڑھائیں، پیداواری صلاحیت اور مقابلے کی اہلیت میں اضافہ کریں، سماجی تحفظ اور انسانی وسائل میں بہتری لائیں، سرکاری اداروں (ایس او ایز) میں اصلاحات کریں، اور عوامی خدمات کی فراہمی اور توانائی کے شعبے کی پائیداری کو بہتر بنائیں یہ منظوری اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ مشکل عالمی حالات کے باوجود پاکستان نے معیشت کو مستحکم کرنے اور اعتماد کی بحالی میں نمایاں پیش رفت کی ہے۔ بورڈ نے نوٹ کیا کہ پاکستان کی مالی کارکردگی مضبوط رہی ہے، اور مالی سال 2025 میں 1.3 فیصد جی ڈی پی کا پرائمری سرپلس حاصل ہوا، جو پروگرام اہداف کے مطابق ہے۔ مجموعی زرمبادلہ کے ذخائر مالی سال 25 کے اختتام پر ساڑھے 14 ارب ڈالر رہے، جو ایک سال قبل 9 ارب 40 کروڑ ڈالر تھے، اور توقع ہے کہ مالی سال 26 اور درمیانی مدت میں یہ مزید بہتر ہوں گے بورڈ نے یہ بھی کہا کہ ’مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے، جو خوراک کی قیمتوں پر سیلاب کے اثرات کا نتیجہ ہے، تاہم یہ اضافہ عارضی ہونے کی توقع ہے‘ آئی ایم ایف کے ڈپٹی مینیجنگ ڈائریکٹر اور قائم مقام چیئرمین نائیجل کلارک نے اپنے بیان میں کہا کہ غیر یقینی عالمی ماحول کے پیشِ نظر پاکستان کو چاہیے کہ وہ محتاط پالیسیوں پر عمل جاری رکھے تاکہ میکرواکنامک استحکام کو مزید مضبوط کیا جا سکے، اور ان اصلاحات میں تیزی لائی جائے جو نجی شعبے کی قیادت میں پائیدار اور مضبوط درمیانی مدت کی ترقی کے لیے ضروری ہیں۔ انہوں نے ٹیکس پالیسی میں سادگی اور ٹیکس اس بیس کے پھیلاؤ کے ذریعے محصولات بڑھانے کی اہمیت پر زور دیا، جسے مالی پائیداری کے حصول اور موسمیاتی ریزیلینس، سماجی تحفظ، انسانی وسائل کی ترقی اور عوامی سرمایہ کاری کے لیے مالی گنجائش پیدا کرنے کے لیے کلیدی قرار دیا گیا ہے۔ کلارک نے مزید کہا کہ توانائی کے شعبے میں اصلاحات اس کی پائیداری کے تحفظ اور پاکستان کی مسابقتی صلاحیت میں بہتری کے لیے نہایت اہم ہیں انہوں نے بتایا کہ بجلی کے نرخوں میں بروقت ایڈجسٹمنٹ سے گردشی قرضے کے بہاؤ اور ذخائر میں کمی آئی ہے، جب کہ اس بات پر زور دیا کہ آئندہ کوششیں بجلی کی پیداوار اور تقسیم کے اخراجات میں پائیدار کمی لانے اور توانائی و گیس کے شعبوں کی نااہلیوں کے ازالے پر مرکوز ہونی چاہئیں بورڈ نے کہا کہ آر ایس ایف کی قسط پاکستان کے موسمیاتی موافقت اور آفات سے نمٹنے کی استعداد بڑھانے کے ایجنڈے کی معاونت کے لیے ہے یہ قسط ایسے اقدامات کی حمایت کرتی ہے جو قدرتی آفات سے نمٹنے اور مالی تعاون کی کوآرڈی نیشن کو مضبوط کریں، پانی کے محدود وسائل کے بہتر استعمال کو یقینی بنائیں، منصوبوں کے انتخاب اور بجٹ سازی میں موسمیاتی عوامل کو شامل کریں، اور مالیاتی فیصلوں میں موسمیاتی خطرات سے متعلق معلومات کو بہتر بنائیں۔ بورڈ نے نوٹ کیا کہ حالیہ سیلاب اس بات کی سنگینی کو ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان کو موسمیاتی اصلاحات پر تیزی سے عملدرآمد کرنا ہوگا تاکہ وہ بار بار آنے والی قدرتی آفات کے مقابلے میں اپنی ریزیلینس کو بڑھا سکے۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کی جانب سے گورننس اور کرپشن ڈائگناسٹک اسیسمنٹ کی اشاعت کا خیرمقدم کیا، اور اسے گورننس اصلاحات میں پیش رفت کے لیے ایک اہم قدم قرار دیا۔
کلارک نے مزید کہا کہ اضافی کوششوں کو ایس او ایز کی گورننس اصلاحات اور نجکاری، کاروباری ماحول کی بہتری، اور معاشی اعداد و شمار و شماریات کی مضبوطی پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ بورڈ نے اس بات کو اجاگر کیا کہ پاکستان نے ڈھانچہ جاتی اصلاحات میں قابلِ ذکر پیش رفت کی ہے۔ ’اسٹرکچرل اصلاحات کو آگے بڑھانے کی کوششیں جاری رہنی چاہئیں تاکہ ترقی کی صلاحیت کو کھولا جا سکے اور نجی شعبے کی ہائی امپیکٹ سرمایہ کاری کو راغب کیا جا سکے‘ اس قسط کے بعد، ای ایف ایف اور آر ایس ایف کے تحت پاکستان کو اب تک تقریباً 3 ارب 30 کروڑ ڈالر فراہم کیے جا چکے ہیں، جو میکرواکنامک استحکام اور طویل مدتی ساختی اصلاحات، خصوصاً موسمیاتی ریزیلینس کے لیے معاون ہیں۔ مبصرین کے مطابق یہ فنڈز قرضوں کی ادائیگی کے دباؤ میں کمی، درآمدی گنجائش میں بہتری، اور اہم سرمایہ کاری (بشمول انفرااسٹرکچر اپ گریڈ، پانی کے انتظام، اور آر ایس ایف روڈمیپ کے تحت موسمیاتی موافقت کے اقدامات) کی حمایت میں مدد دیں گے۔ پاکستان کے حکام نے اس منظوری کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے پاکستان کی اصلاحاتی کوششوں اور معاشی نظم و نسق پر اعتماد کا اظہار قرار دیا، تاہم یہ بھی کہا کہ اصل امتحان ان وعدوں کو حقیقی معاشی بحالی میں تبدیل کرنا ہے۔ ماہرین نے نشاندہی کی کہ مالیاتی اور توانائی پالیسی میں نظم و ضبط، گورننس اصلاحات، اور موسمیاتی موافقت مستقبل میں پائیدار معاشی ریلیف اور جھٹکوں کے مقابلے کی صلاحیت بڑھانے کے لیے کلیدی ہوں گے۔عالمی سطح پر اجناس کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ، سخت مالیاتی حالات، اور بار بار آنے والی موسمیاتی آفات کے پس منظر میں آئی ایم ایف کی یہ منظوری محض مالی سہارا نہیں بلکہ اس بات کا اشارہ ہے کہ منظم اصلاحات اور فنڈز کا مؤثر استعمال پاکستان کی معاشی بنیادوں اور مستقبل کے جھٹکوں کے مقابلے کی صلاحیت کو مضبوط بنا سکتا ہے۔

 

یہ بورڈ اجلاس اسٹاف سطح کے اس معاہدے کے بعد ہوا ہے، جو اکتوبر میں کراچی، اسلام آباد اور واشنگٹن میں 24 ستمبر سے 8 اکتوبر تک ہونے والے مذاکرات کے بعد طے پایا تھا، اگرچہ اسٹاف مشن نے پاکستان کی پیش رفت کو تسلیم کرلیا تھا، لیکن رقوم کی فراہمی کا انحصار بورڈ کی باضابطہ منظوری پر ہے۔پاکستان اور قرض دینے والے ادارے کے درمیان مذاکرات، جن کی قیادت آئی ایم ایف مشن چیف ایوا پیٹرووا نے کی، کا محور پاکستان کی مالیاتی کارکردگی، مالیاتی پالیسی کا مؤقف، اسٹرکچرل اصلاحات اور ماحولیاتی وعدوں پر پیش رفت تھا۔ ابتدائی جائزہ رپورٹ میں، آئی ایم ایف نے کہا تھا کہ پاکستان نے مالیاتی استحکام، افراطِ زر میں کمی اور بیرونی مالیاتی ذخائر کو مضبوط کرنے میں نمایاں پیش رفت کی ہے، اس نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کی سخت مانیٹری پالیسی کو بھی سراہا، جس نے افراطِ زر کی توقعات کو قابو میں رکھنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اسٹرکچرل اصلاحات، خصوصاً سرکاری اداروں، توانائی کے شعبے کی پائیداری، مسابقت اور عوامی خدمات کی فراہمی سے متعلق ایسے شعبے قرار دیے گئے جہاں حکام نے مسلسل عزم کا اظہار کیا ہے۔ آئی ایم ایف نے آر ایس ایف کے تحت جاری ماحولیاتی ایجنڈے میں بھی پیش رفت کی نشاندہی کی، جن میں قدرتی آفات کے مقابلے میں لچک بڑھانے، آبی وسائل کے بہتر انتظام اور موسمیاتی معلوماتی نظام کو بہتر بنانے کے اقدامات شامل ہیں۔ حالیہ سیلاب، جس نے زراعت، بنیادی ڈھانچے اور روزگار کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا، کے بعد یہ اصلاحات مزید ضروری ہو گئی ہیں۔ جائزوں کی منظوری ایک نازک مرحلے پر سرمایہ کاروں کے اعتماد کو مضبوط بنانے کی امید ہے، کیونکہ پاکستان بیرونی دباؤ اور سیلاب کے اثرات کے درمیان اپنی معیشت کو مستحکم کرنے کی کوشش جاری رکھے ہوئے ہے۔پاکستان پر مستقل دباؤ ہے کہ وہ مالیاتی نظم و ضبط برقرار رکھے، توانائی کے شعبے میں اصلاحات تیز کرے اور طویل المدتی استحکام کے لیے محصولات بڑھانے کے اقدامات جاری رکھے۔ آئی ایم ایف نے خبردار کیا ہے کہ خطرات اب بھی زیادہ ہیں، معاشی منظرنامہ سیلابی نقصانات سے متاثر ہوا ہے، اور فنڈ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ افراطِ زر کو اسٹیٹ بینک کے ہدف کے اندر رکھنے کے لیے مانیٹری پالیسی مناسب طور پر سخت اور ڈیٹا پر مبنی ہونی چاہیے۔ فنڈ نے مسابقت کو مضبوط بنانے، پیداواری صلاحیت بڑھانے، عوامی خدمات بہتر کرنے اور توانائی کے شعبے میں مستقل مسائل کو کم کرنے کے لیے اصلاحات کے جاری عمل پر بھی زور دیا ہے۔پاکستان کو امید ہے کہ یہ آمدنی بیرونی ذخائر کو تقویت دے گی، معاشی بحالی میں مدد کرے گی اور حکومت کے اصلاحاتی ایجنڈے پر بین الاقوامی اعتماد کو مستحکم کرے گی۔اس سے قبل آئی ایم ایف نے اپنی طویل انتظار کی گئی گورننس اور کرپشن ڈائیگناسٹک اسیسمنٹ (جی سی ڈی اے) رپورٹ جاری کی تھی، جس میں پاکستان میں بدعنوانی کے دیرینہ چیلنجوں کو اجاگر کیا گیا تھا،رپورٹ میں شفافیت، انصاف اور دیانت داری میں بہتری کے لیے 15 نکاتی اصلاحاتی ایجنڈا فوری طور پر شروع کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا یہ رپورٹ، جس کی اشاعت آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ کی قرضہ پروگراموں کی منظوری کے لیے ایک شرط ہے، اس کا تخمینہ ہے کہ پاکستان آئندہ 3 سے 6 ماہ کے اندر گورننس اصلاحات پر عمل درآمد شروع کر کے آئندہ 5 برسوں میں اپنی معاشی نمو کو تقریباً 5 سے 6.5 فیصد تک بڑھا سکتا ہے۔ رپورٹ کے اجرا کے بعد حکومت پر تنقید ہوئی اور اپوزیشن جماعتوں نے ’پاکستان کی تاریخ کے بدترین مالیاتی اسکینڈل‘ کی تحقیق کا مطالبہ کیا تاہم، وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ یہ رپورٹ ’تنقید نہیں‘ بلکہ ’طویل عرصے سے مطلوب اصلاحات کو تیز کرنے کے لیے محرک‘ ہے۔ رپورٹ میں ٹیکس اور گورننس سمیت کئی شعبوں میں قابلِ ذکر پیش رفت کو سراہا گیا حکومت باقی سفارشات پر بھی عمل درآمد کے لیے پُرعزم ہے، جو پاکستان کی معاشی بحالی کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری وسیع ادارہ جاتی اصلاحات کا حصہ ہیں, معاہدے کے تحت پاکستان کو ای ایف ایف کے تحت ایک ارب ڈالر اور آر ایس ایف کے تحت 20 کروڑ ڈالر ملیں گے، یہ ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کی رقم 9 دسمبر کو پاکستان کے اکاؤنٹ میں منتقل ہونے کی توقع ہے، جس سے دونوں پروگراموں کے تحت مجموعی ادائیگیاں تقریباً 3.3 ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گی۔توقع کی جا رہی ہے کہ وہ گورننس اور کرپشن ڈائیگناسٹک (جی سی ڈی) اسیسمنٹ رپورٹ شائع کرے گا، جو ای ایف ایف کے تحت ایک کلیدی ساختی بینچ مارک ہے۔ اس معیار کی آخری تاریخ جولائی کے اختتام پر مقرر تھی، جسے بعد میں اگست اور پھر اکتوبر کے آخر تک بڑھایا گیا، مگر اب تک پوری نہیں ہو سکی، تاخیر کی وجہ پاکستان کے حکام اور آئی ایم ایف کے ماہرین کے درمیان تکنیکی و حقائق پر مبنی اختلافات بتائے گئے ہیں۔ پاکستان نے فنڈ کو یقین دہانی کرائی ہے کہ رپورٹ بورڈ اجلاس سے قبل شائع کر دی جائے گی۔ ایک عہدیدار کے مطابق، یہ رپورٹ آئی ایم ایف کی تکنیکی اور قانونی ٹیموں نے او ای سی ڈی اور ایف اے ٹی ایف جیسے عالمی اداروں کے ساتھ مشاورت کے بعد تیار کی ہے، اور یہ ایک جامع مشق تھی جو 100 سے زائد قواعد کا احاطہ کرتی ہے۔ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مسودوں کے تبادلے اور مختلف اداروں (بشمول انسدادِ بدعنوانی کے ادارے، اعلیٰ عدلیہ، تحقیقاتی ایجنسیاں، وزارتِ خزانہ اور قانون) کے ساتھ تفصیلی مشاورت کے کئی مراحل طے کیے گئے، تاکہ عالمی ماہرین کی رہنمائی کے تحت بہترین نتائج حاصل کیے جا سکیں۔فریقین کے درمیان اس بات پر بھی بات چیت ہوئی کہ جی سی ڈی رپورٹ کی اشاعت اور اس کی بنیاد پر گورننس ایکشن پلان کے نفاذ کے درمیان وقت کا فرق کم سے کم رکھا جائے، تاکہ اصلاحات بروقت عمل میں لائی جا سکیں۔ آئی ایم ایف کا ایک اسکوپنگ مشن رواں سال کے آغاز میں پاکستان آیا تھا، جس نے سپریم کورٹ، وزارت قانون و انصاف، آڈیٹر جنرل، پارلیمنٹ، قومی احتساب بیورو (نیب)، ایف بی آر، اور اسٹیٹ بینک کے حکام سے ملاقاتیں کیں، اس کے نتیجے میں ایک جامع رپورٹ تیار کی گئی جس میں پبلک فنانس مینجمنٹ، ٹیکس نظام اور اے جی پی آر کے طریقہ کار میں کمزوریاں اور خامیاں واضح کی گئیں۔ موجودہ گورننس نظام کے تحت زیادہ تر سرکاری افسران اپنی اور اپنے خاندان کی جائیدادوں کا اعلان نہ تو ٹیکس حکام کے سامنے کرتے ہیں اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو فراہم کرتے ہیں، جب کہ احتساب کے لیے مؤثر ادارہ جاتی نظام بھی موجود نہیں۔ اس کے علاوہ کئی ادارے، بشمول ریگولیٹری باڈیز، ان انکشافات اور جانچ سے مستثنیٰ ہیں، اسی وجہ سے بیوروکریسی اور سیاسی حلقوں میں بدعنوانی کی شکایات عام ہیں اور پاکستان بین الاقوامی کرپشن کے اشاریوں میں ہمیشہ بلند درجہ پر رہا ہے۔ آئی ایم ایف مسلسل زور دے رہا ہے کہ حکومت ڈیٹا پر مبنی خطرات کی نشاندہی، احتیاطی اقدامات، شفافیت کے اصول اور بدعنوانی و سرکاری اختیارات کے غلط استعمال کے خلاف واضح رہنما اصول اپنائے، کیونکہ انہی وجوہات نے پالیسی سازی اور کاروباری اعتماد کو متاثر کیا ہے۔ پیرس میں قائم فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نے بھی اس ضمن میں کمزوریاں اجاگر کی ہیں اور اصلاحات کی سفارشات پیش کی ہیں۔ آئی ایم ایف نے عملے کی سطح کا معاہدہ طے پانے پر اعلان کیا تھا کہ فنڈ نے پاکستان کی مالی اور معاشی کارکردگی، خاص طور پر ای ایف ایف کے تحت معاشی استحکام اور مارکیٹ اعتماد کی بحالی کے اقدامات کو کو سراہا ہے، معاشی بحالی جاری ہے، مالی سال 2025 میں کرنٹ اکاؤنٹ 14 سال بعد پہلی بار سرپلس میں رہا، مالیاتی توازن ہدف سے بہتر رہا، مہنگائی قابو میں ہے، زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری آئی ہے، اور مالیاتی حالات مستحکم ہوئے ہیں، کیونکہ حکومتی بانڈز کے اسپریڈز نمایاں طور پر کم ہوئے ہیں۔ تاہم، فنڈ نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی تھی کہ حالیہ سیلابی تباہی (جس سے تقریباً 70 لاکھ افراد متاثر ہوئے، ایک ہزار سے زائد اموات ہوئیں اور مکانات، بنیادی ڈھانچے اور زرعی زمین کو شدید نقصان پہنچا) معیشت پر خاص طور پر زرعی شعبے پر منفی اثر ڈال رہی ہے، جس کے نتیجے میں مالی سال 2026 کی جی ڈی پی شرح نمو کا تخمینہ 3.25 تا 3.5 فیصد تک کم کر دیا گیا ہے۔ یہ سیلاب پاکستان کی قدرتی آفات کے خطرات اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے حوالے سے بلند حساسیت کو ظاہر کرتے ہیں، اس لیے موسمیاتی لچک پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، حکام نے ای ایف ایف اور آر ایس ایف کے تحت پائیدار مالیاتی اور ساختی اصلاحات جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔
یاد رہے کہ 15 اکتوبر 2025 کوپاکستان اور عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے درمیان 7 ارب ڈالرز سے زائد کے قرض پروگرام کے دوسرے جائزے کے لیے اسٹاف لیول معاہدہ طے پایا، ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری کے بعد پاکستان کو 1.2 ارب ڈالر کی قسط جاری کی گئی، آئی ایم ایف نے اعلان کیا تھا کہ پاکستان کے ساتھ قرض پروگراموں پر اسٹاف لیول معاہدہ طے پا گیا ہے، جس کے بعد فنڈ کے ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری کے بعد پاکستان کو 1.2 ارب ڈالر کی قسط تک رسائی حاصل ہو جائے گی۔منظوری مل گئی ہےتو آئی ایم ایف، پاکستان کو ایک ارب ڈالر اپنی توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کے تحت اور 20 کروڑ ڈالر اپنی لچک اور پائیداری سہولت (آر ایس ایف) کے تحت فراہم کرے گا، جس سے ان دونوں پروگراموں کے تحت مجموعی ادائیگیاں تقریباً 3.3 ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گی۔ایوا پیٹرووا کی زیر قیادت آئی ایم ایف کے مشن نے پاکستانی حکام کے ساتھ ای ایف ایف کے دوسرے جائزے اور آر ایس ایف کے پہلے جائزے کے سلسلے میں مذاکرات مکمل کیے تھے، یہ معاہدے 2024 میں شدید مالی بحران کے بعد معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے کیے گئے تھے۔ اگرچہ مشن نے پاکستان سے روانگی کے وقت کوئی باضابطہ معاہدہ نہیں کیا تھا، لیکن فنڈ نے کہا تھا کہ معاہدے تک پہنچنے کے لیے ’نمایاں پیش رفت‘ ہوئی ہے، ایک روز قبل واشنگٹن میں موجود وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بھی امید ظاہر کی تھی کہ یہ معاہدہ اسی ہفتے طے پا جائے گا۔آئی ایم ایف کے بیان میں مشن کی سربراہ ایوا پیٹرووا نے کہا تھاکہ اسٹاف لیول کا معاہدہ ابھی بھی آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری سے مشروط ہے۔ ’ای ایف ایف کی معاونت سے پاکستان کا اقتصادی پروگرام معاشی استحکام کو مضبوط کر رہا ہے اور منڈی کے اعتماد کو بحال کر رہا ہے ایوا پیٹرووا کے مطابق ’پاکستان کی معاشی بحالی درست سمت میں گامزن ہے، مالی سال 25-2024 میں جاری کھاتوں کا توازن 14 سال بعد پہلی بار سرپلس (فاضل) رہا، مالیاتی خسارہ پروگرام کے ہدف سے بہتر رہا، مہنگائی قابو میں ہے، زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری آئی ہے اور مالیاتی حالات بہتر ہو رہے ہیں کیونکہ خود مختار بانڈز کے اسپریڈ میں نمایاں کمی آئی ہے‘ حالیہ سیلاب نے معیشت کے منظرنامے خاص طور پر زرعی شعبے پر منفی اثر ڈالا ہے، جس کے نتیجے میں مالی سال 26-2025 کے لیے مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کا تخمینہ کم ہو کر تقریباً 3.25 سے 3.5 فیصد رہ گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’یہ سیلاب اس بات کی یاد دہانی ہیں کہ پاکستان قدرتی آفات اور ماحولیاتی خطرات کے لحاظ سے نہایت کمزور ہے، اور اس کے لیے موسمیاتی لچک پیدا کرنے کی مستقل ضرورت ہے‘ ایوا پیٹرووا نے سیلاب سے متاثرہ افراد سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فنڈ پاکستانی حکام، نجی شعبے اور ترقیاتی شراکت داروں کا شکریہ ادا کرتا ہے جنہوں نے مذاکرات کے دوران بھرپور تعاون اور میزبانی کی۔ان کے مطابق پاکستانی حکام مالی سال 26-2025 کے لیے مجموعی ملکی پیداوار کے 1.6 فیصد کے بنیادی سرپلس کے ہدف پر قائم ہیں، جسے محصولات میں اضافے اور ٹیکس نظام کی مؤثر عملداری کے ذریعے حاصل کیا جائے گا اگر محصولات میں کمی کے باعث پروگرام کے اہداف کو خطرہ لاحق ہوا تو حکام بروقت اقدامات کے لیے تیار ہیں‘ ایوا پیٹرووا نے کہا کہ حکام متاثرہ صوبوں میں سیلاب زدگان کے لیے فوری امدادی اقدامات کر رہے ہیں اور وفاقی و صوبائی بجٹ میں ازسرنو مختص رقم کے ذریعے ریلیف فراہم کی جا رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ’سماجی تحفظ ای ایف ایف پروگرام کا ایک بنیادی ستون ہے، اور حکام بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کی مالی وسعت، دائرہ کار اور انتظامی صلاحیت کو بہتر بنانے پر کام کر رہے ہیں‘ وفاقی اور صوبائی سطح پر بی آئی ایس پی سے ہٹ کر صحت اور تعلیم کے اخراجات میں بھی اضافہ کیا جا رہا ہے تاکہ شمولیتی ترقی کو فروغ دیا جا سکے اور کمزور طبقات کا تحفظ کیا جا سکے‘۔ محصولات میں اضافے، وفاق اور صوبوں کے درمیان مالی بوجھ کی منصفانہ تقسیم اور عوامی مالیاتی نظم و نسق کو بہتر بنانے کی کوششیں جاری ہیں۔اسٹیٹ بینک مہنگائی کو 5 سے7 فیصد تک رکھنے کے اقدامات کرے گا‘
انہوں نے وضاحت کی کہ ’چونکہ محصولات میں صوبوں کا کردار اہم ہے، اس لیے وفاقی حکومت صوبائی حکام کے ساتھ تعاون کو مزید وسعت کرے گی ’ٹیکس پالیسی کے ڈیزائن کو بہتر بنانے میں بھی اہم پیش رفت ہوئی ہے، نیا ٹیکس پالیسی دفتر قائم کر دیا گیا ہے جو درمیانی مدت میں اصلاحات کی قیادت کرے گا، تاکہ ٹیکس نظام کو سادہ بنایا جائے اور عارضی اقدامات پر انحصار کم کیا جا سکے‘ اسٹیٹ بینک آف پاکستان محتاط مالیاتی پالیسی جاری رکھے گا جو آنے والے معاشی اعداد و شمار، حالیہ سیلاب کے اثرات اور معاشی بحالی کے رجحان کو مدنظر رکھے گی تاکہ مہنگائی 5 سے 7 فیصد کے ہدف کے اندر برقرار رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اگر سیلاب کے باعث قیمتوں پر عارضی دباؤ بڑھا تو اسٹیٹ بینک اپنی پالیسی میں ردوبدل کے لیے تیار ہے، زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ خوش آئند ہے، لیکن اب بھی فارن ایکسچینج مارکیٹ کو مزید فعال اور شفاف بنانے کے اقدامات درکار ہیں تاکہ لین دین میں سہولت ہو، قیمتوں کا درست تعین ممکن ہو اور بیرونی جھٹکوں کا مقابلہ کیا جا سکے‘ ایوا پیٹرووا نے گردشی قرضے کے حوالے سے کہا کہ پاکستان اسے مزید بڑھنے سے روکنے کے لیے پرعزم ہے، جس کے لیے بروقت ٹیرف ایڈجسٹمنٹ اور لاگت کی وصولی یقینی بنائی جا رہی ہے۔ ساختی اصلاحات بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی کارکردگی، گورننس اور اثر انگیزی کو بہتر بنانے پر مرکوز ہیں جن میں نجکاری، ترسیلی نظام کی اپ گریڈیشن، غیر مؤثر پیداواری یونٹس کی نجکاری اور مسابقتی مارکیٹ کی تکمیل شامل ہے‘ حکام پیداوار میں بہتری، گورننس کے استحکام اور کاروباری ماحول کی اصلاح کے ذریعے نجی شعبے کی ترقی کے لیے ساختی اصلاحات پر پیش رفت کر رہے ہیں سرکاری اداروں میں اصلاحات کے ایجنڈے کو آگے بڑھنے کی ضرورت ہے اب بھی ضرورت ہے کہ سرکاری اداروں میں اصلاحات کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا جائے اور معیشت میں ریاست کے کردار کو محدود کیا جائے‘ ان کے مطابق حکام زرعی شعبے میں حکومتی مداخلت کم کرنے کے لیے اصلاحات پر بھی کام کر رہے ہیں تاکہ یہ شعبہ زیادہ مؤثر، متنوع اور عالمی سطح پر مسابقتی بن سکے اور غذائی تحفظ کے تقاضے پورے کر سکے ان کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی تجارت کو فروغ دینے کے لیے بھی کوششیں جاری ہیں، جن میں نئی نیشنل ٹیرف پالیسی کا نفاذ شامل ہے ’حالیہ اور 2022 کے سیلابوں نے اس بات کو اجاگر کیا ہے کہ پاکستان کے لیے موسمیاتی لچک پیدا کرنا ناگزیر ہے‘ آر ایس ایف کے تحت قومی وعدوں سے ہم آہنگ پالیسیاں موسمیاتی مزاحمت کو مضبوط بنا رہی ہیں جن میں حالیہ سبز نقل و حمل (گرین موبیلٹی) اور ٹرانسپورٹ میں کاربن کے اخراج میں کمی کے اقدامات شامل ہیں‘ ان کے مطابق ’پاکستانی حکام مستقبل کی اصلاحات پر بھی کاربند ہیں، جن میں موسمیاتی معلوماتی نظام اور مالی خطرے کے انتظام کو مضبوط بنانا، پانی کے نظام کی پائیداری بہتر کرنا، قدرتی آفات سے متعلق مالیاتی فریم ورک تیار کرنا اور توانائی کے شعبے کی اصلاحات کو قومی ماحولیاتی اہداف کے ساتھ ہم آہنگ کرنا شامل ہے