جہانگر ترین کیس، دیکھ رہے ہیں ریکارڈ پر موجود دستاویزات سے بے ایمانی ظاہرہوتی ہے یا نہیں، سپریم کورٹ  

 
0
423

اسلام آبادنومبر 8(ٹی این ایس) چیف جسٹس سپریم کورٹ ثاقب نثار نے کہا کہ یہ ثابت کرنا ہوگا کہ بیرون ملک گیا پیسہ جہانگیر ترین کا اثاثہ ہے، پاناماکیس میں قابل وصول تنخواہ ظاہر نہ کرنے پر نااہلی ہوئی، عدالت نے پہلے قابل وصول تنخواہ کو اثاثہ ثابت کیا، دیکھنا ہوگا کہ جو دستاویزات ریکارڈ پر ہیں، اس سے بے ایمانی ثابت ہوتی ہے یا نہیں، قانون کے اندر رہتے ہوئے کسی کوبددیانت کہہ سکتے ہیں کیا زرعی ٹیکس اتھارٹی نے کم ٹیکس پر ایکشن لیا کسی مالک نے بھی لیز زمین کیادائیگی پر اعتراض نہیں کیا، یہ نہیں کہا کہ یہ درخواستیں پاناما کیا کائونٹر بلاسٹ ہیں، ایسا قانون دکھادیں جس کے تحت ٹرسٹ کی جائیداد ملکیت ہو، ضروری سوال یہ ہے کہ جو رقم باہر گئی اس کے ذرائع کیا ہیں،جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی معمولی نہیں ہے، کیا ہم ٹیکس اتھارٹی کے اختیارات استعمال کرسکتے ہیں آپ نے لیز زمین کی ادائیگیوں کو چیلنج نہیںکیا

۔بدھ کو سپریم کورٹ جہانگیر ترین نااہلی کیس کی سماعت چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی، حنیف عباسی کے وکیل عاضد نفیس نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ زرعی آمدن سے متعلق موقف اپنایاگیا، تحریری جواب میں کہا گیا کہ لیز زمین پر ٹیکس نہیں ہوتا،پھر موقف اپنایا گیا کہ کاغذات نامزدگی میں لیز زمین کالم نہیں ہے،لیز زمین سے متعلق دستاویزات جعلی ہیں، چیف جسٹس ثاقب نثار نے سوال کیا کہ کیا زرعی ٹیکس اتھارٹی نے کم ٹیکس پر ایکشن لیا وکیل عاضد نفیس نے کہا کہ لیززمین کا اندراج محکمہ مال کے ریکارڈ میں موجود ہی نہیں، جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ لیز زمین کا محکمہ مال میں اندراج کرانا مالکان کا کام تھا،چیف جسٹس نے کہا کہ جو دستاویزات ریکارڈ پر ہیں، اس سے بے ایمانی کا سوال پیدا ہوتا ہی وکیل عاضد نفیس نے کہا کہ جہانگیر ترین نے تحریری جواب میں کہا کہ آف شور کمپنی کی بنی فیشری ہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ نے لیززمین کی ادائیگیوںکو چیلنج نہیں کیا چیف جسٹس نے کہا کہ کسی مالک نے بھی لیززمین کی ادائیگی پر اعتراض نہیں کیا، وکیل عاضد نفیس نے کہا کہ لیز زمین کی آمدن پر ٹیکس ادا نہیں کیا گیا۔ ٹرسٹ ڈید کی ہر چیز جہانگیر ترین کے گرد گھومتی ہے، ٹرسٹ کے ذریعے سرمایہ کاری بھی کی جاسکتی ہے، چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ بڑا جامع ٹرسٹ بنایا گیا ہے، دیکھنا ہے، ٹرسٹ کے تحت کوئی اور پراپرٹی حاصل کی گئی یہ نہیں کہا،درخواستیں پاناما کا کاونٹر بلاسٹ ہیں یہ موقف جہانگیر ترین کے وکیل نے اپنایا ہے ، چیف جسٹس نے کہا کہ ٹرسٹ کے کام کرنے کے لیے اپنے قواعد ضوابط ہیں، ٹرسٹ ختم کرنے کے لے عدالت جانا پڑتا ہے، ٹرسٹ کی وضاحت جہانگیر ترین کے وکیل نے کرنی ہے، ایسا قانون دیکھا دیں ،جس کے تحت ٹرسٹ کی جائیداد ملکیت ہوگی،

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ یہ بتائیں کہ آف شور کمپنی کیوں بنائی جاتی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ ٹرسٹ جہانگیر ترین کا اثاثہ بنیں، ٹرسٹ کے تحت خریدی گئی جائیداد ٹرسٹ ہی کی ہوتی ہے، کیا کاغذات نامزدگی میں ٹرسٹ کو ظاہر کرنا ضروری ہی وکیل عاضد نفیس نے کہا کہ پراپرٹی کی ملکیت کو چھپانے کیلئے ٹرسٹ بنایا گیا۔ٹرسٹ بنانے کا مقصد اپنی آمدن چھپانا تھا، جہانگیر ترین خود اس ٹرسٹ کے بینی فیشل اونر ہیں،چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں دیکھنا ہے کہ منی ٹرانزیکشن ہے ،قانونی ذرائع سے ہوئی یا غیر قانونی ، پاناما کیس میں بھی سب سے ضروری سوال یہی تھا کہ جو رقم باہر گئی ہے، اس کے قانونی ذرائع کیا ہیں۔ اگروہ بتادیئے جاتے تو کوئی ایسا فیصلہ نہ آتا جیسا آیا ہے عاضد نفیس نے کہا کہ ہمیں دیکھنا ہے بددیانتی تھی یا نہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ اگرتمام اقدامات قانون کے مطابق ہوئے ہیں، تو پھر بھی کیا اس کے اندر بددیانتی تلاش کریں وکیل عاضد نفیس نے کہا کہ کچھ اقدامات اپنی بددیانتی چھپانے کے لیے بھی کیئے جاتے ہیں،

چیف جسٹس نے کہا کہ دیکھیں گے کہ جو اقدامات قانونی طور پر ہوئے ان میں بددیانتی کیسے ہوسکتی ہے جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ اگر درخوست گزار نے کہا کہ اگر لیز زمین کی ادائیگیوں کو چینلج کرتے تو بات بنتی، کروڑوں روپے کس مد میں ادا کیئے گئے۔وجہ بتائیں کہ کروڑوں کی رقم لیز زمین کیلئے ادا کیوں نہیں ہوئی چیف جسٹس نے کہا جہانگیر ترین نے لیز زمین کی ادائیگیاں چیک کے ذریعے کیں،کسی مالک نے بھی لیز زمین کی ادائیگی پراعتراض نہیں کیا، یہ ثابت کرنا ہے کہ بیرون ملک گیا پیسہ جہانگیر ترین کا اثاثہ ہے، پاناما کیس میں قابل وصول تنخواہ ظاہر نہ کرنے پر نااہل ہوئی،عدالت نے پہلے قابل وصول تنخواہ کو اثاثہ ثابت کیا۔وکیل عاضد نفیس کے دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے وکیل عاضد نفیس کو تحریری گزار شات جمع کرنے کی ہدایت کردی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ فیصلہ پہلے سے سوچ کر نہیں رکھا، جتنی جلدی گزارشات آئیں گی، فیصلہ لکھنے میں آسانی ہوئی، اس موقع پر جہانگیر ترین کے وکیل دلائل نے دیتے ہوئے کہا کہ ٹرسٹ کو توڑا نہیں جاسکتا ، جہانگیر ترین ٹرسٹ کے بینی فیشل مالک نہیں ہیں،ثابت ہوجہانگیر ترین بینی فیشل مالک ہیں تو باہر ہو جائیں گے، جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ ہم ٹیکس اتھارٹی کے اختیارات استعمال کرسکتے ہیں چیف جسٹس نے کہا کہ کیا شریعت میں پہلی بیوی کو دوسری شادی کا بتانا ضروری ہی ریاست کے تینوں ستونوں کا اپنا مقام ہے، جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ آرٹیکل62ون ایف کے تحت نااہلی معمولی نہیں ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ قانون کے اندر رہتے ہوئے کسی کوبددیانت کہہسکتے ہیں، جہانگیر ترین تسلیم کرتے ہیں کہ انہوں نے ٹرسٹ بنایا، جہانگیر ترین نے پیسہ بیرون ملک ارسال کرنے کو تسلیم کیا، کیس کی مزید سماعت آج تک ملتوی کردی گئی۔