پاکستان کے درمیان تعلقات دوستی اور ہم آہنگی سے بڑھ کر ہیں ٗانڈونیشیا بھی فلسطین کی جدو جہد آزادی کی مکمل حامی ہے ٗانڈونیشین صدر ٗ

 
0
393

اسلام آباد جنوری 26(ٹی این ایس) انڈونیشیا کے صدر جوکو ودودو نے کہا ہے کہ پاکستان کے درمیان تعلقات دوستی اور ہم آہنگی سے بڑھ کر ہیں ٗپاکستان کی طرح انڈونیشیا بھی فلسطین کی جدو جہد آزادی کی مکمل حامی ہے ٗ آسیان فورم کے ذریعے خطے کی ترقی کے لیے انتھک محنت کر رہے ہیں ٗمعاشی ترقی کیلئے سیاسی استحکام ناگزیر ہے ٗسیاسی استحکام اور سلامتی ہو تو ایک ملک ایک خطہ کی معیشت پروان چڑھ سکتی ہے ٗجنگ اور تنازعات کسی کے مفاد میں نہیں ہیں ٗ عالمی امن کو برقرار رکھنا انڈونیشیا کا عزم ہے ٗ اتحاد اور مرکزیت کے ذریعے انڈونیشیا ایشیا بحرالکاہل خطے کو مستحکم اور ترقی یافتہ بنانے کی جدوجہد جاری رکھے گاامید ہے ہم میں سے ہر ایک دنیا کی آسودگی کے لئے انسانیت کے نام پر انصاف کے نام پر کوششوں کے لئے اپنا کردار ادا کرے گا ۔جمعہ کو اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی زیر صدارت ہونے والے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرنا میرے لیے اعزاز ہے ٗ۱۹۶۳ء میں انڈونیشیا کے پہلے صدر، سوئیکارنو نے اس معزز پارلیمنٹ سے خطاب کیا تھا۔اس موقع پرصدر سوئیکارنو نے استعماریت کے خلاف نبرد آزما ہونے کیلئے ٗنیز نوزائیدہ آزاد ملکوں کے مابین تعاون کی روح پھونکی انہوں نے کہاکہ پچپن سال بعد صدرجمہوریہ انڈونیشیا کو پارلیمنٹ پاکستان سے خطاب کی ایک بار پھر عزت بخشی گئی انہوں نے کہاکہ میں اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دنیا کے امن اور خوشحالی کے لیے تعاون کی روح پھونکنا چاہوں گا۔انہوں نے کہاکہ انڈونیشیا اور پاکستان کے مابین دوستی کوئی نئی تشکیل دوستی نہیں ہے۔انہوں نے کہاکہ انڈونیشیا آزادی کے لئے انڈونیشیا کی جدوجہد میں پاکستانی عوام کی حمایت کو ہمیشہ یاد رکھے گا۔ انہوں نے کہاکہ سات اگست، ۱۹۹۵ء میں، انڈونیشیا کی آزادی کی پچاسویں سالگرہ کے موقع پر تحسین کی علامت کے طور پرجمہوریہ انڈونیشیا نے پاکستان کے بابائے قوم محمد علی جناح کو انڈونیشیا کی آزادی کی حمایت میں اس کے کردار پر پہلا اعلیٰ ادی پورنا سٹار عطا کیا۔انہوں نے کہاکہ دوستی کے علاوہ ہمارے دونوں ممالک میں بہت سی چیزیں مشترک ہیں۔ صد رنے کہاکہ انڈونیشیا اور پاکستان دو ایسے ممالک ہیں جن کی کثیر آبادی مسلمان ہے انہوں نے کہاکہ ہم ڈی ایٹ کے رکن ممالک ہیں ٗہم او آئی سی اور غیر جانبدار تحریک کے رکن ممالک ہیں ٗہم ایشیا ٗ افریقہ کانفرنس کے بانی ہیں اورسب سے اہم یہ ہے ٗ ہم دونوں جمہوری ممالک ہیں۔انہوں نے کہاکہ ہم دو ممالک ہیں جو فلسطین کی آزادی کی مسلسل حمایت کر رہے ہیں۔اس فورم میں میں ایک دفعہ پھر آپ کو بتانا چاہوں گا کہ ہم اپنے فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کی مدد جاری رکھیں ٗہمیں فلسطین کو ان کی جدوجہد میں مسلسل مدد کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہاکہ انڈونیشیا دنیا میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا مسلمان ملک ہے ٗانڈونیشیا میں ۲۶۰ ملین لوگوں میں سے تقریباً ۸۷ فیصد ۲،۲۲۶ملین کے مساوی آبادی مسلمانوں کی ہے جیسا کہ پاکستان میں مسلمانوں کا گھر ہونے کے علاوہ، انڈونیشیا ہندو، کیتھولک، پروٹسٹنٹس، بدھ مت اور دیگر مذاہب کا بھی گھر ہے ۔انہوں نے کہاکہ انڈونیشیا ایک کثر تیت ملک ہے۔انہوں نے کہاکہ میں مشکور ہوں کثرتیت رکھنے کے باوجود کثیر آبادی کے ساتھاورسترہ ہزار جزائرسے زیادہ اور ۳۴۰ء۱ ؍نسلوں کے ساتھ اورانڈونیشیا اپنے اتحاد کو محفوظ رکھنے میں کامیاب ہوا ہے۔انہوں نے کہاکہ تنوع میں وحدت بحیثیت قوم ہماری زندگی میں ہمارا نعرہ ہے۔انہوں نے کہاکہ ہم برابر کے شکر گزار ہیں ٗ ہم بطور قوم اپنی زندگیاں جمہوری انداز سے بسر کرنے کے قابل ہوں گے۔انہوں نے کہاکہ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ تنوع کا انتظام کرنا آسان کام نہیں ہے نہ ہی جمہوریت کا انتظام کرنا۔انہوں نے کہاکہ ہمارے لیے عزم کی ضرورت ہے ٗہر قوم کا پختہ عزم عناصر کثرتیت کو برقرار رکھنے کیلئے برداشت کا عزم ٗباہمی احترام کا عزم ضرور ہے تاکہ جمہوریت بہتر طریقے سے کام کر سکے۔انہوں نے کہاکہ بطور صدر میں مضبوط یقین رکھتا ہوں کہ جمہوریت ہمارے لوگوں کے مفادات کو پورا کرنے کا بہترین عمل ہے ٗجمہوریت لوگوں کو فیصلہ کرنے کے عمل میں مدد فراہم کرتی ہے ٗجمہوریت سے انڈونیشیا میں سیاسی استحکام کو برقرار رکھا جاسکتا ہے ٗجمہوریت سے، کافی مضبوط معاشی ترقی ہوتی ہے جو کہ ہر سال ۵ فیصد سے زیادہ تک پہنچ جاتی ہے ٗجمہوریت سے انڈونیشیا دنیا کی بیسویں بڑی معیشت ہو رہی ہے۔انہوں نے کہاکہ میں اس بات کو یقینی بنانا چاہوں گا کہ انڈونیشیا کے تمام لوگ معاشی ترقی کا فائدہ اٹھاسکیں تاکہ منصفانہ ترقی کو ترجیح ملے۔انہوں نے کہاکہ اگر سیاسی استحکام اور سلامتی ہو تو ایک ملک ایک خطہ کی معیشت پروان چڑھ سکتی ہے حتی کہ جنگ ہونے کی صورت میں معاشی سرگرمیاں کبھی واقع نہیں ہوں گی۔انہوں نے کہاکہ تنازعات اور جنگیں کسی کے مفاد میں نہ ہوں گی میں دہراتا ہوں تنازعات اور جنگیں کسی کے مفاد میں نہ ہوں گی۔انہوں نے کہاکہ عوام خصوصاً عورتیں اور بچے تنازعات اور جنگوں میں ہمیشہ سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔نازعات اور جنگیں انسانیت کی اعلیٰ اقدار اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے عطاکردہ فضائل کو بگاڑتے ہیں۔لہٰذا امن کے واحد معاون کے طور پر عالمی امن کو برقرار رکھنا انڈونیشیا کا عزم ہے۔انہوں نے کہاکہ آسیان کے ساتھ، گزشتہ پچاس سے زائد برسوں سے جنوب مشرقی ایشیا کے خطہ میں استحکام اور خوشحالی کا ارضیاتی نظام پیدا کرنے کے لئے انڈونیشیا ان تھک محنت کررہا ہے ٗآسیان اتحاد اور مرکزیت کے ذریعے انڈونیشیا ایشیا بحرالکاہل خطے کو مستحکم اور ترقی یافتہ بنانے کی جدوجہد جاری رکھے گا۔انڈونیشین کے صدر نے کہاکہ ایک بڑے خطے میں انڈونیشیا بحرہند کے خطے میں امن، استحکام اور ترقی کے بنیادی اکائی کا خواہاں ہے جس سیبحرہند کے خطے کو دنیا کے لیے ترقی کا نمونہ بنانا ہے۔ انہوں نے کہاکہ عالمی سطح پر پاکستان کی طرح انڈونیشیا عالمی قیام امن افواج میں بڑے شراکت داروں میں سے ایک ہے۔انڈونیشیا’’عالمی امن کے لئے سچے ساتھی‘‘ ہونے پر یقین رکھتا ہے۔انہوں نے کہاکہ گزشتہ دو سالوں میں انڈونیشیا نے ممالک کے مابین تنازعات کو حل کرنے ٗجنگ سے متاثرہ علاقوں کے بشمول۔۔۔ انسانی بنیادوں پر امداد کی فراہمی خطے میں سیکورٹی کے تحفظ میں مدد ٗسرحد کے اطراف ڈرگز اور نشہ آور اشیاء، انسانی اسمگلنگ اور دہشت گردی کے بشمول گھناؤنے جرائم کو ختم کرنے میں مدد فراہم کی ہے ۔انہوں نے کہاکہ انقلابی سیاست اور دہشت گردی قابو سے باہر ہے ٗایک بھی ملک دہشت گردی سے محفوظ نہیں ہے ٗانڈونیشیا اور پاکستان سمیت تقریباً تمام ممالک میں دہشت گردانہ حملے ہوئے ٗتنازعات، جنگوں اور دہشت گردی کے متاثرین میں سے مسلمانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ اس انتہائی پریشان کن اعدادوشمار کو دیکھو ٗدہشت گردی کے ۷۶ فیصد حملے مسلمان ممالک میں ہوئے ٗ مسلح تنازعات مسلمان ممالک کو درپیش ہوئے ٗمزید برآں، ہمارے لاکھوں بھائیوں اور بہنوں کو بہتر زندگی کی خاطر اپنے ممالک چھوڑنا پڑے 67 فیصد مہاجرین مسلمان ممالک سے آئے ٗلاکھوں نوجوان مستقبل کے لئے اپنی امید کھو بیٹھے۔ انہوں نے کہاکہ یہ خطرناک صورتحال جزوی طور پر اندرونی کمزوری کی وجہ سے ہے اگرچہ اس کے بہت سارے بیرونی عوامل بھی ہیں۔انہوں نے کہاکہ کیا ہم ان تشویشناک حالات کو بار بار ہونے دیں گے؟اگر آپ مجھ سے پوچھیں گے تو میں کہوں گا نہیں۔انہوں نے کہاکہ تنازعات کو ہم اپنے ممالک میں واقع نہیں ہونے دیں گے ٗہم تنازعات کو دنیامیں واقع نہیں ہونے دیں گے۔ انہوں نے کہاکہ انسانیت کے حوالے سے احترام انسانیت ہی ہمارا مقصد ہونا چاہیے ٗبحیثیت قوم ہماری زندگیوں میں میں پھر اعادہ کروں گا کہ احترام انسانیت کو ملحوظ رکھا جائے۔انہوں نے کہاکہ تاریخ نے ہمیں سکھایا ہے کہ ہتھیار اور فوجی طاقت کبھی بھی تنازعات کا حل نہیں ہو سکتے ٗصرف ہتھیار اور فوجی طاقتیں ہی کبھی دنیا میں امن نہیں لا سکتی اور اسے برقرار نہیں رکھ سکتیں ٗمسابقت، اسلحہ کی دوڑ کے واقعات جاری رہیں گے اور تضادات وقوع پذیر ہوتے رہیں گے ٗانڈونیشیا ایسا ملک ہے جو کہ تنازعات سے گزرا۔آچے(ACEH) میں تنازعات، مثال کے طور پر۔۔۔ ۳۰ سال سے زائد عرصہ سے وقوع پذیر ہو رہے ہیں ٗصرف فوجی نقطہ نظر سے ہی آچے(ACEH) میں تنازعات کو حل نہیں کیا گیا انہوں نے کہاکہ تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے بات چیت کے ذریعے حل کیا گیا ہے انہوں نے کہاکہ اس وجہ سے مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانا چاہیے۔مذاکرات کی یہ بھی طریق ہے جو کہ آسیان کو بناتی ہے ٗ جنوب مشرقی ایشیا میں دس ممالک کی ایسوسی ایشن کو جنوب مشرقی ایشیا میں استحکام اور خوشحالی کے آلہ حرب کے قابل ہیں۔انہوں نے کہاکہ میں امید کرتا ہوں کہ ہم میں سے ہر ایک ہم میں سے ہر ایک عالمی امن میں اپنا کردار ادا کرے گا ٗ ہم میں سے ہر ایک دنیا کی آسودگی کے لئے انسانیت کے نام پر انصاف کے نام پر کوششوں کے لئے اپنا کردار ادا کرے گاانہوں نے کہاکہ ہمیں ’’مسائل کے حل‘‘ کے لئے فریق ہونا چاہیے نہ کہ ہم مسائل پیدا کرنے کے حامی ہوں۔ انہوں نے کہاکہ آئیں اس دنیا میں رہنے والے تمام انسانوں کے نام پر اس دنیا میں امن اور خوشحالی پیدا کرنے کے لئے مل جل کر کام کریں۔