چیف جسٹس آف پاکستان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھیجنے کے لئے صدر مملکت کو درخواست بھیج دی گئی

 
0
409

چھ صفحات پر مشتمل درخواست میں جسٹس میاں ثاقب نثار پر سنگین نوعیت کے الزامات عائد

درخواست میں آئین کے آرٹیکل 209کے تحت جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھیجنے اور سپریم جوڈیشل کونسل کی کاروائی مکمل ہونے تک چیف جسٹس کو معطل کرنے کی استدعا

اسلام آباد، مارچ 13(ٹی این ایس):چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھیجنے کے لئے درخواست صدرمملکت کو بھیج دی گئی،درخواست میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار پر ججز کے کنڈکٹ کی خلاف ورزی پر مبنی کئی الزامات کی بنیاد پر آئین کے آرٹیکل 209کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھیجنے کی استدعا کی گئی ہے۔

درخواست میں سپریم جوڈیشل کونسل کی کاروائی مکمل ہونے تک جسٹس میاں ثاقب نثار کو باحیثیت چیف جسٹس معطل کرنے کی بھی استدعا کی گئی ہے،چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھیجنے کی درخواست سوشل ایکٹویسٹ و سابق مرکزی ترجمان شہداء فاؤنڈیشن حافظ احتشام احمد کی جانب سے ارسال کی گئی ہے۔

درخواست میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کے کئی اقدامات کی وجہ سے سپریم کورٹ کا وقار مجروح ہوا،چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کو سیاسی معاملات میں مشغول کیا،جسٹس میاں ثاقب نثار نے انتظامی معاملات میں مداخلت کرکے حکومتی مشینری کو مفلوج کرنے کی کوشش کی،احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کی مدت ملزامت میں توسیع کروائی،پولیس مقابلوں کے خلاف درخواست گزار کی جانب سے دائر کی گئی آئینی پٹیشن کو ناقابل سماعت قرار دیکر مسترد جبکہ سپریم کورٹ کے سینئروکیل کی جانب سے دائر کی جانے والی آئینی پٹیشن کو سماعت کے لئے منظور کرلیا گیا،جسٹس میاں ثاقب نثار پسند و ناپسند کی بنیاد پر ازخود نوٹسز لیتے ہیں،کئی ازخود نوٹسز بادی النظر میں بدنتی پر مبنی ہیں،اس طرح کے تمام اقدامات مس کنڈکٹ کے زمرے میں آتے ہیں،لہٰذا ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھیجا جائے۔تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھیجنے کے لئے صدر مملت ممنون حسین کو درخواست بھیج دی گئی۔صدر مملکت کو چیف جسٹس کے خلاف درخواست سوشل ایکٹویسٹ و سابق مرکزی ترجمان شہداء فاؤنڈیشن کی جانب سے بھیجی گئی ہے،چھ صفحات پر مشتمل درخواست میں جسٹس میاں ثاقب نثار پر کئی سنگین نوعیت کے الزامات عائد کرتے ہوئے ان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 209کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھیجنے کی استدعا کی گئی ہے،درخواست میں یہ استدعا بھی کی گئی ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی کاروائی مکمل ہونے تک جسٹس میاں ثاقب نثار کو ان کے عہدے سے معطل کردیا جائے،تاکہ وہ انصاف اور شفاف ٹرائل کے راستے میں حائل نہ ہوں۔

صدر مملکت کو بھیجی گئی درخواست میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار پر کئی الزامات عائد کرتے ہوئے حافظ احتشام احمد نے موقف اختیار کیا ہے کہ’’درخواست گزار نے 13جنوری کو کراچی میں جعلی پولیس مقابلے کے بعد ملک بھر میں ہونے والے پولیس مقابلوں کی جوڈیشل انکوائری کے لئے سپریم کورٹ میں آئینی پٹیشن دائر کی،جس پر رجسٹرار آفس نے اعتراضات لگا دیئے،رجسٹرار آفس کے اعتراضات کے خلاف اپیل دائر کی تو جسٹس میاں ثاقب نثار نے اپیل کی سماعت کرتے ہوئے درخواست گزار کے دلائل سنے بغیر اپیل مسترد کردی،اسی نوعیت کی پٹیشن سپریم کورٹ کے سینئروکیل طارق اسد کی جانب سے دائر کی گئی،اس پر بھی رجسٹرار آفس نیوہی اعتراضات عائد کئے جو درخواست گزار کی پٹیشن پر عائد کئے تھے،طارق اسد ایڈووکیٹ نے رجسٹرار آفس کے اعتراضات کے خلاف اپیل دائر کی تو چیف جسٹس نے ان کی اپیل مسترد کردی،ایک ہی نوعیت کے دو پٹیشنز پر دو طرح کے فیصلے مس کنڈکٹ کے زمرے میں آتے ہیں‘‘۔درخواست میں یہ الزام بھی عائد کیا گیا ہے کہ’’چیف جسٹس نے مولانا عبدالعزیز اور طارق اسد ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر کی جانے والی دو اپلیوں کو بغیر سنے غصے میں مسترد کرکے بھی کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کی ہے‘‘۔

درخواست میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار پر بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض حسین کے ساتھ مبینہ طور پر تعلقات اور ان سے تحائف وصول کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے تحقیقات کرنے کی بھی درخواست کی گئی ہے۔صدر مملکت کو بھیجے گئی درخواست میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار پر مزید الزامات عائد کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ’’چیف جسٹس نے کئی معاملات پر ازخود نوٹس لیکر انصاف کے رارستے میں حائل ہونے کی کوشش کی،کئی ازخود نوٹسز بدنیتی پر مبنی ہیں،کسی بھی جج کی مدت ملازمت میں توسیع کرنا انتظامی معاملہ ہے،جسٹس میاں ثاقب نثار نے شریف فیملی کے خلاف ریفرنسز کی سماسعت کرنے والے جج محمد بشیر کی مدت ملازمت میں توسیع کا حکم دیکر بھی انتظامی معاملے میں مداخلت کی،پرویزمشرف کے خلاف سنگین نوعیت کے کیسز میں ججز کے تبادلے ہوئے،اس پر چیف جسٹس نے ازخود نوٹس کیوں نہیں لیا تھا،پرویزمشرف نوازشریف سے زیادہ بااثر اور پرویزمشرف کے خلاف مقدمات نوازشریف کے خلاف مقدمات سے زیادہ سنگین ہیں،کیا شریف فیملی کے خلاف کیسز کی سماعت کرنے والے جج کی مدت ملازمت میں توسیع کروانا اس شک کو تقویت نہیں دیتا کہ شریف فیملی کے خلاف سازش ہو رہی ہے،چیف جسٹس نے پانامہ لیکس کیس کو جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ کے سامنے سماعت کے لئے مقرر کیا،پانچ رکنی بینچ نے اپنے تفصیلی فیصلے میں شریف فیملی کے خلاف سخت الفاظ لکھے،اس کے بعد شریف فیملی اور مسلم لیگ نواز کے خلاف تمام کیسز بھی انہیں پانچ ججز کے سامنے سماعت کے لئے مقرر کئے گئے،کیا سپریم کورٹ کے پانچ ججز اہل اور باقی گیارہ ججز نااہل اور ناقابل ہیں،کیا سپریم کورٹ کے پانچ ججز کا بشمول چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کے شریف فیملی اور مسلم لیگ نواز کے خلاف تمام کیسز کی سماعت کرنا اس تاثر کو تقویت نہیں دیتاکہ سپریم کورٹ کے چھ ججز نے شریف فیملی کے خلاف گروپ بنا رکھا ہے؟کیا یہ ججز کے کوڈ ااف کنڈکٹ کی خلاف ورزی نہیں ہے؟بادی النظر میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار اپنی پسند و ناپسند کے مطابق ازخود نوٹسز لیتے ہیں،اپنی پسند و ناپسند کے مطابق کیسز کو سپریم کورٹ میں سماعت کے لئے فکس کرتے ہیں۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے پاکستان مسلم لیگ نواز کے رہنماء سینیٹر نہال ہاشمی،وفاقی وزیرمملکت برائے داخلہ طلال چوہدری،وفاقی وزیرمملکت دانیال عزیز کے خلاف توہین عدالت کا ازخود نوٹس لیا جبکہ دوسری طرف تحریک لبیک یارسول اللہ کے سربراہ علامہ خادم حسین رضوی نے فیض آباد میں دھرنے کے موقع پر چیف جسٹس آف پاکستان سمیت سپریم کورٹ کے دیگر ججز کو غلیظ ترین گالیاں دیں،علامہ خادم حسین رضوی کے توہین آمیز بیانات ریکارڈ پر موجود ہیں مگر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے علامہ خادم حسین رضوی کے خلاف توہین عدالت کا نوٹس نہیں لیا۔صرف پاکستان مسلم لیگ نواز کے رہنماؤں کے خلاف ازخود نوٹس لینا اور فریق ثانی کے خلاف ججز کے متعلق غلیظ ترین الفاظ کے استعمال کے باوجود توہین عدالت کا نوٹس نہ لینا ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ اور آئین پاکستان کی خلاف ورزی نہیں؟سپریم جوڈیشل کونسل کو اس معاملے کو بھی دیکھنا چاہیئے،چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار بیروکریٹس اور سرکاری افسران کو عدالت میں طلب کرکے بادی النظر میں ان کی تحقیر و توہین بھی کرتے ہیں۔کئی کئی گھنٹے تک بیروکریٹس اور اعلیٰ سرکاری افسران کو عدالت طلب کرکے بیٹھایا جاتا ہے،جس کی وجہ سے سرکاری آفس میں انتظامی امور مفلوج ہوکر رہ جاتے ہیں،6مارچ کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے سپریم کورٹ میں ایک کیس کی سماعت کے موقع پر ایک اعلیٰ پولیس افسر کے خلاف نامناسب ریمارکس دیئے،چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی جانب سے ڈی آئی جی رفعت مختار کے ساتھ اس انداز میں گفتگو کرنا ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کی ہے۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے رفعت مختار نامی پولیس افسر سے نامناسب انداز میں بات کرکے اور غصے میں ان کی معطلی کا حکم جاری کرکے ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ کے آرٹیکل 2کی خلاف ورزی کی ہے۔درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ’’ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کے خلاف تمام الزامات کی تحقیقات کے لئے آئین کے آرٹیکل 209کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھیجا جائے۔نیز یہ استدعا بھی ہے کہ جب تک چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی کاروائی مکمل نہ ہو جائے،اس وقت تک چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کو ان کے عہدے سے معطل کر دیا جائے،تاکہ وہ انصاف اور شفاف ٹرائل کے راستے میں حائل نہ ہوسکیں‘‘.