ڈی پی او پاکپتن تبدیلی کیس: سپریم کورٹ نے خاورمانیکا کوفوری طلب کرلیا

 
0
434

اسلام آباد اگست 31(ٹی این ایس)سپریم کورٹ میں ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے پرازخود نوٹس کی سماعت جاری ہے۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے پر ازخود نوٹس کی سماعت جاری ہے۔آئی جی پنجاب، ایڈیشنل آئی جی ، آرپی اوساہیوال اور رضوان گوندل بھی سپریم کورٹ میں موجود ہیں۔عدالت عظمیٰ میں سماعت کے آغاز پرچیف جسٹس نے آئی جی پنجاب کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ عدالت سے جھوٹ بولیں گے تواس کے نتائج بھتگنا ہوں گے۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ آپ بھی گریڈ 21 کے افسراور22 پرکا م کررہے ہیں، کیوں نہ سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ کوبلا کرآپ کو بھی تبدیل کردیا جائے۔انہوں نے استفسار کیا کہ رات کو ایک بجے تبادلے کا حکم دیا، کیا صبح نہیں ہوتی؟ کیا اگلے دن کا سورج نہیں چڑھنا تھا؟۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اے ڈی خواجہ معاملے میں بھی ہم نے پولیس کوبا اختیار کیا، آپ خود سیاسی اثرکے نیچے جا رہے ہیں۔

آئی جی پنجاب پولیس نے عدالت میں کہا کہ میں نے واقعے کا پوچھا تورضوان گوندل نے درست بات نہ بتائی، میں نے دیگرذرائع سے اصل معاملہ پتہ کیا۔سید امام کلیم نے کہا کہ ایک خاتون کو روکا گیا جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کتنے بجے روکا گیا جس پر آئی جی پنجاب پولیس نے جواب دیا کہ رات کوایک یا 2 بجے روکا گیا۔آئی جی پنجاب پولیس نے کہا کہ آپ خود معاملے کے حقائق پوچھ سکتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کون ہوتے ہیں عدالت کوکہنے والے ہم معلوم کریں۔جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ عدالت سے بات کرنے کا طریقہ کار ہوتا ہے جس پر سید امام کلیم نے کہا کہ میں اپنےالفاظ واپس لیتا ہوں۔آئی جی پنجاب پولیس نے کہا کہ وزیراعلیٰ نے جوڈی پی اوکوبلایا انہیں نہیں بلانا چاہیے تھا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے ڈی پی اوکووزیراعلٰی کے پاس جانے کی اجازت کیوں دی۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نےکیا وزیراعلیٰ سے ڈی پی اوکوملنےسے روکا؟ خاتون پیدل چل رہی تھی پولیس نے پوچھا تواس میں کیاغلط ہے؟ آئی جی پنجاب پولیس نے کہا کہ لڑکی کا ہاتھ پکڑا گیا۔سابق ڈی پی اور پاکپتن رضوان گوندل نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ 23،24 اگست والے واقعے کا قائم مقام آرپی او کو بتایا۔انہوں نے کہا کہ مجھ سے متعلق وزیراعلیٰ نے آئی جی کوحکم دیا، حکم آیا کہ رضوان گوندل کوڈی پی اوکے طورپرنہیں دیکھنا تھا۔

رضوان گوندل نے کہا کہ اتوارکی رات سی ایس اواور پی ایس او کی کال موصول ہوئی، مجھے بتایا گیا 9 بجے وزیراعلیٰ کے دفترآئیں۔سابق ڈی پی او پاکپتن نے کہا کہ پی ایس اوصاحب نے بتایا وزیراعلیٰ نے آئی جی کو حکم دیا ہے، میں نے آرپی او سے بات کی، آرپی اونے کہا انکوائری مکمل نہیں ہوئی توایسا حکم نہیں آنا چاہیے تھا۔سپریم کورٹ نے خاورمانیکا اور جمیل گجرکو فوری طلب کرلیا، چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب کو حکم دیا کہ 3 بجے کراچی جانا ہے اس سے قبل پیش کیا جائے۔اپوزیشن پارٹیوں‌ کا الزام ہے کہ 23 اگست کو خاور مانیکا کو ناکے پر روکنے پر ڈی پی او کا تبادلہ کیا گیا. واقعے کے بعد آر پی او اور ڈی پی او پر مبینہ طور پر معافی مانگنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا اور ان کے انکار کرنے پر ڈی پی او کا تبادلہ کردیا گیا۔حکومت پنجاب کا موقف ہے کہ آر پی او اور ڈی پی او کو طلب کرکے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی تھی، اس معاملے پر غفلت میں تبادلہ کیا گیا۔
دوسری جانب ماریہ محمودکوڈی پی اوپاکپتن تعینات کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔سابق ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کا موقف ہے کہ وزیر اعلیٰ ہاؤس میں غیرمتعلقہ شخص سوالات پوچھتارہا، بارباکہا گیا ڈیرےپرجاکرمعافی مانگو۔خاور مانیکا فیملی نے بھی اپنا جواب ای میل کےذریعے کمیٹی کو ارسال کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ اہلکاروں نے خاور مانیکا اور بیٹی سے بدتمیزی کی تھی۔