جعلی اکاؤنٹس کیس: اربوں کے فراڈ کا معاملہ ہے، شفاف تحقیقات چاہتے ہیں، چیف جسٹس

 
0
543

ہم مزید انکوائری کے لیے جے آئی ٹی بنا دیتے ہیں، قوم کا بھی بنیادی حق ہے کہ اس کا لوٹا گیا پیسہ واپس لایا جائے، چیف جسٹس کا انور مجید فیملی کے وکیل سے مکالمہ
اسلام آباد ستمبر 5(ٹی این ایس) جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ 35 ارب روپے کے فراڈ کا معاملہ ہے اس لیے شفاف تحقیقات چاہتے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کی سماعت کر رہا ہے۔سماعت کے دوران ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے بیان ریکارڈ کراتے ہوئے بتایا کہ ایف آئی اے نے اومنی گروپ کراچی کے دفتر پر چھاپا مارا جس کے دوران کام کراؤن کمپنی دبئی کی دستاویزات ملیں جس کے بعد کمپنی کے دبئی کے دفتر میں چھاپا مارا تو بےشمار فارن کرنسی اکاؤنٹس کا ریکارڈ ملا۔ڈی جی ایف آئی اے نے بتایا کہ دبئی کی کمپنی سے ملنے والے اکاؤنٹس بھی انہی کے خاندان (انور مجید فیملی) کے ہیں جب کہ ان اکاؤنٹس میں بھی پہلے اکاؤنٹس میں رقم جمع کرانے والے لوگ تھے اور دبئی سے رقم انگلینڈ اور فرانس بھی بھیجی گئی۔
ڈی جی ایف آئی اے کے مطابق چھاپے کے دوران بہت سی ہارڈ ڈرائیوز بھی ملیں جن میں بہت سا ڈیٹا ہے، اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا آپ کے پاس ایسے لوگ ہیں جو اس ڈیٹا کو چیک کرسکیں جس پر بشیر میمن نے کہا کہ ہمارا سائبر کرائم ونگ اس پر کام کررہا ہے، ڈیٹا بہت زیادہ ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ اس معاملے پر ہمیں جے آئی ٹی بنانی چاہیے اور جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ جے آئی ٹی بنانے پر کسی کو اعتراض تو نہیں۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کسی کو کیا اعتراض ہوگا، ملزمان کو تو کلین چٹ ملنا ہے، اس معاملے سے ملزمان کا تو تعلق ہی نہیں، اس موقع پر انور مجید فیملی کے وکیل شاہد حامد نے کہا کہ ہم نے جےآئی ٹی سے متعلق متفرق درخواست دی ہے اسے دیکھ لیں۔

چیف جسٹس نے اس موقع پر کہا کہ وزیراعلیٰ کی انور مجید کے ساتھ گفتگو بھی موجود ہے، کہا گیا کہ انور مجید وزیراعلیٰ کے گھر پر رہ لیں، آپ باتیں رہنے دیں، ہم مقدمے کو پنجاب منتقل کر دیتے ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے وکیل سے مکالمے کے دوران کہا کہ ہم جعلی اکاؤنٹس کی پہلے کی گئی تحقیقات کے بجائے جے آئی ٹی سے تحقیقات کرالیتے ہیں، 35 ارب روپے کے فراڈ کا معاملہ ہے، شفاف تحقیقات چاہتے ہیں، آپ شرما کیوں رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم مزید انکوائری کے لیے جے آئی ٹی بنا دیتے ہیں، قوم کا بھی بنیادی حق ہےکہ اس کا لوٹا گیا پیسہ واپس لایا جائے۔
ایف آئی اے حکام نے بتایا کہ منی لانڈنگ کیس 2015 میں پہلی دفعہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے اٹھایا گیا، اسٹیٹ بینک کی جانب سے ایف آئی اے کو مشکوک ترسیلات کی رپورٹ یعنی ایس ٹی آرز بھیجی گئیں۔حکام کے دعوے کے مطابق جعلی اکاؤنٹس بینک منیجرز نے انتظامیہ اور انتظامیہ نے اومنی گروپ کے کہنے پر کھولے اور یہ تمام اکاؤنٹس 2013 سے 2015 کے دوران 6 سے 10 مہینوں کے لیے کھولے گئے جن کے ذریعے منی لانڈرنگ کی گئی اور دستیاب دستاویزات کے مطابق منی لانڈرنگ کی رقم 35ارب روپے ہے۔مشکوک ترسیلات کی رپورٹ پر ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ کے حکم پر انکوائری ہوئی اور مارچ 2015 میں چار بینک اکاؤنٹس مشکوک ترسیلات میں ملوث پائے گئے۔
ایف آئی اے حکام کے دعوے کے مطابق تمام بینک اکاؤنٹس اومنی گروپ کے پائے گئے، انکوائری میں مقدمہ درج کرنے کی سفارش ہوئی تاہم مبینہ طور پر دباؤ کے باعث اس وقت کوئی مقدمہ نہ ہوا بلکہ انکوائری بھی روک دی گئی۔دسمبر 2017 میں ایک بار پھر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے ایس ٹی آرز بھیجی گئیں، اس رپورٹ میں مشکوک ترسیلات جن اکاؤنٹس سے ہوئی ان کی تعداد 29 تھی جس میں سے سمٹ بینک کے 16، سندھ بینک کے 8 اور یو بی ایل کے 5 اکاؤنٹس ہیں۔ان 29 اکاؤنٹس میں 2015 میں بھیجی گئی ایس ٹی آرز والے چار اکاؤنٹس بھی شامل تھے۔ 21 جنوری 2018 کو ایک بار پھر انکوائری کا آغاز کیا گیا۔تحقیقات میں ابتداء میں صرف بینک ملازمین سے پوچھ گچھ کی گئی، انکوائری کے بعد زین ملک، اسلم مسعود، عارف خان، حسین لوائی، ناصر لوتھا، طحٰہ رضا، انور مجید، اے جی مجید سمیت دیگر کو نوٹس جاری کیے گئے جبکہ ان کا نام اسٹاپ لسٹ میں بھی ڈالا گیا۔

ایف آئی اے حکام کے مطابق تمام بینکوں سے ریکارڈ طلب کیے گئے لیکن انہیں ریکارڈ نہیں دیا گیا، سمٹ بینک نے صرف ایک اکاؤنٹ اے ون انٹرنیشنل کا ریکارڈ فراہم کیا جس پر مقدمہ درج کیا گیا۔حکام نے مزید بتایا کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے سمٹ بنک کو ایکوٹی جمع کروانے کا نوٹس دیا گیا، سمٹ بینک کے چیئرمین ناصر لوتھا کے اکاؤنٹس میں 7 ارب روپے بھیجے گئے، یہ رقم اے ون انٹرنیشنل کے اکاؤنٹ سے ناصر لوتھا کے اکاونٹ میں بھیجی گئی تھی۔ناصر لوتھا نے یہ رقم ایکوٹی کے طور پر اسٹیٹ بینک میں جمع کروائی، ان 29 اکاؤنٹس میں 2 سے 3 کمپنیاں اور کچھ شخصیات رقم جمع کرواتی رہیں۔
حکام نے بتایا کہ تحقیقات کے بعد ایسا لگتا ہے کہ جو رقم جمع کروائی گئی وہ ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی، ان تمام تحقیقات کے بعد جعلی اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔اومنی گروپ کے مالک انور مجید اور سمٹ بینک انتظامیہ پر جعلی اکاؤنٹس اور منی لاڈرنگ کا مقدمہ کیا گیا جبکہ دیگر افراد کو منی لانڈرنگ کی دفعات کے تحت اسی مقدمے میں شامل کیا گیا۔