نوازشریف کی طبی بنیادوں پرضمانت منظور اسلام آباد ہائی کورٹ کا 20/20لاکھ کے دو مچلکے جمع کروانے کا حکم

 
0
263

اسلام آباد اکتوبر 29 (ٹی این ایس): اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نواز شریف کی 8 ہفتوں کے لیے سزا معطل کرتے ہوئے ان کی عبوری ضمانت کو منظور کرلیا ہے. واضح رہے کہ 26 اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے شہباز شریف کی جانب سے دائر کی گئی متفرق درخواست پر نواز شریف کی منگل تک طبی بنیادوں پر عبوری ضمانت منظور کی تھی.
احتساب عدالت نے 24 دسمبر 2018 کو العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید بامشقت اور ڈیڑھ ارب روپے اور اڑھائی کروڑ ڈالر جرمانے کی سزا سنائی تھی جس کے بعد وہ کوٹ لکھپت جیل میں قید تھے. اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل 2 رکنی بینچ نواز شریف کی درخواست ضمانت سے متعلق دائر درخواست پر سماعت کی عدالت کی جانب سے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو طلب کرنے پر وہ عدالت میں پیش ہوئے جبکہ نواز شریف کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان، قومی احتساب بیورو (نیب) کی ٹیم اور دیگر مسلم لیگ(ن) کے رہنما عدالت میں موجود تھے.
علاوہ ازیں عدالت نے سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا، جسے کچھ وقفے کے بعد سنایا گیا اور عدالت نے العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی سزا کو 8 ہفتوں کے لیے معطل کرتے ہوئے طبی بنیادوں پر ان کی عبوری ضمانت منظور کرلی. عدالت نے نواز شریف کو 20، 20 لاکھ روپے کے 2 ضمانتی مچلکے جمع کروانے کا حکم بھی دے دیا، ساتھ ہی عدالت نے ریمارکس دیے کہ مزید ضمانت کے لیے آئندہ پنجاب حکومت سے رابطہ کر سکتے ہیںسماعت کے آغاز پر جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ آپ سب سے بڑے آبادی والے صوبے کے وزیراعلیٰ ہیں، بہت سے قیدی جیلوں میں بیماریوں میں مبتلا ہیں جبکہ درخواست گزار بھی بہت سی بیماریوں کا سامنا کر رہے ہیں، نوازشریف تو عدالت میں آگئے ہیں کتنے لوگ ہیں جو جیلوں میں بیماریوں سے لڑ رہے ہیں بدقسمتی سے ہمارے پاس آگاہی مہم نہیں ہے اور لوگ وکیل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے.
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ جیلوں میں جو لوگ بیمار ہیں ان کی فہرست تیار کریں اور سیکشن 440 کے تحت انہیں خود بھی چھوڑا جاسکتا ہے، اس پر عثمان بزدار نے کہا کہ تھوڑی سی گزارش کرنا چاہوں گا کہ میں خود بھی وکیل ہوں میں جہاں بھی جاتا ہوں جیل کا دورہ کرتا ہوںاب تک 8 جیلوں کا دورہ کر چکا ہوں، 6سو قیدیوں کو رہا کردیاگیا ہے پیرول ایکٹ بھی کینٹ کے سامنے ہیں، جلد کام کر رہے ہیں.
عثمان بزدار نے بتایا کہ اپنے اختیارات کا بھی استعمال کر رہے ہیں جبکہ جیل اصلاحات بھی لارہے ہیں، جیلوں کو ٹھیک کرنے کے لیے پوری کوشش کر رہے ہیں انہوں نے بتایا کہ ہسپتال میں نواز شریف کو بہتر طبی سہولیات دی جارہی ہیں، نوازشریف کا معاملہ نیب کا تھا مگر ہم نے پھر بھی خیال رکھا اور انتہائی پروفیشنل ڈاکٹرز پر مشتمل میڈیکل بورڈ تشکیل دیا گیا.
اس موقع پر وزیراعلیٰ پنجاب نے بتایا کہ پہلی دفعہ ہورہا ہے کہ کوئی وزیراعلیٰ جیلوں کا دورہ کر رہا ہے، 72 برسوں میں کسی وزیراعلیٰ نے جیل کا دورہ نہیں کیا، میرٹ اور قانون کے مطابق اپنے اختیارات کا استعمال کریں گے، ہم ایک پیکج لارہے ہیں، جو بہت جلد لوگوں کو نظر آئے گا، اس پر عدالت نے ان کی بات مکمل ہونے پر کہا کہ آپ جاسکتے ہیں. سماعت کے دوران میڈیکل بورڈ نے نواز شریف کی میڈیکل رپورٹ پڑھنا شروع کی جس پر عدالت نے کہاکہ آپ آسان الفاظ میں عدالت کو بیماری سے آگاہ کریں ڈاکٹروں نے عدالت کو بتایا کہ نواز شریف کو دل سمیت بہت سی بیماریاں ہیں اگر ہم پلیٹلیٹس بناتے ہیں وہ تباہ ہو جاتے ہیں،80 انجیکشن لگا دیے گئے ہیں اور اب ان کے پلیٹلیٹس نہیں گررہے اس پر جسٹس عامر فاروق نے پوچھا کہ عام آدمی میں کتنے پلیٹلیٹس ہونے چاہئیں جس پر ڈاکٹروں نے جواب دیا کہ کم از کم ایک لاکھ تک پلیٹلیٹس ہونے چاہئیں.
اس پر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا نواز شریف کو طبی علاج کے دوران ہی ہارٹ اٹیک ہوا ہے؟ جس پر ڈاکٹروں نے جواب دیا کہ جی دوران علاج ہی ان کو دل کا دورہ پڑا جس پر جج نے پوچھا کہ کیا وہ ہسپتال میں رہے بغیر بہتر ہو سکتے ہیں اس پر جواب دیا گیا کہ نہیں ان کو لمحہ بہ لمحہ ڈاکٹروں کی ضرورت ہے. اس دوران جج کی جانب سے استفسار کیا گیا کہ نواز شریف کا ذاتی معالج کون ہے، اس پر ڈاکٹر عدنان روسٹرم پر آئے اور بتایا کہ نواز شریف کو زندگی بچانے والی ادویات کی ضرورت ہے انہوں نے بتایا کہ کراچی سے ڈاکٹر شمسی کو علاج کے لیے بلایا گیا ہے لیکن ابھی تک ہمیں یہ ہی نہیں معلوم ہو رہا ہے کہ نوازشریف کے پلیٹلیٹس کیوں گر رہے ہیں، نواز شریف کی عمر 70 سال ہے اور ان کو عارضہ قلب بھی لاحق ہے وہ آج تک غیرمستحکم ہیںمیں نے آج تک کبھی ان کی اتنی تشویشناک حالت نہیں دیکھی انہوں نے کہا کہ نواز شریف کا کل رات کھانے کے بعد بلڈ پریشر بھی شوٹ کر گیا تھا وہ اپنی زندگی سے جنگ لڑرہے ہیں.
بعد ازاں جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ ڈاکٹرز تشریف رکھیں اب وکلا سے قانونی پہلو سن لیتے ہیںاس پر نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل کا آغاز کیا اور بتایا کہ رپورٹ جو جمع کرائی گئی وہ 25 اکتوبر کی ہے خواجہ حارث نے بتایا کہ نوازشریف کو اسیٹرائیڈ بھی دی جا رہی ہے، نوازشریف کے پلیٹ لیٹس بڑھانے کے لیے دوا دی گئی .انہوں نے بتایا کہ فالج سے بچاو¿ کے لیے پلیٹلیٹس بڑھانا ضروری ہے پلیٹلیٹس فوری بڑھائیں تو ہارٹ اٹیک کا خطرہ بڑھ جاتا ہے میاں صاحب کو کچھ دن پہلے بھی اسی وجہ سے ہارٹ اٹیک ہوا پلیٹلیٹس اس وقت بھی مصنوعی طریقے سے بڑھائے گئے ہیں قدرتی طور پر ان کے پلیٹلیٹس بڑھ نہیں رہے اس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے پوچھا کہ ابھی تک کے علاج سے آپ مطمئن ہیں؟ جس پر خواجہ حارث نے بتایا کہ ابھی تک ہم میڈیکل بورڈ کے علاج سے مطمئن نہیں ہیں میڈیکل بورڈ خود اپنی رپورٹ میں کہہ رہا ہے کہ ہم سے انتظام نہیں ہو رہا.
انہوں نے کہا کہ سروسز ہسپتال میں ٹیسٹوں کی مشینیں ہی نہیں ہیں نوازشریف کے علاج و ٹیسٹ کے لیے مختلف جگہوں پر جانا پڑتا ہے لگتا ہے ایک اسٹیج ایسی آئے گی جب ڈاکٹرز کہے گیں کہ جہاں سے چاہیں علاج کروا لیں. خواجہ حارث نے موقف اپنایا کہ نوازشریف کو 7سال کی سزا ہوئی اگر وہ نہیں رہے تو سزا کا کیا بنے گا، میڈیکل رپورٹ کی روشنی میں کہا گیا دل کا دورہ پڑا اور گردوں پر بھی اثر پڑا، گولیاں اورانجیکشن نوازشریف کو دینے کی نصیحت کی گئی انہوں نے کہا کہ نواز شریف کو جو ادویات دی جارہی تھیں ان میں سے بعض دوائیں دیگر بیماریوں کے باعث روکنا پڑیں.
اس موقع پر خواجہ حارث نے میڈیکل رپورٹ کے اقتسابات پیش کیے اور بتایا کہ نواز شریف کے انجائنا کی وجہ سے تمام بیماریوں کا علاج بیک وقت ممکن نہیں، 26 اکتوبر کی میڈیکل رپورٹ کے مطابق نواز شریف کا دل مکمل طور پر خون پمپ نہیں کررہا خواجہ حارث نے کہا کہ نواز شریف کو ایک چھت کے نیچے تمام طبی سہولیات ملنا ضروری ہیں ہمیں ڈاکٹرز کی نیت و قابلیت پر شبہ نہیں مگر نتائج سے بورڈ خود مطمئن نہیں اگر نوازشریف کی سزا پرعملدرآمد کرانا ہے تو اس کے لیے ان کا صحت مند ہونا ضروری ہے.
انہوں نے موقف اختیار کیا کہ نوازشریف کو ان کی مرضی کے ڈاکٹرز سے علاج کرانے کی اجازت ملنی چاہیے، ضمانت منسوخی کی درخواست نیب کیوں نہیں دیتا؟ نوازشریف کی حالت بہتر ہوگئی تو وہ دوبارہ قید کی سزا کاٹ سکتے ہیں اس دوران جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ سیکشن 401 میں انتظامیہ (ایگزیکٹو) نواز شریف کو ریلیف دے سکتی ہے لیکن ایگزیکٹو اپنا کام ہی نہیں کررہا انہوں نے خواجہ حارث سے پوچھا کہ سیکشن 426 کے بعد سیکشن 401 کی ضرورت کیوں پیش آئی، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ سیکشن 426 میرٹ اور میڈیکل کو بیان کرتا ہے جبکہ سیکشن 401 ایگزیکٹو ریلیف دے سکتا ہے اور طبی بنیادوں پر نواز شریف کی حالت بہتر نہیں ہے، ڈاکٹرز بھی طبی امداد بہتر انداز میں دے رہے ہیں.
خواجہ حارث نے کہا کہ 5 دن مانگنے کے باوجود نواز شریف کی حالت بہتر نہیں ہوئی، جب بیماری ہی سمجھ نہیں آرہی تو ڈاکٹرز کیسے علاج کریں گے نواز شریف کے وکیل کے دلائل کے بعد ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب جہانزیب بھروانہ روسٹرم پر آئے اور موقف بیان کرنا شروع کیا انہوں نے کہا کہ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ نواز شریف کا علاج یہاں نہیں ہوسکتا ڈاکٹروں نے نصیحت کی کہ نوازشریف کا علاج بیرون ملک سے کرائیں جس پر جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ ڈاکٹروں نے یہ نہیں کہا کہ علاج بیرون ملک سے کرائیں.
اس پر نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ نے نواز شریف کے علاج کے لیے 6 ہفتوں کے لیے سزا معطل کی تھی تاہم عدالت عظمیٰ نے سزا معطلی کے وقت کچھ پیرامیٹرز طے کیے تھے عدالت نے واضح کیا تھا کہ نواز شریف ان 6 ہفتوں کے دوران ملک سے باہر نہیں جاسکتے ان 6 ہفتوں میں پاکستان میں اپنی مرضی کا علاج کرانے کا کہا گیا تھا. نیب پراسیکوٹر کے موقف پر جسٹس عامر فاروق نے پوچھا کہ اسلام آباد میں سزا پانے والے قیدی جیل جائیں تو ان کی کسٹڈی کو کون ریگولیٹ کرے گا؟ اڈیالہ جیل بھی پنجاب میں ہے جبکہ کوٹ لکھپت جیل بھی اسی صوبے میں آتی ہے سیکشن 401 کے تحت اگر ریلیف دینا ہو تو کون دے گا.
انہوں نے کہا کہ احتساب عدالت کے ملزم اگر سزا کاٹ رہا ہے تو وہ الگ معاملہ ہے تاہم آپ سیکشن 401 کا بتائیں؟ ریلیف صوبائی حکومت دے گی یا وفاقی؟ اگر لاہور میں سزا ہوتی ہے تو پنجاب حکومت ریلیف دے گی لیکن اگر اسلام آباد میں نیب عدالت سزا دیتی ہے تو سیکشن 401 پر کون ریلیف دے گا؟ جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ آج تک کسی نے سوچا نہیں کہ اسلام آباد میں جیل بنائیں جلدی جلدی جیلیں بنائیں تاکہ وہ آباد ہوں اس موقع پر عدالت نے معاونت کے لیے ایڈووکیٹ جنرل طارق جہانگیری کو بلایا جس پر وہ پیش ہوئے اور بتایا کہ اسلام آباد میں کوئی جیل اور جیل مینوئل نہیں اسلام آباد میں بھی جوسزا پاتا ہے اس کو پنجاب حکومت ہی ریلیف دیتی ہے وفاقی دارالحکومت کے قیدیوں کو چیف کمشنر ہی ریلیف دیتا ہے.
ایڈووکیٹ جنرل کے جواب پر جسٹس محسن اختر کیانی نے پوچھا کہ یہ بتادیں کہ نواز شریف جیل میں بیمار ہوئے تو کیا چیف کمشنر نے انہیں ہسپتال بھیجا؟ پھر تو چیف کمشنر کو بھی فریق بنانا چاہیے تھا. جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ ہمارا المیہ یہ ہے کہ کوئی بھی آفیسر اپنی ذمہ داریاں نہیں نبھاتا اس پر نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ نواز شریف اڈیالہ سے لاہور کوٹ لکھپت جیل گئے تھے جس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ تو اڈیالہ جیل کیا پنجاب میں نہیں ہے.
سماعت کے دوران نیب پراسیکیوٹر نے نواز شریف کی ضمانت پر مخالفت سے انکار کردیا اور کہا کہ میں میرٹ پر نہیں جاﺅں گا نواز شریف کی حالت تشویش ناک ہے اس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اگر ہم ضمانت دے دیں تو کتنے وقت کے لیے دیں جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے کہ نواز شریف کو 6 ہفتوں کی ضمانت ملی تھی. نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہم انسانی بنیادوں پر نواز شریف کی ضمانت کی مخالفت نہیں کرتے عدالت سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق ٹائم فریم کے تحت سزا معطل کر دے، اس عرصے کے دوران نئی میڈیکل رپورٹ منگوا کر اس کا جائزہ لیا جائے.
عدالت میں سماعت کے دوران جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ اپیل جب سے زیرسماعت ہے اگر دلائل ہوتے تو اب تک اپیل پر بھی فیصلہ ہوجاتا ابھی تک جج وڈیو اسکینڈل والے معاملے پر بھی سماعت مکمل نہیں ہوسکی اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ آپ اگر آرڈر شیٹس دیکھیں تو اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ہم آپ کو الزام نہیں دے رہے.
عدالتی ریمارکس پر خواجہ حارث نے بتایا کہ جب معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہو تو انتظامیہ کوئی آرڈر جاری نہیں کرسکتی اس پر جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ معاملہ عدالت میں ہو تو عدالتی کارروائی کو ایگزیکٹو آرڈر سے فرسٹریٹ نہیں کیا جا سکتا اس پر خواجہ حارث نے بتایا کہ العزیزیہ ریفرنس میں سزا معطلی کے علاوہ سزا کالعدم قرار دینے کی اپیل بھی اس عدالت میں زیر سماعت ہے.
وکیل کی بات پر جسٹس عامر فاروق نے پوچھا کہ کیا اپیل کا فیصلہ ہونے سے پہلے صدر مملکت سزا معاف کرسکتے ہیں؟ جس پر خواجہ حارث نے بتایا کہ صدر مملکت کسی بھی وقت اپنا اختیار استعمال کر سکتے ہیں لیکن روایت یہ ہے کہ پہلے تمام فورمز پر اپیل کا فیصلہ ہوتا ہے. اس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ نیب کے سوا ابھی تک وفاقی اور صوبائی حکومت اپنے موقف میں واضح ہی نہیں وہ یہ فیصلہ ہی نہیں کرسکیں کہ انہوں نے اس معاملے پر کیا موقف اختیار کرنا ہے؟ اس موقع پر جسٹس عامر فاروق نے خواجہ حارث سے پوچھا کہ کس شرط پر آپ کو ضمانت دی جائے؟ جس پر وکیل نے کہا کہ آپ وہ شرط رکھیں جس میں نوازشریف کی طبعیت بہتر ہو سکے نواز شریف وفاقی و صوبائی حکومت کے پاس نہیں جائیں گے، اسی لیے عدالت کا دروازہ کھٹکٹھایا ہے اب ڈاکٹروں کو بھی نہیں معلوم ان کی بیماری کا حل کتنی دیر میں ہوگا‘خواجہ حارث کی بات پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ شفا اللہ کے ہاتھ میں ہے ڈاکٹرز بھی صرف اپنی کوشش ہی کرتے ہیں.
ساتھ ہی جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ عدالت کے سامنے اس وقت 4 آپشنز ہیں، ایک معاملہ ایگزیکٹو کو بھجوائیں نیب کی تجویز پر ٹائم فریم کے تحت سزا معطل کریں آپ کی مان لیں یا درخواست خارج کردیں. اس پر خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ ایک سیاسی حکومت کو یہ معاملہ بھجوانا جو ہماری شدید مخالف ہے، زیادہ مناسب نہیں ہو گا، ساتھ ہی انہوں نے ضمانت کا معاملہ ایگزیکٹوز کو بھجوانے کی مخالفت کردی وکیل کی مخالفت پر جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کسی جماعت کے نہیں پورے ملک اور صوبے کے ہوتے ہیں، اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے تو 3 دن کی ضمانت پر بھی اعتراض اٹھایا، جس پر عدالت نے پوچھا کہ کیا انہوں نے وفاقی حکومت کے کہنے پر یہ بیان دیا؟ عدالتی استفسار پر خواجہ حارث نے کہا کہ اٹارنی جنرل وفاق کے چیف لا افسر ہیں، سب ٹی وی چینلز نے ان کا بیان نشر کیا، ہم عدالت کے پاس آئے ہیں، آپ قانون کے مطابق اس پر فیصلہ کر دیں.
اس پر جسٹس محسن اخترکیانی نے کہا کہ حکومت فیصلہ کرے گی تو وہ ڈیل نہیں کہلائے گی، پورے پاکستان کا نقطہ نظر ایسا بنا دیا گیا ہے کہ جو فیصلہ ہوا وہ ڈیل کا نتیجہ ہوگا، جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ ادھر ادھر درخواستیں دینے سے ہم نے لعن طعن ہی ہونا ہے،ہم اس کا احترام کریں گے علاوہ ازیں عدالت نے سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا، جسے کچھ وقفے کے بعد سنایا گیا اور عدالت نے العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی سزا کو 8 ہفتوں کے لیے معطل کرتے ہوئے طبی بنیادوں پر ان کی عبوری ضمانت منظور کرلی.
عدالت نے نواز شریف کو 20، 20 لاکھ روپے کے 2 ضمانتی مچلکے جمع کروانے کا حکم بھی دے دیا، ساتھ ہی عدالت نے ریمارکس دیے کہ مزید ضمانت کے لیے آئندہ پنجاب حکومت سے رابطہ کر سکتے ہیں یاد رہے کہ شہباز شریف نے 24 اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں نواز شریف کی سزا معطلی کی درخواست دائر کی تھی اور استدعا کی تھی کہ اپیل پر فیصلہ ہونے تک طبی بنیادوں پر نواز شریف کو ضمانت پر رہا کیا جائے.