نیٹو کے ارکان کروشیا،جرمنی اور سلوینیا نے عراق سے اپنی فوجیں نکال لیں

 
0
267

بغداد جنوری 07 (ٹی این ایس): نیٹو کے ارکان کروشیا،جرمنی اور سلوینیا نے عراق سے اپنی فوجیں نکال لیں، کروشی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ خطے میں کشیدہ صورتحال کے پیش نظر کروشیا نے اپنے 14 فوجیوں کو قطر منتقل کر دیا ہے۔ جرمنی کی طرف سے بھی ایک بیان جاری کیا گیاتھا جس میں کہا گیا تھا کہ جرمنی بھی اپنے 35 فوجیوں کو عراق سے نکال کر اردن اور کویت بھیج دے گا۔ اس کے علاوہ سلواکیا نے بھی اپنے 7 فوجی بغداد سے نکال دیے ہیں تاہم انکی دوسری منزل کا ابھی نہیں بتایا گیا ہے۔
سلوینیا کا کہنا ہے کہ وہ صورتحال کا مشاہدہ کر رہا ہے، فیصلہ سوچ سمجھ کر کیا جائیگا۔ یاد رہے کہ اس سے قبل بیروت سے ٹی وی کے ذریعے تقریر کرتے ہوئے لبنانی ملائیشیا حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کا کہنا تھا کہ جب امریکی فوجیوں کے تابوت امریکہ پہنچیں گے تو تب ٹرمپ کو سمجھ آئے گا کہ خطہ انکے ہاتھ سے نکل گیا ہے اور وہ الیکشن بھی ہار گئے ہیں۔
انکا کہنا تھا کہ جنرل قاسم سلیمانی کی موت سے ناصرف ایران اور عراق بلکہ پورے خطے میں ایک نیا دور شروع ہو گا۔ قبل ازیں ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹر ویو دیتے ہوئے سابق امریکی سفیررچرڈ اولسن کا کہنا تھا کہ امریکا ایران کے جوابی حملےکا انتظار کر رہا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ امریکا اور ایران کے درمیان بڑی جنگ کا کوئی امکان نہیں، تاہم محدود پیمانے کی جنگ لڑ سکتے ہیں۔
انھوں نے کہا تھا کہ پاکستان اور افغانستان اس معاملے میں غیر جانبدار رہنا پسند کرینگے۔ انکا مزید کہنا تھا کہ جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد ایران کا درعمل آئے گا جس کے لیے امریکا تیار بیٹھا ہے۔ اس سے قبل سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پیغام دیتے ہوئے امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھے کہ ایران کبھی بھی ایٹمی طاقت نہیں بن سکتا۔
اس سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عراقی حکومت کو بھی دھمکی دی تھی کہ اگر امریکی فوجیوں کو نکالا گیا تو اٴْسے سخت اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق امریکی صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ ایسی پابندیاں عائد کی جائیں گی جن کا عراقی حکومت نے سوچا بھی نہیں ہو گا۔ امریکی صدر کا یہ بیان عراقی پارلیمنٹ میں منظور ہونے والی اٴْس قرارداد کے بعد سامنے آیا تھا، جس میں تمام غیر ملکی بشمول امریکی فوجیوں کو ملک سے نکل جانے کا کہا گیا تھا۔
اس قرارداد پر بغداد حکومت کو عمل کرنا لازم نہیں تھا۔ عراق میں سترہ برس قبل کی فوج کشی کے بعد بظاہر ہزاروں فوجیوں کا انخلا مکمل ہو چکا ہے لیکن پھر بھی تقریبا پانچ ہزار سے زائد امریکی فوجی اب بھی موجود ہیں۔ دوسری طرف جنرل قاسم سلیمانی کی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد ایران نے امریکی صدر ٹرمپ کے سر کی قیمت 80 ملین ڈالر مقرر کر دی تھی برطانوی ذرائع ابلاغ نے دعوی کیا تھا کہ ایران نے ڈونلڈ ٹرمپ کے سر کی قیمت مقرر کی ہے، ایرانی حکام نے کہ ہے کہ صدر ٹرمپ کو قتل کرنے والے کو 80 ملین ڈالرز دیے جائیں گے‘رپورٹ کے مطابق ایرانی حکام کا کہنا تھا کہ جو بھی ایرانی صدر ٹرمپ کو قتل کرے گا، اسے حکومت کی جانب سے 80 ملین ڈالر کا انعام دیا جائے گا.واضع رہے کہ مقتول جنرل قاسم سلیمانی کی نماز جنازہ تہران میں ادا کر دی گئی تھی، جنازے میں ایرانی صدر حسن روحانی اور ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے بھی شرکت کی جنرل سلیمانی کے نماز جنازہ میں ہزاروں افراد شریک ہوئے قاسم سلیمانی کو کل آبائی علاقے کرمان میں سپرد خاک کیا جائے گا، ملیشیا کے کمانڈر مہدی ال مہندس کی میت بھی تہران پہنچائی جا چکی ہے.خیال رہے کہ ایران نے 2015 کا جوہری معاہدہ منسوخ کر کے یورینیم کی افزودگی جاری رکھنے کا اعلان کر دیا ہے، تہران نے واضح کیا ہے کہ امریکا نے جنگ میں پہل کی ہے اب اسے جواب کے لیے تیار رہنا ہوگا، ڈونلڈ ٹرمپ کو عالمی قوانین کا علم ہے نہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی سمجھ، امریکیوں کو برابر کی چوٹ لگنے سے ہی جنگ کا دور ختم ہوگا.ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای کے مشیر حسین دہقان نے امریکی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ امریکا نے جنگ شروع کی، اب مناسب رد عمل قبول کرے، امریکی حملے کے جواب میں فوجی اہداف کو نشانہ بنائیں گے، امریکیوں کو اسی شدت کی ضرب لگنے سے ہی جنگ کا یہ دور ختم ہوگا.