حکومت کی بروقت اور موثر پالیسیوں کی بدولت قومی معیشت استحکام سے نمو کی جانب گامزن ہے، پاکستان جلد ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکل آئے گا، شبلی فراز

 
0
270

اسلام آباد ۔ 3 مارچ (ٹی این ایس) سینیٹ میں قائد ایوان سینیٹر شبلی فراز نے کہا ہے کہ نواز شریف پارٹی کو انتشار میں مبتلا کرکے لندن میں شاہانہ زندگی گزار رہے ہیں، انہوں نے سیاست کرکے اپنی بیماری کو خود متنازعہ بنایا ہے ، حکومت کی بروقت اور موثر پالیسیوںکی بدولت قومی معیشت استحکام سے نمو کی جانب گامزن ہے، پاکستان جلد ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکل آئے گا، ماضی میں سیاستدانوں کے مفادات کے ٹکراﺅ نے ملک کو نقصان پہنچایا، وزیراعظم عمران خان کا کسی سے کوئی مفاد وابستہ نہیںہے، سب کا اس پر اتفاق ہے کہ وہ ایک ایماندار شخص ہیں، قومی پرچم کی بے حرمتی اور ملک کے خلاف نعروں کو نہ روکا گیا تو معاشرہ خانہ جنگی کا شکار ہو سکتا ہے، نیب سمیت تمام اداروں میں ڈھانچہ جاتی اصلاحات ، تعلیم اورصحت کے شعبوں میں بہتری کے لئے قانون سازی کرنا چاہتے ہیں‘جب تک جزا اور سزا کا قانون نہیں ہو گا ، ملک اور معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا، قانون سازی کے ساتھ ساتھ اس پر عملدرآمد کے لئے طریقہ کار بھی وضع کرنا ہو گا افغانستان میں قیام امن سے ہی پاکستان کے مفادات وابستہ ہیں اور اسی طرح وسطی ایشیائی ریاستوں تک ہماری تجارتی رسائی ممکن ہوگی۔ منگل کو قومی ایک پینل انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ہر حکومت کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے لئے سیاسی و سماجی مسائل کھڑے نہ ہوں ‘ تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مفاہمت چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جب بھی کرپٹ لوگوں پر قانون ہاتھ ڈالتا ہے تو وہ سیاست اور جمہوریت کے پیچھے چھپتے ہیں اور اسے سیاسی انتقام کا نام دے دیا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ جنہوں نے کرپشن نہیں کی انہیں کوئی خوف نہیں ہونا چاہئے‘ سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ ماضی میں خیبر پختونخوا میں اے این پی کی حکومت تھی ہم نے جمہوری طریقے سے ان کی سیاسی ٹھیکیداری ختم کی، انہیں کسی قسم کی سیاسی انتقام کا نشانہ نہیں بنایا ‘ ماضی میں ملکی وسائل کو بے دردی سے لوٹا گیا۔انہوں نے کہا کہ جب تک جزا اور سزا کا قانون نہیں ہوگا تب تک معاشرہ اور ملک ترقی نہیں کرسکتا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کے سیشن کے دوران پروڈکشن آرڈر پر سیاست ہوتی رہی ہے‘ مگر خوش آئند بات یہ ہے کہ اب ایسا ماحول بن رہا ہے جس میں ہم سب ملکر آگے بڑھ سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم قانون سازی کرنا چاہتے ہیں مگر پارلیمنٹ میں ہماری عددی اکثریت آڑے آرہی ہے۔ہم نے ملک کو آگے لیکر چلنا ہے۔انہوں نے کہا کہ قانون سازی تو ہو جاتی ہے مگر اس پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ قانون پر عملدرآمد کرانے کے ذمہ دار ادارے ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے گذشتہ 40 سال سے ہمارے ادارے مفلوج ہو کر رہ گئے ہیں۔ سفارش اور وفاداری کی بنیادی پر تعیناتیاں ہوتی رہی ہیں انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ بات تسلیم کرنا ہوگی کہ اس کی وجہ ان کا ڈسپلن کا مسئلہ ہے، جب تک ڈسپلن نہیں ہوگا ادارے مستحکم نہیں ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ قانون سازی پر عملدرآمد یقینی بنانے کے لئے ایک میکنزم تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔بدلتے ہوئے حالات اور جدید تقاضوں کے مطابق اداروں کو اوپر لے جانا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ قانون سازی پارلیمنٹ کرتی ہے جبکہ رولز آف بزنس بیورو کریٹ بناتے ہیں اسی سے بعض مسائل پیدا ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم عددی اکثریت کم ہونے کی بنا پر اپنے منشور کے مطابق قانون سازی نہیں کر پا رہے ۔ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان ماضی کے حکمرانوں کے برعکس جب بھی کسی بیرونی دورے پر جاتے ہیں ہمیشہ قومی لباس زیب تن کرتے ہیں پاکستان کے تشخص اور موقف کو اجاگر کرتے ہییں۔ انہیں ہر انٹرنیشنل فورم پر پذیرائی ملتی ہے۔ماضی کے حکمرانوں کی پالیسیوں کی وجہ سے امریکا سمیت دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات سرد مہری کا شکار رہے مگر اب صورتحال بہتر ہورہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے عالمی سطح پر کشمیر کا مسئلہ اٹھایا جس کی وجہ سے کشمیر کاز کو عالمی سطح پر پذیرائی ملی۔دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ میں اب یہ مسئلہ بھر پور انداز میں اجاگر ہو رہا ہے۔مودی حکومت نے اپنی چیرہ دستیوں اور جبرکے ذریعے بھارت کو ایک ہندو ریاست کے طور پر بے نقاب کردیا ہے اب عالمی سطح پر بھارت کو پسپائی کا سامنا ہے۔افغان امن معاہدے کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ماضی میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے خیبر پختونخوا کی ثقافت کو نقصان پہنچا ہے‘ معیشت تو بہتر ہوجاتی ہے مگر اس صورتحال کی وجہ سے بہت سے معیشت دانوں ‘اہل علم اور دانشور شخصیات کو وہاں سے نکلنا پڑا۔ایک سوال کے جواب میں سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ افغان دھڑوں میں مفاہمت ہی مسئلے کا جامع حل ہے۔انہوں نے کہا کہ افغانستان کے ذریعے وسطی ایشیائی ریاستوں تک رسائی افغانستان میں امن سے ہی وابستہ ہے اور افغانستان میں امن کے بعد پاکستان میں موجود افغان مہاجرین بھی باعزت طریقے سے اپنے گھروں کو واپس لوٹیں گے۔ وسطی ایشیائی ریاستوں تک پاکستان کی رسائی اسی وقت ممکن ہوگی جب افغانستان میں امن ہوگا۔ ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بنیادی طور پر یہ ایک پاکستان کے لئے ایک بڑا چیلنج تھا جسے ماضی کی حکومتوں نے سنجیدگی سے نہیں لیا ہماری حکومت نے اس مسئلے پر سنجیدگی سے کام کیا ہے اگر ہم بلیک لسٹ میں چلے جاتے تو یہ خطرناک بات ہوتی۔ بھارت پاکستان کو مستقل طور پر بلیک لسٹ میں شامل کرانے کے لئے ہتھکنڈے استعمال کرتا رہا ہے۔ 27 میں سے 14 نکات پر عملدرآمد ہو چکا ہے ، باقی پر بھی جلد پیش رفت ہوگی جس سے پاکستان گرے لسٹ سے نکل جائے گا۔ پاکستان کی معیشت کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بروقت اور موثر حکومتی پالیسیوں کے نتیجہ میں معیشت استحکام سے نمو کی طرف بڑھ رہی ہے۔عالمی سطح پر تیل کی قیمتیں کم ہو رہی ہیں ۔اللہ تعالی کی خصوصی مہربانی ہے ۔ اس سے ہماری مشکلات میں بڑی حد تک کمی آئے گی ۔ انہوں نے کہا کہ افراط زر کی شرح 14.6 فیصد سے کم ہو کر 12 فیصد تک آ گئی ہے۔ آئندہ اس میں مزید کمی ہو گی۔ توقع ہے کہ سٹیٹ بینک کی شرح سود میں کمی واقع ہو گی اور ملک کی تاجر اور صنعت کار برادری اپنی مالی ضروریات پوری کرنے کے لئے بینکوں سے قرضے لے گی۔ نواز شریف کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میںانہوں نے کہا کہ نواز شریف نے پہلے بھی 10 سال تک آرام میں زندگی گزاری ہے مگر اس مرتبہ وہ اپنی جماعت کو انتشار میں چھوڑ کر بیرون ملک چلے گئے ہیں جس کی وجہ سے ان کی جماعت میں شدید اضطراب پایا جاتاہے ۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف لندن میں شاہانہ زندگی گزار رہے ہیں۔ انہوں نے سیاست کر کے اپنی بیماری کو خود متنازع بنا دیا ہے۔ حالانکہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر انہیں علاج کے لئے باہر جانے کی اجازت دی گئی تھی۔ سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ عمران خان کو کسی سے ذاتی دشمنی نہیں ہے ۔ ہماری کمزوریاںضرور ہیں مگر ہم اس یقین کے ساتھ حکومت کرنے آئے ہیںکہ ملک کے کمزور طبقات کو اوپر لے کے جائیں گے۔ تمام مالی مشکلات کے باوجود ہم اس کے لئے کوشاں ہیں۔ نیب کے قانون میں ترمیم کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جب تک اداروں میں اصلاحات کے حوالے سے کام نہیں ہوگا ملک آگے نہیں بڑھ سکتا ۔انہوں نے کہ کہ ہم صحت اور نصاب تعلیم میں اصلاحات کے لئے قانون سازی کرنا چاہتے ہیں۔ نیب سمیت دیگر اداروں میں ڈھانچہ جاتی اصلاحات لانے کے خواہاں ہیں۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم کسی بھی صورت تسلیم نہیں کر سکتے کہ کوئی پاکستان کے پرچم اور ریاست کے خلاف نعرہ لگائے۔ اگر اسے نہ روکا گیا تو معاشرہ خانہ جنگی کا شکار ہو جائے گا۔ سب کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ اپنے مسائل پارلیمنٹ کے فورم پر لائیں یہی وہ ادارہ ہے جہاںپر تمام مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ زینب الرٹ بل ایوان بالا کے رواں سیشن میں منظور ہو جائے گا۔نمک، چاول اور دیگر غذائی اشیا کی برانڈنگ بارے جیوگرافیکل انڈکشن لا بارے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس حوالہ سے قانون کی ایوان بالا سے منظوری ہو چکی ہے اور اب وہ قومی اسمبلی سے منظوری کے مرحلے میں ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کو یورپی یونین میں بھی جی ایس پی پلس کی سہولت حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ درآمدات اور برآمدات میں توازن بہت ضروری ہے۔ ہمیں اپنی پیداوار بڑھانی ہوگی ۔ بد قسمتی سے رواں سال ہمیں کپاس کی300 سے 400 ملین گانٹھیں درآمد کرنا پڑ رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف میں سیاسی وراثت کا کوئی تصور نہیں ہے۔ اس بات پر متفق ہیں کہ عمران خان ایماندار شخص ہیں اور ان کے کوئی ذاتی مفادات نہیں ہیں۔ ماضی میں سیاستدانوں کے مفادات کے ٹکراﺅ نے ملک کو نقصان پہنچایا ہے۔