سینیٹ اجلاس: کورونا وائرس کی صورت حال پر بحث کے دوران اپوزیشن اور حکومتی اراکین آمنے سامنے

 
0
242

اسلام آباد 12 مئی 2020 (ٹی این ایس): سینیٹ کا اجلاس چیئرمین صادق سنجرانی کی زیرصدارت ہوا جس میں کورونا وائرس اور اسکے بحران کے دوران پارلیمنٹ کی کردار پر بحث کی گئی۔ ملک میں صحت کی سہولیات کی فراہمی پر غور بھی ایجنڈے میں شامل تھا۔

اپوزیشن کی تنقید

اپوزیشن لیڈر راجہ ظفرالحق نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وبا کے دوران اتحاد کی ضرورت تھی لیکن وزیر اعظم نے تقسیم پیدا کی۔ اپوزیشن کے حوالے سے حکومتی رویہ افسوسناک ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے کورونا سے متعلق درست پالیسی نہیں اپنائی جارہی اور رویہ بھی انتہائی منفی ہے۔

پیپلزپارٹی رکن سینیٹ شیری رحمان نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایسا وقت ہے جہاں ہمیں یکجہتی کی ضرورت ہے۔ لاک ڈاوَن میں نرمی ہوتے ہی عید کی خریداری کی جارہی ہے۔ لاک ڈاوَن میں نرمی پر حکومت کا پیغام واضح نہیں ہے۔ حالات ایسے بننے جارہے ہیں کہ ہمارے پاس صحت کے وسائل ختم ہورہے ہیں۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ وزیراعظم کہاں اور لاپتہ کیوں ہیں؟ اس بات کا یقین ہے وزیراعظم کورونا سے ڈرتے نہیں لیکن پارلیمان میں آتے نہیں۔

آج اسمارٹ کل کریزی لاک ڈاوَن اور پتہ نہیں کیاکیا ہورہا ہے؟ کورونا کے علاوہ کسی اور معاملے پر بات حلف سے دیانت داری نہ ہونے کے مترادف ہے۔

کیوں تاثر دیا جارہا ہے کہ کورونا کی صورت حال کا سامنا صرف حکمران جماعت کو ہے؟ ہم کسی کو تنہا نہیں چھوڑ رہے، ہم حکومت سے پالیسی چاہتے ہیں۔

حکمران جماعت کا مؤقف

وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کوئی شک نہیں کہ کوروناوائرس ایک چیلنج ہے اور مالی طور پر مستحکم ممالک بھی اس سے متاثر ہوئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے وقتی طور پر تسلی بخش اقدامات کیے اور وزیراعظم ہر اجلاس میں سب سے پہلے وزیراعلیٰ سندھ کو سنتے ہیں اور ہم نے پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر کورونا کے خلاف حکمت عملی تیار کی ہے۔

کب کورونا سے بچاؤ کی ویسکین تیار ہوگی کسی کو علم نہیں، کورونا کا حل لاک ڈاؤن نہیں۔

وزیرخارجہ نے شیری رحمان کو جواب دیتے ہوئے کہا وزیراعظم اسلام آباد میں ہی موجود ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر کورونا سے متعلق اقدامات کا جائزہ لیتے ہیں۔

شاہ محمود نے کہا اپوزیشن کو دعوت دیتا ہوں کہ کورونا کے حوالے سے تجاویز دیں ہم خندہ پیشانی سے قبول کریں گے لیکن اگر سیاست کریں گے تو سیاسی جواب دیں گے۔