فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے اجلاس میں تکفیر کو جرم قرار دینے کا مطالبہ

 
0
565

اسلام آباد 25، ستمبر، 2020 (ٹی این ایس): علماء نے ملک میں فرقہ وارانہ فسادات پیدا کرنے کے لئے مذہبی جذبات کو بروئے ابھارنے کی کوششوں کی مذمت کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ تکفیر کو صریح جرم قرار دیا جائے۔
یہ بات ملک میں حالیہ فرقہ وارانہ واقعات کے پیش نظر ، اسلام آباد میں قائم ایک تھنک ٹینک ، اسلام آباد پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام ، ایک بین فرقہ وار ہم آہنگی اجلاس کے اختتام پر جاری کردہ ایک اعلامیہ میں کہی گئی۔
اس اجلاس میں بریلوی ، دیوبندی ، اہلحدیث ، اور شیعہ مسلک کے مذہبی اسکالرز نے شرکت کی۔ اجلاس میں ڈاکٹر عبدالباسط مجاہد ، ڈاکٹر عبد الغفار بخاری ، ڈاکٹر سمیع اللہ زبیری ، مولانا حیدر علوی ، مولانا جہانگیر شاہ سعیدی ، مولانا آمین شہیدی ، مولانا شیخ انور علی نجفی ، اور ڈاکٹر صاحبزادہ احسان اللہ چشتی نے شرکت کی۔ مسٹر اظہر عابدی اس سیشن کے moderator تھے۔
اس کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ پاکستان پینل کوڈ کے 153A اور 295A جیسے قوانین موجود ہیں جو دوسروں کے خلاف نفرت کو فروغ دینے اور کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے پر پابندی عائد کرتے ہیں ، لیکن تکفیر ، یعنی کہ ایک مسلمان کے ذریعہ یہ اعلان کہ دوسرا مرتد ہے ، اب بھی جاری ہے۔ اس سے ملک میں فرقہ وارانہ تناؤ کو ہوا مل رہی ہے۔
شرکاء نے اتفاق کیا کہ وہ قوانین جو ہر شہری کو تمام مذاہب اور فرقوں کی ’مقدس شخصیات ، مقامات اور عقائد‘ کا احترام کرنے کا پابند کرتے ہیں ، ان کو حقیقی روح کے ساتھ نافذ کیا جانا چاہئے۔
علمائے کرام نے کہا کہ حکومت کو ان لوگوں سے سختی سے نمٹنا چاہئے جو فرقہ واریت پھیلاتے ہیں اور اسلام میں تسلیم شدہ فرقوں کی تکفیر کرتے ہیں۔
“یہ فورم اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ اسلام کے تمام بڑے فرقوں میں بنیادی تعلیمات ایک جیسی ہیں او ر اختلافات صرف فروعی معاملات میں ہی ہیں” ۔
سیشن کے شرکا نےتجویز پیش کی کہ ’’ اختلاف رائے کے احترام اور فرق کے آداب ‘‘ کو مدارس کے نصاب میں شامل کیا جانا چاہئے اور اس کو مختلف سطحوں پر ایک مضمون کی حیثیت سے پڑھایا جانا چاہئے۔
ایگزیکٹو ڈائریکٹر آئی پی آئی پروفیسر سجاد بخاری نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ قرآن مجید اور پیغمبر اکرم (ص) کے وحدت کی واضح دعوت اور واضح عمل اور پیغام کے باوجود کچھ عناصر کیوں انتشار اور نفرت پھیلانے پر تلے ہوئے ہیں ۔ انہوں نے کہا ، غالبا ایسے عناصر اسلام مخالف اور پاکستان مخالف قوتوں کے آلہ کار بن گئے کیونکہ ان کے اقدامات سے دشمنوں کو فائدہ ہو رہا ہے۔
معروف اسکالر ڈاکٹر عبدالباسط مجاہد نے کہا کہ پاکستان ایک اہم اسٹریٹیجک ریاست ہونے کے ناطے اپنے دشمنوں کی سازشوں کا شکار رہا ہے۔ لہذا انہوں نے استدعا کی کہ اس انتہائی نازک صورتحال میں مختلف فرقوں کے رہنماؤں اور علمائے کرام کو بہت محتاط رہنا چاہئے اور تمام مسلم فرقوں میں مشترکات پر زور دیتے ہوئے امن اور ہم آہنگی کے پیغام کو فروغ دینا چاہئے۔
مولانا حیدر علوی نے خدشہ ظاہر کیا کہ فرقہ واریت کی تازہ لہر عالمی ’’ سامراج ‘‘ کی سازش کا نتیجہ ہے ، جو ایک مستحکم پاکستان نہیں دیکھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سوشل میڈیا پر بغیر تحقیقات کے نفرت پھیلائی جارہی ہے۔ انہوں نے راولپنڈی میں مساجد اور مدارس کے ایک سروے کا ذکر کرتے ہوئے کہا ، وہاں کے 90٪ علماء بنیادی دینی تعلیم نہیں رکھتے۔
انہوں نے فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے والے لیڈرز او ریاست کی طرف سے دستیاب تحفظ پر سوال اٹھایا ، جو ریاست کے فراہم کردہ سیکیورٹی گارڈز کے ساتھ گھومتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں۔
ڈاکٹر عبدالغفار بخاری نے اختلاف رائے کو تسلیم کرنے اور ان اختلافات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
مولانا انور علی نجفی نے کہا کہ بیرونی مالی اعانت کے بغیر ملک میں فرقہ وارانہ منافرت پھیل نہیں سکتی۔ انہوں نے کہا کہ مختلف مذہبی امور پر اسلام میں اختلافات ضرور ہیں ، لیکن ایک دوسرے سے نفرت نہیں ہے۔
مولانا جہانگیر شاہ نے زور دے کر کہا کہ ملک میں مختلف فرقوں کو اپنی صفوں میں موجود ایسے عناصر کو جو دوسرے فرقوں کے خلاف نفرت پھلاتے ہیں ان سے اظہار لا تعلقی کرنے کی ضرورت ہے۔
مولانا آمین شہیدی نے کہا کہ اصل تصادم مغرب اور اسلام کے مابین ہے ، مگر مسلمانوں کو اپنے اندر تقسیم کو فروغ دے کر کمزور کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے درمیان موجود شر انگیز عناصر کو مغرب کی سرپرستی حاصل ہے۔
ڈاکٹر سمیع اللہ زبیری نے کہا کہ ہمیں ایک دوسرے پر الزام لگانے کے بجائے خود کو جانچنے اور فرقہ واریت کو فروغ دینے والوں کی شناخت کرنےکے لئے اپنے اندر جھانکنے کی ضرورت ہے۔