اپوزیشن کے این آر او کی رقم قوم کو ادا کرنی پڑ رہی ہے: حماد اظہر

 
0
317

اسلام آباد 18 جنوری 2021 (ٹی این ایس): وفاقی وزیر صنعت و پیداوار حماد اظہر نے پاکستان ادارہ شماریات (پی بی ایس) کے ڈیٹا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پنجاب میں 20 کلو آٹے کی بوری 860 روپے اور سندھ میں 1100 روپے کی ہے۔

سینیٹ اجلاس میں اپوزیشن کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آج سب سے مہنگا آٹا سندھ میں فروخت ہورہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آٹے کا بحران آیا تو حکومتوں نے خریداری کی تاہم خریداری ہی سے سب کچھ نہیں ہوتا، اکتوبر نومبر تک سندھ نے خریدا ہوا 12 لاکھ ٹن کا آٹا جاری کرنے سے انکار کردیا جس کی وجہ سے وہاں قیمت زیادہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ‘2017 میں گنے کی سپورٹ پرائز 170 روپے تھی اور کسان کو 130 یا 140 سے زیادہ نہیں ملتے تھے اور شوگر ملز کے آگے وفاقی سیکریٹریز کانپتے تھے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘پہلی مرتبہ کسانوں کو کم از کم سپورٹ پرائز سے زیادہ 230 سے 250 روپے تک مل رہا ہے، چینی کی قیمت بڑھنے پر کام کر رہے ہیں اور ای سی سی کے اجلاس میں 5 لاکھ ٹن چینی در آمد کرنے کی درخواست کی ہے’۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ‘پیٹرول پر کہا گیا کہ کوئی نئی لیوی لگائی گئی ہے، ہم نے ایک روپیہ نہیں بڑھایا، ہمسایہ ممالک میں دیکھ لیں کہ ہمارے ٹیکسز زیادہ ہیں یا ہمسایہ ممالک کے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘کہا گیا کہ 40 سے 45 فیصد قرضے بڑھا دیے، مسلم لیگ (ن) کے بیرونی قرضوں کی رفتار سے اس وقت کافی کم ہیں، ہم نے 16 ارب ڈالر کے قرضے نہیں لیے، اس سال بیرونی قرضوں میں 4 ارب ڈالر کا اضافہ ہوگا جو 5 یا 6 سال کی کم ترین سطح کا اضافہ ہوگا’۔

انہوں نے کہا کہ ‘کہتے ہیں قرضوں کا حجم بڑھ گیا، یہ کوئی نئے قرضے نہیں یہ روپے کی قدر کو گرنے سے روکنے پر 40 فیصد قرضے بڑھے، باقی 60 فیصد میں سے اکثر وہ رقم ہے جو مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے قرضوں پر سود کو پورا کرنے کے لیے لیے گئے’۔

حماد اظہر کا کہنا تھا کہ ‘اگر ان کے لیے ہوے قرضوں پر ہمیں سود نہ دینا پڑے تو آج ہماری وفاقی حکومت کے اخراجات آمدن سے کم ہیں’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘کہتے ہیں بے روزگاری میں اضافہ ہوا، حقیقت میں کورونا وائرس کے دوران ہونے والی بے روزگاری کو ہم نے وی شیپ میں بحال کی ہے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘اجلاس میں براڈ شیٹ اور نیب پر بات کی جاتی ہے، یہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے این آر او کی رقم ہے کیونکہ براڈ شیٹ کا معاہدہ یہ تھا کہ وہ جتنی رقم سامنے لائیں گے وہ اس کا 20 فیصد حاصل کریں گے، براڈ شیٹ نے 10 کروڑ ڈالرز کی جائیدادیں ثابت کیں جس کے بعد انہوں نے این آر او کرلیا اور قوم کو اس کی رقم ادا کرنی پڑ رہی ہے’۔

حکومت نے غلط ادارے کو ادائیگی کی, شیری رحمٰن

اس سے قبل ایوان میں بات کرتے ہوئے شیری رحمٰن کا کہنا تھا کہ حکومت نے ایک حصہ فیس کی ادائیگی کی مگر کسی غلط ادارے کو، اس پر انکوائری ہونی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے پہلے سے 4 گنا زیادہ قرضے لیے ہیں، وہ قرضے کہاں جارہے ہیں، کون مقدس گائے ہے’۔

انہوں نے کہا کہ کاوے موسوی صاحب جو بار بار بات کر رہے ہیں انہوں نے کہا ہے کہ میں نے ایک ارب ڈالر کی لانڈرنگ کرنے والے کا نام شہزاد اکبر کو دے دیا ہے، موجودہ نیب اس پر جانچ پڑتال کر رہی ہے اس کی بات تک نہیں کی جارہی۔

شیری رحمٰن کا کہنا تھا کہ ‘یہاں بات شروع کی جانی چاہیے، ہم کیسز ہار رہے ہیں اور عوام کے پیسے ضائع ہو رہے ہیں، آپ بڑی بڑی پارٹیوں کو توڑیں، انہیں این آر او دیں اور باقی لوگوں کو نیب گردی میں پھنسائیں تو اس پر سوال کیوں نہیں اٹھے گا’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘کورونا کے لیے 70 ارب ڈالر مختص کیے گئے تھے، وہ کہاں گئے ہیں، ملک میں نہ ایل این جی آرہی ہے نہ ویکسین، 16 ارب ڈالر کا حکومت نے رواں سال ہی قرضہ لیا، 35 کھرب کا اب تک قرض لے چکی ہے اور اب تمام ریڈ لائن عبور کرچکے ہیں جس سے عوام کی قوت خرید متاثر ہورہی ہے’۔

انہوں نے کہا کہ پی آئی اے کا کرایہ تک نہیں دیا گیا، دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا، اگر لیز کی ادائیگی نہیں ہو تو عدالت میں نہیں جایا جاتا۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘جب ایئرلائنز کو گرادیا جائے تو سوال اٹھتا ہے کہ یہ کس کے لیے ہورہا ہے، یہ اس قدر نااہلی ہے کہ لگتا ہے کہ کہیں کوئی سازش تو نہیں، اور پھر کوئی سوال تک نہیں ہوتا’۔

پیپلز پارٹی کی سینیٹر کا کہنا تھا کہ جو حکومت 40 سے 45 فیصد قرضہ چڑھا رہی ہے وہ اس پیسوں کا کر کیا رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس پورے اجلاس میں انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا، کہا جاتا ہے کہ ہم نے اتنے قرضے اس لیے لیے کیونکہ پچھلی حکومت نے اتنے قرضے لیے تھے۔

بعد ازاں جب چیئرمین سینیٹ نے حماد اظہر کو جواب کا موقع دیا تھا تو مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر پرویز رشید نے کہا تھا کہ جو طریقہ واردات شینیٹ اختیار کیا گیا ہے اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔

چیئرمین سینیٹ نے واردات کا لفظ ہذف کردیا تو پرویز رشید نے کہا کہ یہ طریقہ کبھی اختیار نہیں کیا گیا آپ اپوزیشن کی بات بعد میں سنتے ہیں پہلے وزیر کو بولنے کا حق دیتے ہیں۔