مہنگائی سے عام آدمی کا جینا محال ہوگیا ہے: پرویز اشرف

 
0
2673

اسلام آباد 19 فروری 2021 (ٹی این ایس): پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما اور سابق وزیر اعظم راجا پرویز اشرف کا کہنا ہے کہ حکومت نے ملک کو بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے آگے گروی رکھ دیا ہے۔

اپوزیشن کی درخواست پر طلب قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے رہنما راجا پرویز اشرف نے کہا کہ مہنگائی کا مسئلہ پاکستان کے ہر شہری کے زبان پر ہے، عام آدمی کا جینا محال ہوگیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن نے ہمیشہ کوشش کی کہ ایوان میں اس پر بات ہو اور کوئی حل نکالا جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ ‘عمران خان کہتے تھے کہ پاکستانیوں کو دوسرے ممالک جاکر روزگار ڈھونڈنا پڑتا ہے، ہماری حکومت آئے گی تو باہر سے لوگ پاکستان آئیں گے نوکریوں کے لیے، کیا یہ بات ثابت نہیں کرتی کہ ڈھائی سال گزرنے کے بعد پاکستان کے لوگ سمجھیں کہ ان کے ساتھ دھوکا ہوا ہے’۔

راجہ پرویز اشرف کا کہنا تھا کہ ‘حکومتی وزرا کہیں گے کہ سابقہ حکومتوں نے کیا ہے یہ سب، اب عوام بھی آپ کے اس بہانے سے تنگ آچکی ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘کہا جارہا تھا بجلی کی قیمتیں نیچے آجائیں گی، حکومت کوئی ایک قدم ایسا بتائے جو اس نے قیمتوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی بلکہ اس کی جگہ ایک ہفتے میں بجلی کی دو مرتبہ قیمت بڑھتی ہے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘اس حکومت نے اس ملک کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دیا ہے، اس طریقے سے آئی ایم ایف کے سامنے جھکے ہوئے ہیں کہ وہ جو بھی کہیں سب مان لی جاتی ہے’۔

پیپلز پارٹی رہنما کا کہنا تھا کہ بجلی، گیس سے قیمتیں تیزی سے بڑھی ہیں یہاں تک کہ کھانے پینے کی چیزیں عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوجانا حکومت کی ناکامی کا ثبوت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ صورتحال یہ ہے کہ ایک عام آدمی کا بجٹ یہ اسمبلی نہیں بنا سکتی۔

انہوں نے کہا کہ جان بوجھ کر پاکستان کی عوام کے ساتھ زیادتی کی جارہی ہے، ہم نے بھی آئی ایم ایف سے قرضے لیے مگر یہ طریقہ نہیں کہ ہفتے میں 2 مرتبہ بجلی کی قیمت بڑھادی جائے۔

سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم گردشی قرضوں کی باتیں کرتے تھے، آج گردشی قرضے 3 کھرب روپے کے قریب پہنچ چکا ہے اس کا کون حساب کتاب کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ ‘اس کا جواب یہ نہیں مانا جائے گا کہ پچھلی حکومتوں کا کرتا دھرتا ہے، حکومت نے ڈھائی سال کے بعد ملک کو کہاں پہنچا دیا ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘وزیر اعظم نے کہا تھا کہ مجھے قرضہ لینے کہیں جانا پڑے تو میں خود کشی کرلوں، آج قرضہ بڑھ کر 35 ہزار ارب ڈھائی سال میں ہوگیا ہے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘یہ بجلی کے بلوں کو پھاڑ کر کہتے تھے کہ کوئی بجلی کا بل نہ دے آج تجویز دیں کہ ہمارے لوگ بل دیں یا نہ دیں، آج حکومت کہے کہ وزیر اعظم نے اس وقت غلط کہا تھا’۔

اسپیکر اسمبلی نے وقت کی کمی کی وجہ سے راجہ پرویز اشرف سے اپنی تقریر ختم کرنے کا کہا تو انہوں نے کہا کہ مجھے کہنے دیں، اگر ہماری زبان روکیں گے تو پاکستان کے 22 کروڑ لوگ کہیں گے ان کی زبان بندی کیسے کی جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے کاشتکار کی کمر ٹوٹ گئی ہے، ہمارے کاٹن کی پیداوار کم ہوکر 1982 کے برابر ہوگیا ہے، پاکستان کا کوئی ایک شعبہ بتایا جائے جو انحطاط پذیر نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ الزامات سے یہ ملک آگے نہیں جائے گا، جتنا بھی برا ثابت کرنے کی کوشش کرلیں مگر یہ کر نہیں سکتے۔

ان کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب نے کہا کہ سیاسی بصیرت رکھنے والی شخصیات ایسی باتیں کر رہی ہیں جیسے کوئی قبر کھود کر اس پر لیٹ جائے اور کہے میرے اوپر مٹی ڈالو اور تدفین مکمل کرو۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘ان حکومتوں نے بارودی سرنگیں لگائیں، مہنگے ترین معاہدے کیے، بجلی خریدیں یا نہ خریدیں صلاحیتی ادائیگی کی مد میں ادائیگی کرنی پڑے گی’۔

انہوں نے کہا کہ ‘سابقہ حکومت نے قابل تجدید توانائی لانے کے بجائے مہنگے بجلی کے کارخانے لگائے’۔

عمر ایوب کا کہنا تھا کہ ان کی تقریر کے دوران اپوزیشن بینچز سے شاہد خاقان عباسی و دیگر اسپیکر کے ڈائس کے سامنے کھڑے ہوگئے اور شور شرابہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ بجلی کے نرخ اور معاہدوں کے بارے میں جو پوچھ رہے ہیں تو میں کارکے معاہدہ یاد دلاتا ہوں جو پاکستان کا بیڑا غرق کرنے جارہا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ان کے سارے معاہدے بدعنوانی پر تھا، قابل تجدید توانائی کا انہوں نے 24 روپے فی یونٹ تھا عمران خان کے دور میں اس کے ریٹ 6.50 روپے پر آگیا۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ‘یہ ایسا صرف اس لیے ہوا کہ بدعنوانی اور بریف کیس کلچر کا خاتمہ ہوا ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا 6 ارب 50 کروڑ ڈالر زر مبادلہ باہر جاتا ہے، جنوری 2017 میں پاکستان میں سب سے زیادہ تیل درآمد کی گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ‘راجہ پرویز صاحب پوچھتے ہیں ایسا کیوں ہورہا ہے تو یہ اپنے اتحادیوں سے پوچھیں کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا’۔

انہوں نے کہا کہ ‘وہ کونسا وزیر خزانہ تھا کہ جس نے ڈی ویلیوشن کا اقدام اٹھایا، پیپلز پارٹی کی حکومت جب ختم ہوئی تو وہ 2 مہینے کا زرمبادلہ چھوڑ کر گئی تھی مگر یہ حکومت 2 ہفتوں کا بھی زر مبادلہ چھوڑ کر نہیں گئی’۔

وزیر توانائی کا کہنا تھا کہ گردشی قرضوں میں اضافے کی وجہ صلاحیت کی ادائیگی زیادہ ہونا ہے جس میں پاکستان کی حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں یہ ان کا ہی کرتا دھرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ صنعتیں پی ٹی آئی کی حکومت کو سراہ رہی ہیں اور کہتی ہیں کہ بہت عرصے بعد ٹھنڈی ہوا کے جھونکے آئے ہیں۔

اس موقع پر احسن اقبال نے کہا کہ وزیر کو بات کرنے کا موقع اس وقت دینا چاہیے جب اپوزیشن کے سوالات پورے ہوجائیں اور وہ تمام اراکین کے سوالات کا اکٹھے جواب دیں، اگر وہ الگ الگ سب کو جواب دیں گے تو یہ قواعد کے خلاف ہے۔

اس پر وفاقی وزیر ترقی و منصوبہ بندی اسد عمر کا کہنا تھا کہ اسپیکر صاحب بہت زبردست طریقے سے ایوان چلارہے ہیں۔

بعد ازاں اسپیکر اسمبلی نے اجلاس پیر کی شام 4 بجے تک کے لیے ملتوی کردیا۔

قبل ازیں اجلاس کے آغاز میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ آج کے ایجنڈے میں آرڈیننسز نہیں ہیں جو رول 170 کی خلاف ورزی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جیسے ہی اجلاس ہو اس میں تمام آرڈیننسز سامنے رکھے جائیں گے۔

ان کے سوال پر حکومتی بینچز سے بابر اعوان نے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ اپوزیشن کی درخواست پر اجلاس بلایا گیا اور وقت کی کمی کا بھی مسئلہ ہے تو ہم آئندہ اجلاس میں اسے اٹھائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں اپوزیشن کی بات سے متففق ہوں، تاہم قواعد میں جو زبان استعمال کی گئی ہے اس میں ‘چاہیے’ کا لفظ لکھا گیا ہے۔

شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ حکومت کا ان آرڈیننسز کو ایوان میں سامنے لانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

بعد ازاں اسپیکر اسمبلی نے پیر کے روز آرڈیننس ایوان میں سامنے رکھنے کی ہدایت دی۔