اسلحہ فری پاکستان، قانون و انصاف اور مُلک کی ترقی

 
0
528

تحریر: تنویر اعوان
ملک کی ترقی کے لیے ناگزیر ہے کہ قانون کا یکساں نفاذ ہو تیز ترین عدالتی نظام ہو اور عوامی سطح پر سرے سے اسلحہ نہ ہو بلکہ اے ایس آئی لیول سے نیچے پولیس کو بھی اسلحہ رکھنے کی اجازت نہ ہو اور پولیس کی تفتیش کیمرہ ریکارڈڈ ہو تھانہ پولیس اور تفتیشی پولیس مکمل طور علیحدہ ہو تفتیشی پولیس کو سرے سے کبھی بھی تھانے میں تعینات نہ کیا جائے کیونکہ موجودہ نظام میں پولیس والےاوسطاً چھ ماہ تھانے میں اور چھ ماہ تفتیشی سیکشن ایچ آئی یو میں تعینات رہتے ہیں آپس میں تعلقات کی بنیاد پر تفتیش کو اہمیت نہیں دی جاتی پولیس ملازمین کے آپس میں تعلقات اور محکمے کی نام نہاد ساکھ کو بچانے کی خاطر انصاف کے قتل کی بنیاد تھانہ پولیس اور تفتیشی مل کر رکھتے ہیں اور وہ ناقص اور جانبدار تفتیش عدالت کی گمراہی کا باعث بنتی ہے جس کی وجہ سے بُہت سے بے گناہ کافی عرصہ بلاوجہ جیل میں پڑے سڑتے رہتے ہیں اور بے عزت ہو کر باعزت بری ہونے تک عوام ایک عذاب سے گزر جاتے ہیں اور ایسے نظام سے نفرت عوام کی حُب الوطنی کو بری طرح متاثر کرتی ہے
معاشرتی طور پر اخلاقی اقدار کا جو جنازہ نکلا ہے اُس کا سب سے زیادہ اثر پاکستان میں قانون کا نفاذ اور انصاف فراہم کرنے والے اداروں پر پڑا ہے اس لیے کُچھ عرصہ اداروں پر بُہت سخت مانیٹرنگ رکھنی پڑے گی میں تو سمجھتا ہوں کہ حساس اداروں کے علاوہ اداروں کا سب سسٹم حکومتی اور عوامی سطح پر لائیو کر دیا جائے عدالت کے اندر ہوتی بحث یا پولیس کی تفتیش، سب لائیو ہو عوام دیکھ سکیں کہ تفتیشی کس طرح تفتیش کر رہا ہے اور عدالت میں سارا دن کیا کاروائی ہو رہی ہے کیونکہ ہمارا کلچر مکمل طور پر ناقابل اعتبار ہو چُکا ہے ایک اعلی کلچر کے ڈویلپ ہونے تک ہر لحاظ سے سخت مانیٹرنگ نظام قائم کیا جائے۔
جہاں سخت مانیٹرنگ نظام قائم کرنے کی ضرورت ہے وہیں
پولیس کو وسائل کے لحاظ سے فوج سے بھی کہیں زیادہ سہولیات دینا بھی ناگزیر ہے وسائل ہی نہیں معاشرے میں ایک عام پولیس اہلکار کے مقام و مرتبے کو بھی بالا کرنا ہوگا ‏وگرنہ معاشرتی امن و انصاف اور عوامی داد رسی میں کلیدی کردار ادا کرنے والا ادارہ اور اُس کے اہلکار وہی عزت اور نفرت تقسیم کریں گے جو قومی سطح پر ہم اُنہیں دے رہے ہیں۔ سسٹم اور سسٹم بنانے بنانے والے سارے بزرجمہر اُلٹا لٹک جائیں تو بھی آخر یہی کرنا پڑے گا۔
پولیس نظام میں اہلکاروں کے بنیادی حقوق کا اعلی معیار قائم کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کو عوامی سطح پر اسلحہ فری کیے بغیر نہ امن قائم ھو سکتا ھے اور نہ ہی ٹورازم ڈویلپمینٹ ھو سکتی ھے۔۔ حتی کہ کاروباری انویسٹمنٹ بھی خوف کا شکار رہے گی۔ اسلحہ فری پاکستان ، اچھی تنخواہ و سہولیات اور جدید اسلحہ سے مزین پولیس اور سپیڈی ٹرائل کورٹس کے بغیر پاکستان کی ترقی ممکن ہی نہیں۔ موٹروے پولیس اور اسلام آباد ٹریفک پولیس کو جو پیکج اور سہولیات دی گئی ہیں اُس سے بھی پچاس فیصدزیادہ پبلک پولیس کو دے کر دیکھیں عدالتوں کے جج
“ویلے” نہ بیٹھے رہ گئے تو بات کرنا۔
جمہوریت اور جمہوری حکومت ایک بہترین پولیس فورس کے بغیر کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی اور نہ ہی قائم رہ سکتی ہے ۔ میں اس نتیجے پر پُہنچا ھوں کہ کوئی تو ہے جو پولیس میں شامل جوانوں کے ورکنک آورز کو غیر منصفانہ بنا کر اُن کو تھکاوٹ، بے یقینی اور نفسیاتی مسائل کا شکار رکھتا ھے جس سے وہ بددل اور چڑچڑے ھو جاتے ہیں۔ اُن کو ویکلی چُھٹی نہیں ملتی اور نہ ہی آرام۔ جو خود نا انصافی اور غیر انسانی سلوک کا شکار ھوں اُن سے تمیز، عزت اور ایمانداری کی توقع رکھنا بیوقوفی نہیں تو اور کیا ھے؟؟؟
۔ گشت کے لیے پولیس وین کو 9 لیٹر ملتے ہیں وہ کیسے 24 گھنٹے گشت کرے گی۔ لازمی بات ھے کہ جب علاقے کے پیٹرول پمپ عوام سے ڈیزل چوری کر کے اُس پولیس وین کا ڈیزل پُورا کریں گے تو پمپ مالکان عوام کو پیمانے سے کم ڈیزل دے کر ہی اپنا خسارہ پورا کریں گے اور بہت سے اپنا پیٹ بھی بھریں گے۔۔ تو پھر اس چوری کی ایف آئی آر کہاں اور کون درج کرے گا۔؟؟؟
اس لیے پولیس کو فوج سے بھی زیادہ مضبوط کرنا ھو گا وسائل دینے ہوں گے حد سے زیادہ اعتماد دینا ھوگا اور ایک پولیس والے کی عزت ایسے ہی کرنی ھوگی جیسے قوم اپنے کسی ہیرو کی کرتی ھے۔۔ پولیس کو ڈیپارٹمنٹ کی سطح پر اعلٰی اور پُروقار ماحول دیں ۔ ایماندار کلچر دیں سینئر افسران اپنے پروٹوکول اور دبدبے کے نام پر جونیئرز کو دبا کر نہ رکھیں اور یہ بھی اپنے ذہن سے نکال دیں کہ جونیئرز اُن کے ماتحت کام کرتے ہیں بلکہ افسران کا یہ ایمان ہونا چاہیئے کہ کام کرنے والا ہر اہلکار بہت اہم ہے اور ہر ایک اپنی اپنی ڈیوٹی کر رھا ھے جس کا مورال یہ ھے کہ عوام اور مُلک کی خوشحالی کے لیے مل کر ساتھ ساتھ کام کر رھے ہیں جو جتنا سینئر ھے اُس پر اُتنی ہی ذمہ داری ھے۔ اپنے ساتھیوں اور سٹاف کی ضرورتوں کا خیال بھی رکھنا ہے اور اُن کا مورال بھی بلند رکھنا ہے جبکہ عوام کی جان ، مال اور عزت کی حفاظت کے لیے سر توڑ کوشش بھی کرنی ھے۔۔
ایک مرتبہ ایسا کر کے تو دیکھیں افسر ماتحت کے فرق کو ختم کر کے ایک ساتھ کام کرنے کےکلچر کو فروغ دیں۔۔ اللہ کی برکت آپ کے گھروں میں بھی آئے گی۔ چہروں پر بھی رونق ھوگی اور ایک عام سپاہی کو عوام اپنے درمیان پا کر فخر بھی محسوس کریں گے قوم دل و جان نچھاور کر دے گی۔
پولیس کو سہولیات دینے کے بعد اگر مانیٹرنگ سسٹم کو مضبوط کر دیا جائے اور اہلکاروں کے خلاف آنے والی شکایات کی فی الفور شنوائی ہو سزا و جزا میں تاخیر نہ کی جائے تو کارکردگی کا معیار مزید بلند ہو سکتا ہے۔ جبکہ موجودہ حالات میں پرائم منسٹر سیٹیزن پورٹل اور آئی جی آفس کی طرف سے 8787 کمپلینٹس جیسی سہولیات کے باوجود پولیس مظالم کے شکار لوگوں کی شنوائی نہیں ہوتی بلکہ کمال چالاکی سے شکایت کرنے والوں کو ڈیل کیا جاتا ہے شکایت کرنے والے کو بلایا جاتا ہے لیکن جس کے خلاف شکایت ہوتی ہے وہ آتا ہی نہیں شکایت کرنے والے کو پھیرے لگوا لگوا کر اتنا بددل کر دیا جاتا ہے کہ وہ آنا ہی چھوڑ دیتا ہے تو لکھ دیا جاتا کہ درخواست گزار مزید دلچسپی نہیں رکھتا۔ درخواست داخل دفتر کی جائے۔۔ بعض اوقات شکایت کرنے والے سے گول مول لکھوا کر بھیج دیا جاتا ہے ۔۔ لہذا مانیٹرنگ سسٹم کو جدید خطوط پر اُستوار کرنے کی ضرورت ہے اور ویڈیو لنک کے ذریعے شکایت کرنے والے اور جس کے خلاف شکایت کی گئی ہو دونوں کو آن لائن سنا جائے ۔ انکوئری کی جائے اور کاہلی، سُستی، بدتمیزی ، بددیانتی یا اختیارات سے تجاوز کرنے والے اہلکاروں کو قرار واقعی سزا دی جائے تو نظام میں کمی کوتاہی کا احتمال ہی ختم ھو جائے گا ۔
پولیس کے اخلاق و کردار کو بلند کرنے پر خصوصی توجہ دی جائے اُن کو احساس دلایا جائے کہ ملک و قوم کی ترقی میں سب سے اہم کردار پولیس کا ہے تمہاری کوتاہی، لاپرواہی، بددیانتی اور اختیارات سے تجاوز عام شہریوں کی مُلک سے وفاداری اور حُب الوطنی کو متاثر کر سکتا ہے لہذا لازم ہے کہ قانون نافذ کرنے والے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ قانون کا احترام کر کے دوسروں کے لیے مثال بنیں۔
بدقسمتی یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والوں میں مفخر عدیل اور ڈی آئی جی انوار جیسے کردار بھی ہیں جبکہ سیاسی استعمال نے بھی پولیس کو بدنام کیا اور عام اہلکار کا تحفظ اور مہنگائی کے مطابق تنخواہ نہ ہونے سے بھی اہلکار خود ڈکیت چور بن گئے یا چوروں اور جرائم پیشہ افراد کی پشت پناہی سے مال کمانے لگے۔ ان حرکات نے عوام اور پولیس میں دوریاں پیدا کر دیں جس سے ملک کو شدید نقصان ھوا اور مسلسل ھو رھا ہے
لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کو مکمل طور پر اسلحہ فری کیا جائے حتٰی کہ عام پولیس اہلکاروں کے پاس بھی اسلحہ نہ ہو اس عمل سے قتل و غارت اور چوری ڈکیتی کی نوے فیصد وارداتوں کو کم کیا جا سکتا ہے اور امن و امان کی فضا پیدا کی جا سکتی ہے سنگاپور، دوبئی اور ہانگ کانگ میں اسلحہ نہ ہونے کی وجہ سے کمال امن و امان ہے اور ترقی تیز تر حالانکہ اُن کی اپنی کوئی پیداوار بھی نہیں۔۔ جبکہ ترقی یافتہ ملکوں میں امریکہ کا ہم پلہ تو کوئی ملک بھی نہیں ہے پھر بھی وہاں سال میں اجتماعی قتل کے بہت سے واقعات رونما ہو جاتے ہیں ایک ہائپر اور پینک ہو جانے والا شخص پچاس پچاس ، ستر ستر بندے مار دیتا ہے اگر وہاں بھی اسلحہ دسترس میں نہ ہو تو ایک آدمی بغیر اسلحہ کے کتنے لوگوں کو مار سکتا ہے ؟ نیوزی لینڈ میں صرف ایک واقعہ پیش آیا تو انہوں نے عوامی سطح پر اسلحہ ہی ختم کر دیا ۔۔ ہمارے ملک میں تو روزانہ کی بنیاد پر ہولناک واقعات رپورٹ ہوتے ہیں ایک بندہ اسلحے کے بل بوتے پر ایک ہی وقت میں پانچ دس بندے پھڑکا دیتا ہے اور پولیس کی ناقص تفتیش اُس کر رہائی میں مددگار ثابت ہوتی ہے اور متاثرہ مقتول خاندان دیکھتا رہ جاتا ہے بعض اوقات بدلے کی آگ میں جل کر قاتل کو قتل کر دیتے ہیں اور خود مقتول کے ورثا قاتل بننے پر مجبور ہو جاتے ہیں
لہذا پاکستان کو اسلحہ فری کیا جائے ، اور پولیس کو ہر ممکن اعلٰی سے اعلٰی سہولیات دی جائیں ۔ امن و امان ہو گا تو دنیا بھر سے انویسٹر بھاگے چلے آئیں گے ۔ دوبئی، ہانگ کانگ اور سنگاپور جیسے ریزورٹ ملک امن و امان کی بنیاد پر ترقی کر سکتے ہیں تو پاکستان کیوں نہیں ؟؟؟ پاکستان تو ایک بُہت بڑا مُلک ہے ۔ افرادی قوت کی بُہتات ہے زرخیز زمین کے وسیع میدان ہیں دُنیا کی دو بہترین بندر گاہیں ہیں معدنیات سے مالامال پہاڑ اور دو بڑے صحراؤں کے علاوہ زیر زمین خزانے بکھرے پڑے ہیں۔ ان سب وسائل اور خوبیوں کے باوجود پاکستان ایک غریب اور کمزور ملک کیوں ہے ؟؟؟ صرف اور صرف امن و امان کی مخدوش صورتحال نے قوم کو بدحال بنا دیا ہے اور جو ادارہ ملک کو بچا سکتا ہے اُس پولیس کے ادارے کی اپنی حالت اعلی اخلاقی اور پروفیشنل بنیادوں پر ترقی کا مطالبہ کر رہی ہے۔ لہذا جتنی جلدی ہو سکے پولیس کے محکمے کو ہر طرح کی سہولیات دے کر اعلی اخلاقی بنیادوں پر کھڑا کیا جائے ۔
برسبیل تذکرہ بتادوں کہ پولیس کو انویسٹیگیشن کی مد میں جو بجٹ دیا جاتا ہے اُس کو اگر تقسیم کیا جائے تو فی تفتیش ایک سو روپیہ بھی نہیں بنتا۔