مملکت افغانستان 1747میں احمد شاہ ابدالی نے قائم کی ٹھیک 200 سال کے بعد 1947 میں پاکستان وجود میں آیا اور اس کے ساتھ یہ تعلقات شروع ہوۓ

 
0
414

تحریر: ارشد داوُد
مملکت افغانستان 1747میں احمد شاہ ابدالی نے قائم کی ٹھیک 200 سال کے بعد 1947 میں پاکستان وجود میں آیا اور اس کے ساتھ یہ تعلقات شروع ہوۓ سابق صدر حامد کرزٸ نے کہا تھا کے افغانستان اور پاکستان دو ایسے بھاٸ ہیں جنہیں جدُا نہیں کیا جاسکتا کیونکہ دونوں ممالک کا ایک تاریخی ,جغرافیائی اور مذہبی تعلق ہے خاص کر سرحد کے دونوں جانب پشتون آباد ہیں جن میں رشتہ داریاں اور میل ملاپ ہوتا ہے پاک افغان تعلقات کافی عرصہ سے کچھ ٹھیک نہیں رہے اور ان کی اہم وجوہات کابل کا ڈیورنڈ لائن کا نہ ماننا اور وہ علاقہ جہاں پشتون آباد ہیں خاص کریہ کہنا کے خیبرپختون خواہ,قباٸلی علاقہ جات اور بلوچستان کا ایک بڑا حصہ یہ سب افغانستان کا حصہ ہیں اور اس کے لیۓ افغانیوں نے کٸی تحریکیں بھی چلاٸیں لیکن پاکستان نے ان باتوں کو مکمل مسترد کر دیا کہ یہ علاقے پاکستان کے علاوہ کسی اور کے نہیں ہو سکتے پاکستان ایک ریاست ہے جو اپنے کسی بھی حصۓ کو کسی اور ملک کے حوالے نہیں کرے گا اس بات پر پاکستان اور افغا نستان میں بہت کشیدگی پیدا ہوٸ اور خاص کر حامد کرزٸ کے زمانے میں یہ بہت زیادہ تھی اس کے علاوہ افغا نستان یہ سمجھتاہے کے افغانستان پر روس سے جنگ مسلط کرنے میں پاکستان نےکردار ادا کیا.حالانکہ افغانستان کے حالات میں خرابی کیمونسٹ جماعت کے 1978 میں اقتدار میں آنے کے بعد شروع ہوٸ افغانستان میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی افغانستان نے روسی اسلحے اور چند روسی طیاروں کی مدد سے کابل میں بغاوت برپا کر دی جسے انقلاب ثور کا کا نام دیا گیا اوراس کے نتیجے میں کابل میں قائم صدر داوُدکی حکومت کو ختم کر دیا گیا اور صدر داوُد سمیت ہزاروں
افغانوں کو بیدردی سے قتل کر کے کیمونسٹ حکومت قائم کر دی گٸ اور صدر نجیب نے اقتدار سنبھلا اُنکے اقتدار سنبھالتے ہی لوۓ پشتو نستان کی عام حمایت کا اعلان کر دیا , 1979میں افغان عوام اس کیمونسٹ حکومت کے خلاف پوری تیاری کے ساتھ کھڑے ہو گۓ کمیونسٹ نجیب ہزاروں افغانیوں کا قتل کرنے کے باوجود عوامی انقلاب نہ روک سکا اس کے برعکس افغان عوام نے مختلف جہادی تنظیموں کی بنیاد رکھی جو حکومت کے لیے خطرے کی گھنٹی بن گی.
نجیب حکومت نے عوام کا زور دیکتھے ہوۓ روس کو افغانستان پر حملہ کی دعوت دی, 24 دسمبر 1979 کو روس نے افغانستان پر حملہ کر دیا.
روسی پورے افغا نستان کو روندتے ہوے طورخم باڈر تک پہنچ گۓ اور اعلان کیا کے وہ دریا سندھ کو اپنا باڈر بنائیں گۓ یعنی بلوچستان اور کے پی کے لے لیں گے.روسی اور افغان کمیونسٹ افواج نے قتل و غارت کا وہ بازار گرم کیا جسکی کوٸ مشال نہیں ملتی لیکن ان حالات کے باوجود پاکستان نے تقریباً 30 لاکھ افغان مہاجرین کو پناہ دی جو دنیا میں سب سے زیادہ ہے اس کے ساتھ روسی افواج کے برسرپیکار افغان مجاہدین کی مکمل مالی اور فوجی مددکی اور اس وقت پاکستان میں قاٸم جنرل ضیاالحق کی قیادت نے اپنی کامیاب حکمت عملی سے امریکہ اور دیگر ممالک کے ساتھ مل کر روس کو اپنے منظوم مقاصد سے نا صرف پسپاٸ دی بلکہ اس کو افغانستان سے ناکامی کے ساتھ نکلنے پر مجبور کر دیا اس کے بعد افغان خفیہ ایجنسی اور بھارتی ایجنسی را نے مل کر پاکستان میں دہشت گردی کی کاروائی شروع کر دیی جسکے نتیجے میں ہزاروں کی تعداد میں شہری اور فوجی جوان شہید ہوۓ لیکن ان سب حالات کے باجود افواج پاکستان اور عوام ہر قسم کی قربانی کے لیۓ تیار ہیں اسکے ساتھ اب دونوں ملکوں کی حکومتوں نے یہ سمجھ لیا ہے کے پاٸیدار امن اور آزاد ماحول کے لیۓ باہمی تعاون بہت ضروری ہے.پاکستان نے جب سے افغان امن عمل میں سہولت کاری کا آغاز شروع کیا اس سے لگتا ہے کہ افغان قیادت بھی اسلام آباد کے کردار سے پوری طرح مطمئن ہے پاکستان اور افغانستان نے دوطرفہ سیکورٹی معملات کو بہتر بنانے کے لۓا نٹیلی جنس شیرنگ پر اتفاق کیا ہے اور اس ضمن میں کمیٹیوں کے قیام کی منظوری بھی دی ہےتاہم افغان امور کے ماہرین کہتے ہیں کے دونوں ملکوں کے درمیان پیش رفت کے لیے اعتماد سازی کی مکمل بحالی ضروری ہے جسکے لیے کچھ وقت درکار ہے اس کے ساتھ افغانستان سے امریکی اور نیٹو فوجی انحلا اور افغان طالبان سے مزاکرات میں پاکستان نے اپنا کلیدی کردار ادا کیاہے امریکہ نمائندہ خصوصی زلمے خلیل نے پاکستان کی کاوشوں سے افغان مجاہدین کے ساتھ امن ماہدہ کو کامیاب کروانے میں اہم رول ادا کیا
موجودہ افغان حکومت بھی پاک افغان تعلقات کو بہتر بنانے کی خواہشمند ہے جسکا واضح ثبوت وزیراعظم پاکستان عمران خان کے دورہ کابل اور افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیہ میں دونوں ملکوں نے اپنی سرزمین ایک دوسرے کے خلاف استمال نہ ہونے دینے کا عزم کا اعادہ کیااور دونوں رہنماوں نے امن دشمنوں کی نشاندی کرنے پر زور دیا دونوں ملکوں کے درمیان سیکورٹی معمالات میں پیش رفت ایک ایسے وقت ہو رہی ہے جب ایک جانب امریکی اور اتحادی افواج کا افغانستان سے انحلا اور دوسری جانب افغانستان میں تشدد کی لہر میں تیزی ہے ان تمام حالات میں وزیراعظم پاکستان عمران خان کا دورہ افغانستان نہایت اہمیت کا حامل تھا اس دورہ کے موقع پر وزیر خارجہ پاکستان اور ترجمان پاک فوج نے اپنی پریس کانفرنس کے دوران بھارت پر پاکستان کے خلاف افغان سر زمین کے استمعالکا الزام لگایا وزیر اعظم پاکستان کے ساتھ دورہ میں اہم شخصیات اور آٸ ایس آی کے سربراہ کا آنا بھی نہایت اہمیت کا حا مل ہے ایسی ایک کوشش سابق آرمی چیف جنرل راہیل شریف کے دورہ کابل کے موقع پر بھی ہوٸ تھی اور اس ضمن میں مفاہمتی یادداشت پر دستخط ہوے تھے جسکی افغانستان میں شدید مخالفت ہوٸ تھی
پاکستان اور افغانستان کے مابین موجودہ بے اعتمادی کی فضا کے خاتمے کے لیۓ حکومتی اور عوامی سطح پر وفود کا تبادلہ ہونا چاہیے تاکہ دونوں ممالک کے درمیان موجودہ خلج کو کم کیا جا سکے حکومتی سطح پر افغان عوام کا اعتماد بحال رکھنے کے لیے پاک افغان سرحد طورخم کو کھلا رکھنے کا اعلان ہو چکا ہے اور اس پر کرونا sop کے مطابق عمل ہو گا دونوں ممالک کے عوام کا ایک دوسرے کے ساتھ پیار و محبت کا رشتہ ہے افغانستان میں امن ہو تو پاکستان بھ پر امن ہو گا اسی لیے پاکستان افغانستان میں امن کے قیام کے لیے مشبت کردار ادا کر رہا ہے افغان حکومت کو بھی پاکستان میں مقیم لاکھوں افغانوں کا خیال رکھنا چاہیے کیونکہ پاکستان نے نا صرف انہیں پناہ دی ہے بلکہ یہ تمام افغانی یہاں کاروبار کر رہے ہیں اپنی طرف سے حکومت پاکستان افغان باشندوں کے لیےتمام تر سہولیات فراہم کرنے کی کوشش کر رہی ہے 3 میلین افغان پاکستان کے مختلف علاقوں میں رہائشی پزیر ہیں جنکا کاروبار سمیت خوشی غمی میں ایک دوسرے کے ہاں آنا جانے کا سلسلہ جاری ہے
پرامن افغانستان پاکستان میں امن کے لیے اہم کردار ادا کرسکتا ہے