ملھ ملاکھڑو کی کھیل سندھ میں 5 ہزار سال سے کھیلا جاتا ہے

 
0
806

تنگوانی 27 دسمبر 2021 (ٹی این ایس): تنگوانی بھی کھیل روایت اور ثقافت کاعکاسی کرتا ہے ملھ ملاکھڑو کی کھیل سندھ میں 5 ہزار سال سے کھیلا جاتا ہے کندھ کوٹ کے علاقے درگاہ پیر ھیبت شہید کے سالانہ عرس تقریبات میں ملھ ملاکڑو کا انعقاد کیا گیا ۔ اس کھیل کے کھلاڑی طاقت اور مہارت میں کم نہیں ہوتے اس روایت کی طرف حکومت کی عدم توجہ نہ ہونے کی وجہ سے میں پہلوان مایوسی کے شکار ہیں ۔ تنگوانی کے نواحی گاؤں درگاہ پیر ہیبت شہید کی سالانہ عرس کی تقریبات کے دوران ملھ ملاکھڑو پروگرام کا انعقاد کیا گیا جہاں پر سندھ سمیت ملک کے مختلف شہروں سے ملھ پہلوانوں نے شرکت کر کے اپنے کھیل سے لوگوں کو لطف اندوز کر دیا ۔ اس کھیل کو شیروں کی زور آزمائی کا کھیل بھی کہا جاتا ہے ملاکھڑو کو سندھی زبان میں ملھ کہا جاتا ہے اور اس کے کھلاڑی کو ملھ پہلوان کہا جاتا ہے ۔ ملاکھڑو کی کھیل کو دیکھنے کے لیے سندھ اور بلوچستان سمیت مختلف علاقوں سے ہزاروں لوگ پہنچے اور ثقافتی کھیل سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ کھیل میں جیتنے والے پہلوانوں کو داد اور نقد انعام دیتے رہے ۔ ملھ پہلوانوں کے کھلاڑیوں کا کہنا ہے کہ اگر ہمیں سہولیات دیئے جائیں تو ہم ورلڈ لیول پر یہ کھیل کھیل کر ملک اور قوم کا نام روشن کر سکتے ہیں ۔ سندھ کا قدیم ثقافتی کھیل ملھ گذشتہ کئی سالوں سے حکومتی عدم دلچسپی کے باعث زوال کا شکار ہے۔ ملھ پہلون معاشی بدحالی سے دوچار ہوکر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ملھ سندھ کا قدیم قومی و ثقافتی کھیل ہے تاہم گذشتہ کئی سالوں سے حکومت کی عدم سرپرستی اور سرکاری سطح پر مقابلوں کا انعقاد نہ ہونے کے باعث ملھ کا مستقبل تاریک ہوتا جا رہا ہے جس کے باعث ملھ پہلوان شدید مالی مشکلات سے دوچار ہیں جبکہ متعدد پہلوان مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوکر بستر مرگ پر پڑے ہیں تاہم متعلقہ محکمہ ان کی کوئی امداد نہیں کر رہا ہے انہوں نے حکومت سندھ سے مطالبہ کیا کہ ملھ کے کھیل کی سرپرستی کرکے کھیل کو ترقی دلائی جائے، ملھ گراؤنڈز تعمیر کیے جائیں جہاں پہلوانوں کی تربیت کا معقول انتظام ہو، ملھ پہلوانوں کی رجسٹریشن کرکے ان کی انشورنس کی جائے اور بیمار پہلوانوں کو معاوضہ ادا کیا جائے حکومت کو چاہیے کہ دیگر کھیلوں کی طرح اس روایتی کھیل ملھ ملاکڑو کی طرف توجہ دیں اور اس کھیل کو قومی و بین الاقوامی سطح پر متعارف کروائیں کیونکہ اگر ثقافتی کھیلوں کو اس طرح مٹا دیں گے تو آہستہ آہستہ باقی ثقافتی اور فنی چیزیں مٹتی جائے گی