نور مقدم قتل کیس؛ ظاہر جعفر کو سزائے موت کا حکم

 
0
202

اسلام آباد 24 فروری 2022 (ٹی این ایس): ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے اسلام آباد سابق پاکستانی سفیر کی بیٹی نور مقدم کے بہیمانہ قتل سے متعلق کیس میں ظاہر جعفر کو سزائے موت سنادی گئی۔

عدالت کے ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے 4 ماہ کے ٹرائل کے بعد 2 روز قبل فیصلہ محفوظ کیا تھا جو آج سنایا گیا۔

فیصلے میں عدالت نے تھراپی ورکس کے تمام ملازمین کو بری کردیا البتہ شریک ملزمان جمیل (خانسامہ) اور افتخار (چوکیدار) کو 10، 10 سال قید کی سزا سنائی۔

سماعت کے سلسلے میں وکلا، تھراپی ورکس کے ملازمین، مرکزی ملزم کی والدہ عصمت آدم کے علاوہ مدعی شوکت مقدم اہنے وکلا کے ہمراہ پیش ہوئے۔

اس کے علاوہ مرکزی ملزم ظاہر ذاکر جعفر سمیت چار گرفتار ملزمان کو عدالت میں پیش کیا گیا تو جج نے وکلا سمیت تمام افراد کو کمرہ عدالت سے باہر نکال دیا۔

جج نے پولیس کو حکم دیا کہ مجھے بات کرنی ہے سب باہر چلیں جائیں، جس پر مرکزی ملزم سمیت چاروں گرفتار افراد کو واپس بھیج دیا گیا۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے مجرم ظاہرجعفر کے والد ذاکر جعفر اور والدہ عصمت آدم جی کو بری کردیا۔

کیس کا پس منظر

خیال رہے کہ گزشتہ برس 20 جولائی کو اسلام آباد کے پوش سیکٹر ایف۔7/4 کے رہائشی سابق پاکستانی سفیر شوکت مقدم کی بیٹی 27 سالہ نور کو قتل کر دیا گیا تھا۔

جس پر ظاہر ذاکر جعفر کے خلاف مقتولہ کے والد کی مدعیت میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت ایف آئی آر درج کرائی گئی تھی جس کے تحت ملزم کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔

کیس کے سلسلے میں عدالت میں پیش کردہ پولیس چالان میں کہا گیا تھا کہ مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے ساتھیوں کی ملی بھگت کے باعث نور مقدم نے جان بچانے کی 6 کوششیں کی جو ناکام رہیں۔

واقعے کے روز 20 جولائی کو ظاہر جعفر نے کراچی میں موجود اپنے والد سے 4 مرتبہ فون پر رابطہ کیا اور اس کے والد بھی اس گھر کی صورتحال اور غیر قانونی قید سے واقف تھے۔

چالان میں کہا گیا کہ نور کی جانب سے ظاہر سے شادی کرنے سے انکار پر 20 جولائی کو دونوں کے درمیان جھگڑا ہوا جس کے بعد مبینہ قاتل نے انہیں ایک کمرے میں بند کردیا، چالان میں ملزم کے بیان کا حوالہ دیا گیا جس میں اس نے قتل کا اعتراف کیا۔

ملزم نے بتایا کہ نور مقدم نے اس کی شادی کی پیشکش مسترد کردی تھی جس پر اس نے انہیں ایک کمرے میں بند کردیا، جبری قید پر وہ انتہائی غصے میں آگئیں اور ظاہر کو نتائج سے خبردار کیا۔

مقتولہ نے ظاہر کو دھمکی دی کہ پولیس میں جاکر اس کے خلاف شکایت درج کروائیں گی، بیان کے مطابق ملزم نے اپنے والدین کو واقعے سے آگاہ کیا اور ملازمین کو ہدایت کی کہ کسی کو اندر نہ آنے دیں نہ نور کو گھر سے باہر جانے دیں۔

چالان میں کہا گیا کہ نور کمرے سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوگئی تھیں اور گھر کے مرکزی دروازے کی طرف بھاگیں لیکن سیکیورٹی گارڈ افتخار نے انہیں باہر نہیں جانے دیا، یہ وہ موقع تھا جب ان کی جان بچائی جاسکتی تھی۔

کال ڈیٹا کا حوالہ دیتے ہوئے چالان میں کہا گیا کہ نور کو قتل کرنے سے قبل ظاہر نے دوپہر 2 بج کر 21 منٹ، 3 بجے، 6 بج کر 35 منٹ اور شام 7 بج کر 29 منٹ پر اپنے والدین سے رابطہ کیا۔

دوسری جانب شوکت مقدم کی درج کروائی گئی ایف آئی آر کے مطابق ان کے پوچھنے پر ظاہر جعفر نے کال کر کے بتایا کہ نور اس کے ساتھ موجود نہیں۔

تاہم 20 جولائی کو رات 10 بجے انہیں کوہسار پولیس اسٹیشن سے ایک کال موصول ہوئی جس میں انہیں بتایا گیا کہ ان کی بیٹی قتل ہوگئی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جب میں اس گھر پہنچا تو اپنی بیٹی کی گلا کٹی لاش دیکھی جس کے بعد پولیس میں شکایت درج کروائی‘۔

25 جولائی کو پولیس نے نور مقدم کے قتل کے ملزم ظاہر جعفر کے والدین اور گھریلو ملازمین کو شواہد چھپانے اور جرم میں اعانت کے الزامات پر گرفتار کیا تھا جنہیں بعد میں عدالت نے جیل بھیج دیا تھا۔

اس کے علاوہ اس کیس میں تھراپی ورکس کے مالک اور ملازمین بھی گرفتار ہوئے جنہیں عدالت نے 23 اگست کو رہا کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

مقامی عدالت سے ظاہر جعفر کے والدین کی ضمانت مسترد ہونے کے بعد انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا لیکن 29 ستمبر کو ہائی کورٹ نے بھی ملزم کے والدین کی درخواستِ ضمانت مسترد کردی تھی۔

جس پر انہوں نے 6 اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

بعد ازاں 18 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے نور مقدم قتل کیس میں ملزم ظاہر جعفر کی والدہ عصمت بی بی کی ضمانت منظور کرتے ہوئے 10 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کروانے کا حکم دے دیا تھا۔

9 نومبر کو نور مقدم قتل کیس میں استغاثہ نے جائے وقوع کی سی سی ٹی وی فوٹیج کا ٹرانسکرپٹ اسلام آباد سیشن کورٹ میں جمع کرادیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ 27 سالہ نور کو 20 جولائی 2021 کو دارالحکومت کے پوش علاقے سیکٹر ایف- 7/4 میں ایک گھر میں قتل کیا گیا تھا، اسی روز ظاہر جعفر کے خلاف واقعے کا مقدمہ درج کرتے ہوئے اسے جائے وقوع سے گرفتار کرلیا گیا تھا۔

واقعے کا مقدمہ مقتولہ کے والد کی مدعیت میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 (منصوبہ بندی کے تحت قتل) کے تحت درج کیا گیا تھا۔

عدالت نے 14 اکتوبر کو ظاہر سمیت مقدمے میں نامزد دیگر 11 افراد پر فرد جرم عائد کی تھی۔

ملزمان میں ظاہر جعفر کے والدین، ان کے تین ملازمین افتخار (چوکیدار)، جان محمد (باغبان) اور جمیل (خانسامہ)، تھیراپی ورکس کے سی ای او طاہر ظہور اور ملازمین امجد، دلیپ کمار، عبدالحق، وامق اور ثمر عباس شامل ہیں۔

قتل کے مقدمے کی باقاعدہ سماعت 20 اکتوبر کو شروع ہوئی تھی۔