کووڈ 19 کے دوران پاکستانی حکومت کی پالیسیوں سے اموات زیادہ نہیں ہوئیں،ڈاکٹر نوشین حامد

 
0
156

اسلام آباد 24 فروری 2022 (ٹی این ایس): وفاقی پارلیمانی سیکرٹری برائے نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشنز اینڈ کوآرڈینیشن ڈاکٹر نوشین حامد نے کہا ہے کہ کووڈ 19 کے دوران حکومت پاکستان کی پالیسیوں سے اموات زیادہ نہیں ہوئی ، کورونا وائرس ویکسی نیشن کی خصوصی مہم میں 55ہزار ٹیمیں ملک بھر میں خدمات سرانجام دے رہی ہیں جبکہ 25لاکھ سے زائدافراد کورونا وائرس ویکسین کی بوسٹر ڈوز لگوا چکے،

اس سے قوت مدافعت بڑھتی ہے عوام ہر صورت کورونا وائرس ویکسی نیشن کرائیں اور حکومتی ایس او پیز پر عملدرآمد یقینی بنائیں حکومتی سطح پر کووڈ کے دوران بنائی گئی پالیسیز پر نظر ثانی کی ضرورت ہے جبکہ محکمہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ کی حکمت عملیوں کو مزید موثر بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے،

پاکستان میں کووڈ کو کنٹرول کرنے کے لئے این سی او سی کا مرکزی کردار رہاہے تفصیلات کے مطابق گذشتہ روزاسلام آباد کے نجی ہوٹل میں انسٹیوٹ آف سوشل اینڈ پالیسی سائنسز (I-SAPS) کے زیر اہتمام نیشنل پالیسی ڈائیلاگ میں پاکستان میں کوویڈ ریسپانس پلانز اور پالیسیوں کی ہم آہنگی،

ردعمل اور شمولیت پر قومی پالیسی ڈائیلاگ کا انعقاد کیا گیا ہے وفاقی پارلیمانی سیکرٹری برائے نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشنز اینڈ کوآرڈینیشن ڈاکٹر نوشین حامد نے کووِڈ کی وبا سے نمٹنے کے لیے وفاقی حکومت کی کوششوں پر روشنی ڈالتے ہوئے درپیش مشکلات کے بارے میں بتایا جن کا سامنا انہیں تیزی سے پھیلاتے ہوئے کووِڈ کی روک تھام کے متعلق ردعمل نافذ کرنے میں ہوا ہے ،

ڈاکٹر نوشین نے بتایا کہ چائنہ کے شہر ووہان میں کووڈ کے پھیلاؤ کی ابتدائی دنوں میں پاکستان کے اندر منصوبہ بندی شروع کر دی گئی تھی ،احتیاطی تدابیر کے متعلق ہمارے لئے بڑا چیلنج یہ تھا کہ سیفٹی کٹس کو کیسے منگوانا اور ڈاکٹرز اور محکمہ صحت میں مہیا کرنا بڑا چیلنج تھا انٹری پوائنٹس پر سکریننگ کے لئے بھی بنائی گئی پالیسیاں اس وبائی مرض سے نمٹنے میں مددگار ثابت ہوئی ڈاکٹر نوشین حامد نے مزید کہا کہ لوگوں کو ویکسین پلانے کا مرحلہ فطرت میں inclusive ہے، کیونکہ خواتین، معذور افراد،

ٹرانس جینڈر اور سماجی طور پر پسماندہ افراد کو ویکسین لگوانے کا مناسب موقع فراہم کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر نوشین نے سیشن کی صدارت کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح حکومتی وژن کو مقامی حکومتوں کو موثر بنانے کے ساتھ ہم آہنگ کیا جاتا ہے، اور مقامی کمیونٹیز کی شمولیت پاکستان میں قدرتی آفات کے خطرے میں کمی کے منصوبوں کو اہمیت دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

اس موقع پرا (I-SAPS) کے نمائیندہ مقصود عالم نے تقریب کے آغاز پر شرکأ ءکو خوش آمدید کہتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کا شمار ٹاپ لیول کے ان دس ممالک میں شامل ہے جنہیں مختلف طرح کے ڈیزاسٹرز آتے رہتے ہیں ہے۔ اس میں انسان ساختہ ڈیزاسٹرز بھی شامل ہیں اور نیچرل ڈیزاسٹرز بھی ۔گلوبل کلائمیٹ چینج انڈیکس 2019 کے مطابق پاکستان سہرفہرست دس ممالک میں شامل ہے جو انتہائی موسم کی حالت یا موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہیں ۔

باوجود اس بات کے کہ بہت سے ادارے منصوبہ بندی کے متعلق اس میں شامل ہیں اور اس سلسلے میں بہت سے اقدامات بھی کئے جا چکے ہیں لیکن ابھی موجودہ ہیلتھ پینڈیمک COVID -19 جس میں سے ہم سب گزر رہے ہیں ۔ اور پوری انسانیت ایک بڑی وباء سے نبرد آزما ہے ۔

اس عالمی وباء کی وجہ سے جہاں دنیا بھر میں بہت سارے نقصانات ہوئے ہیں۔ بہت سی جانیں ضائع ہوئیں اور ابھی تک ہو رہی ہیں ۔ وہیں ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو بھی ملا اس قسم کی عالمی وباء یا کسی بھی قسم کے ڈیزاسٹر کا بہترین سدباب اسی صورت میں کیا جا سکتا ہے کہ جب ڈیزاسٹر رسک ریڈکشن کا طریقہ کار یا اس کو رسپسانس کرنے کا طریقہ کار مقامی سطح سے شروع کیا جائے ۔

اس موقع پرہیلتھ سروسز اکیڈمی کے وائس چانسلر ڈاکٹر شہزاد علی خان نے کہا ہے کہ نیشنل پالیسی ڈائیلاگ کا انعقاد وقت کی اہم ضرورت ہے اور اس متعلق پروگرامز کرنا حکومت کی زمہ داری ہے ہے جبکہ (I-SAPS) کی خدمت لائق تحسین ہیں انہوں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں کووڈ سے پہلے بھی ہیلتھ کا ڈیزاسٹر موجود تھا ،

بلڈ پریشر ،شوگر ،ہارٹ اٹیک ہیپا ٹائٹس اور دیگر بیماریاں کوووڈ سے پہلے بھی موجود تھی ایک بڑی آبادی کا ملک ہونےکے باوجود پاکستان کے اندر کووڈ کی وجہ سے تیس ہزار اموات ہوئی ہیں جو کہ ایک نچلی سطح ہےابتدائی طور پر کوووڈ کے علاج کے متعلق معلومات نہیں تھی جس وجہ سے ایسا ہوا پاکستان میں کووڈ کو کنٹرول کرنے کے لئے این سی او سی کا مرکزی کردار رہا ہے اور ہماری کامیابی کی وجہ یہ تھی کہ ہمارا ایمیون سسٹم طاقت ور ہے اموات کی کمی کی دوسری وجہ ساٹھ فیصد سے زائد آبادی پچیس سال سے کم عمر نوجوان ہیں

انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے خاندانی اقدار ہمیں بہت سارے سانحات سے بچاتے ہیں ۔ پلینری سیشن کے دوران شرکاء نے ڈیزاسٹر رسک مینجمنٹ سے متعلق مختلف سوالات کیے جس کے جواب میں محترمہ نوشین نے بتایا کہ حکومت کس طرح وبائی امراض کے دوران کم سے کم نقصان کو یقینی بنانے کے لیے سرگرم عمل ہے۔

جامع اور مقامی طور پر متعلقہ پالیسی سازی اور مکالمے کے شرکاء کی منصوبہ بندی کی اہمیت کی توثیق کرتے ہوئے حکومت کو آفات کے خطرے میں کمی کے قومی منصوبوں پر نظرثانی کرنے کی سفارش کی، ADP کے رہنما خطوط اور پروجیکٹ دستاویزات جیسے PC-I، PC میں DRR کو ترجیح کے طور پر شامل کیا جائے گا آفات سے نمٹنے کی تیاری اور ردعمل کے مقامی سطح پر پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے ۔

پاکستان میں قدرتی آفات کے خطرے کو کم کرنے کے لیے نچلی سطح کی کمیونٹیز کو شامل کرنے پر بہترین نتائج ملتے ہیں ۔نیشنل پالیسی ڈائیلاگ کے انعقاد پر انسٹی ٹیوٹ آف سوشل اینڈ پالیسی سائنسز (I-SAPS) اور کامن ویلتھ فاؤنڈیشن نے پاکستان میں مستقبل کی آفات کے لیے ایک جامع اور مقامی سطح پر تباہی کے خطرے پیش نظر کمی کی منصوبہ بندی اور تیاری کی ضرورت اور خدمات پر شرکاء نے مبارکباد پیش کی ہے ، نیشنل پالیسی ڈائیلاگ کی اس تقریب میں این جی اوز ، سول سوسائٹی اور میڈیا کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔