گجرات فسادات کے 20 سال: مودی نے بھارت کو مسلم نسل کشی کے دھانے پر دھکیل دیا

 
0
210

بھارت 28 فروری 2022 (ٹی این ایس): بھارت میں 2002 کے دوران 790 مسلمانوں کے خون سے رنگے گجرات فسادات کو دو دہائیاں گزرنے کے بعد بھی نریندر مودی کی سرپرستی میں ہندو بالا دستی کے مذموم عزائم کے ساتھ بھارت مسلمانوں کی نسل کشی کے ہولناک راستے پر گامزن ہے۔یہ فسادات 27 فروری 2002 کو گودھرا میں سبرمتی ایکسپریس ٹرین کو جلانے کے بعد بھڑک اٹھے تھے جس میں ہندو یاتریوں کو ایودھیا سے احمد آباد واپس لے جایا جارہا تھا۔

ایک اندازے کے مطابق تشدد کے دوران 230 مساجد اور 274 مزارات کو تباہ کیا گیا۔تاریخ میں پہلی بار فرقہ وارانہ فسادات میں ہندو خواتین نے بھی حصہ لیا، مسلمانوں کی دکانوں کو لوٹا گیا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ آزادی کے بعد ہندوستان میں فرقہ وارانہ قتل عام کی ایک طویل تاریخ ہے جس میں 1983 میں نیلی، 1984 میں دہلی، 1989 میں بھاگلپور اور 1992-93 میں بمبئی شامل ہیں لیکن ان میں گجرات کا قتل عام نمایاں ہے۔ مسلمانوں کو قتل کرنے کے ساتھ ساتھ عورتوں اور بچوں کو بھی عصمت دری اور بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والا نریندر مودی گجرات کے فسادات میں سینکڑوں مسلمانوں کے قتل پر کچھ پشیمانی یا شرمندگی کے اظہار کے بجا ئے ابھی تک بی جے پی کے شدت پسندوں کی دہشت گردی کی سرپرستی جاری رکھے ہوئے ہے جس کا واحد مقصد ہندو بالادستی کے ذریعے تمام غیر ہندو برادریوں کا نسلی صفایا کرنا ہے،

گجرات فسادات کے بعد روایتی طورپراس سانحے کے لیے مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرایا گیا لیکن بعد میں انکشاف ہوا کہ اس کی منصوبہ بندی بجرنگ دل نے کی تھی۔ 1998 سے بی جے پی وہاں اقتدار میں ہے اور ان 22 سالوں میں سے، نریندر مودی 2001 سے 2014 تک، وزیر اعظم منتخب ہونے تک 13 سال تک گجرات کے وزیر اعلیٰ رہے۔گجرات فسادات اکتوبر 2001 میں مودی کے وزیر اعلیٰ کے طور پر اقتدار سنبھالنے کے صرف چار ماہ بعد ہوئے تھے۔

ہندوتوا نظریہ کے حامل مودی نے ٹرین واقعہ کو مسلمانوں کو سزا دینے اور مسلمانوں کی نسل کشی شروع کرنے کے بہانے کے طور پر استعمال کیا۔2002 کے بعد ہندو انتہا پسندوں نے مودی کی سرپرستی میں مسلمانوں کے خلاف مہم شروع کی جس سے ہندو انتہا پسندی کو سیاسی، سماجی اور ثقافتی طور پر تقویت ملی۔

اس قتل عام کے بعد، یہاں تک کہ سابق ہندوستانی وزیر اعظم اور مودی کے سرپرست اٹل بہاری واجپائی نے بھی ایک بار ان سے کہا کہ وہ کم از کم استعفیٰ پیش کریں لیکن کوئی بھی چیز مودی کو نہیں بدل سکتی، جسے ’’گجرات کا قصائی‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔2008 میں، ایک انکوائری کمیشن نے ٹرین کو جلانے کو “سازش” قرار دیا اور تشدد کو روکنے میں مودی کی ناکامی جس نے بالواسطہ طور پر کچھ ہندو فسادیوں کی حوصلہ افزائی کی۔28 فروری 2002 کو احمد آباد کی گلبرگ سوسائٹی میں مارے گئے آنجہانی کانگریس لیڈر احسان جعفری کی اہلیہ ذکیہ جعفری نے دعویٰ کیا کہ گجرات فسادات ایک سوچی سمجھی مذموم سازش تھی جس میں نریندر مودی کو خونریزی کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا۔28 جنوری 2020 کو بھارتی سپریم کورٹ نے 2002 کے گجرات قتل عام میں ملوث 14 مجرموں کو ضمانت دے دی جس نے بھارتی عدلیہ کے کردار پر بھی سوال اٹھایا۔

ہیومن رائٹس واچ کے ایشیا کے ڈائریکٹر بریڈ ایڈمز نے تبصرہ کیا کہ ریاست کی سرپرستی میں نسلی کشی کے واقعات بھارت کے مختلف حصوں میں مذہبی اقلیتوں کے انتہائی خطرے کو ظاہر کرتے ہیں ۔اب چونکہ مودی وزارت عظمیٰ کی کرسی پر فائز ہیں، وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ساتھ نظامی امتیازات، عوامی تقریروں کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا اور دیگر اقدامات کے ذریعے ہندوتوا کے نظریے کا پرچار کر رہے ہیں۔