فارن فینڈنگ کیس:پاکستان تحریک انصاف پر پابندی لگ جائےگی؟

 
0
157

اندر کی بات ؛کالم نگار؛اصغرعلی مبارک

جو حالات نظر آرہے بظاہر ایسالگتاہےکہ فارن فینڈنگ کیس میں پاکستان تحریک انصاف پر پابندی لگ جائےگی الیکشن کمیشن نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) فارن فنڈنگ کیس کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کرنے کافیصلہ کیا ہے۔الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ روزانہ سماعت کا مقصد اسلام آباد ہائی کورٹ کی ہدایت کے مطابق کیس کا فیصلہ کرنا ہے۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو فارن فنڈنگ کیس کا 30 روز میں فیصلہ کرنے کا حکم دے دیا۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے تحریری فیصلہ جاری کیا ہے۔الیکشن کمیشن میں پی ٹی آئی غیر ملکی فنڈنگ کیس کی سماعت ہوئی جس میں بینچ کے سامنے اسلام آباد ہائیکورٹ کافیصلہ پڑھ کرسنایاگیا کہ فارن فنڈنگ ثابت ہوئی تو اس کا اثرجماعت اور چیئرمین دونوں پرہوگا۔دورانِ سماعت پی ٹی آئی کے وکیل انور منصور نے ہائیکورٹ کے فیصلے پر تنقیدکرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے جو آبزرویشن دیں وہ بدقسمتی ہے، جن باتوں پردلائل نہیں دیے گئے تھے وہ بھی حکم نامہ میں شامل کردی گئیں۔انور منصور نے الیکشن کمیشن نا مکمل ہونےکا اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ کمیشن کے 2 ارکان تعینات نہیں ہوسکے، آئین میں اختیارات الیکشن کمیشن کو ہیں، صرف کمشنر یا ممبرزکو نہیں۔اس پر چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ ہائیکورٹ نے30 دن میں فیصلے کی ہدایت کی ہے اس کا کیا کریں گے، اکبر ایس بابر کے وکیل نے یاد دلایا یہ اعتراض پہلے بھی اٹھایا گیا تھا لیکن خارج کیا گیاپاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے کراچی میں جلسہ عام سے خطاب میں کہا ہے کہ فارن فنڈنگ کیس کے ذریعے کوشش کی جائے گی کہ پی ٹی آئی میچ سے ہی باہر ہوجائے لہٰذا ہمارا مطالبہ ہے کہ پیپلزپارٹی، تحریک انصاف اورن لیگ کا فارن فنڈنگ کا کیس اکٹھا سنا جائے۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کی اکبر ایس بابر کے خلاف درخواست خارج کردی اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ چیلنج کیا تھا، الیکشن کمیشن نے 25 جنوری اور 31 جنوری کو پی ٹی آئی کی دائر درخواستیں مسترد کر دی تھیں۔خیال رہے کہ ممنوعہ فارن فنڈنگ کیس نومبر 2014 سے الیکشن کمیشن میں زیر سماعت ہے پاکستان تحریک انصاف کے خلاف ممنوعہ ذرائع سے فنڈز حاصل کرنے کا معاملہ الیکشن کمیشن میں کوئی سیاسی مخالف جماعت نہیں بلکہ تحریک انصاف کے اپنے بانی اراکین میں سے ایک اکبر ایس بابر سنہ 2014 میں لے کر آئے تھے۔ اکبر ایس بابر کی طرف سے یہ درخواست الیکشن کمیشن میں جمع کروائی گئی تو اس پر کارروائی شروع ہونے سے پہلے ہی پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کی طرف سے یہ معاملہ مختلف اوقات میں چھ مرتبہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں لے جایا گیا اور یہ مؤقف اپنایا گیا کہ الیکشن کمیشن کے پاس کسی جماعت کے اکاونٹس کی جانچ پڑتال کا اختیار نہیں۔ایک مرتبہ حکم امتناع ملنے کے بعد جب عدالت عالیہ نے مزید حکم امتناع دینے سے انکار کیا تو پھر اس معاملے کی تحقیقات کرنے والی سکروٹنی کمیٹی کے دائرہ اختیار اور مبینہ طور پر اسے کام کرنے سے روکنے کے لیے بھی حکم امتناع حاصل کیے گئے۔حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کے رہنما حنیف عباسی نے جب عمران خان کی اہلیت کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تو اس کے ساتھ ایک متفرق درخواست فارن فنڈنگ کے حوالے سے بھی دی گئی تھی جس پر سپریم کورٹ نے سنہ 2016 میں فیصلہ دیا تھا کہ سیاسی جماعتوں کی فنڈنگز کی تحقیقات کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمشن کو سنہ 2009 سے 2013 کے دوران اس جماعت کو جتنے بھی فنڈز ملے اس کی جانچ پڑتال کا حکم دیا تھا۔ سنہ 2014 سے لے ک 2018 تک یہ معاملہ مختلف عدالتی فورمز پر زیر بحث رہا کبر ایس بابر نے تحریک انصاف میں 23 خفیہ اکاؤنٹس کی موجودگی کا الیکشن کمیشن میں دائر کر رکھا ہے پاکستان تحریک انصاف کا ہمیشہ سےیہ مؤقف رہا ہے کہ بیرون ممالک سے جتنے بھی فنڈز اکھٹے کیے ہیں وہ قانون کے مطابق ہیں پی ٹی آئی کی طرف سے جو بیان سکروٹنی کمیٹی کو پیش کیا گیا اس میں یہ مؤقف اختیار کیا گیاتھا کہ اگر بیرون ممالک سے حاصل ہونے والے چندے یا فنڈز میں کوئی بے ضابطگی ہوئی ہے تو اس کی ذمہ داری تحریک انصاف پر نہیں بلکہ اس ایجنٹ پر عائد ہوتی ہے جس کی خدمات فنڈ جمع کرنے کے کام کے لیے لی جاتی ہیں۔پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں نےاسی جواب کو بنیاد بناتے ہوئے یہ دعویٰ کرنا شروع کر دیاتھا کہ پاکستان تحریک انصاف نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ اُنھوں نے ممنوعہ ذرائع سے فنڈز حاصل کیے ہیں۔جوغیرقانونی عمل ہےالیکشن کمیشن میں پاکستان تحریک انصاف کےوکلا کا یہ موقف رہا کہ سکروٹنی کمیٹی کو بتایا گیا تھا کہ
اکبر ایس بابر نے الزام عائد کیا گیا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف نے بیرون ممالک مقیم پاکستانیوں کے علاوہ غیر ملکیوں سے بھی فنڈز حاصل کیے، جس کی پاکستانی قانون اجازت نہیں دیتا۔مبینہ طور پر ممنوعہ ذرائع سے پارٹی کو ملنے والے فنڈز کا معاملہ اُنھوں نے سنہ 2011 میں پارٹی کے چیئرمین عمران خان کے سامنے اٹھایا تھا اور یہ کہا تھا کہ پارٹی کے ایک اور رکن جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو اس معاملے کو دیکھے لیکن اس پر عمران خان کی طرف سے کوئی کارروائی نہ ہونے کی بنا پر وہ یہ معاملہ الیکشن کمیشن میں لے کر گئے۔ امریکہ اور برطانیہ میں جماعت کے لیے وہاں پر رہنے والے پاکستانیوں سے چندہ اکھٹے کرنے کی غرض سے لمیٹڈ لائبیلیٹیز کمپنیاں بنائی گئی تھیں جن میں آنے والا فنڈ ممنوعہ ذرائع سے حاصل کیا گیا۔ آسٹریلیا اور دیگر ممالک سے بھی ممنوعہ ذرائع سے پارٹی کو فنڈز ملے اور یہ رقم پاکستان تحریک انصاف میں کام کرنے والے کارکنوں کے اکاؤنٹ میں منتقل کی گئی جبکہ مشرق وسطیٰ کے ممالک سے بھی ہنڈی کے ذریعے پارٹی کے فنڈ میں رقم بھجوائی گئی۔ اگر ایجنٹس نے پاکستان کے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کسی غیر ملکی کمپنی یا شخص سے کوئی فنڈزیا چندہ حاصل کیا ہے تو اس کی ذمہ داری ان کی جماعت پر نہیں بلکہ اس کی ذمہ داری ان ایجنٹس پر ہے اور مقامی قانون کے مطابق اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔تاہم جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ اگر کسی ایجنٹ نے قانون کے خلاف ورزی کرتے ہوئے جو رقم اکٹھی کی ہے کیا وہ فنڈز پارٹی کے اکاؤنٹ میں آئے ہیں تو تحریک انصاف کے وکلا کایہ کہنا تھا کہ پارٹی کے پاس جو بھی فنڈز آتے ہیں ان کا آڈٹ کروایا جاتا ہے۔وکلا نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ پاکستان تحریک انصاف نے اس الزام کو تسلیم کیا ہے کہ تحریک انصاف نے بطور سیاسی جماعت ممنوعہ ذرائع سے چندہ اکھٹا کیا۔پاکستان میں سیاسی جماعتیں فنڈز کیسے اکھٹا کر سکتی ہیں، متعلقہ قوانین کیا ہیں، اگر الزامات ثابت ہو جاتے ہیں تو کیا پاکستان تحریک انصاف پر پابندی لگ سکتی ہے اور اس کیس کے پاکستان کے سیاسی مستقبل پر کیا اثرات ہوں گے، یہ سب جاننے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ کیس کب اور کیسے شروع ہوا۔روزانہ کی بنیاد پر الیکشن کمیشن نے فارن فنڈنگ کیس کی سماعت کرنے کا فیصلہ کیا ہےعمران خان اور ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف یہ دعویٰ کرتے آئے ہیں کہ ان کی جاعت نے ممنوعہ ذرائع سے فنڈز حاصل نہیں کیے بلکہ تمام حاصل ہونے والے فنڈز کے دستاویزات موجود ہیں۔ نجی ٹی وی چینل کو دیے گیے ایک حالیہ انٹرویو میں عمران خان نے دعویٰ کیاتھاکہ دو ملکوں نے انھیں انتحابات میں مالی معاونت فراہم کرنے کی پیشکش کی جو انھوں نے قبول نہیں کی تھی۔عمران خان نے ان دو ملکوں کے نام یہ کہہ کر نہیں بتائے کہ ان کے نام بتانے سے پاکستان کے ان ملکوں کے ساتھ تعلقات خراب ہو جائیں گے۔فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ آنے سے قبل پی ٹی آئی الیکشن کمیشن کو دباؤ میں لانا چاہتی ہے سابق وزیراعظم عمران خان نے چیف الیکشن کمشنر کے خلاف ریفرنس لانے کا اعلان کر دیاہے اور کہاہے کہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کا نام اسٹیبلشمنٹ لے کر آئی تھی ، عمران خان کا کہناتھا کہ اس وقت چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے ہوئی ، اس بارے میں حکومت اور اپوزیشن میں ڈیڈ لاک پیدا ہو گیا تھا اور بات آگے نہیں بڑھ رہی تھی جس پر ڈیڈ لاک کو ختم کرنے کیلئے اسٹیبلشمنٹ نے اپنا کردار اد ا کیا۔ان کا کہناتھا کہعمران خان نے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کے خلاف ریفرنس دائر کرنے جا رہے ہیں کیونکہ الیکشن کمیشن نے بروقت حلقہ بندیاں نہ کر کے نااہلی کا مظاہرہ کیا، الیکشن کمیشن کی نااہلی کے باعث ملک میں قبل از وقت انتخابات تاخیر کا شکار ہوئے۔چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کا نام اسٹیبلشمنٹ نے دیا اور چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی پر حکومت اپوزیشن میں ڈیڈ لاک پیدا ہوگیا تھا۔ چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی آزاد باڈی کے ذریعے ہونی چاہیے۔ واضح رہے کہ پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کی نئی حلقہ بندیوں کا شیڈول عدالت میں چیلنج کردیا ہے۔ تحریک انصاف کی جانب سے پارٹی کے جنرل سیکرٹری اسد عمر نے عدالت میں آرٹیکل184 تھری کے تحت درخواست دائرکی جس میں ادارہ شماریات، وفاق، الیکشن کمیشن، سیکرٹری الیکشن کمیشن ، صوبائی چیف سیکرٹریز اور سیکرٹری کابینہ کوفریق بنایا گیا ہے۔

تحریک انصاف نے درخواست میں مؤقف اختیار کیا ہےکہ نئی مردم شماری ہونے تک نئی حلقہ بندیوں کی کوئی ضرورت نہیں، الیکشن کمیشن کا حلقہ بندیوں کا شیڈول آئین اور قانون کے خلاف ہے۔

درخواست میں استدعا کی گئی ہےکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کیا گیا شیڈول غیرآئینی اور غیر قانونی قراردیا جائے، الیکشن کمیشن اور سیکرٹری الیکشن کمیشن کو انتخابی عمل یقینی بنانے کا حکم دیا جائے، الیکشن کمیشن کو کسی قسم کی انتخابی عمل میں تاخیرسے روکا جائےاور قرار دیا جائے کہ3 مئی 2018 میں کروائی گئی حلقہ بندیاں درست ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کا کہنا ہے کہ پورے ملک کی حلقہ بندیاں تبدیل ہوں گی جس کے لیے 6 سے 7 ماہ درکار ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ سپریم کورٹ کے طلب کرنے پر بتایا تھاکہ پورے ملک میں حلقہ بندیاں کرنی ہیں جس کے لیے چھ سے سات ماہ چاہییں الیکشن کمیشن آف پاکستان میں گریڈ 20کے افسران کے تبادلے و تقرریاں کی گئی ہیں جس کے تحت صوبائی الیکشن کمشنر سندھ سعید گل کوصوبائی الیکشن کمشنر پنجاب لگا دیا گیا ہے۔الیکشن کمیشن نے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل اعجاز انور چوہان کوصوبائی الیکشن کمشنر سندھ تعینات کر دیا ہے جب کہ گریڈ 20کے افسر محمد فرید آفریدی کو صوبائی الیکشن کمشنر خیبرپختونخوا کا اضافی چارج دیدیا گیا ہے۔