روس یوکرین تنازعہ میں پاکستان کے مثبت کردار کی دنیامعترف

 
0
129

اندر کی بات ؛کالم نگار؛اصغرعلی مبارک

اسلام آباد 16 مئی 2022 (ٹی این ایس): روس یوکرین تنازعہ میں پاکستان کے مثبت کردار کی دنیامعترف نظرآتی ہے, پاکستان چاہتا ہے کہ روس یوکرین تنازعہ مذاکرات کے ذریعے حل ہو ہمارے یوکرین کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔16 مارچ ، 2022 کو پاکستان کی طرف سے یوکرین کےلیے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امدادی سامان روانہ کیا گیا تھا پاک فوج اور این ڈی ایم کی طرف ایک بڑی امدادی سامان کی کھیپ یوکرین بھجوائی جانے کافیصلہ کیاہے پاکستان کی جانب سے یوکرین کیلئے انسانی امداد کی حوالگی کی تقریب نور خان ائیربیس پر منقد ہوئی جس میں وزیر خارجہ ، سیکریٹری خارجہ سہیل محمود ،وزارت خارجہ کے سینئر افسران اور چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹیننٹ جنرل اختر نواز بھی موجود تھے یوکرین کے لیے امدادی سامان 23 مئی 2022 کو نور خان ایئربیس راولپنڈی سےروانہ کیے جانے کا منصوبہ ہے، جذبہ خیر سگالی کے تحت امدادی سامان یوکرین کے سفیر کے حوالے کیاجائے گا ، امدادی سامان میں ادویات، الیکٹرو میڈیکل آلات، بستر اور کھانے پینے کی اشیاء شامل ہیں۔قبل ازیں بھی مدادی سامان بھجوانے پروکرینی سفیر نےپاکستانی قیادت کا شکریہ ادا کیا تھا۔ دو خصوصی پروازوں کے ذریعے امدادی سامان پولینڈ کے شہر لبن میں پہنچایا گیا تھا ۔ روس اور یوکرین کے مابین کشیدگی بڑھ کر جنگ میں تبدیل ہو نے کے بعد سے یورپ اور امریکہ کی جانب سے اسے روسی جارحیت اور حملہ کہا گیا لیکن حکومت پاکستان نے سفارتی طور پرروس یوکرین کے حالات کو تنازع کہا ہے تنازع کا لفظ سفارتی طور پر استعمال ہوا ہے اور اسے فوجی تنازع کہا گیا ہے اگر بات چیت سے معاملہ حل ہو جاتا تو تنازع یا لڑائی تک نوبت نہ آتی۔‘تنازع کا لفظ تب استعمال کیا جاتا ہے جب فریقین کے مابین کسی چیز پر جھگڑا ہو اور دونوں ہی اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہ ہوں تو اسے ان دونوں کے مابین تنازع کہیں گے۔ تنازع کسی نظریاتی یا زمینی اختلاف پر ہوسکتا ہے۔جبکہ جارحیت یا اشتعال انگیزی تب کہا جاتا ہے جب کوئی ایک شخص یا ملک اپنے مفاد کے لیے دوسرے شخص یا ملک پر حملہ کرے یا جنگ مسلط کر دے جس کی وجہ سے دوسرے شخص یا ملک کو دفاعی کارروائی کرنی پڑے۔ روس یوکرین تنازعہ میں پاکستان کے براہِ راست مفادات نہیں ہیں۔ پاکستان چاہتا ہے کہ اس خطے میں اپنا کردار ادا کرے جس میں پاکستان کے تعلقات روس، چین اور وسطی ایشیا سے بھی ہیں۔ پاکستان اب کسی قسم کی کشیدگی کا حصہ نہیں بننا چاہتا۔ نہ کسی کی حمایت کرنا چاہتا ہے اور نہ کسی کی مخالفت کرنا چاہتا ہےروس اور یوکرین کے مابین کشیدگی بڑھ کر جنگ میں تبدیل ہو نے کے بعد سے یورپ اور امریکہ کی جانب سے اسے روسی جارحیت اور حملہ کہا گیا لیکن حکومت پاکستان نے سفارتی طور پرروس یوکرین کے حالات کو تنازع کہا ہے تنازع کا لفظ سفارتی طور پر استعمال ہوا ہے اور اسے فوجی تنازع کہا گیا ہے اگر بات چیت سے معاملہ حل ہو جاتا تو تنازع یا لڑائی تک نوبت نہ آتی۔‘تنازع کا لفظ تب استعمال کیا جاتا ہے جب فریقین کے مابین کسی چیز پر جھگڑا ہو اور دونوں ہی اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہ ہوں تو اسے ان دونوں کے مابین تنازع کہیں گے۔ تنازع کسی نظریاتی یا زمینی اختلاف پر ہوسکتا ہے۔جبکہ جارحیت یا اشتعال انگیزی تب کہا جاتا ہے جب کوئی ایک شخص یا ملک اپنے مفاد کے لیے دوسرے شخص یا ملک پر حملہ کرے یا جنگ مسلط کر دے جس کی وجہ سے دوسرے شخص یا ملک کو دفاعی کارروائی کرنی پڑے۔پاکستان نے یوکرین پر روسی حملے کو بڑا سانحہ قرار دیا ہے ۔ قومی سلامتی کے موضوع پر سیکیورٹی ڈائیلاگ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئےآرمی چیف نے روس یوکرین جنگ پر بات کرتے ہوئے تھا کہ ،پاکستان روس یوکرین جنگ بندی کا مطالبہ کرتا ہے، انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے تنازعات کو ہاتھوں سے نہیں نکلنا چاہیے ،روس کے ساتھ پرانے تعلقات ہیں،چین کے ساتھ سی پیک انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔پاکستان کیمپ سیاست پر یقین نہیں رکھتا۔ آرمی چیف کا کہنا تھا کہ روس کا یوکرین پر حملہ افسوسناک ہے کیونکہ اس میں بہت سے شہری ہلاک ہو چکے ہیں،پاکستان روس یوکرین جنگ بندی کا مطالبہ کر تا ہے ‘‘روس کے سیکیورٹی تشویشات کے باوجود، ایک چھوٹے ملک کے خلاف اس کی جارحیت کو معاف نہیں کیا جا سکتا’’۔پاکستان نے مسلسل جنگ بندی اور دشمنی کے خاتمے کی اپیل کی ہے ۔ ہم جنگ بندی کا مستقل حل تلاش کرنے کے لیے تمام فریقین کے درمیان فوری بات چیت کے حق میں ہیں یوکرین میں روسی فوجی آپریشن جاری ہے۔دوسری طرف وہائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوتن کا کیف کوشکست دینے کا منصوبہ ناکام ہو گیا ہے۔ وہائٹ ہاؤس کی ترجمان جین ساکی نے کہا کہ کریملن رہ نما یوکرین کو شکست دینے میں ناکام رہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ واشنگٹن یوکرین کو روس کے کسی بھی کیمیائی حملے کا مقابلہ کرنے کے لیے ساز و سامان فراہم کر رہا ہے۔امریکی صدر جو بائیڈن نے ایک ہفتہ قبل کہا تھا کہ اگر روس نے یوکرین میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا تو جواب دیا جائے گا۔انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ واشنگٹن یوکرین کی مدد کے لیے اضافی دو بلین ڈالر مختص کرے گا جو روس پر غیرمعمولی اقتصادی پابندیوں کے مسلسل نفاذ کا اشارہ ہے۔گزشتہ فروری سے جاری جنگ کے دوران یوکرینی فوج کو شکست دینے کے لیے روس نے بارہا جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا امکان اٹھایا ہے جسے روسی حکومت ایک ’خصوصی آپریشن‘سے تعبیر کرتی ہے۔کریملن نے پہلے کہا تھا کہ ایسے ہتھیاروں کا استعمال صرف ’وجود کے خطرے‘کی صورت میں کیا جائے گا۔قابل ذکرہے کہ 24 فروری کو اس آپریشن کے آغاز کے بعد سے روسی افواج شمال مشرق میں ہونے والی پیش رفت کے علاوہ یوکرین کے کسی بھی بڑے شہر پر مکمل کنٹرول نہیں کر پائی ہیں۔مشرقی یوکرین میں ڈونبیس کا علاقہ روس اور یوکرین کے درمیان بڑھتے ہوئے بحران میں 90 کی دہائی سے ایک متنازع خطہ رہا ہے۔ اس معاملے نے 21 فروری کو اس وقت مزید نازک حیثیت اختیار کرلی جب روسی صدر ولادی میر پوتن نے وہاں ماسکو کی حمایت یافتہ دو خود ساختہ ’ریاستوں‘ کی آزادی کو تسلیم کیا جو خود کو ’دونیتسک عوامی جمہوریہ‘ اور ’لوہانسک عوامی جمہوریہ‘ کہتی ہیں۔ روس نے اس علاقے میں امن قائم کرنے کا موقف اپناتے ہوئے روسی افواج بھیجنے کا حکم دے دیا جس کے بعد اب یوکرین کے شہری یورپی ممالک میں پناہ لے رہے ہیں جبکہ یوکرینی افواج روسی افواج کا مقابلہ کر رہی ہیں۔کسی بھی تنازعے میں ہر خودمختار ملک اپنی خارجہ پالیسی کے تناظر میں بیانات کے لیے الفاظ کا استعمال کرتا ہے۔ یہی الفاظ کا انتخاب اس کی خارجہ پالیسی کی بھی عکاسی کرتا ہے۔تاریخی طور پر پاکستان اور روس کے تعلقات میں کئی نشیب و فراز دیکھنے میں آتے ہیں۔ کبھی دونوں ملک اتنے قریب آئے کہ روس نے پاکستان کے صنعتی شہر کراچی میں سٹیل مل قائم کرنے میں بھرپور مالی اور تکنیکی مدد فراہم کی گئی اور کبھی افغانستان جنگ کے دوران اسلام آباد اور ماسکو کے درمیان دوریاں اپنے عروج پر پہنچ گئیں تھیں۔ بہتر بنانے کی کوششیں کی جاتی رہیں، لیکن کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔ 2011 میں پیپلزپارٹی کے دورہ حکومت میں پاک روس تعلقات میں ایک نیا موڑ آیا اور اسکے بعد روسی وزیر خارجہ سرگی لاروف پاکستان کے دورے پر آئے ۔ ستمبر 2016میں روس کی سپیشل فورسزز کے جوان پاکستان میں پاک فورسز کے ساتھ فوجی مشقوں ’’Friendship 2016‘‘ میں حصہ لینے کیلئے آئے-2017میں روس اور چین کے تعاون سے پاکستان کو شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کی مستقل رکنیت ملیپاکستان میں تعینات مختلف غیر ملکی مشنز کی جانب سے پاکستان پر اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں روس کے خلاف جنگ بندی کی قرارداد پر دستخط کرنے پر زور دیا گیا ۔ ان مشنز میں جرمنی اور فرانس بھی شامل تھے۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا روس اور یوکرین کے تنازعے پر ہنگامی اجلاس میں قرارداد کے ذریعے 193 رکن ممالک روس پر اپنے ہمسایہ ملک یوکرین سے جنگ بندی پر زور دیا اسی سلسلے میں منگل کے روز پاکستان میں 19 غیر ملکی مشنز سے تعلق رکھنے والے سفارتکاروں نے ایک خط کے ذریعے پاکستان پر اقوامِ متحدہ کے اجلاس میں یوکرین کی حمایت کرنے پر زور دیا جبکہ پاکستان کے سفارتی حلقوں سے مصدقہ اطلاعات ہیں کہ پاکستان نے اس اجلاس کا حصہ نہ بننے اور یوکرین کے ساتھ روس کے تنازعے پر ایک نیوٹرل مؤقف اختیار کرنے کو ترجیح دی پاکستان کے اس فیصلے کو کئی لوگ خوش آئند سمجھ رہے ہیں کہ ماضی کے برعکس پاکستان کسی ‘سیاسی دھڑے’ کا حصہ نہیں بن رہا بلکہ افہام و تفہیم سے معاملات سلجھانے کی تلقین کر رہا ہے قومی سلامتی کے موضوع پر سیکیورٹی ڈائیلاگ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئےآرمی چیف نے روس یوکرین جنگ پر بات کرتے ہوئے تھا کہ ،پاکستان روس یوکرین جنگ بندی کا مطالبہ کرتا ہے، انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے تنازعات کو ہاتھوں سے نہیں نکلنا چاہیے ،روس کے ساتھ پرانے تعلقات ہیں،چین کے ساتھ سی پیک انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔پاکستان کیمپ سیاست پر یقین نہیں رکھتا۔ آرمی چیف کا کہنا تھا کہ روس کا یوکرین پر حملہ افسوسناک ہے کیونکہ اس میں بہت سے شہری ہلاک ہو چکے ہیں،پاکستان روس یوکرین جنگ بندی کا مطالبہ کر تا ہے ‘‘روس کے سیکیورٹی تشویشات کے باوجود، ایک چھوٹے ملک کے خلاف اس کی جارحیت کو معاف نہیں کیا جا سکتا’’۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا روس اور یوکرین کے تنازعے پر ہنگامی اجلاس میں قرارداد کے ذریعے 193 رکن ممالک روس پر اپنے ہمسایہ ملک یوکرین سے جنگ بندی پر زور دیا اسی سلسلے میں منگل کے روز پاکستان میں 19 غیر ملکی مشنز سے تعلق رکھنے والے سفارتکاروں نے ایک خط کے ذریعے پاکستان پر اقوامِ متحدہ کے اجلاس میں یوکرین کی حمایت کرنے پر زور دیا جبکہ پاکستان کے سفارتی حلقوں سے مصدقہ اطلاعات ہیں کہ پاکستان نے اس اجلاس کا حصہ نہ بننے اور یوکرین کے ساتھ روس کے تنازعے پر ایک نیوٹرل مؤقف اختیار کرنے کو ترجیح دی پاکستان کے اس فیصلے کو کئی لوگ خوش آئند سمجھ رہے ہیں کہ ماضی کے برعکس پاکستان کسی ‘سیاسی دھڑے’ کا حصہ نہیں بن رہا بلکہ افہام و تفہیم سے معاملات سلجھانے کی تلقین کر رہا ہے قومی سلامتی کے موضوع پر سیکیورٹی ڈائیلاگ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئےآرمی چیف نے روس یوکرین جنگ پر بات کرتے ہوئے تھا کہ ،پاکستان روس یوکرین جنگ بندی کا مطالبہ کرتا ہے، انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے تنازعات کو ہاتھوں سے نہیں نکلنا چاہیے ،روس کے ساتھ پرانے تعلقات ہیں،چین کے ساتھ سی پیک انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔پاکستان کیمپ سیاست پر یقین نہیں رکھتا۔ آرمی چیف کا کہنا تھا کہ روس کا یوکرین پر حملہ افسوسناک ہے کیونکہ اس میں بہت سے شہری ہلاک ہو چکے ہیں،پاکستان روس یوکرین جنگ بندی کا مطالبہ کر تا ہے ‘‘روس کے سیکیورٹی تشویشات کے باوجود، ایک چھوٹے ملک کے خلاف اس کی جارحیت کو معاف نہیں کیا جا سکتا’’۔پاکستان نے مسلسل جنگ بندی اور دشمنی کے خاتمے کی اپیل کی ہے ۔ ہم جنگ بندی کا مستقل حل تلاش کرنے کے لیے تمام فریقین کے درمیان فوری بات چیت کے حق میں ہیں یوکرین میں روسی فوجی آپریشن جاری ہے۔دوسری طرف وہائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوتن کا کیف کوشکست دینے کا منصوبہ ناکام ہو گیا ہے۔ وہائٹ ہاؤس کی ترجمان جین ساکی نے کہا کہ کریملن رہ نما یوکرین کو شکست دینے میں ناکام رہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ واشنگٹن یوکرین کو روس کے کسی بھی کیمیائی حملے کا مقابلہ کرنے کے لیے ساز و سامان فراہم کر رہا ہے۔امریکی صدر جو بائیڈن نے ایک ہفتہ قبل کہا تھا کہ اگر روس نے یوکرین میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا تو جواب دیا جائے گا۔انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ واشنگٹن یوکرین کی مدد کے لیے اضافی دو بلین ڈالر مختص کرے گا جو روس پر غیرمعمولی اقتصادی پابندیوں کے مسلسل نفاذ کا اشارہ ہے۔گزشتہ فروری سے جاری جنگ کے دوران یوکرینی فوج کو شکست دینے کے لیے روس نے بارہا جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا امکان اٹھایا ہے جسے روسی حکومت ایک ’خصوصی آپریشن‘سے تعبیر کرتی ہے۔کریملن نے پہلے کہا تھا کہ ایسے ہتھیاروں کا استعمال صرف ’وجود کے خطرے‘کی صورت میں کیا جائے گا۔قابل ذکرہے کہ 24 فروری کو اس آپریشن کے آغاز کے بعد سے روسی افواج شمال مشرق میں ہونے والی پیش رفت کے علاوہ یوکرین کے کسی بھی بڑے شہر پر مکمل کنٹرول نہیں کر پائی ہیں۔فروری میں جب روس نے اپنے پڑوسی ملک یوکرین پر حملہ کیا تو ہزاروں سوئس شہری سڑکوں پر نکل آئے، انھوں نے جارحیت کی مذمت کی اور یوکرین کی حمایت کا مطالبہ کیا۔ہزاروں افراد نے یوکرینی پناہ گزینوں کو اپنے گھروں میں ٹھرانے کی پیشکش کی جنھیں سوئس حکومت نے ویزا فری اجتماعی تحفظ کی پیشکش کی تھیفرانس سے لے کر بوسنیا تک یورپ میں جگہ جگہ جنگ کے نشان نظر آتے ہیں۔ کچھ شہر جنگ کے سائے سے باہر آ گئے ہیں، مگر بہت لوگوں کو ڈر ہے کہ جنگ کے بعد بھی نفرتوں کے سلسلے پورے خطے کو عدم استحکام کا شکار رکھیں گے۔سوئٹزرلینڈ نے پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے دور میں اپنی غیر جانبداری کو سنبھالے رکھا لیکن اب یوکرین پر روس کے حملے کو دیکھ کر بہت سے سوئس شہری اپنے دیرینہ مؤقف پر نظر ثانی کر رہے ہیں۔دوسری عالمی جنگ کے دوران سوئٹزلینڈ نے نازیوں کے ستائے ہوئے ہزاروں یہودیوں کو اپنے ملک میں داخل نہیں ہونے دیا تھا جس پر اس نے نوے کی دہائی میں معافی بھی مانگی تھی۔کئی دہائیوں سے، سوئس لوگوں میں غیر جانبداری کو تقریباً مکمل حمایت حاصل رہی ہے۔ عوامی جائزوں میں 90 فیصد لوگ اس کے حامی تھے۔سوئٹزرلینڈ نے ابتدائی ہچکچاہٹ کے بعد روس کے خلاف یورپی یونین کی تمام پابندیوں کو اپنا لیا اور یہ بہت بڑی تبدیلی ہے۔ یہ صرف 40 سال پہلے کے مقابلے میں بہت بڑی تبدیلی ہے جب سوئٹزرلینڈ نسل پرست جنوبی افریقہ کے خلاف پابندیوں میں شامل نہیں ہوا تھا، جو بہت سارے سوئس شہریوں کے لیے بہت شرمندگی کا باعث تھا۔