اصل ہیروز شہدا ءاور غازی ; جی ایچ کیو میں تقسیم اعزازات تقریب میں ورثاء کے تاثرات

 
0
207

اندر کی بات ؛کالم نگار؛اصغرعلی مبارک

اسلام آباد 19 مئی 2022 (ٹی این ایس): آزادی کی قدرومنزلت وہی جانتے ہیں جواس نعمت سے محروم ہیں ہماری آزادی ہمارےشہداکی قربانیوں کی مرہون منت ہیں جنہوں نے مادروطن کےدفاع کے لیے جان کی قربانی پیش کی ہے جان قربان کرنے سے بڑھ کرکوئی اور قربانی نہیں ہوسکتی. گزشتہ روز جی ایچ کیو راولپنڈی میں شہداء اور غازیوں نذرانہ عقیدت پیش کرنے کیلئے خصوصی تقریب کا اہتمام کیاگیا جس کے مہمان خصوصی پاکستان کی ہردلعزیز شخصیت چیف آف دی آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ تھے جنہوں فردا” فردا” ہرشہید کے لواحقین سے نہایت ادب واحترام سے بات چیت کی جو انکے پیشہ ورانہ وقار کا عملی نمونہ ہے آرمی جیف کا شہداء اور غازیوں کی فیملیز کو مخاطب کرکے کہنا تھا کہ ہمارے اصل ہیروز شہدا ءاور غازی ہیں اور جو قومیں اپنے شہدا ءکو بھول جاتی ہیں وہ جلد مٹ جاتی ہیں۔ان کا کہناتھاکہ ’’آج ہم ایک بار پھر اپنے بہادر سپاہیوں کی قربانیوں کا اعتراف کرنے کے لیے حاضر ہیں ” جنہوں نے مادر وطن کی خاطر اپنی جانیں قربان کیں”۔پاکستان آج محفوظ ہے۔اور یہ سب کچھ ان افسران، جونیئر کمیشنڈ آفیسرز (جے سی) اور سپاہیوں کے خون سے ممکن ہوا ہے۔ “ہم سب ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے یہاں جمع ہوئے ہیں,فوجی اعزازات پانے والے شہداء کی فیملیز نےاپنے تاثرات بھی بیان کئے اس موقع پر شہداء کے ورثان کے جذبات کو انہیں کے الفاظ میں بیان کرنے کی جسارت کررہاہوں۔۔ 1۔ ظفر حُسین شاہ (والد) – کیپٹن عبداللہ ظفر شہید
الحمداللہ مجھے فخر ہے کہ میں ایک شہید کا باپ ہوں اور میں نے اپنے بیٹے عبداللہ کو وطن پر قُربان کر دیا ہے۔میرے پانچ بیٹے ہیں، باقی چار بھی وطن پر نچھاور کرنے کو تیار ہوں۔اور یہ کم از کم اُس کو احساس ہونا چاہیے جس کا بچہ شہید ہوا ہو اور انھوں نے جتنے پیار لاڈ سے پالا ہوا ہو۔
آپ کیوں آرمی میں جا رہے ہیں۔آپ تو انجینئرنگ تو کر رہے ہیں۔لیکن اُس نے بولا کہ نہیں ابو۔میرے پاس شوق ہے آرمی کا او ر میں آرمی میں جانا چاہتا ہوں۔
رات کے گیارہ بجے مجھے اُس کا فون آیا 2012میں کہ ابو کو امی نہیں بتانا کہ میں Do or Dieآپریشن میں جا رہا ہوں۔ پتہ نہیں ہے کہ ملاقات ہو گی یا نہیں، بس میرے لئے دُعا کریں۔تو الحمداللہ وہ وہاں سے تین دن کے بعد صحیح سلامت آیا۔
اُس کے بعد جو ہے عبداللہ کا آرمی کے ساتھ بڑا شوق تھا۔جب بھی وہ آتا تھا، گھر میں جب آجاتا تھا ڈیوٹی سے تو اُس کا بھائی اُس کا یونیفارم ڈال کر برآمدے میں مارچ پاسٹ کرتا تھا اور کبھی سلیوٹ کرتا تھا کہ بس میں نے بھی آرمی میں جانا ہے۔تو الحمداللہ وہ بھی آرمی میں چلے گئے۔ میں نے اُس کو بولا بیٹا کیا بات ہے، آپ تو کوئی چیز نہیں لے کر گئے؟ بولتے ہیں نہیں ابو میرے سے جو ہے وہ رہ جائے گا، یہ رہ جائے گا اسی طرح، بس یہ کافی ہے۔
تو شگئی میں جو ہے کھانا کھا رہے تھے کہ ساڑھے آٹھ بجے اُن کو انٹیلی جنس رات کو رپورٹ تھا کہ بھائی کوئی دہشتگرد آئے ہیں اور وہاں جا کے جو ہے شہید ہوئے۔
تو بس میں اپنے قوم والوں کو یہ پیغام دیتا ہوں کہ یہ کتنے حوصلے سے ہم نے یہ بچے پالے ہیں اور پاکستان کی خاطر ان لوگوں نے کتنی قُربانی دی ہے اور تم لوگ کیا کر رہے ہو۔
آپ اس میں لگے ہوئے ہیں، ایک اِدھر کھینچ رہا ہے ایک اُدھر کھینچ رہا ہے۔
میں اپنے ساتھ کے لوگوں کو درخواست کرتا ہوں کہ خُدا راہ، تھوڑا اُن لوگوں کو دیکھو، جن پر یہ گُزری ہے، جنہوں نے یہ قُربانیاں دی ہیں۔کتنی تکلیفوں سے ہم نے یہ بچے سنبھالے اور پالے تھے اور انہوں نے قربانی دی۔ یہ تو اُن لوگوں کو پتہ ہے جنہوں نے یہ پالے ہیں اور قُربانی دی ہے۔
آپ لوگ لگے ہیں کچھ مُلک کیلئے بھی سوچیں۔کسی اپنے ایک ایک بچے کو تو آرمی کیلئے وقف کر دیں، پھر جو ہے آپ لگیں رہیں کہ بھئی ٹھیک ہے کہ یہ ایک بچہ آرمی کیلئے وقف کر دیا۔خُدا کیلئے یہ چیز چھوڑیں اور یہ پاکستان جو ہے ہمیں ملا ہے، اس کی حفاظت کرلیں۔

2۔ والدہ – کیپٹن محمد صبیح ابرار شہید
میں کیپٹن محمد صبیح ابرار شہید کی والدہ ہوں۔صبیح نے 20جون 2020کو شہادت پائی ہے۔شُمالی وزیرستان میں اُن کی شہادت ہوئی۔ ایک انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کے دوران۔ صبیح بہت بہادر اور بہتobidientبیٹے۔ صبیح کو بہت شوق تھا شروع سے ہی کہ میں آرمی جوائن کرنی ہے۔وہ سکول کے زمانے میں بھی سکاؤٹنگ میں جاتے رہے۔Fourکلاس سے انھوں نے سکاؤٹنگ جوائن کی۔تھرڈ سمیسٹر میں تھے انجینئرنگ کے جب، ایک دم سے اِک دن آئے ہیں گھر تو کہتے ہیں مما میرے کلاس فیلو سارے اپلائے کر رہے ہیں، میں بھی کر دوں؟
میں ایک دم اُس کی شکل دیکھ کر حیران ہو گئی۔ میں نے کہا یہ تو میری خواہش تھی۔ میں نے کہا ٹھیک ہے بیٹا، جیسے آپ کا دل چاہتا ہے کرو۔پھر انھوں نے اپلائے کیا اور اللہ کا شکر ہے کہ وہ سیلکٹ بھی ہو گئے۔ تو جب ان کی وزیرستان میں پوسٹنگ ہوئی۔ میں کافی پریشان ہوئی تو کہتے تھے کہ مما کچھ نہیں ہوتا، ہم نے اُدھر کیا کرنا ہوتا ہے، ہم تو اپنے آفس میں ہوتے ہیں، کچھ بھی نہیں ہوتا مما، آپ نہ ڈریں۔
شہادت سے سات ماہ پہلے اُس کی شاد ی کی تھی۔کوئی کوئی خاندا ن میں بچہ ہو تا ہے جس کو ننہیال، ددہیال دونوں میں سے بہت بہت پیا رملتا ہے۔ صبیح اُن میں سے ایک تھے۔اُس کی شادی بھی اتنی دھوم دھام سے ہوئی تھی کہ کسی کے بھی دل میں کوئی آرمان نہیں رہا۔
لیکن کیا پتہ تھا یہ خوشیاں ہمارے لئے عارضی ہیں اور سات ماہ کے بعد وہ ہم سب کو اکیلا چھوڑ کے چلے گئے۔وہ جب بھی آتے تھے، واپس میں انھیں چھوڑنے جاتی تھی اڈے تک۔Last Timeمیں نہیں گئی اُس کو چھوڑنے۔مجھے کیا پتہ تھا کہ اس نے واپس ہی نہیں آنا۔
صبیح کی شہادت کو دو سال ہونے والے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے جیسے ابھی ابھی کی بات ہے۔
وہ کیپٹن کاشف شہید ہیں اُ ن کی والدہ سے بات ہوئی تو کہہ رہی ہیں کہ خواب میں آئے ہیں میری بیٹی کے اور کہہ رہے ہیں کہ مما آپ یہ سمجھو نہ میں ابھی چھٹی نہیں آیا۔تو وہ مجھے اسی لئے تسلیاں دے رہی ہیں کہ آپ بھی یہی سمجھا کرو نہ کہ صبیح ابھی وہ ڈیوٹی پر ہیں ابھی چھٹی پر نہیں آئے، اُنھیں ابھی چھٹی نہیں مل رہی۔
بڑی کوشش کرتی ہوں مگر صبر نہیں آتا۔ ڈیوٹی پر ہوتے تھے تو بات تو کر لیتے تھے۔اب تو فون بھی نہیں آتا۔صبیح کے بعد آرمی نے ہمیں اکیلا نہیں چھوڑ ا۔ ہر لمحے، ہر وقت وہ ہمارے ساتھ ساتھ ہوتے ہیں۔

3۔ بیوہ – کیپٹن عمرفاروق چیمہ شہید
میں کیپٹن عمر فاروق چیمہ شہید کی widowہوں۔کیپٹن عمر فاروق چیمہ شہیدنے 14اکتوبر2020کو شُمالی وزیرستان میں شہادت پائی۔
عمر ایک بہت ہی بہادر آفیسر تھے۔عمر کی شہادت کا جب ہم لوگوں کو پتہ چلا تو اُس وقت تو ہمیں کچھ سمجھ نہیں آئی لیکن یہ ہے کہ ہم لوگوں نے الحمداللہ کہا۔
14مارچ سے14اکتوبر تک سات ماہ کا durationتھا۔اس میں، میں عمر کے ساتھ رہی۔عمر کی شہادت کے ایک ماہ بعد میری بیٹی پیدا ہوئی۔اُس کا نام عمر بتا کے گئے، میں نے اُن کی مر ضی سے رکھا۔عمر کی شہادت سے چند روز پہلے عمر کے دوست نے عمر کو کال کی کہ آپ کا وزیرستان سے واپس آنے کا کیا پروگرام ہے؟ تو عمر کو کہیں نہ کہیں یہ چیز محسوس ہو رہی تھی۔ عمر نے اپنے دوست کو میسج کیا کہ یار مجھے لگتا ہے کہ میں نے شہید ہو جانا ہے۔
یہ مُلک ایک بہت ہی قیمتی مُلک ہے اور ہماری فوج بہت ہی ایک عظیم فوج ہے۔ہم جیسے اپنی پیاروں کی قُربانیاں دیتے ہیں، تو یہ ملک آزاد ہو تا ہے۔بہت سے بچے یتیم ہوتے ہیں تو یہ مُلک آزاد ہو تا ہے۔یہ بچے جو اپنے باپ کے بغیر پروان چڑھیں گے۔ان بچوں نے جو قُربانیاں دی ہیں، ان کے اہل و عیال نے جو قُربانیاں دی ہیں۔ہماری پاک فوج کبھی بھی شہیدوں کی قُربانیوں کو رائیگاں جانے نہیں دیتی اور نہ جانے دی گی۔
اگر کبھی مجھے زندگی میں مجھے بھی موقع ملا کہ میں پاک فوج کے لئے کچھ کر سکوں، اپنے ملک کے لئے کچھ کر سکوں تو انشاء اللہ تعالیٰ عمر کی طرح میری بھی جان اس مُلک کے لئے حاضر ہے۔
میں چیف آف آرمی سٹاف کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ انھوں نے شہداء کو اور اُن کی فیملیز کو اکیلا نہیں چھوڑا۔پوری فوج ہمارے ساتھ ہے۔آرمی کی بہت سپورٹ ہے۔
کسی بھی موقع پر جب کبھی ضرورت پیش آئی ہے تو آرمی نے ہمیں سپورٹ کیا ہے۔

4۔ والدہ – لیفٹیننٹ ناصر حُسین خالد شہید
مجھے فخر اپنے بیٹے پے کہ میرے بیٹے نے اپنے ملک اور قوم کے لئے جان کا نذرانہ دینے سے بھی دریغ نہیں کیا۔حالانکہ میں single motherہوں۔22سال ہو جائینگے ابھی ناصر حسین کے والد کو شہید ہوئے۔2001میں وہ شہید ہو ئے تھے۔
تو دیکھیں کہ ناصر حسین میرے بہت بڑی اہمیت رکھتا تھا، میرا بڑا بیٹا تھا۔اور کسی چھوٹے میرے بچے ہیں۔تو ہم نے تنہائی میں ہم نے بہت ساری جگہوں پہ بہت سارا وقت گُزارا۔تو اُس کے جانے پے میں روتی نہیں ہوں۔میں خوش ہوں۔میں اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدے میں ہوں کہ اُس نے اپنے لئے میرے بیٹے کو پسند کیا اور اُس کو اَمر کر دیا۔ہمیشہ کیلئے زندہ و جاوید کر دیا۔
2016ء میں کمیشن جوائن کیا اور وہاں پے ماشاء اللہ بڑا خوش اور بڑا جس طرح اُس کو ساری دُنیا جہان کی دولت مل گئی، اُس کو آرمی مل گئی۔PMAمیں تھے تو ماشاء اللہ، اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل تھا، بڑے obidientتھے، بڑے geniousتھے۔تو انھوں نے اس چیز کو دیکھتے ہوئے، انھوں نے آسٹریلیا کیلئے سلیکشن کی، تو اُس کی سلیکشن ہو گئی۔جنرل باجوہ صاحب جو ہیں، بے انتہا بہترین سپہ سالا ر اور انسان ہیں وہ جو مجھے ملنے آئے تھے ناصر کی شہادت کے بات تو اُنھوں نے مجھے کچھ لفظ کہے تھے۔
انھوں نے کہا تھا کہ مجھے لگ رہا ہے کہ یہ میرا بیٹا گیا ہے اور انھوں نے کہا کہ جب میں انٹرویوز لے رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ ناصر کی آنکھوں میں ایک سپارک ہے۔اپنے ملک اور قوم کے لئے بڑی محبت ہے۔تو اس کی سیلکشن ہو گئی اور پھر یہ آسٹریلیا چلے گئے۔وہاں پے یہ اٹھارہ ماہ رہے۔3ستمبر2020کو ناصر نے وزیرستان میں شہادت پائی۔جب جاتا تھا تو میں اُس سے کہتی تھی کہ بیٹا اللہ سپرد ہیں آپ۔تو جب میری آنکھوں میں آنسو آ جاتے تو اماں اللہ کے سپرد کر کے ایک آپ میری ماں ہیں اور ایک یہ ملک اور قوم میرا ہے، جس کیلئے میں نے کھڑے ہونا ہے۔تو میں تھوڑی سی گھبرا جاتی۔تو میں کہتی کہ ناصر ماں اکیلی ہے آپ کے بغیر۔تو کہتا مما، آپ سمجھ نہیں سکتی کہ شہادت کا رُتبہ بڑا عظیم ہے اور اللہ جنہیں پسند کرتے ہیں وہ انھیں ہی اپنے پاس بلاتے ہیں۔
تو مجھے فخر ہے اپنے بیٹے پے کہ اُس کی خواہش پوری ہوئی۔شہادت سے ایک دن پہلے مجھ سے بات ہوئی، مجھے کہا کہ مما میں اب سکول سائیڈ پے آگیا ہوں اور یہاں پے میں آپ سے بہت ساری باتیں کروں گا۔ اپنا لختِ جگر اپنے سے دور کرنا اتنی آسان چیز نہیں ہے۔بہت ساری باتیں اُس کی یاد آتی ہیں۔میں خوش ہوں۔مجھے فخر ہے کہ میرے بیٹے کو اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے پسند کیا اور وہ ہمیشہ کیلئے اَمر ہو گیا۔
میں سلام کرتی ہوں پاکستان آرمی کو کہ انھوں نے جس طرح میرا خیال رکھا۔ مجھے۔۔۔تھی۔مجھے لگتا ہے کہ مجھے ہر یونیفارم کے اندراپنا بیٹا ناصر حسین نظر آرہا ہوتا ہے اورمیں اپنی جان بھی اپنے ملک کے لئے حاضر ہے۔میرے باقی بچے بھی آرمی کی طرف ہیں۔تو ہم اس ملک سے ہیں، پاکستان سے ہے اور پاکستان ہم سے ہے۔اس کے بغیر ہم کچھ بھی نہیں ہیں۔اور پاکستان آرمی ہی ہے کہ آج ہم لوگ آسانی کے ساتھ خوشگوار زندگی گُزار تے ہیں۔وہ مجھ جیسی ماؤں کے بچے ہیں جن کی مائیں گھر میں انتظار کر تی ہیں اور وہ اُن محاذوں پر جا کے ساری سہولتوں سے دور ہو کے وہ ہم لوگوں کی آسانی کیلئے، وہ ہم لوگوں کی زندگی آسان کرنے کیلئے وہاں پے اپنی جانوں کے نذرانے دیتی ہیں۔میں بہت ٹوٹ چکی تھی لیکن ان سب کی محبت نے، میرے پاس آنا، مجھے پوچھنا، مجھے اپنا ہونے کا احساس دلانا، ان چیزوں نے مجھے بڑا build upکیا اور پاکستان مجھ سے ہے اور میں پاکستان سے ہوں۔5۔ محمد سفیر (والد) – سپاہی عبدالباسط شہید
میرا تعلق آزاد کشمیر عباس پور سے ہے۔میرا بیٹا657مجاہد بٹالین میں سپاہی عبدالباسط سنک سیکٹر میں سکندر پوسٹ پے اپنی ڈیوٹی سر انجام دیتے ہوئے دُشمن کی گولی سے شہید ہوگیا۔
مجھے اُس کی شہادت پے فخر ہے۔وہ اکثر جب بات کیا کرتا تھا۔تو کہتا تھا کہ ابو میرے لئے دعا کرو میں شہید ہو جاؤں۔اللہ نے اُس کی دعا کو قبول کر لیا ہے اور اللہ نے مجھے یہ اعزاز بخشا ہے کہ میں شہید کا والد ہوں۔
ہم کہتے ہیں ایک نہیں اگر میرے 100بچے بھی ہوتے تو میں اس ملک کیلئے قربان کر نے کیلئے ہر وقت تیار ہوں۔ہمیں پاک آرمی، جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب اور دیگر جو افسران ہیں، ہمیں اُن پر پورا فخر ہے جو انھوں نے شہداء اور شہداء کی فیملی کیلئے جو کچھ کیا ہے، اُس کا نعم البدل تو صرف اللہ دے سکتا ہے لیکن اپنی طرف سے انھوں نے پور ی آج دن تک دیکھ بھال کی ہے۔ اللہ تعالیٰ جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب کو لمبی زندگی عطا فرمائے اور ہمیں اُن پر فخر ہے۔

6۔ جہانگر اختر (والد) – سپاہی عثمان اختر شہید
میں عثمان اختر شہید کا والد ہوں۔ میرا بیٹا شمالی وزیرستان میں شہید ہوا ہے۔اُس کی شادی کے بعد ایک دفعہ ہی ملاقات ہوئی ہے ہماری اُس سے۔دوبارہ وہ واپس گیا۔بس اُدھر ہی وہ شہید ہو گیا۔
ہمارا ایک اور بھی بیٹا ہے۔ہم کہہ رہے ہیں کہ وہ بھی پاک آرمی میں ہو جائے بھرتی۔پاک آرمی زندہ باد، پاکستان پائندہ باد

7۔ علی مرجان (والد) – سپاہی ضیاء الاسلام شہید
ضلع بنوں سے تعلق رکھتا ہوں۔میرا بیٹا ضیا ء الاسلام ایف سی میں بھرتی ہوا تھا 2016میں۔بس میں یقینا اس پر فخر کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بچہ دیا اور قوم و ملک کے لئے اُس نے قربانی دی۔عصر کے وقت اُس نے مجھے فون کیا کہ ابو میں پہنچاہوں اپنی ڈیوٹی پے۔پھر جب صُبح سویرے جب مجھے کسی نے فون کیا، اُس آدمی کو میں نے پھر فون کیا تو اُس نے بولا کہ اُس وقت میں آپ کو نہیں بتا سکا۔ ابھی بتا رہا ہوں کہ آپ کا بیٹا شہید ہوا ہے۔میں نے اُسی جگہ پر اناللہ و انا الیہ راجعون پڑھا اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ آپ نے دیا تھا اور آپ نے اپنے دربار میں اپنے لیے بلالیا۔میں اس پر راضی ہوں۔بس الحمد و اللہ جنازہ میں نے خود پڑھایا اُس کا اور جو آرمی والے آئے تھے اُس کے ساتھ، اُس کا میں بہت اچھے طریقے سے استقبال کیا۔
میں فخر کرتا ہوں کہ میرا بیٹا قوم اور ملک کے لئے شہیدہوا۔اپنی جان قربان کر دیا۔پاک آرمی یقینا قوم و ملک کے لئے بڑی قربانیاں دے رہا ہے۔

8۔ بیوہ – سپاہی ظہیر عباس شہید
میرے خاوند نے سوات آپریشن ایریا میں شہادت نوش پائی ہے 17اپریل 2020میں۔اُن کی یہی خواہش ہوتی تھی کہ مجھے شہادت نصیب ہو۔اللہ تعالیٰ نے اُن کو شہادت کا رُتبہ دیا ہے۔ہمارے اوپر تو ایک دفعہ قیامت ٹوٹ پڑی تھی۔لیکن آرمی والوں کی سپورٹ ہے۔وہ ہمارا بہت خیال کر رہے ہیں۔
میرے میاں کہتے تھے کہ جب میں چلا جاؤں گا تو تمہیں پتہ چلے گا کہ یہ وردی کیا ہے۔مجھے اُس وقت نہیں محسوس ہوتا تھا۔اب پتہ چلا کہ واقع وردی کی عزت کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ میرے بچے کو بھی یہ وردی نصیب عطا کر۔مرنا تو ایک دن سب نے ہے لیکن اللہ تعالیٰ کرے کہ میرے بچے کو بھی شہادت کا رُتبہ ملے۔
ہمارے جو قمر جاوید باجوہ سپہ سالار ہیں، اُن کی وردی پے، اُن کے جو اخلاق ہیں ہمیں اُن پے فخر ہے۔وہ ہمارا بہت خیال کر رہے ہیں۔اُس کے علاوہ جو یونٹ ہے،جو آرمی والے ہماری بہت عزت کرتے ہیں۔ہمارا حال فرائض انجام دیتے ہیں۔گھر بیٹھے ہوتے ہیں تو ہمیں پتہ نہیں ہوتا، ہمارے ہر فرائض انجام دے رہے ہیں۔

9۔نَذر محمد خان (والد) – سپاہی محمد عبداللہ شہید
میں شہید عبداللہ کا والد ہوں۔شہید عبداللہ جبار پوسٹ پے کام کر رہا تھا۔فائرنگ کر رہا تھا کہ اچانک اُس کو مارٹر گولہٰ لگا اور وہ شہید ہو گیا۔وہ بہت ہی نیک اور شریف انسان تھا۔جب ہم آخری بار ملے، میں نے اُس کو رخصت کیا تو میرے پڑوسی نے کہا کہ عبداللہ نہیں آئے گا۔اُس نے مجھے دلاسا دیا کہ عبداللہ واپس نہیں آئے گا۔ میں نے بولا بیٹا آپ واپس آئیں گے تو آپ کی شادی ہو گی، اُس نے کہا ٹھیک ہے ابو میں اگلی چھٹیوں پر آؤں گا تو پھر میری شادی کر دینا۔وہ مورچہ بان تھا مورچے میں بیٹھا تھا۔دوسرا آدمی فائر کر رہا تھا، اُس نے کہا ہٹو آپ میں یہاں فائر پے بیٹھتا ہوں۔وہ اُس وقت فائر پے بیٹھا تھا کہ جب گولہٰ آیا اور اُس کو لگا۔شیل لگا گردن میں اور شہید ہو گئے۔اُسی وقت کارروائی کی ہسپتال لے گئے لیکن وہ شہید ہو گیا۔
پاک آرمی نے ہمارے ساتھ بہت تعاون کیا۔خصوصاََ بالخصوص چیف آف آرمی سٹاف نے ہر قسم کا تعاون کیا، دلاسہ دیا۔ میں اُن کا بہت زیادہ ممنون ہوں، کیونکہ اُنھوں نے دلاسہ دیا اور میرے بیٹے نے قوم وملک کی خاطراپنی جان دی۔مجھے یہ بھی فخر ہے اُس پر۔پاک آرمی زندہ باد۔پاک فوج کے جنرل ہیڈکوارٹر (جی ایچ کیو) میں اعزازات تقسیم کرنے کیلئے تقریب سے خطاب میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے شہیدوں اور ان کی فیملیز کو خراج عقیدت کرتے ہوئے کہا کہ مادر وطن پر قربان ہونے والے بہادر شہدوں کو سلام پیش کرتا ہوں، پاکستان ان شہداء کی وجہ سے محفوظ ہے۔ .آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا تھاکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی کامیابی کی وجہ بہادری اور پاکستانی ماؤں اور بہنوں کی قربانیاں ہیں جنہوں نے مادر وطن کی حفاظت کے لیے اپنے پیاروں کا نذرانہ پیش کیا آرمی چیف کا تھا کہ دنیا نے سوال کیا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاجنگ میں کیسے کامیاب ہوا جہاں باقی دنیا انتہا پسندی کے چیلنج سے نمٹنے میں ناکام رہی۔ ان کا کہنا تھاکہ” میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ “یہ ہماری مائیں ہیں جنہوں نے اپنے پیاروں کو قربان کیا”، ہماری بہنیں ہیں” جنہوں نے اپنے شوہر کھو دیے”۔اور وہ بچے ہیں” جو اس ملک میں اپنے والد کو قربان کرنے کے لیے تیار ہیں”۔ جب تک ایسی مائیں اور ہماری بہنیں موجود ہیں۔ “پاکستان کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ان کا کہناتھاکہ ’’آج ہم ایک بار پھر اپنے بہادر سپاہیوں کی قربانیوں کا اعتراف کرنے کے لیے حاضر ہیں ” جنہوں نے مادر وطن کی خاطر اپنی جانیں قربان کیں”۔پاکستان آج محفوظ ہے۔اور یہ سب کچھ ان افسران، جونیئر کمیشنڈ آفیسرز (جے سی) اور سپاہیوں کے خون سے ممکن ہوا ہے۔ “ہم سب ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے یہاں جمع ہوئے ہیں’’میں ہمیشہ یہ کہتا ہوں کہ ہمارے حقیقی ہیرو ہمارے شہداء ہیں، ہمارے غازی ہیں “اور جو قومیں اپنے شہداء اور ھیروز کو بھول جاتی ہیں وہ مٹ جاتی ہیں‘‘۔شہید کا نام تب تک روشن رہے گا جب تک دنیا رہے گی”۔”شہید نے دنیا اور آخرت میں اپنا نام کمایا،اسے شہادت کے رتبہپر فائز ہوتے ہی بخش دیا جاتا ہے۔ شہید نہ صرف اپنے لیے بخشیش حاصل کرتا ہے بلکہشہید اپنے ورثاء کے لیے بھی جنت کا راستہ کھول دیتا ہے۔” دنیا کی کوئی مادی طاقت، دولت، پیسہ شہیدوں کی قربانیوں کا متبادل نہیں ہو سکتا۔”ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم شہداء کے ورثاء اور ان کے اہل خانہ کا خاص خیال رکھیں انشااللہ شہداء کی بیواؤں اور ان کے والدین کا بھی خیال رکھیں گے۔ان کے بچوں کی دیکھ بھال کریں گے، آرمی چیف کاکہنا تھاکہ شہیدوں کی قربانیوں کی وجہ سے ملک میں امن قائم ہے، ہمارے اصل ہیروز شہدا اور غازی ہیں، افسروں، جوانوں کی قربانی کی وجہ سے ہم آرام سے سوتے ہیں، رہتی دنیا تک شہدا کا نام چمکتا رہے گا، شہید کا قطرہ گرنے سے پہلے اس کی بخشیش ہوجاتی ہے۔ آرمی چیف کا کہناتھاکہ مجھے یقین ہے کہ کوئی استحقاق شہداء کی شہادت کا متبادل نہیں ہو سکتا۔انہوں نے کہا کہ ایک باپ کے لیے، ایک ماں کے لیے، جب تک وہ اس دنیا میں رہیں گے، ان کا بچہ ہر روز ان کی آنکھوں کے سامنے ضرور آئے گا، ہر روز وہ اسے یاد کریں گے۔’’وہ بیوہ جس کا شوہر فوت ہو گیا ہو اور جس کے بچے اپنے باپ کی شفقت سے محروم ہو گئے ہوں وہ بھی اس کی کمی محسوس کرے گا اور اس کا کوئی نعم البدل نہیں۔‘‘ انکا کہناتھاکہ یہ ملک آپ کی قربانیوں سے زندہ ہے اور میں آپ کو سلام پیش کرتا ہوں کہ آپ کی قربانیوں کی وجہ سے آج پاکستان محفوظ ہےآرمی چیف کامانناتھا کہا کہ فوج ہے قدرتی آفات ۔سانحات۔ سیلاب ،، زلزلوں میں پاک فوج کاکردار نمایاں رہاان کا یہ کہناتھاکہ پاک فوج آپ کو ہر جگہ نظر آئے گی۔آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ آج کل بلوچستان میں کئی مقامات پر ہیضہ پھیل چکا ہےپانی اور پاک فوج متاثرہ آبادی کو صاف پانی اور میڈیکل کی سہولیات فراہم کر رہی ہےہمیں فوج کی ان کوششوں پر فخر ہے۔ان کاکہناتھاکہ” اپنے شہداء کے ورثاء کو یقین دلاتا ہوں کہ” آپ کبھی مایوس نہیں ہوںگے۔فوجی اعزازات کی تقریب میں آرمی چیف نے آپریشنز کے جرات و بہادری کی داستانیں رقم کرنے والوں کو اعزازات سے نوازہ اس موقع پر شہداء کی فیملیز بھی موجودتھیں،تقریب میں 48 افسران کو ستارہ امتیاز ملٹری جبکہ تین جونیئر کمیشنڈ افسران اور تیس سپاہیوں کو تمغہ بسالت سے نوازا گیا۔ فوجی اعزازات پانے والے شہداء کی فیملیز نےاپنے تاثرات بھی بیان کئے اس موقع پر شہداء کے ورثان کے جذبات کو انہیں کے الفاظ میں بیان کرنے کی جسارت کررہاہوں۔۔ فوجیوں اور شہریوں کا خون ہم پر قرض ہے جو ملک سے دہشتگردی کے خاتمے کی صورت میں چکایا جائے گا۔اس سال کے پہلے چارماہ کے دوران سکیورٹی فورسز کے افسران سمیت درجنوں اہلکار شہید ہوئے ہیں خیال رہے کہ گذشتہ برس افغان طالبان کے حکومت میں آنے کے بعد پاکستان کے متعدد حلقوں کی جانب سے یہ سمجھا جا رہا تھا کہ اب افغانستان سے پاکستان میں حملوں کا سلسلہ ختم ہو جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اگست 2022 کے بعد پاکستان میں دہشت گرد حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ دھشتگردی کےخلاف جنگ افواج پاکستان کے مثالی کردار کی دنیامعترف ہے راقم الحروف کےسگے بھائی مظہرعلی مبارک بھی راولپنڈی میں ٹارگٹ کلنگ میں دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بن کر شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے اور انسداددہشتگردی کی عدالت نے افغانستان میں تربیت حاصل کرکے فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلر کو نشان عبرت بنانے کے بجائے انہیں عدالتوں سے معمولی تیکنکی بیناد پر بےقصور کرکے عوام کے قتل عام کیلئے لائسنس ٹو کل عطا کردیا اب وہ پھر ملک دشمن سرگرمیوں پہلے سے زیادہ متحرک ہو چکے ہیں انسداد دہشتگردی عدالتوں کو بالکل بند کردیاگیا اور نیشنل ایکشن کو عضو معطل بنا دیاگیا نتیجہ یہ ہواکہ پاکستان میں کالعدم تنظمیں بھر سرگرم عمل ہیں میرا سوال زمہ داروں سے ہے کہ کیا امن وامان کیلئے صرف پاک فوج کو ہی قربانیاں دینا ہیں کیاآزاد عدلیہ اور دیگر کا فرض نہیں کہ سیکورٹی فورسز جن دہشت گردوں کو گرفتار کرکے قانون کے حوالے کرتی ہے انہیں تیکنکی بنیاد پر معاف نہیں کرنا چاہئے ورنہ وہ شمالی وزیرستان کی طرح منظم ہوکر دشمن قوتوں سے ملکر ہمیں نشانہ بناتے رہیں گے کیونکہ پہلے ہی سویلین شہداء کے لواحقین کا کوئی پرسان حال نہیں۔ فرقہ ورنہ دہشت گردی ہی پاکستان کے انسداد دہشتگردی ایکٹ میں دہشتگردی کی مکمل قسم ہے محکمہ ریسکیو 1122 میں تعینات شہید مظہرعلی مبارک کے لواحقین یہ سوال کرتے ہیں کہ ان کی تصویر کو باقی شہدا کے ساتھ کیوں نہیں لگایا جارہا کیا اس کے لئے بھی سیاسی سفارش کی ضرورت ہے جبکہ اپنی غفلت سے جان سے ہاتھ دھونے والے ھیروز ہیں سانحہ گکھڑپلازہ مثال کے طورپیش کررہاہوں خیال رے کہ دہشتگردی کا شکار افراد کے نام پرسیاستدانوں نے شہدا کے نام پر بیرون ممالک سے امداد حاصل کیں۔مگر آج ان خاندانوں کو پوچھنے والا کوئی نہیں ۔جو مارے گئے انہیں معلوم نہیں کیوں ناحق مارے گئے چند ماہ قبل راقم الحروف نے اے پی ایس کے شہدا کی فیملیز کے ہمراہ نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے باہر احتجاج ریکارڈکراتے ہوئے مطالبہ کیاتھاکہ امن دشمن قوتوں کو معاف کرنے کےبجائے انہیں انصاف کٹہرے میں لایا جائے اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستان میں انسداد دھشتگردی عدالتیں ختم کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ دھشتگردی ختم ہوگئی ھے مگر ایسا ہرگز نہیں۔ عدالتوں نے سیکورٹی ایجنسوں کی شبانہ روز کی محنت پر پانی پھیرتے ہوئے دہشتگردوں کو شک کافائدہ دے “قتل کرنےکا لائسنس”دےدیا دھشت گردی کے خلاف عدالتوں میں تاحال انصاف کے حصول کیلئے سرگرداں ہے مگر کوئی امید بر نظر نہیں آتی۔سرکاری حکومتی مشینری بھی اس مستعدی سے دھشتگردی کے کیسز میں موثر نظر نہیں آتی جس کا تقاضاکیاجاتاہے اور بطور مدعی مقدمہ تھانہ رتہ امرال مقدمہ نمبر582 سال 2013 تلخ تجربہ ہوچکاہے جہاں ناحق قتل ہونے والوں کےبجائے دھشتگردوں کی مالی معاونت کے لئے درجنوں سفید پوش سامنے آجاتےہیں خیال رہےکہ شمالی وزیرستان میں 2014 میں جب دہشت گردوں کے خلاف پاکستانی فوج نے آپریشن ضرب عضب شروع کیا ہے تحریک طالبان پاکستانی ریاست کے خلاف ماضی میں انتہائی طاقتور حملے کر چکی ہے۔ قریب دس سال قبل ٹی ٹی پی اتنی مضبوط تھی کہ ایک وقت میں اس تنظیم نے پاکستان کے قبائلی علاقوں کی قریب ساری ایجنسیوں میں اپنے آپ کو پھیلا لیا تھا۔پاکستانی فوج نےکئی سال جاری رہنے والے عسکری آپریشنز کے ذریعے اس تنظیم کا قلع قمع کیا۔ اس تنظیم کے پاس ایک مرتبہ پھر طاقت ور حملے کرنے کی صلاحیت تو نہیں ہے لیکن یہ اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔” دہشتگروں کے خلاف پاکستانی فوج کی کارروائی کو انسداد دہشت گردی کی کامیاب مہم تصور کیا جاتا ہے۔اعداد وشمارکے مطابق دھشت گردی کےخلاف جنگ میی 80ھزار شہری 10 ھزار سے ذائد فوجی افسران و جوان شہید ہوئے