ملکی سلامتی اور تحفظ کیلئے۔۔۔۔دفاعی بجٹ میں اضافہ ناگزیر

 
0
166

اندر کی بات ؛کالم نگار؛اصغرعلی مبارک

اسلام آباد 12 جون 2022 (ٹی این ایس): پاکستان کا دفاعی بجٹ ہمیشہ سے ایک حساس موضوع رہا ہے جس کے بارے میں بہت سی افواہیں زیر گردش رہتی ہیں۔پاکستان کے دفاع اور سلامتی کے ادراے مسلح افواج کے بجٹ میں مسلسل چوتھے سال بھی اضافہ نہیں کیا گیا. .مسلح افواج کے بجٹ میں اضافہ کیوں نہیں؟ ۔۔ملکی سلامتی اور تحفظ کیلئے دفاعی بجٹ میں اضافہ ناگزیر ہے؟ کسی بھی بات کو سمجھنے کے لئے اسے جاننا بہت ضروری ہے۔ جانیں گے نہیں تو سمجھیں گے نہیں۔ اور جب ہم جان لیتے ہیں تو ہمارے ادراک اور شعور کے بند دروازے کھل جاتے ہیں۔ یہی بنیادی اصول ایک صحافی کے لئے بھی بہت ضروری ہے۔ جاننا۔۔۔ ! تحقیق کرنا۔۔۔! اپنے شعور کے بند دروازے کھولنا اور دوسروں تک اس ادراک کو پہچاننا۔ آج جس اہم معاملے پر قلم اٹھایا ہے وہ ہے ’’پاکستان کا دفاعی بجٹ‘‘ یہ معاملہ جتنا اہم ہے اتنا ہی حساس ہے ۔ اور جتنا حساس ہے اتنا ہی غلط فہمی پر بھی مبنی ہے!.جب ہم کسی چیز کو جانتے نہیں تو اس کے بارے میں غلط اطلاع یا غلط تاثر پھیلا دیتے ہیں اور ایسا ہی کچھ معاملہ پاکستان کے دفاعی بجٹ کے متعلق بھی ہے۔ اغیار کی ریشہ دوانیاں اور پراپیگنڈہ تو ایک طرف اس پر آخر میں بات کروں گی‘ پہلے ان ’’اپنوں‘‘ کے لئے کچھ حقائق سامنے رکھونگا جو غلط فہمی یا تحقیق کی کمی کے باعث پاکستان کے دفاعی بجٹ پر انگلیاں اٹھاتے ہیں .حالانکہ پاکستان میں ایسے ادارے بھی ہیں جو سفید ھاتھی بن کر ملک کی معیشیت کا بیڑہ غرق کرنے پر تلے ہوئے ہیں بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ملک دشمن عناصر دانستہ یہ پروپیگنڈہ کرتے رہتے ہیں کہ پاکستان ایک سیکیورٹی اسٹیٹ بن گیا ہے اور اس کے سالانہ بجٹ کا ستر سے اسی فیصد فوج پر خرچ ہو جاتا ہے اور جس کے باعث عوام کی فلاح و بہبود اور ترقیاتی منصوبوں کے لئے وسائل دستیاب نہیں ہوتے۔.پاکستان کے دفاعی بجٹ کے بارے میں غلط فہمی ہے کہ یہ مکمل بجٹ کا 70 یا 80 فیصد حصہ لے جاتا ہے ایسا قطعاً نہیں . دراصل یہ ایک ایسا مغالطہ ہے جو کئی برسوں سے پورے تسلسل اور مہارت سے پھیلایا جا رہا ہے اور عام ذہنوں میں طرح طرح کے شکوک و شبہات پیدا کر رہا ہے۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع اس طرح کا ہے کہ اسے ہمہ وقت بے شمار چیلنجز درپیش رہتے ہیں جن میں پڑوسی ممالک کی سازشیں، ریشہ دوانیاں، لائن اف کنٹرول کی خلاف ورزیاں،سرحد پار دہشت گرد حملوں اور ففتھ جنریشن وار سمیت بےشمار اندرونی وبیرونی مسائل کا شامل ہیں، پاکستانی فوج اپنے قلیل بجٹ سےنہ صرف اپنے اپریٹنگ اورآپریشنل اخراجات پورے کرتی ہے بلکہ ملک کو درپیش اندرونی و بیرونی چیلنجز کامفابلہ کیا ہےیہ بھی واضح رہے کہ خطے میں پاکستان کا دفاعی بجٹ سب سے کم ہے۔ دنیا کے تمام ممالک کے دفاعی بجٹ پر بنی ہوئی ورلڈ بینک کی رپورٹ اٹھا کر دیکھ لیجئے۔ اندازہ ہو جائے گا کہ خطے میں پاکستان کا دفاعی بجٹ کیا ہے؟ پاکستان کے دفاعی بجٹ کے بارے میں غلط فہمی ہے کہ یہ مکمل بجٹ کا 70 یا 80 فیصد حصہ لے جاتا ہے ایسا قطعاً نہیں۔مشہور انگریزی ادیب الڈوس ہگزلے کہتا ہے:’’کچھ چیزیں ایسی ہیں جنہیں ہم جانتے ہیں اور کچھ چیزیں ایسی ہیں جنہیں ہم نہیں جانتے اور انہی کے درمیان ہمارے ادراک اور شعور کے بند دروازے پائے جاتے ہیں۔‘‘ 18ویں ترمیم کے بعد، تعلیم اور صحت کے بجٹ “صوبائی معاملہ” ہیں، جبکہ دفاعی بجٹ “وفاقی حکومت” کے تحت آتا ہے۔ وفاقی حکومت آئندہ مالی سال میں نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ (NFC) کے تحت اپنے ریونیو سے صوبوں 4.1 کھرب روپے منتقل کرے گی۔ یہ براہ راست منتقلی پچھلے سال کے بجٹ کی مختص رقم کے مقابلے میں 20.6 فیصد اور 960 ارب روپے زیادہ ہے- صوبائی حکومتیں اس فنڈ سے اپنی مرضی سے تعلیم اور صحت کے بجٹ میں اضافہ کرسکتی ہیں۔ اس کے برعکس دفاعی بجٹ کی ذمہ داری وفاق کے پاس ہے اور صوبائی حکومتیں اس میں کوئی حصہ نہیں ڈالتیں۔ تو دفاعی بجٹ صحت/تعلیم کے بجٹ سے کیسےزیادہ ہے؟ دفاعی بجٹ کو کم سے کم تک محدود رکھنے کے علاوہ، پاک فوج نے 2019 میں دفاعی بجٹ کی مختص رقم کو منجمد کرنے کا ایک بے مثال قدم بھی اٹھایا۔ مگر پھر بھی ضرورت کے مطابق نئے روایتی ہتھیاروں کو بھی شامل کر کے دشمن پر بھرپور حملے کی صلاحیتوں میں اضافہ بھی کیا.2021-22 کے لیے پاکستان کا دفاعی بجٹ 1370 ارب روپے تھا اور اس کے برعکس پاکستان کا صحت/تعلیم کا بجٹ مجموعی طور پر 1916.07 ارب روپے تھا۔ یعنی پاکستان کا کل تعلیمی بجٹ 1153.5 ارب روپے تھا جبکہ صحت کا بجٹ 762.57 ارب روپے تھا۔دفاعی بجٹ کو مزید بری، بحری، فضائی افواج اور انٹر سروسز آرگنائزیشنز میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ دفاعی بجٹ 2021-22 میں فوج کو 651.5 ارب روپے، پی اے ایف کو 291.2 ارب روپے، نیوی کو 148.7 ارب روپے اور انٹر سروسز آرگنائزیشنز کو 278.5 ارب روپے مختص کیے گئے۔پچھلی دو دہائیوں سے پاکستان کے دفاعی بجٹ میں مسلسل کٹوتی کی جارہی ہے۔ باوجود اس حقیقت کے کہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے پاکستان اگلے محاذوں پر دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہےجس کے آپریشنل اخراجات کا اندازہ اس کی کامیابیوں کے تناسب سے لگایا جاسکتا ہے۔یہاں واضح کرنا بھی ضرور ی ہے کہ80 کی دہائی کے آخر تک پاکستان اپنے جی ڈی پی(یا مجموعی ملکی پیداوار) کا 7 فیصد دفاع پر خرچ کرتا تھا جو 90 اور 2000 کی دہائی میں کم کرکے 3.9 فیصد کردیا گیا اور مالی سال 2014 – 15 کے لئے تو دفاعی بجٹ کو مزید کم کرکے 2.4 فیصد کردیا گیا۔ واضح رہے کہ خطے میں پاکستان کا دفاعی بجٹ سب سے کم ہے۔ دنیا کے تمام ممالک کے دفاعی بجٹ پر بنی ہوئی ورلڈ بینک کی رپورٹ اٹھا کر دیکھ لیجئے۔ اندازہ ہو جائے گا کہ خطے میں پاکستان کا دفاعی بجٹ کیا ہے؟ ورلڈ بینک کی یہ رپورٹ جی ڈی پی کے حساب سے ملکوں کے دفاعی بجٹ کا فیصد بتاتی ہےدشمن کا بڑھتا ہوا دفاعی بجٹ افواجِ پاکستان کیلئے ہمشیہ سے چیلنج رہا ہے۔لیکن اس کے باوجودہمشیہ افواجِ پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔یاد رہے کہ پچھلے دو سالوں میں آرمی نے اپنے بجٹ میں کوئی اضافہ نہیں لیا ہے۔۔ اتنے بڑے خطرات کو موجودگی میں GDPکا صرف2فیصد دفاعی بجٹ ہے۔۔ ہندوستان کا دفاعی بجٹ 70بلین ڈالر جبکہ پاکستان کا دفاعی بجٹ11بلین ڈالر ہے۔ دیگر ممالک کا ڈیفنس بجٹ کتنا ہے؟ سعودی عرب کا ڈیفنس بجٹ 55.6بلین ڈالر، چائنہ کا ڈیفنس بجٹ293بلین ڈالر، ایران کا ڈیفنس بجٹ24.6بلین ڈالر،UAE کا ڈیفنس بجٹ22.5بلین ڈالراورترکی کا ڈیفنس بجٹ 20.7بلین ڈالر ہے۔ 2021 / 22کا دِفاعی بجٹ قومی بجٹ کا 16فیصدہے۔ اسی میں سے 7فیصد پاکستان آرمی جبکہ باقی نیوی اور ائیر فورس کے حصے میں آتا ہے۔۔ پچھلے کئی سالوں سے انفلیشن کی وجہ سے عملاََ پاکستان کا دفاعی بجٹ کم ہوا ہے۔2020 / 21میں بھی پاک افواج کی تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں ہو ا۔ دوسری جانب ہمسایہ مگر ازلی ومکار دشمن ملک بھارت پہلے ہی دنیا میں ہتھیاروں کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ بھارت کے بڑھتے ہوئے جنگی جنون اور اسرائیل کے ساتھ بڑھتے ہوئے دفاعی معاہدوں کی بنیاد پر ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کو بھی اپنا دفاعی بجٹ اس سال بڑھانے کی ضرورت ہےحقائق کا بغور جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ پاکستان کے عسکری اداروں کے بارے میں کس قدر پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ یہ پروپیگنڈا غیر کریں تو سمجھ میں آتا ہے، لیکن جب اپنے زہریلے پروپیگنڈا کا حصہ بنتے ہیں تو اس سے فوج کے خلاف منفی جذبات بھی جنم لیتے ہیں جو ملکی سالمیت کےلیے زہر قاتل ہے۔مشکل حالات میں جب ملک کو اندرونی اور بیرونی سطح پر بہت سے چیلنجوں کا سامنا ہے، اپنی فوج پر غیر ضروری تنقید کے بجائے ان کے شانہ بشانہ لڑتے ہوئے دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنائیں۔مشکل حالات میں جب ملک کو اندرونی اور بیرونی سطح پر بہت سے چیلنجوں کا سامنا ہے، اپنی فوج پر غیر ضروری تنقید کے بجائے ان کے شانہ بشانہ لڑتے ہوئے دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنائیں۔۔مالی سال 2018-2019 کے لیے کل 5932 ارب روپے مختص کیے گئے تھے جب کہ دفاع کےلیے 1100 ارب روپے رکھے گئے جو کل بجٹ کا 18.54 فیصد بنتا ہے۔مالی سال 2019-2020 کا کل بجٹ 7022 ارب روپے تھا جس میں دفاع کے لئے کل 1150 ارب مختص کیا گیا جو کل بجٹ کا 16.37 فیصد بنتا ہے۔سال 2020-2021 کا کل بجٹ 7136 ارب روپے تھا جس میں دفاع کے لئے کل 1290 ارب روپے رکھے گئے تھے جو کل بجٹ کا 18 فیصد بنتا ہے۔مالی سال 2021-2022 کا کل بجٹ 8487 ارب روپے تھا جس میں دفاع کے لئے 1373 ارب روپے مختص کیا گیا جو کل بجٹ کا 16.17 فیصد بنتا ہے جس میں سے ملازمین کے اخراجات کیلئے 481.592 ارب روپے، عملی اخراجات کیلئے 327.136 ارب روپے، مادی اثاثہ جات کیلئے 391.499 ارب روپے اور تعمیرات عامہ کیلئے 169.773 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔2018ءکے بعدکولیشن سپورٹ فنڈ کی بندش کے باوجود دِفاعی اور سیکورٹی کی ضروریات کو ملکی وسائل سے ہی پورا کیا گیا۔پاکستان اپنے ایک فوجی پر دنیا میں کم ترین سالانہ 12500 ڈالر خرچ کرتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں انڈیا 42000 ڈالر خرچ کرتا ہے امریکہ اپنے ایک فوجی پر سالانہ 392,000 ڈالر جبکہ سعودی عرب371,000 ڈالر خرچ کرتا ہے.فوج میں سپاہی کی تنخواہ 20 ہزار سے شروع ہوتی ہے جو وقت اور رینک کے ساتھ بڑھتی رہتی ہے جبکہ اسے کھانا، رہائش اورمیڈیکل مفت فراہم کیا جاتا ہے جب کہ گریڈ 17 کا ملازم جو سیکنڈ لیفٹینٹ سے کیپٹن تک ہوتا ہے اُس کی تنخواہ جو اکاؤنٹ میں آتی ہے وہ 70 سے 75 ہزار تک ہوتی ہے گھر کا کرایہ تنخواہ میں سے کٹ جاتا ہے اس کے علاوہ ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی میں پلاٹ کی مد میں مخصوص رقم بھی تنخواہ سے ہی کٹتی ہے نیز اسے اپنے یوٹیلٹی بلز بھی تنخواہ سے ہی ادا کرنے پڑتے ہیں جب کہ گریڈ 18 کے افسر کی کل تنخواہ 80 سے 85 ہزار تک ہوتی ہے۔دفاعی بجٹ کو کم سے کم تک محدود رکھنے کے علاوہ، پاک فوج نے 2019 میں دفاعی بجٹ کی مختص رقم کو منجمد کرنے کا ایک بے مثال قدم بھی اٹھایا۔ مگر پھر بھی ضرورت کے مطابق نئے روایتی ہتھیاروں کو بھی شامل کر کیدشمن پر بھرپور حملے کی صلاحیتوں میں بھی اضافہ کیا ہے۔ سائبر وارفیئر کی صلاحیتیں، اور میزائل اور جوہری ٹیکنالوجی میں جدید ترین پیش رفت کی گئیں۔دنیا میں سب سے کم دفاعی بجٹ رکھنے کے باوجود پاکستان آرمی دنیا کی واحد فوج ہے جس نے دہشت گردی کی لعنت کو کامیابی سے شکست دی ہے اور اپنے پیشہ ورانہ معیار پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں ہونے دیا۔ اسی 2 فیصد GDPکے اندر پاکستان کی مسلح افواج نے پاکستان کے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنایا اور اسی بجٹ سے مغربی بارڈر کے دفاع کو فینسنگ اور بارڈر فورٹس تعمیر کرکے مضبوط بنایا ہے, بھارت پہلے ہی دنیا میں ہتھیاروں کا سب سے بڑا خریدار ہے بھارت نے 6 ارب ڈالر ہتھیاروں کی خریداری پر خرچ کئے۔ بھارت کے بڑھتے ہوئے جنگی جنون اور اسرائیل کے ساتھ بڑھتے ہوئے دفاعی معاہدوں کی بنیاد پر ضرورت اس بات کی ہے کہ اس بحث کو فروغ دیا جائے کہ آیا پاکسان کو بھی اپنا دفاعی بجٹ اس سال بڑھانے کی ضرورت ہے یا نہیں؟؟ بحث میں اس حقیقت کو مدِ نظر رکھنا ہوگا کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف کئی آپریشنز بھی چل رہے ہیں جو اپنی کامیابی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ان آپریشنز کی کامیابی کی رفتار پر اختلاف یا بحث ہو سکتی ہے لیکن پاکستان میں کسی بھی شخص کو اس بات سے اختلاف نہیں کہ ان آپریشنز کو ہر حال میں کامیاب بنانا ہے لیکن اس کے ساتھ تعلیم‘ صحت اور ترقیاتی اخراجات میں بھی مناسب اضافہ کیا جائے گا اور اس اضافے کے درست اور شفاف استعمال کو بھی یقینی بنایا جائے گا تاکہ اس کی آڑ میں ملک کے دفاعی بجٹ کے متعلق غلط فہمی کو ہوا نہ دی جاسکے۔اس سال، بجٹ 2022-23 میں، دفاعی بجٹ میں اضافہ نہیں کیا گیا ہے جبکہ تعلیم/صحت کے بجٹ کو بڑا حصہ ملے گا۔ 18ویں ترمیم کے بعد، تعلیم اور صحت کے بجٹ “صوبائی معاملہ” ہیں، جبکہ دفاعی بجٹ “وفاقی حکومت” کے تحت آتا ہے۔ وفاقی حکومت آئندہ مالی سال میں نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ (NFC) کے تحت اپنے ریونیو سے صوبوں 4.1 کھرب روپے منتقل کرے گی۔ یہ براہ راست منتقلی پچھلے سال کے بجٹ کی مختص رقم کے مقابلے میں 20.6 فیصد اور 960 ارب روپے زیادہ ہے- صوبائی حکومتیں اس فنڈ سے اپنی مرضی سے تعلیم اور صحت کے بجٹ میں اضافہ کرسکتی ہیں۔ اس کے برعکس دفاعی بجٹ کی ذمہ داری وفاق کے پاس ہے اور صوبائی حکومتیں اس میں کوئی حصہ نہیں ڈالتیں۔ آئندہ مالی سال کے دفاعی بجٹ میں اضافہ ناگزیر ہے۔ اس اضافے کی مقدار کیا ہونی چاہئے‘ اس پر بحث لازم ہے اور حتمی فیصلہ قومی اسمبلی میں ہو.خیال رہے کہ ملکی دفاع کیلئے ایک ہزار 523 ارب روپے مختص کیےگیے ہیں۔تاھم سادگی۔قناعت ,کفایت شعاری کی روشن مثال قائم کرتےھوئےمسلسل تیسرے سال بجٹ میں اضافہ نہیں کرایاجبکہ گزشتہ سال ساڑھے تین ارب روپے قومی خزانے میں واپس جمع کرادیئے مسلح افواج نے معیشت کے استحکام کیلئے ایک بار پھر بڑا فیصلہ کرتے ہوئے دستیاب وسائل میں دفاع اور سلامتی یقینی بنانے کا عزم ظاہر کیا ھے۔ بلکہ مسلح افواج نے یوٹیلٹی بلز کی مد میں اپنے اخراجات کو مزید محدود کردیئےہیں ۔اس مالی سال بھی مسلح افواج نے کسی اضافی فنڈ کا مطالبہ نہیں کیا، مسلح افواج نے یوٹیلٹی بلز کی مد میں بھی اپنے اخراجات کو مزید محدود کردیا۔مسلح افواج نے ڈیزل اور پیٹرول کی خصوصی بچت کیلئے بھی اقدامات کرلئے، جمعہ کو پوری فوج میں ڈرائی ڈے ہوگا، کوئی سرکاری ٹرانسپورٹ نہیں چلے گی۔مسلح افواج نے بڑی تربیتی مشقوں کے بجائے کنٹونمنٹس کے قریب چھوٹے پیمانے پر ٹریننگ کا فیصلہ کیا ہے، کانفرنسز اور دیگر اہم امور کیلئے آن لائن کام کیا جائے گا جبکہ عسکری ساز و سامان کی خریداری کیلئے مقامی کرنسی کا استعمال ہوگا۔مسلح افواج نے کرونا کی مَد میں الاٹ رقم میں سے 6 ارب روپے بچاکر حکومت کو واپس کئے گئے، عسکری ساز و سامان کیلئے الاٹ رقم سے تقریباَ ساڑھے 3 ارب روپے واپس جمع کرائے گئے۔ رواں سال دفاعی بجٹ قومی بجٹ کا صرف 16 فیصد ہے،