شیریں مزاری کی گرفتاری پر امان مزاری کی فوج کوگالیاں، قانون حرکت میں آئے گا یا خاموشی رہےگی؟

 
0
175

اندر کی بات ؛کالم نگار؛اصغرعلی مبارک

اسلام آباد 21 مئی 2022 (ٹی این ایس): سابق وفاقی وزیر شیریں مزاری کی گرفتاری پر ان کی بیٹی ایمان مزاری نے رد عمل کا اظہار کیا ۔ شیریں مزاری کی گرفتاری پرایمان نے فوج کوگالیاںدیںسوشل میڈیاپر ایمان مزاری نام لیکر آرمی چیف اور فوج کے ادارے کیخلاف بغیر تحقیق کے گندی اور غلیظ زبان استمعال کرتے ہوئے یہاں تک کہاکہ یہ کارروائی حکومت کی نہیں بلکہ فوجی ادارے کی ھے ….. ایمان مزاری نے رد عمل انکا کہنا تھا کہ.مرد پولیس اہلکار میری ماں کو مارتے ہوئے لے گئے: ایمان مزاری کا بیان تھاجبکہ ڈان ٹی وی کی رپورٹ اور فوٹیج میں سب الزاماٹ جھوٹ اور غلط ثابت ہوئے۔۔آخر اس الزام تراشی اور حساس ادارے کے سربراہ کوگالیاں دینےپر قانون حرکت میں آئے گا یا محض تماشائی بن کر اداروں کو بے توقیر کرنے پر بھی خاموشی رہےگی؟سوشل میڈیاپر ایمان مزاری نام لیکر آرمی چیف اور فوج کے ادارے کیخلاف بغیر تحقیق کے گندی اور غلیظ زبان استمعال کرتے ہوئے یہاں تک کہاکہ یہ کارروائی حکومت کی نہیں بلکہ فوجی ادارے کی ھےان کی گرفتاری کی دستیاب فوٹیج میں، جسے نشریاتی اداروں نے نشر کیا، مزاری کو خواتین پولیس اہلکاروں کے ذریعے گاڑی سے باہر گھسیٹتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے جب کہ انہیں احتجاج کرتے ہوئے سنا جا سکتا ہے: “نہیں، مجھے ہاتھ مت لگاؤ۔” فوٹیج میں نامعلوم آوازوں کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ “کوئی مسئلہ نہیں ہے” اور اس معاملے پر “پرامن طریقے سے” بات کی جا سکتی ہے۔ اسلام آباد پولیس کے مطابق ڈاکٹر شیریں مزاری کو محکمہ اینٹی کرپشن کی درخواست پر خاتون پولیس اہلکاروں نے قانون کے مطابق گرفتار کیا۔ کسی قسم کی غلط فہمی کی خبریں بے بنیاد ہیں۔مزاری کے خلاف 11 اپریل کو اینٹی کرپشن یونٹ کی جانب سے ڈیرہ غازی خان میں درج مقدمے کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہشیریں مزاری کو اپنے والد عاشق محمد خان سے وراثت میں زمین ملی تھی۔ روجھان میں اس زمین میں سےشیریں مزاری نے 800 کنال “جعلسازی” کے ذریعے پروگریسو فارم لمیٹڈ کو منتقل کی۔ایف آئی آر میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اسسٹنٹ کمشنر روجھان کے مطابق محکمہ ریونیو کے ریکارڈ میں ان کمپنیوں کا کوئی سراغ نہیں تھا اور اس لیے یہ کمپنیاں بوگس ہیں۔ ایف آئی آر میں مزاری پر الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے مقامی اراضی حکام کے ساتھ مل کر ’جعلی‘ زمین کی منتقلی کی سازش کی۔ شیریں مزاری کی گرفتاری کے وقت کے مناظرمیں اینٹی کرپشن پنجاب کی ٹیم نے سابق وفاقی وزیر کو کوہسار تھانے کی حدود سے گرفتار کیا اور اس حوالے سے شیریں مزاری کی بیٹی ایمان زینب مزاری نے الزام عائد کیا تھا کہ ان کی والدہ کو مرد اہلکاروں نے مارا پیٹا اور مارتے ہوئے ساتھ لے گئے۔ اسلام آباد میں پولیس مانیٹرنگ سسٹم کے مطابق صبح نو بجے ڈیرہ غازی خان سے اینٹی کرپشن کی ٹیم شیریں مزاری کو گرفتار کرنے پہنچی تھی۔ ڈپٹی ڈائریکٹر انویسٹی گیشن اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ اے ایس آئی فریال احمد نے اسلام آباد کے تھانہ کوہسار میں مقدمہ نمبر 5/22 کے تحت شیریں مزاری کی گرفتاری کے لیے اسلام آباد پولیس کی مدد طلب کی۔گرفتاری کے بعد یہ ٹیم مقامی عدالت سے راہداری ریمانڈ لے کر اُنھیں ڈی جی خان لے جانے لگی۔ ستاون سیکنڈز کی ایک ویڈیو جس میں پاکستان تحریک انصاف کی رہنما شیریں مزاری اسلام آباد میں خواتین پولیس اہلکاروں سے گفتگو کرتے ہوئے سوال کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ ’تم کون ہو مجھے گرفتار کرنے والے۔۔۔۔ نہیں مجھے ہاتھ مت لگاؤ۔۔۔ میرا فون مت لو۔۔۔‘
جواب میں وہاں موجود خاتون پولیس اہلکار جو انھیں شاید گاڑی سے باہر لانا چاہتی ہیں انھیں کہتی ہیں ’ریلیکس‘ اور پھر ایک مرد پولیس اہلکار کہتا ہے ’میڈیم آپ باہر آ جائیں کوئی ایشو نہیں۔ ہم بات کر سکتے ہیں‘ جس پر شیریں مزاری کہتی ہیں کیوں؟

اور پھر وہ باہر نکل آتی ہیں اور پھر سنائی دیتا ہے ’لے آئیں لے آئیں‘ اور فوٹیج میں خواتین اہلکار انھیں دائیں بائیں سے پکڑ کر دوسری جانب لے جاتی ہیں۔ شیریں مزاری کی گرفتاری کے وقت کی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ شیریں مزاری کو اسلام آباد پولیس کی خواتین پولیس اہلکار گاڑی سے باہر نکال رہی ہیں۔اس موقع پر شیریں مزاری کی جانب سے تھوڑی سی مزاحمت کی گئی تاہم خواتین پولیس اہلکاروں نے شیریں مزاری کو زبردستی گاڑی سے نکالا اور انہیں دوسری گاڑی میں بٹھا کر ساتھ لے گئے۔ان کے خلاف تحقیقات اس وقت شروع کی گئیں جب عثمان حزدار وزیراعلیٰ تھے مقدمے کی بنیاد محکمہ اینٹی کرپشن کی ایک رپورٹ ہے جس میں شیریں مزاری کو 800 کنال اراضی غیر قانونی طریقے سے ایک ایسی کمپنی کو منتقل کرنے کا ملزم ٹھہرایا گیا ہے جو مبینہ طور پر وجود نہیں رکھتی۔یہ مقدمہ جو 11 اپریل کو درج کیا گیا تھا، دراصل موضع کچہ میانوالی 2 روجھان کی جمع بندی برائے سال 1971-72 کے حوالے سے ہےدستاویز کے مطابق اس پر اسسٹنٹ کمشنر روجھان نے ایک تحقیقاتی رپورٹ جمع کروائی جس کی روشنی میں 11 اپریل کو دو پٹواریوں سمیت شیریں مزاری اور دیگر ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔شیریں مزاری کی گرفتاری کی خبر فوراً ہی مقامی میڈیا اور سوشل میڈیا پر آ گئی اور ان کی بیٹی اور انسانی حقوق کی کارکن ایمان مزاری نے والدہ کی گرفتاری پر ردعمل دیتے ہوئے ٹویٹ کی کہ ’مرد پولیس افسران نے ان کی والدہ پر تشدد کیا اور انھیں گھر سے حراست میں لے کر چلے گئے۔‘شیریں مزاری کی گرفتاری کے فوراً بعد پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے اسلام آباد کے تھانہ کوہسار کا رخ کیا اور پارٹی کے تمام کارکنوں کو تھانہ کوہسار پہنچنے کی ہدایات کر دی۔تھانہ کوہسار کے باہر پاکستان تحریک انصاف کے دیگر رہنماؤں کے ہمراہ میڈیا پر اپنی والدہ شیریں مزاری کی گرفتاری کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میری والدہ کو غیر آئینی اور غیر قانونی طریقے سے اغوا کیا گیا۔‘اُنھوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ اپنی والدہ کی حراست کے لیے گرفتاری کا لفظ استعمال نہیں کریں گی کیونکہ گرفتاری کی صورت میں گھر والوں کو بتایا جاتا ہے کہ اس شخص کا کیا جرم ہے۔‘ اُنھوں نے کہا کہ ابھی تک اُنھیں نہیں پتا کہ اُن کی والدہ کہاں ہیں۔ ایمان مزاری نے کہا کہ اُنھیں جبراً لاپتہ کیا گیا ہے۔’مجھے صرف اتنا معلوم ہے کہ غنڈوں کی طرح ایک عورت کو آج اٹھایا گیا ہے نہ اس کے خاندان کو کچھ بتایا گیا ہے نہ کچھ اور۔۔ تو یہ اگر حکومت نے ایسا کام کیا ہے تو میں اس حکومت کے پیچھے آؤں گی میں انھیں وارننگ دیتی ہوں اگر انھیں کچھ ہوا تو میں حکومت کو نہیں چھوڑوں گی۔‘وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے تحریک انصاف کی رہنما شیریں مزاری کی گرفتاری پر ان کی فوری رہائی کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ ’شیریں مزاری بطور خاتون قابل احترام ہیں، ان کی رہائی کا حکم دے دیا۔‘ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی خاتون کی گرفتاری معاشرتی اقدار سے مطابقت نہیں رکھتی۔ اُنھوں نے کہا کہ شیریں مزاری کو گرفتارکرنے والے اینٹی کرپشن عملے کے خلاف تحقیقات ہونی چاہییں۔ ان کا کہنا تھا کہ تفتیش اور تحقیقات میں گرفتاری ناگزیر ہے تو قانون اپنا راستہ خود بنا لے گا۔اُنھوں نے کہا کہ وہ شیریں مزاری کی گرفتاری کے عمل سے اتفاق نہیں کرتے اور مسلم لیگ (ن) بحیثیت سیاسی جماعت خواتین کے احترام پر یقین رکھتی ہے۔شیریں مزاری کی بیٹی اور وکیل ایمان مزاری نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپنی والدہ کی پولیس گرفتاری سے متعلق ایک درخواست بھی دائر کی۔ جس میں مؤقف اپنایا گیا کہ ان کی والدہ کو اسلام آباد پولیس نے گرفتار کیا جس کے بعد پنجاب پولیس نے انھیں غیر قانونی طور پر ’لاپتہ‘ کیا۔اس درخواست میں کہا گیا کہ ’میری والدہ اس وقت قومی اسمبلی کی رکن ہیں اور قانون کے مطابق سپیکر کی اجازت کے بغیر انھیں گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔ میری والدہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی ناقد ہیں، دن کے اجالے میں والدہ کو اٹھایا گیا اور فیملی ممبرز کو اس متعلق کوئی معلومات بھی فراہم نہیں کی جا رہیں، درخواست گزار کی والدہ کو وفاقی دارالحکومت سے اٹھایا گیا اور قانونی تقاضے بھی پورے نہیں کیے گئے۔‘شیریں مزاری کی بیٹی ایڈووکیٹ ایمان مزاری کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے سیکریٹری داخلہ کو حکم دیا ہے کہ وہ شیریں مزاری کو سنیچر کی شب ساڑھے 11 بجے عدالت کے روبرو پیش کریں۔شیریں مہرالنسا مزاری نے سنہ 2013 میں پہلی بار قومی اسمبلی میں خواتین کی مخصوص نشست حاصل کی۔ اس سے قبل وہ شعبہ تدریس اور صحافت سے منسلک تھیں۔انھوں نے سنہ 2008 میں پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی۔ وہ انگریزی اخبار دی نیشن کی مدیر اعلیٰ بھی رہیں۔ اس کے علاوہ سرکاری ٹی وی پر 90 کی دہائی میں اور پھر سنہ 2008 کے بعد انھیں پروگرام اینکر کے طور پر کام کرنے کا موقع بھی ملا۔وہ ملک کے معروف تعلیمی ادارے قائد اعظم یونیورسٹی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر کے عہدے پر کام کرتی رہیں اور بعد میں یونیورسٹی کے ڈیفینس اینڈ سٹریٹیجک ڈیپارٹمنٹ میں چیئرپرسن بھی رہیں۔وہ پی ٹی آئی کی انفارمیشن سیکریٹری اور ترجمان کی حیثیت سے کام کرتی رہی ہیں تاہم ایسا موقع بھی آیا جب ایک بار انھوں نے پارٹی سے استعفیٰ بھی دیا۔ لیکن بعد میں پھر پارٹی میں شامل ہو گئیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت میں انھیں وزیر برائے انسانی حقوق کا قلمدان سونپا گیا۔ مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے شریں مزاری کی گرفتاری پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’مجھے شیریں مزاری کی گرفتاری پر خوشی نہیں ہوئی۔‘
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’ان پر یہ مقدمہ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی حکومت میں قائم ہوا، 800 کنال کی اراضی جو حکومت کی ہے محکمہ مال کی ہے میں کرپشن کی گئی ہے۔‘ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رہنما اور سابق وزیرانسانی حقوق شیریں مزاری کی گرفتاری کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی جبکہ عدالت نے انہیں رات تک پیش کرنے کا حکم دے دیا۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم نامے میں کہا کہ یہ احکامات پہلے سے موجود ہیں کہ کسی بھی رکن قومی اسمبلی کو اسپیکر کی اجازت کے بغیر گرفتار نہیں کیا جاسکتا اور شیریں مزاری اس وقت رکن قومی اسمبلی ہیں اور انہیں نشست سے ڈی نوٹیفائی نہیں کیا گیا تو پھر کس اختیار کے تحت شیریں مزاری کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی۔

عدالت نے سیکریٹری داخلہ، ڈپٹی کمشنر اور آئی جی اسلام آباد کو بھی پیش ہونے کا حکم دیا جبکہ اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کو بھی نوٹسز جاری کر دیے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ پیش ہو کر بتائیں کہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کیوں کی گئی۔شیریں مزاری کی بیٹی ایمان زینب مزاری نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی اور چیف جسٹس اسلام آبادہائی کورٹ کو گھر پر فوری نوعیت کی درخواست سے آگاہ کیا گیا تھا۔ ایمان زینب مزاری نے درخواست میں مؤقف اپنایا کہ میری والدہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی ناقد ہیں۔نہوں نے کہا کہ دن کے اجالے میں والدہ کو اٹھایا گیا اور اہل خانہ کو اس متعلق کوئی معلومات بھی فراہم نہیں کی جا رہی ہیں، والدہ کو وفاقی دارالحکومت سے اٹھایا گیا اور قانونی تقاضے بھی پورے نہیں کیے گئے۔ایمان زینب مزاری نے شیریں مزاری کو عدالت میں پیش کرنے کی درخواست کی اور درخواست میں سیکریٹری داخلہ، آئی جی اسلام آباد اور ایس ایچ او تھانہ کوہسار کو فریق بنایا۔درخواست میں مؤقف اپنایا کہ والدہ کو زبردستی اٹھائے جانے کی اطلاع پر قریبی پولیس اسٹیشن کوہسار پہنچے تو کسی ایف آئی آر کی معلومات نہیں دی گئیں۔