اسلام آباد ہائی کورٹ کا شیریں مزاری کی رہائی کا حکم

 
0
128

اسلام آباد 21 مئی 2022 (ٹی این ایس): اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رہنما اور سابق وزیرانسانی حقوق شیریں مزاری کو رہا کرنے اور حکومت کو ان کی گرفتاری کے حوالے سے عدالتی تحقیقات کا حکم دے دیا۔اسلام آباد آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے شیریں مزاری کی بیٹی ایمان زینب مزاری کی درخواست پر انہیں رات ساڑھے 11 بجے پیش کرنے کا حکم دیا اور وقت پر سماعت کی۔شیریں مزاری نے عدالت کو بتایا کہ ‘مجھے موٹر وے پر ایک گھنٹے تک روکے رکھا گیا، ایک مرد ڈاکٹر نے میرے طبی معائنے کی کوشش کی، ان کے ساتھ کوئی خاتون ڈاکٹر نہیں تھی’۔ان کا کہنا تھا کہ ‘اینٹی کرپشن پنجاب کے افسران فون پر ہدایات لے رہے تھے، میرا بیگ کی وارنٹ کے بغیر تلاشی لی گئی اور تاحال میرا فون واپس نہیں کیا گیا’۔انہوں نے کہا کہ ‘اینٹی کرپشن عہدیداروں کے ساتھ ایک اور آدمی بھی تھا اور ممکنہ طور پر آئی ایس آئی کے ساتھ تھا’۔سماعت کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ نے حکم دیا کہ حکومت نے جبری گمشدیوں پر کوئی کارروائی نہیں کی۔ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ واقعات اس وقت پیش آتے ہیں جب آئین کا احترام نہیں ہوتا، ہر حکومت نے آئین کی خلاف ورزی کے لیے افسوس ناک رویہ اپنایا’۔ شیریں مزاری نے چیف جسٹ اطہر من اللہ کو بتایا کہ وہ 70 سال کی ہیں اور بیمار ہیں لیکن اس کے باوجود تشدد کیا گیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ ‘یہ عدالت انصاف کی فراہمی میں سمجھوتہ نہیں کرے گی، مطیع اللہ جان کے اغوا کی تاحال تفتیش نہیں کی گئی’۔اس موقع پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ ‘ہم 24 گھنٹے کام نہیں کرسکتے، مطیع اللہ جان کا کیس جاری ہے اور جلد ہی اس کی تفتیش مکمل کریں گے’۔چیف جسٹس نے حیرت کا اظہار کیا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ شیریں مزاری کی گرفتاری کے بارے میں کوئی نہیں جانتا۔انہوں نے اسلام آباد پولیس کے نئے انسپکٹرجنرل (آئی جی) ڈاکٹر اکبر ناصر خان کو یاد دہانی کروائی کہ ادارے کا سربراہ ذمہ دار ہوتا ہے، ‘ہمیں بتائیں کہ شیریں مزاری کیس کی تفتیش کب تک مکمل کریں گے’۔اسلام آباد پولیس کے سربراہ نے جواب دیا کہ ‘میں ذمہ داری ابھی سنبھالی ہے، یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب میں چارج لے رہا تھا’۔ایڈووکیٹ جنرل نے رات گئے عدالت کے دروازے کھولنے پر عدالت کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ‘سیاسی جماعتیں اب تسلیم کریں گی کہ عدالت آئین کی حفاظت کے لیے رات کو بھی موجود ہے’۔شیریں مزاری کی بیٹی نے عدالت سے استدعا کی کہ واقعے کی عدالتی تحقیقات کا حکم دیں اور چیف جسٹس نے حکم دیا کہ شیریں مزاری کو رہا کردیا جائے اور اس کی تحقیقات کی جائیں۔اسلام آباد ہائی کورٹ میں شیریں مزاری کی گرفتاری کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران عدالت میں سیکورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے اور کسی بھی غیر متعلقہ شخص کو احاطہ عدالت میں داخلے کی اجازت نہیں تھی۔

عدالت کے حکم پر اٹارنی جنرل اشتر اوصاف، آئی جی اسلام آباد، ایڈووکیٹ جنرل سیکریٹری داخلہ یوسف نسیم کھوکھر اور ڈی سی اسلام آباد بھی اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچے۔پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری، فیصل چوہدری، اور فرخ حبیب سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچے۔اس سے قبل چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہرمن اللہ نے شیریں مزاری کی گرفتاری کے خلاف ان کی بیٹی ایمان زینب مزاری کی جانب سے دائر کی گئی درخواست پر سماعت کی تھی۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے تین صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامے میں شیریں مزاری کو آج رات ساڑھے گیارہ بجے عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم نامے میں کہا کہ یہ احکامات پہلے سے موجود ہیں کہ کسی بھی رکن قومی اسمبلی کو اسپیکر کی اجازت کے بغیر گرفتار نہیں کیا جاسکتا اور شیریں مزاری اس وقت رکن قومی اسمبلی ہیں اور انہیں نشست سے ڈی نوٹیفائی نہیں کیا گیا تو پھر کس اختیار کے تحت شیریں مزاری کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی۔

عدالت نے سیکریٹری داخلہ، ڈپٹی کمشنر اور آئی جی اسلام آباد کو بھی پیش ہونے کا حکم دیا جبکہ اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کو بھی نوٹسز جاری کر دیے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ پیش ہو کر بتائیں کہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کیوں کی گئی۔

شیریں مزاری کی بیٹی ایمان زینب مزاری نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی اور چیف جسٹس اسلام آبادہائی کورٹ کو گھر پر فوری نوعیت کی درخواست سے آگاہ کیا گیا تھا۔

ایمان زینب مزاری نے درخواست میں مؤقف اپنایا کہ میری والدہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی ناقد ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دن کے اجالے میں والدہ کو اٹھایا گیا اور اہل خانہ کو اس متعلق کوئی معلومات بھی فراہم نہیں کی جا رہی ہیں، والدہ کو وفاقی دارالحکومت سے اٹھایا گیا اور قانونی تقاضے بھی پورے نہیں کیے گئے۔

ایمان زینب مزاری نے شیریں مزاری کو عدالت میں پیش کرنے کی درخواست کی اور درخواست میں سیکریٹری داخلہ، آئی جی اسلام آباد اور ایس ایچ او تھانہ کوہسار کو فریق بنایا۔

درخواست میں مؤقف اپنایا کہ والدہ کو زبردستی اٹھائے جانے کی اطلاع پر قریبی پولیس اسٹیشن کوہسار پہنچے تو کسی ایف آئی آر کی معلومات نہیں دی گئیں۔پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان میں اینٹی کرپشن یونٹ کی جانب سے 11 اپریل کو شیریں مزری کے خلاف درج کی گئی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) میں کہا گیا ہے کہ شیریں مزاری نے اپنے والد عاشق محمد خان سے وراثت میں زمین ملی۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ شیریں مزاری نے روجھان میں مذکورہ زمین سے پروگریسو فارم لمیٹڈ کو ‘جعل سازی’ کرتے ہوئے 800 کنال منتقل کیا۔

دعویٰ کیا گیا ہے کہ اسسٹنٹ کمشنر روجھان کے مطابق محکمہ ریونیو کے ریکارڈ میں ان کمپنیوں کا سراغ نہیں ملا اور لہٰذا ‘یہ کمپنیاں بوگس تھیں’۔

ایف آئی آر میں بتایا گیا کہ شیریں مزاری پر الزام ہے کہ انہوں نے زمین کی ‘جعلی’ منتقلی کے لیے مقامی لینڈ اتھارٹیز سے مل کر سازش کی۔

خیال رہے کہ اسلام آباد پولیس کی جانب سے شیریں مزاری کی گرفتاری پر پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان سمیت دیگر سیاست دانوں اور صحافیوں کی جانب سے شدید مذمت کی گئی تھی اور گرفتاری کو سیاسی انتقام قرار دیا گیا تھا۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر میں بیان میں شیریں مزاری کی بیٹی اور معروف وکیل ایمان زینب مزاری نے کہا تھا کہ ‘مرد پولیس اہلکاروں نے میری والدہ کو مارا اور اپنے ساتھ لے گئے، مجھے صرف اتنا بتایا گیا کہ انہیں لاہور کا اینٹی کرپشن ونگ اپنے ہمراہ لے کر گیا ہے’۔

شیریں مزاری کی گرفتاری کی فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ خواتین پولیس اہلکار انہیں کار سے باہر نکال رہی ہیں جبکہ انہیں احتجاج اور یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ ‘‘مجھے مت چھوئیں‘۔

فوٹیج میں نامعلوم آواز بھی سنی جاسکتی ہے، جس میں کہا جا رہا ہے کہ ‘کوئی مسئلہ نہیں ہے’ اور معاملے پر پرامن طریقے سے بات ہوسکتی ہے جبکہ شیریں مزاری کو یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ ‘آپ وائیلنس کر رہے ہیں، آپ میرا فون نہیں لے سکتے ہیں’۔

میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایمان زینب مزاری نے کہا کہ غنڈوں کی طرح ایک عورت کو آج اٹھایا گیا نہ اس کے خاندان کو کچھ بتایا گیا تو اگر اس قسم کی حرکتیں کرنی ہیں تو میں اس حکومت کو وارننگ دیتی ہوں کہ میں اس کے پیچھے آؤں گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ گرفتار کرتے ہوئے بتایا جاتا ہے کہ کس کیس میں لے کر جارہے ہیں لیکن میری والدہ کو اس حکومت کی جانب سے جبراً لاپتا کیا گیا ہے مجھے نہیں معلوم وہ کہاں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں خواتین ایک سافٹ ٹارگٹ ہیں تو میں اس حکومت کو ایک واضح پیغام دینا چاہتی ہوں کہ اگر میری والدہ کو کچھ ہوا تو میں انہیں چھوڑوں گی نہیں۔ سابق وفاقی وزیر شیریں مزاری کی گرفتاری پر ان کی بیٹی ایمان مزاری نے رد عمل کا اظہار کیا ۔ شیریں مزاری کی گرفتاری پرایمان نے فوج کوگالیاںدیںسوشل میڈیاپر ایمان مزاری نام لیکر آرمی چیف اور فوج کے ادارے کیخلاف بغیر تحقیق کے گندی اور غلیظ زبان استمعال کرتے ہوئے یہاں تک کہاکہ یہ کارروائی حکومت کی نہیں بلکہ فوجی ادارے کی ھے ….. ایمان مزاری نے رد عمل انکا کہنا تھا کہ.مرد پولیس اہلکار میری ماں کو مارتے ہوئے لے گئے: ایمان مزاری کا بیان تھاجبکہ ڈان ٹی وی کی رپورٹ اور فوٹیج میں سب الزاماٹ جھوٹ اور غلط ثابت ہوئے۔۔آخر اس الزام تراشی اور حساس ادارے کے سربراہ کوگالیاں دینےپر قانون حرکت میں آئے گا یا محض تماشائی بن کر اداروں کو بے توقیر کرنے پر بھی خاموشی رہےگی؟سوشل میڈیاپر ایمان مزاری نام لیکر آرمی چیف اور فوج کے ادارے کیخلاف بغیر تحقیق کے گندی اور غلیظ زبان استمعال کرتے ہوئے یہاں تک کہاکہ یہ کارروائی حکومت کی نہیں بلکہ فوجی ادارے کی ھے پی ٹی آئی کے سیاستدانوں اور ان کی یوتھ کا وطیرہ بن چکا ہے کہ وہ آئے دن فوج کے خلاف غلیظ زبان استمعال کر کے مہذب ہونے کا ڈرامہ کرتےہیں اور انکے غیر زمہ درانہ الزامات پر کوئی کارروائی نہیں ہوتی اس تازہ وردات گزشتہ روز دیکھنن کو ملی جس میں ایک مقدمے میں شیریں مزاری کی بیٹی نے نام لیکر آرمی چیف اور پوری فوج کو سرعام ننگی گالیاں دے کر واقعہ میں ملوث کرکے برابھلا کہاگیا جب ٹی فوٹیج کے بعد حقیقت واضع ہوگئی مگر افسوس اسلام آباد ھائیکورٹ کے چیف جسٹس مسٹر اطہرمن اللہ نے رات گئے عدالت لگاکر شیرین مزاری کو طلب توکروالیامگر فوج پر بے ہودہ الزامات عائد کرنے والی پیٹیشنر ایمان مزاری کی سرزنش تک نہ کی۔جس پر صرف اتنا ہی کہا جاسکتاہے قانون اندھا ہوتاہے۔۔شائد کبھی اپنا رستہ بھی بنا لےگا۔