ملک کی معاشی صورتحال کے پیش نظر مسلسل تیسرا سال ہے کہ مسلح افواج نے نہ صرف دفاعی بجٹ میں کوئی اضافہ نہیں ہونے دیا بلکہ حقیقت میں مسلسل تیسرا سال ہے کہ دفاعی بجٹ میں پچیس فیصد تک کی کمی کی

 
0
228

اسلام آباد 05 جون 2022 (ٹی این ایس): ملک کی معاشی صورتحال کے پیش نظر مسلسل تیسرا سال ہے کہ مسلح افواج نے نہ صرف دفاعی بجٹ میں کوئی اضافہ نہیں ہونے دیا بلکہ حقیقت میں مسلسل تیسرا سال ہے کہ دفاعی بجٹ میں پچیس فیصد تک کی کمی کی جا رہی ہے جس سے ملکی معیشت کو ایک بڑا سہارا دیا ہے۔
پچھلے سال کے مقابلے میں اگلے مالی سال کے لیے 56 ارب روپے تو صرف افراط زر کے تناسب سے ہی کم لیے جا رہے ہیں۔
ڈیفنس بجٹ کو لے کر ہر سال کی جانے والی تنقید کے اصل حقائق پر نظر ڈالتے ہیں ۔
ہمیشہ کی طرح بجٹ کی آمد کے ساتھ ہی ایک مخصوص لابی کا رخ پاکستان کے دفاعی بجٹ کی جانب ہو چکا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان کے دفاعی بجٹ کو نشانہ پر رکھ کے پاکستان کی فوج کو ہٹ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ بات اب واضح ہو جانی چاہیے کہ اس بار بھی پاکستان کے دفاعی بجٹ میں کوئی اضافہ نہی کیا جا رہا۔
پچھلے دو سال میں آرمی نے اپنے بجٹ میں کوئی اضافہ نہیں لیا، ملک کو درپیش سیکیورٹی خطرات اور چیلنجز کے باوجود اگلے مالی سال کے لیے رکھا گیا ڈیفنس بجٹ گذشتہ سال کے جی ڈی پی کے 2.6 فیصد تناسب سے کم ہو کر جی ڈی پی کا 2.2 فیصد بنتا ہے۔ یعنی جی ڈی پی تناسب کے حساب سے بھی حقیقی معنوں میں ڈیفنس بجٹ بڑھا نہیں بلکہ کم ہوا ہے

اسی طرح 2021/22 کے گیارہ اعشاریہ تین فیصد افراط زر کو مد نظر رکھیں تو دفاع کے بجٹ میں 56ارب روپے کی کمی ہوئی ہے نہ کہ اسے بڑھایا گیا ہے۔
گذشتہ مالی سال میں پاک فوج نے کوڈ اخراجات کی مد میں 500 ملین روپے کی بچت کر کے حکومت کو واپس کیے جب کہ پروکیورمنٹ کی مد میں 16.9 ملین ڈالر کی بچت کر کے یہ رقم حکومت کو واپس کی گئی۔
خطے اور دنیا کی دوسری افواج کے دفاعی بجٹ کا موازنہ کریں تو ہندوستان کا دفاعی بجٹ 70بلین ڈالر جبکہ پاکستان کا دفاعی بجٹ صرف11 ارب ڈالر ہے۔ بھارت پاکستان کی نسبت اپنے ایک فوجی پر سالانہ 4گنا زیادہ خرچ کر تا ہے۔پاکستان اپنے ایک فوجی پر سالانہ13400ڈالر، انڈیا 42000ڈالر،امریکہ 392,000ڈالر،
ایران 23000ڈالرجبکہ سعودی عرب371,000ڈالر خرچ کرتا ہے۔ سالانہ دِفاعی اخراجات کے حوالے سے بھارت دُنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے اور یوں بھارت کا دِفاعی بجٹ پاکستان کی نسبت 7گُنا زیادہ ہے۔
بھارت2016ء سے2020ء کے دوران دُنیا کا دوسرا بڑا اسلحہ درآمد کرنے والا ملک رہا ہے۔ بھارت صرف جدید اسلحہ کی خریداری کے لیے سالانہ لگ بھگ18سے19 ارب ڈالر خرچ کرتا ہے جو کہ پاکستان بجٹ کا تقریباََ 2گُنا ہے۔ دیگر ممالک کی بات کی جائے تو سعودی عرب کا ڈیفنس بجٹ 55.6بلین ڈالر، چین کا ڈیفنس بجٹ293بلین ڈالر، ایران کا ڈیفنس بجٹ24.6بلین ڈالر،UAE کا ڈیفنس بجٹ22.5بلین ڈالراورترکی کا ڈیفنس بجٹ 20.7بلین ڈالر ہے۔
اب دیکھتے ہیں کہ پاکستان کا دفاعی بجٹ کیا ہے۔ مالی سال 2021 / 22 کے میزانیے کے مطابق پاکستان کا دِفاعی بجٹ قومی بجٹ کا 16فیصدہے۔ اسی میں سے 7فیصد پاکستان آرمی جبکہ باقی نیوی اور ائیر فورس کے حصے میں آتا ہے۔ پچھلے کئی برس سے افراط زر کی شرح میں اضافے کی وجہ سے عملاََ پاکستان کا دفاعی بجٹ بیس سے پچیس فیصد کم ہوا ہے۔ اگر صرف گذشتہ ایک سال کی افراط زَر کی شرح کا ہی موازنہ کیا جائے تو رواں معاشی سال میں افراطِ زر کی شرح 11.3 فیصد ہے۔مہنگائی میں اضافہ اس کے علاوہ ہے۔ اس حساب سے دفاع کے بجٹ کو اگر پچھلے سال کی سطح پر ہی
برقرار رکھا جائے تو پچیس فیصد اضافہ درکار ہے لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس محدود اور مسلسل کم ہوتے ڈیفنس بجٹ کی وجہ سے پاکستان کی مسلح افواج نے پاکستان کے دفاع کو کمپرومائز ہونے دیا؟
کیا ملکی دفاع ناقابلِ تسخیر نہیں بنایا؟
کیا اسی کے دوران پاکستان نے کووڈکے خلاف فرائض انجام نہیں دیے؟
کیا اسی بجٹ سے ہم نے مغربی بارڈر کے دفاع کو فینسنگ اور بارڈر فورٹس تعمیر کرکے مضبوط نہیں بنایا؟
مالی سال 2019 / 20میں ملکی معاشی صورتحال کے پیشِ نظر دِفاعی بجٹ منجمد رہا تھا۔ 2020 / 21میں بھی پاک افواج کی تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں ہو ا۔ 2018ء کے بعدکولیشن سپورٹ فنڈ کی بندش کے باوجود دِفاعی اور سیکورٹی کی ضروریات کو ملکی وسائل سے ہی پورا کیا گیا۔ آپریشن ردّالفساد کے اہداف اور دائرہ کار اور دیگر سیکورٹی اُمور میں کوئی کمی نہیں آنے دی گئی۔
دوسری جانب پاک افواج اور پاک افواج کے رِفاعی اداروں نے ٹیکس اور ڈیوٹیز کی مَدمیں 935 بلین روپے سے زیادہ کی رقم بھی قومی خزانے میں جمع کروائی۔