آئی ایس آئی کو سویلین افسران کی سکروٹنی کا اختیار ایک خوش آئند اقدام

 
0
157

اندر کی بات ؛کالم نگار؛اصغرعلی مبارک

اسلام آباد 05 جون 2022 (ٹی این ایس): ۔آئی ایس آئی کو سویلین افسران کی جانچ پڑتال کا قانونی اختیار دینا ایک مستحسن ایک خوش کن اقدام ھے , اس سے مذہبی , سیاسی, لسانی۔گروہی۔علاقائی انتہا پسندی، شدت پسندی کے رحجانات کے خاتمہ میں مدد ملے گی پاکستان میں مقیم غیر ملکی فرضی ناموں سے نوکریاں حاصل کرکے دشمنوں کا آلہ کار نہیں بن سکیں گے اس وقت بھی متعدد افغان باشندے پاکستان میں نادرا کے جعلی شناختی کارڈ بنا کر سرکاری نوکریوں پر براجماں ہیں اسے نیشنل ایکشن پارٹ ٹو کہاجائے تو بےجانہ ہوگا,وزیراعظم شہباز شریف نے ایک نوٹی فکیشن کے ذریعے ملک کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کو سول افسران کے لیے بطور ویٹنگ ایجنسی کام کرنے کی ہدایت جاری کی ہے۔ نوٹی فکیشن میں کہا گیا ہے کہ آئی ایس آئی تمام پبلک آفس ہولڈرز کی سکروٹنی کرے گی جو ان کی سروس کے آغاز یعنی بھرتی کے وقت، حساس عہدوں پر تعیناتی، تبادلوں، اور ترقی کے لیے درکار ہو گی۔ انٹرسروسز انٹیلیجنس ایجنسی یعنی آئی ایس آئی ویٹنگ کا یہ کام فوجی افسران اور وزارت دفاع کے ماتحت کام کرنے والے تمام اہلکاروں کے لیے پہلے ہی کرتی ہے۔ آ ئی ایس آئی کے ویٹنگ سے متعلق حصے کو ایس وی اے یعنی اسپیشل ویٹنگ ایجنسی کہا جاتا ہے۔فوج میں 8101 ایس وی اے فارم کسی بھی ترقی، تبادلے، حتی کہ انٹرویو کے موقع پر بھی بھرا جاتا ہے جس میں متعلقہ اہلکار، ان کے خاندان کی تفصیلات سمیت تعلیم، ماضی کی تعیناتیوں سے متعلق تفصیل درج کی جاتی ہے۔ یہ فارم آئی ایس آئی کی جانب سے تیار کی جانے والی فائلز میں چسپاں کیا جاتا ہے اور ہر ترقی اور تبادلے کے موقع پر متعلقہ فارم کو یہ ریکارڈ مہیا کیا جاتا ہے اس اقدام سے ملک دشمن قوتوں کی پاکستان کے خلاف شازشوں کا قلع قمع کرنے میں مدد ملے گی۔ اسے بہت پہلے ہوجانا چاہیےتھا۔تاکہ پاکستان جیسے ملک میں اعلی قومی سلامتی کے اداروں پر بلاوجہ تنقید ختم کی جاسکتی ماضی میں ہر حکومت نے آئی ایس آئی کے کردار کو متنازعہ بناکر اپنی سیاسی دکانداری چمکائی۔ اسکی حالیہ مثال سابق وزیر شیریں مزاری کی رہائی کےبعد آئی ایس آئی اور فوج کے ادارے کے سربراہ پر الزامات ہیں اب تو یہ وطیرہ بن چکا ہے کہ کسی شخص بھی کے لاپتہ ہونے پر فوری طور پر الزام آئی ایس آئی پر لگادیئے جاتے۔اسکی حالیہ مثال سابق وزیر شیریں مزاری کی رہائی کےبعد آئی ایس آئی اور فوج کے ادارے کے سربراہ پر الزامات ہیں اور اب تو یہ وطیرہ بن چکا ہے کہ کسی بھی شخص کے لاپتہ ہونے پر فوری طور پر الزام آئی ایس آئی پر لگادیئے جاتے۔ پاکستانی اداروں میں بھارتی باشندوں کی موجودگی کی تحقیقات کی گئی ہیں,بھارت کی خفیہ ایجنسی را کے لیے کام کرنے والے کراچی پولیس کے انسپکٹر کو گرفتار کر کیا گیا۔ حساس ادارے نے کراچی کے علاقے گلستان جوہر میں کارروائی کر کے بھارتی خفیہ ایجنسی را کے لیے کام کرنے والے کراچی پولیس کے اے ایس آئی کو گرفتار کیا۔ حکام کے مطابق اے ایس آئی شہزاد پرویز شارع فیصل تھانے میں تعینات تھا، گرفتار پولیس اہلکار دہشت گردی کی کارروائیوں میں بھی ملوث ہے،پاکستان کی سیاسی صورتحال سے فائدہ اٹھانے کے لئے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دفتر میں خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کا ایک خصوصی سیل قائم کر دیا گیا ہے جس کی سربراہی را کے سربراہ سمنت کمار کر رہے ہیں۔ بلوچستان سے گرفتارہونے والے بھارتی خفیہ ایجنسی ”را” کے ایجنٹ کلبھوشن یادو نے اپنے ویڈیو بیان میں اعتراف کیا تھا کہ اسے بلوچستان اور کراچی میں صورتحال خراب کرنے کا ہدف ملا جب کہ پاکستان کی سالمیت کے خلاف کارروائیوں میں بھی ملوث رہا ہوں۔ مودی حکومت نے دہشت گردی کیلئے جو راء ایجنٹ پاکستان میں پال رکھے ہیں وہ اب تمام ثبوتوں کے ساتھ ظاہر ہوچکے ہیں۔ دشمن کے بزدلانہ دہشتگردی کے ہتھکنڈے پاکستان کے محب وطن عوام کے حوصلے پست نہیں کرسکتے۔ قبائلی علاقہ جات میں پاک فوج کے دستوں کو نشانہ بنانے والے بزدل اور پیٹھ پیچھے سے وار کرنے والے دشمن کو نشان عبرت بنا کر رکھ دیں گے۔ بھارتی حکومت لدّاخ میں پٹائی اور داخلی معملات سے اپنی عوام کی توجہ ہٹانے کی خاطر پاکستان کو نشانہ بنا کر طرح طرح کی سازشوں کے جال بن رہی ہے۔پچاس برس بل مشرقی پاکستان میں مداخلت کرکے بھارت نے بنگالیوں کو بغاوت پہ اکسایا پھر بھارتی خفیہ ایجنسی راء نے بنگالی گوریلوں کی فوج مکتی باہینی تیار کی بھارتی فوج نے مشرقی پاکستان پہ حملہ کر کے محصور فوجیوں کو ہتھیار ڈالنے پہ مجبور کیا اور مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بناکر دم لیا۔ 1971 ایک مختلف دور تھا۔ پاکستان کے دونوں بازؤوں کے درمیان1400کلو میٹر کا فاصلہ تھا جو دشمن بھارت کی سر زمین پہ محیط تھا, 2020میں را نے افغانستان کے ذریعہ بلوچستان میں علیحدگی پسند تنظمیں بنا کر مشرقی پاکستان کی تاریخ دہرانے کی کوشش کی۔ بلوچستان سے گرفتار شدہ بھارتی بحریہ کے کمانڈر کلبھوشن یادیو جو را کے سنیئر اہلکار ہیں نے تمام راز اگل دئیے کہ کس طرح وہ بلوچو بلوں کو بغاوت پہ اکساکر گوریلا جنگ کی تربیت دیتے رہے، دہشت گردی پہ آمادہ کیا اور بلوچستان اور کراچی میں دہشت گرد حملوں سے تباہی پھیلائی ۔ کلبھوشن یادیو کی نشاندہی پہ را کا مکمل گروہ پکڑا گیا۔ کلبھوشن کے پکڑے جانے سے بھارت پریشان بے اس نے افغانستان کی خفیہ ایجنسی این ڈی ایس اور را کے گٹھ جوڑ سے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی سازش تیار کی ۔را اور این ڈی ایس پاکستان کی سیکئورٹی ایجنسیوں کو نشانہ بنانے کے لئے کا لعدم طالبان تنظیموں سے رابطہ کر رہے ہیں، پاکستان کو تین طرح کے چینلجز کا سامنا ہے مسائل میں معیشت، سیاسی عدم استحکام اور سماجی ہم آہنگی شامل ہیں، یہ مسائل سب اکٹھے ہو گئے ہیں۔ملک کی اندرونی سلامتی کو لاحق خطرات اس وقت ملک کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں جن سے نمٹنا اولین ترجیح ہونی چاہیے۔پاکستان کو اندرونی مسائل کا سامنا ہے اور مسائل ہمیشہ رہتے ہیں۔ ایک بات تو طے ہے کہ سب سے زیادہ خطرناک مسئلہ ہوتا ھی اندر سے ہے۔‘’اس وقت سیاسی طور پر کچھ لوگ ناراض ہیں۔ کچھ علاقے، جیسا کہ بلوچستان، میں بدامنی ہے۔کچھ لوگ سیاسی طور پر ناراض ہیں۔ یہ لوگ سیاسی طور پر اپنے آپ کوالگ تھلگ محسوس کر رہے ہیں۔ موجودہ حکومت بطور متحدہ اپوزیشن (پی ڈی ایم) فوج پر سیاسی معاملات میں مداخلت کی بات کر تی رہی ہے ۔ سابق وزیرِ اعظم میاں نواز شریف نے پی ڈی ایم کے ایک جلسے کے دوران براہِ راست پاکستانی فوج کے سربراہ پر حکومت کو گرانے اور سنہ 2018 کے انتخابات میں عمران خان کو کامیاب کروانے کا الزام عائد کیا۔ انھوں نے یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ فوج کے کہنے پر عدلیہ ان کے خلاف مقدمات چلا رہی ہے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے دور اقتدار کے بعد ذرائع ابلاغ اور سیاسی حلقوں میں آئی ایس آئی کی اہمیت اس وقت مزید بڑھ گئی جب اپوزیشن قوتوں نے 2002 سے 2008 کے دوران مبینہ سیاسی انجینیئرنگ کے حوالے سے آئی ایس آئی پر کھلم کھلا الزامات لگانے شروع کیے۔ آئی ایس آئی کی سیاست میں مبینہ مداخلت کی اطلاعات پر ذرائع ابلاغ میں بڑے پیمانے پر بحث ہوئی جس سے عوام کی نظروں میں اس ادارے کے کردار اور حیثیت سے متعلق اہمیت بڑھتی چلی گئی۔آئی ایس آئی کے ڈی جی کی تعیناتی کے بارے میں قومی میڈیا میں خبریں آنے اور سٹرٹیجک و سیاسی تجزیہ نگاری کا سلسلہ 2011 میں اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا کی ہائی پروفائل ملازمت میں توسیع سے شروع ہوا تھا۔ پاکستانی فوج کے خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی کا کہنا ہے کہ سیاسی معاملات میں فوج کی مداخلت ایک حقیقت ہے۔ لوگ فوج کے سیاسی معاملات میں مداخلت پر خفا ہیں, حالیہ دنوں میں آئی ایس آئی کا کردار خطے کی خارجہ پالیسی میں زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آیا جب اس نے طالبان اور افغان حکومت کے نمائندوں کو مری میں مذاکرات کی میز پر بٹھانے کی کاوشیں کیں۔ لندن بم دھماکوں کے ملزمان کو پکڑنے کے آپریشن میں آئی ایس آئی پیش پیش تھی۔ یہ ملزمان بم دھماکوں کے بعد بھاگ کر پاکستان آ گئے تھے اور ان کی گرفتاری پر برطانوی حکومت نے عوامی سطح پر پاکستان کے ادارے کی کاوشوں کا اعتراف کیا تھا۔ ’آئی ایس آئی اب ملک کی داخلی اور خارجی سلامتی کی صورتحال میں مرکزی اور کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ ستّر کے دور میں لوگوں کو صحیح طور پر یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ دراصل آئی ایس آئی ہے کیا؟ سنہ 1979 میں افغان جنگ میں پاکستان کے ملوث ہونے کے بعد اس نے یہ کردار آہستہ آہستہ سنبھالنا شروع کیا۔‘ آئی ایس آئی نے افغان جہاد میں مرکزی کردار ادا کیا آئی ایس آئی پاکستان آرمی کے سائے میں کام کرتی ہے جو بے تحاشہ فوجی قوت فراہم کرتی ہے۔ تعلقات کار میں بعض اوقعات ’دراڑیں‘ بھی دیکھی گئی ہیں جو ماضی میں نمایاں ہوکر سامنے آئیں 12 اکتوبر1999 کی بغاوت نواز شریف حکومت کے خلاف تو تھی ہی لیکن یہ آئی ایس آئی کی آرگنائزیشن کے خلاف بھی تھی جو بظاہر اپنے ڈی جی (لیفٹیننٹ جنرل (ر) ضیاالدین بٹ) کے ساتھ تھی جسے اس وقت کے وزیراعظم نے چیف آف آرمی سٹاف (بری فوج کا سربراہ) تعینات کر دیا تھا۔‘ دوسری مرتبہ یہ ’دراڑ‘ اس وقت نظر آئی جب مشرف دور میں آئی ایس آئی نے اپنا میڈیا وِنگ شروع کردیا تھا جس نے مقامی اور بین الاقوامی میڈیا کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کیے۔ ‘آئی ایس آئی کا میڈیا وِنگ بعض اوقات خودمختار اور آزادانہ انداز میں کام کرتا ہے اور اس مقصد کے بالکل برعکس ہوتا ہے جو آئی ایس پی آر کررہا ہوتا ہے۔آئی ایس آئی کے تنظیمی ڈھانچے میں فوج کا غلبہ زیادہ ہے، اگرچہ بحریہ اور فضائیہ سے تعلق رکھنے والے افسران بھی تنظیم کا حصہ ہیں۔ ڈی جی آئی ایس آئی غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسیوں اور اسلام آباد میں قائم غیر ملکی سفارت خانوں میں تعینات فوجی اتاشیوں سے رابطوں کے مرکز کا کردار ادا کرتے ہیں۔ اسی طرح درپردہ وہ انٹیلی جنس امور پر وزیراعظم کے چیف ایڈوائزر کے طور پر کام کرتے ہیں۔ مسلح افواج آرمی، ائیر فورس اور نیوی میں ایک الگ انٹیلی جنس ایجنسی ہوتی ہے جس میں ملٹری انٹیلی جنس، ائیر انٹیلی جنس اور نیول انٹیلی جنس شامل ہیں جو اپنی اپنی متعلقہ فوج کے لیے ضروری معلومات جمع کرتی ہیں۔آئی ایس آئی اور ان افواج کی ہر متعلقہ انٹیلی جنس ایجنسی کے امور کار میں کبھی کبھار ایک ہی قسم کی معلومات بھی اکٹھی کر لی جاتی ہیں کیونکہ سب ہی فوجی پیش رفت پر نظر رکھتی ہیں اور دشمن کی چالوں اور حرکتوں کی نگرانی کرتی ہیں۔ لیکن فوج کی ترکیب میں دیگر انٹیلی جنس ایجنسیوں کے مقابلے میں آئی ایس آئی سب سے بڑی، سب سے زیادہ مؤثر اور طاقتور انٹیلی جنس ایجنسی ہے۔آئی ایس آئی ملک میں سب سے بڑی انٹیلی جنس ایجنسی تصور ہوتی ہےفوجی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی ایس آئی کا ‘آرگنائزیشنل ڈیزائن’ (تنظیمی نقشہ) بنیادی طور پر اسے ‘کاؤنٹر انٹیلی جنس آپریشنز’ (جوابی خفیہ کارروائیوں) پر توجہ مرکوز کرنے والی انٹیلی جنس ایجنسی بناتا ہے۔ریگیڈئیر (ر) فیروز ایچ خان وہ افسر تھے جنہوں نے پاکستان کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ میں کلیدی عہدوں پر فرائض انجام دیے اورگھاس کھانا Eating Grass کے عنوان سے کتاب تصنیف کی۔بریگیڈئیر (ر) فیروز ایچ خان نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ’پاکستان کے تیسرے آمر جنرل ضیا الحق کو افغانستان میں سویت یونین کی مداخلت نے پریشان کر دیا تھا۔ اس پریشانی کے پیچھے بڑی وجہ بلاشبہ یہ حقیقت کارفرما تھی کہ طاقت کے نشے میں بدمست عالمی قوت ہمارے ملک کے دروازے پر دستک دے رہی تھی۔ ایسی صورتحال میں کارٹر انتظامیہ کی طرف سے فراہم کی جانے والی فوجی اور مالی مدد اطمینان کا ذریعہ تھی لیکن فوجی آمر کے لیے امریکی پیشکش ایک اور طرح کی پریشانی کا باعث تھی۔ امریکی مدد پاکستان کی معیشت کو توانا کرے گی اور فوجی استعداد کار میں اضافہ کرے گی لیکن دوسری طرف امریکہ کے ساتھ انٹیلی جنس تعاون کے لیے زیادہ معلومات اور پاکستان کے اندر نگرانی کی سرگرمیاں درکار ہوں گی مصنف ڈاکٹر ہین ایچ کیسلنگ نے اپنی کتاب ’آئی ایس آئی آف پاکستان‘ میں اس ادارے کا ‘آرگنائزیشنل چارٹ’ (تنظیمی خاکہ) شامل کیا ہے۔ جرمن سیاسی ماہر ڈاکٹر کیسلنگ کی اسے کتاب کے مطابق انھوں نے 1989 سے 2002 کا عرصہ پاکستان میں گزارا ہے۔ انھوں نے اپنی کتاب میں واضح کیا ہے کہ یہ ایک جدید آرگنائزیشن ہے جس کی توجہ کا بنیادی محور خفیہ معلومات جمع کرنا ہے۔ ان کے مطابق سات ڈائریکٹوریٹس اور محکموں کی متعدد پرتیں یا تہوں کے علاوہ ‘وِنگز’ (منسلک شعبے) ہیں جو کسی بھی جدید انٹیلی جنس ایجنسی کی طرح آئی ایس آئی میں بھی ہیں, آئی ایس آئی کی بنیادی ذمہ داری ملک کی مسلح افواج کا عملی اور نظریاتی تحفظ یقینی بنانا ہے جس کا اظہار اس ادارے کے نام یعنی انٹر سروسز انٹیلی جنس سے عیاں ہوتا ہے۔ آئی ایس آئی میں سویلین بھی اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں, ’آئی ایس آئی پاکستان کی ‘پریمئیر’ انٹیلی جنس ایجنسی ہے جو خطے میں جو کچھ ہو رہا ہوتا ہے، اس سے باخبر ہوتی ہے۔‘ ’افغانستان میں امن مذاکرات ہوں تو پاکستان اس میں موجود ہوتا ہے، طالبان کابل میں حکومت بنائیں تو دنیا ہماری طرف دیکھتی ہے، افغانستان سے مغربی سفارتکاروں کے انخلا کا معاملہ ہو تو ہماری مدد درکار ہوتی ہے، آپ جس بھی معاملے کی بات کریں، اس میں ہماری اہمیت دکھائی دے گی۔‘1979 سے 2022 تک کے عرصے کے دوران آئی ایس آئی افغان صورتحال اور اس کے پاکستان پر پڑنے والے اثرات سے نمٹنے میں مصروف رہی ہے۔’بلاشبہ یہ آئی ایس آئی کی بہت بڑی کامیابی ہے کہ ہم نے پاکستان کو بڑے نقصان یا افغان صورتحال کے نتیجے میں آنے والے بڑے منفی اثرات سے بچایا اور گزشتہ چالیس سال کے دوران خطے میں اپنے سلامتی کے اہداف کو حاصل کیا۔‘وزیراعظم شہباز شریف نے ایک نوٹی فکیشن کے ذریعے ملک کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کو سول افسران کے لیے بطور ویٹنگ ایجنسی کام کرنے کی ہدایت جاری کی ہے۔ اس نوٹی فکیشن میں کہا گیا ہے کہ آئی ایس آئی تمام پبلک آفس ہولڈرز کی سکروٹنی کرے گی جو ان کی سروس کے آغاز یعنی بھرتی کے وقت، حساس عہدوں پر تعیناتی، تبادلوں، اور ترقی کے لیے درکار ہو گی۔
انٹرسروسز انٹیلیجنس ایجنسی یعنی آئی ایس آئی ویٹنگ کا یہ کام فوجی افسران اور وزارت دفاع کے ماتحت کام کرنے والے تمام اہلکاروں کے لیے پہلے ہی کرتی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بھارت ہمیشہ پاکستان کو اپنے نشانے پر رکھتا ہے اور سیاسی تبدیلیوں اور صورتحال سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے۔ ے انٹیلی جنس بیورو کے سابق ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل نوید الہی کہتے ہیں کہ وزیراعظم کا یہ فیصلہ انتہائی مایوس کن ہے اور اس سے خود آئی بی کے اہلکاروں میں یہ تاثر گیا ہے کہ ان کے کام اور ادارے کو غیرموثر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ`یہ ایک غیرضروری قدم ہے اور سول اداروں کو غلط پیغام ملا ہے۔‘ آئی بی بہت موثر انداز میں کام کرتی رہی اور اب بھی کرتی ہے۔ یہ ایک غلط کام ہے، اس سے سول ادارے کمزور ہوں گے، غیر ضروری فوجی مداخلت ہو گی، اور اختلافات پیدا ہوں گے۔ دوسری معلومات اکٹھی کرنے کا آئی ایس آئی کا طریقہ آئی بی سے مختلف ہے، آئی بی زور زبردستی کی بجائے بہت خفیہ طریقے سے کام کرتی ہے۔’ وہ اس فیصلے کا ذمہ دار وزیر اعظم اور آئی بی سربراہ کے درمیان فاصلوں کو بھی سمجھتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ ‘حالیہ کچھ عرصے میں عام طور پر ڈی جی آئی بی پرنسپل سیکرٹریز کی مرضی سے لگتے رہے ہیں اور وزیراعظم کی ایجنسی سے متعلق سمجھ بوجھ کم رہی ہے، ایک وقت تھا جب ڈی جی آئی بی براہ راست وزیر اعظم کے دفتر پہنچ جاتے تھے۔ اب ایسا نہیں ہو رہا۔ وہ کہتے ہیں کہ وسائل کے لحاظ سے تو آئی ایس آئی مضبوط ہے مگر جہاں تک معلومات اکٹھی کرنے کی بات ہے تو آئی بی کا طریقہ کار کئی درجے بہتر ہے۔‘تاہم اس بارے میں آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ یہ ایک حکومتی فیصلہ ہے اور وہی اس بارے میں بہتر رائے دے سکتے ہیں کہ انھوں نے ایسا کیوں کیا۔ جبکہ حکومتی ترجمان سے رابطے کے باوجود جواب نہیں دیا گیا۔
آئی ایس آئی میں سویلین بھی اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں لیکن وہ اس ادارے کے تنظمی ڈھانچے میں غلبہ یا طاقت نہیں رکھتے۔مصنف ڈاکٹر ہین ایچ کیسلنگ نے اپنی کتاب ‘آئی ایس آئی آف پاکستان’ میں اس ادارے کے تنظیمی خاکے سے متعلق لکھتے ہیں کہ آئی ایس آئی کے سات ڈائریکٹوریٹس اور محکموں کی متعدد پرتیں یا تہوں کے علاوہ ‘وِنگز’ (منسلک شعبے) ہیں۔ آئی ایس آئی کے تنظیمی ڈھانچے میں فوج کا غلبہ زیادہ ہے، اگرچہ بحریہ اور فضائیہ سے تعلق رکھنے والے افسران بھی تنظیم کا حصہ ہیں۔ ڈی جی آئی ایس آئی غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسیوں اور اسلام آباد میں قائم غیر ملکی سفارت خانوں میں تعینات فوجی اتاشیوں سے رابطوں کے مرکز کا کردار ادا کرتے ہیں۔ اسی طرح درپردہ وہ انٹیلجنس امور پر وزیراعظم کے چیف ایڈوائزر کے طور پر کام کرتے ہیں۔اس بارے میں دفاعی تجزیہ کار پاکستانی فوج کے لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) امجد شعیب کہتے ہیں کہ سکیورٹی کے تناظر میں یہ برا قدم نہیں ہے، مگر واضح طور پر فوجی مداخلت سمجھا جائے گا۔ اگر حکومت آئی ایس آئی کو کسی شخص کی ویٹنگ کا کہتی تو وہ کر دیتے تھے، یا ان کے پاس کوئی معلومات ہوتی تو وہ متعلقہ حکام کے ساتھ شیئر ضرور کرتے تھے مگر ایجنسی کے پاس باقاعدہ طور پر ایسے اختیارات نہیں تھے۔ مگر ابھی یہ ایک ریگولر فیچر ہو گا، ہر حساس یا سینیئر عہدوں پر تعیناتی یا ترقی کے لیے کے ان سول افسران کے نام آئی ایس آئی کو بھیجے جائیں گے اور ایجنسی انہیں کلیئر کرے گی تب ہی ان کی تعیناتی ہوگی۔’وہ کہتے ہیں کہ ‘سکیورٹی کے نقطہ نظر سے تو یہ کوئی بری بات نہیں ہے، مثلاً آپ کو اہم اور حساس عہدوں پر ایسے لوگ ملیں جن کے باہر تعلقات یا مفادات نہ ہوں، مگر اس کا سول حلقوں میں اچھا تاثر نہیں جائے گا۔ اور یہ کہا جائے گا کہ یہ اتھارٹی فوج کے پاس چلی گئی ہے اور اگر ملٹری کسی کو پسند نہیں کرتی تو وہ کلیئر نہیں ہوگا اور بیورکریسی سمجھے گی کہ ان پر ایک ایکسٹرا چیک اور انٹرفیئرنس ہے۔’ دوسری جانب انٹیلی جنس نیورو کے سابق سربراہا نوید الہی یہ کہتے ہیں کہ آئی بی میں اور ایس بی میں باقاعدہ طریقہ کار موجود ہونے کے باوجود سول بالادستی کو نشانہ بنایا گیا ہے، کبھی ایسا نہیں ہوا کہ لکھ کر ہی دے دیں۔ وہ انٹر سروسز انٹیجنس ہے، یعنی مسلح افواج میں انٹیلجنس کا کام کرنے والی، ان کا یہ مینڈیٹ نہیں۔‘ آئی بی سب سے بڑا سول انٹیلجنس ادارہ ہے جو براہ راست وزیراعظم کو رپورٹ کرتا ہے، درمیان میں کوئی وزارت نہیں آتی۔ لیکن پچھلے کچھ سالوں سے مسلسل ایسا ہو رہا ہے کہ آئی بی سربراہ کا رابطہ وزیراعظم کی بجائے ان کے پرنسپل سیکرٹری تک ہی ہوتا ہے۔’خیال رہے کہ آئی بی بھی سول اہلکاروں کی بھرتی سے لیکر مستقبل میں ترقیوں اور تعیناتیوں تک ہر موقع پر کوائف اور معلومات اکٹھی کرتی رہتی ہے۔’شہباز شریف غالباً اسٹیبلشمنٹ کو بہت زیادہ خوش کرنا چاہتے ہیں جو اس طرح کا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ خود جی ایچ کیو نے کہا ہو کہ افسران کی تعیناتی کے موقع پر انٹیلیجنس کلیئرنس میں آئی ایس آئی کو شامل ہونا چاہیے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ سکیورٹی کلیرنس کی آڑ میں ایسے لوگوں کو تعینات کیا جا سکتا ہے جو جی ایچ کیو کی بات سنیں۔کہا جارہا ہےکہ ‘وزیراعظم شہباز شریف کو بطور وزیراعلیٰ بھی یہ پسند تھا کہ کسی بھی افسر کے انٹرویو سے قبل ان کی میز پر انٹیلجنس ایجنسیوں کی رپورٹس کے تین چار صفحے پڑے ہوں۔ اور یہ معلومات ان کے فیصلوں پر اثرانداز بھی ہوتی تھیں۔ مگر بطور وزیراعظم سول ایجینسیاں ہوتے ہوئے ایک فوجی ایجنسی کو ایسی ذمہ داری دینا جو اس کے مینڈیٹ سے باہر ہے، ان کا یہ فیصلہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ اس نوٹیفیکیشن کے بعد اب آئی ایس آئی کے فیصلہ سازی کے عمل میں شامل ہو جائے گی: معلومات پہلے بھی دی جاتی تھیں مگر آئی ایس آئی فیصلہ سازی نہیں کرتی تھی مگر اب تو کسی بھی شخص کی تعیناتی آئی ایس آئی کی کلیئرنس سے مشروط ہوگی۔ اس لیے سول سپریمیسی متاثر ہونے کا امکان تو ہے، نہ صرف بیورکریسی میں بلکہ کل حکومت بھی یہ محسوس کر سکتی ہے۔ خیال رہے کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں آئی ایس آئی کو غیر تحریری طور پر یہ ٹاسک دیا ہوا تھا کہ مجوزہ ججز کے نام کی سکروٹنی آئی ایس آئی کو انھوں نے غیر تحریری طور پر یہ ٹاسک دیا ہوا تھا کہ مجوزہ ججز کے نام کی سکروٹنی آئی ایس آئی کرے۔‘وہ ایک جج کا واقعہ سناتے ہوئے حساس ادارے کے سربراہ کہتے ہیں کہ `ایک جج ان کے پاس آئے اور انہیں کہا کہ ان کی رپورٹ دی گئی ہے کہ وہ مذہبی رحجان رکھتے ہیں اس لیے وہ اس عہدے کے لیے موزوں نہیں۔ وہ کہنے لگے کہ میں تو زیادہ مذہبی نہیں ہوں یہ رپورٹ غلط ہے۔ مگر اس کے ساتھ انھوں نے یہ بھی کہا کہ میرا پیغام پہنچائیں کہ میں ان کے مطابق ہی فیصلے کروں گا۔ خیال رہےکہ یکم اگست 2018 کو سپریم جوڈیشل کونسل نے فوج کے خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلیجنس یعنی آئی ایس آئی پر عدالتی معاملات میں مداخلت کا الزام عائد کرنے پر اسلام آباد ہائی کورٹ کےسابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیاتھا ۔چار جولائی 2018 کواسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے وفاقی دارالحکومت میں تجاوزات سے متعلق مقدمے کی سماعت کے دوران آئی ایس آئی کے ہیڈ کوارٹر کے سامنے سے گزرنے والی سڑک خیابان سہروردی کے کچھ حصے کو، جو عرصہ دراز سے بند تھی۔، دوبارہ نہ کھولنے پر سیکرٹری دفاع اور آئی ایس آئی کے سربراہ کو کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا جس پر مذکورہ جج کے خلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں بھیجا گیا جس کی صدارت سپریم کورٹ پاکستان کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کی ۔ یادرہےکہ سابق جج شوکت عزیز صدیقی نےراولپنڈی بار سے خطاب کے دوران فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی پر الزام عائد کیا تھا کہ اس ادارے کے اہلکار نہ صرف عدالتی معاملات میں مداخلت کرتے ہیں بلکہ مختلف مقدمات میں اپنی مرضی کے بینچ بنوا کر اپنی خواہشات کے مطابق فیصلے لیتے ہیں ۔ شوکت عزیز صدیقی نے دعویٰ کیا تھا کہ فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کی مرضی کے فیصلے دینے پر انھیں وقت سے پہلے چیف جسٹس بنوانے اور ان کے خلاف دائر ریفرنس ختم کروانے کی پیشکش کی گئی تھی۔ آج سے تیس سال پہلے اگر ہائی کورٹ کا جج تعینات ہونا ہوتا تو آئی بی اپنا اِن پٹ دیتی تھی۔ یہ معاملہ آئی ایس آئی کو دینے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔’ اگر دیگر انٹیلجنس ادارے کسی افسر کو کلیئر کر دیں اور آئی ایس آئی نہ کرے تو کس کی معلومات کو فوقیت دی جائے گی؟ اس سوال پر رئٹائرڈ جنرل امجد شعیب کہتے ہیں کہ آخری فیصلہ تو سول حکومت میں موجود سربراہ کا ہی ہو گا۔ وزیراعظم حتمی فیصلہ کریں گے اور آئی ایس آئی اس معاملے پر کچھ نہیں کر سکتی، وہ صرف معلومات دے سکتی ہے کہ فلاں شخص اس عہدے کے موزوں نہیں ہے۔ البتہ مستقبل میں آئی ایس آئی اپنی ان معلومات کو استعمال ضرور کر سکتی ہے۔‘ اس نوٹیفکیشن کے بعد تمام انٹیلجنس ایجنسیوں کی معلومات پر فوقیت آئی ایس آئی کو حاصل ہو گی۔وہ کہتے ہیں کہ ‘اب تو آئی ایس آئی کو پاور اور اختیار دے دیا گیا ہے اور اب کسی کی تعیناتی ترقی وغیرہ پر حتمی معلومات آئی ایس آئی کی ہی ہو گی۔’دوسری جانب اس حوالے سے نوٹیفکیشن سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا پر سول بالادستی کا سوال اٹھایا گیا اور وزیراعظم کے اس فیصلے پر کھل کر تنقید بھی دکھائی دے رہی ہے۔ مسلم لیگ ن کے ہی سینیئر رہنما پرویز رشید نے وزیراعظم کے فیصلے پر اپنے تبصرے میں ایک مطالبہ بھی کیا ہے۔ٹویٹر پر اپنے پیغام میں پرویز رشید کا کہنا تھا کہ `اگر سویلین افسروں کی چھان بین کا فریضہ آئی ایس آئی کی ذمہ داریوں میں شامل کیا جاتا ہے تو پھر آئی آیس آئی کو بھی سویلین انتظامیہ کے زیر سپرد بھی ہونا چاہیے اور پارلیمنٹ کو جوابدہ بھی۔‘ماضی میں دو بار ایسی کوشش کی گئی کہ آئی ایس آئی کو وزارت داخلہ کے ماتحت لایا جائے۔ ایسا پہلی بار 1990 میں سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے دورِ حکومت میں ایسا ہوا جب ایک ریٹائرڈ جنرل کو آئی آیس آئی کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ دوسری بار اس ضمن میں 2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے یہ فیصلہ کیا اور ایک نوٹیفیکیشن بھی جاری کر دیا۔ ساابق وزیر داخلہ رحمان ملک اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی تھے ۔ نوٹیفکیشن کے وقت برطانیہ کے لیے روانہ ہو چکے تھے۔اس بارے میں رحمان ملک نے وفات سے قبل ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ وہ اور وزیراعظم لاعلم تھے اور برطانیہ پہنچتے ہی ائیرپورٹ پر انہیں اطلاع دی گئی کہ یہ نوٹیفکیشن کیسے جاری ہوا ہے۔ وزیراعظم نے اسی وقت اعلامیہ واپس لینے کا حکم دیا۔ اور یوں چوبیس گھنٹوں سے بھی کم وقت میں اس وقت کی حکومت نے اپنا فیصلہ واپس لے لیا گیا۔ اس وقت کے ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس معاملے پر فوج سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی تھی۔خیال رہے کہ آئی ایس آئی کی زیادہ تر ذمہ داری ایکسٹرنل انٹیلجنس اکٹھی کرنے پر رہی ہے تاہم ذووالفقار علی بھٹو پہلے وزیراعظم تھے جنہوں نے اندرونی طور پر انٹیلجنس جمع کرنے کا مینڈیٹ آئی ایس اآئی کو دیا جس کا مقصد سیاستدانوں سے متعلق معلومات جمع کرنا تھا۔ہیومن رائٹس پاکستان نے اپنی ٹویٹ میں وزیراعظم کے فیصلے پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ادارے کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان کو جمہوری حیثیت سے آگے بڑھنا ہے تو سویلین معاملات میں فوج کے کردار کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔دی آرمی اینڈ ڈیموکریسی: ملٹری پالیٹکس اِن پاکستان کے مصنف عاقل شاہ نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ آئی ایس آئی سرکاری افسران کی سکریننگ معمول میں کرتی ہے۔ یہ بلینکٹ پالیسی صرف سول سروس کے گیٹ کیپر، واچ ڈاگ کے طور پر آئی ایس آئی کے کردار کو مضبوط کرے گی۔حکومتی افسران کی جانچ کے لیے آئی ایس آئی کو لیگل کور دے دیا گیا ہے،آئی ایس آئی کے پاس علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر اور بھی چیلنجز ہیں۔سول سوسائٹی میں`ملیٹرائزیشن ‘ کو بڑھایا ہے،آئی ایس آئی کو ایسے معاملات میں شامل کر لیا ہے جن سے اسے دور رکھنا چاہیے، آئی ایس آئی کو علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر چیلنجز ہیں اور اسے اپنی استعداد پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے, پاکستان میں اس وقت جو سیاسی انتشار ہے اس نے بھارت کے دانت مزید تیز کر دیے ہیں اور وہ اندرون ملک اور دنیا بھر میں پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات سے فائدہ اٹھا کر اس کو عدم استحکام سے دوچا رکرنے کی غرض سے اپنی تخریبی اور مذموم سرگرمیاں جاری رکھنے کے لئے ہتھکنڈے استعمال کر ر ہا ہے۔اس وقت بھی را پاکستان میں دہشت گردوں کی سرپرستی کے لئے افغانستان میں 87دہشت گردی کیمپ چلا رہی ہےجبکہ اس نے پاکستان مخالف کالعدم تحریک طالبان پاکستان کو افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا سے قبل لاکھوں ڈالر دیے تھے ۔لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ را کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھے‘ اپنے سکیورٹی اداروں کو الرٹ کرے ،حساس علاقوں اور تنصیبات کی خصوصی نگرانی کرے ،سرحدی چوکیوں کو چوکس رکھا جائے۔ حکومت جلسے جلوسوں اور لانگ مارچ کوہینڈل کرتے وقت دانائی کا مظاہرہ کرے اور کوئی ایسی صورتحال پیدا نہ ہونے دی جائے جس سے فائدہ اٹھا کر دشمن کو اپنی مذموم سرگرمیاں جاری رکھنے کا موقع ملے۔۔۔۔