مسلح افواج کی سادگی۔قناعت پسندی ,کفایت شعاری کی روشن مثال ;بجٹ میں اضافہ نہیں کرایا

 
0
165

اندر کی بات ؛کالم نگار؛ اصغرعلی مبارک

اسلام آباد 10 جون 2022 (ٹی این ایس): بجٹ ملکی دفاع کیلئے ایک ہزار 523 ارب روپے مختص کیےگیے ہیں۔تاھم سادگی۔قناعت ,کفایت شعاری کی روشن مثال قائم کرتےھوئےمسلسل تیسرے سال بجٹ میں اضافہ نہیں کرایاجبکہ گزشتہ سال ساڑھے تین ارب روپے قومی خزانے میں واپس جمع کرادیئے مسلح افواج نے معیشت کے استحکام کیلئے ایک بار پھر بڑا فیصلہ کرتے ہوئے دستیاب وسائل میں دفاع اور سلامتی یقینی بنانے کا عزم ظاہر کیا ھے۔ بلکہ مسلح افواج نے یوٹیلٹی بلز کی مد میں اپنے اخراجات کو مزید محدود کردیئےہیں ۔اس مالی سال بھی مسلح افواج نے کسی اضافی فنڈ کا مطالبہ نہیں کیا، مسلح افواج نے یوٹیلٹی بلز کی مد میں بھی اپنے اخراجات کو مزید محدود کردیا۔مسلح افواج نے ڈیزل اور پیٹرول کی خصوصی بچت کیلئے بھی اقدامات کرلئے، جمعہ کو پوری فوج میں ڈرائی ڈے ہوگا، کوئی سرکاری ٹرانسپورٹ نہیں چلے گی۔مسلح افواج نے بڑی تربیتی مشقوں کے بجائے کنٹونمنٹس کے قریب چھوٹے پیمانے پر ٹریننگ کا فیصلہ کیا ہے، کانفرنسز اور دیگر اہم امور کیلئے آن لائن کام کیا جائے گا جبکہ عسکری ساز و سامان کی خریداری کیلئے مقامی کرنسی کا استعمال ہوگا۔مسلح افواج نے کرونا کی مَد میں الاٹ رقم میں سے 6 ارب روپے بچاکر حکومت کو واپس کئے گئے، عسکری ساز و سامان کیلئے الاٹ رقم سے تقریباَ ساڑھے 3 ارب روپے واپس جمع کرائے گئے۔ رواں سال دفاعی بجٹ قومی بجٹ کا صرف 16 فیصد ہے، ٹیکسز اور ڈیوٹیز کی مد میں پچھلے 5 سال میں 935 ارب روپے جمع کرائے گئے۔ خیال رہے کہ مالی سال 23-2022 میں وفاقی حکومت کے کل اخراجات کا تخمینہ 9 ہزار 502 ارب روپے ہے،جبکہ پروگرامز کیلئے 800 ارب، دفاع کیلئے 1523 ارب، پنشن کی مد میں 530 ارب، ایچ ای سی کیلئے 65 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ کل اخراجات کا تخمینہ 95 کھرب 2 ارب روپےایف بی آر کے ریونیو کا تخمینہ 7004 ارب روپےصوبوں کا حصہ دینے کے بعد وفاقی حکومت کے پاس نیٹ ریونیو 4904 ارب روپے ہوگانان ٹیکس ریونیو میں 2000 ارب روپے آمدن کا تخمینہ3950 ارب روپے ڈیٹ سروسنگ پر خرچ ہوں گےترقیاتی منصوبوں کیلئے 800 ارب روپے مختصدفاع کیلئے 1523 ارب روپے مختص ہیں۔سول انتظامیہ کے اخراجات 550 ارب روپے ہوں گےپنشن کی مد میں 530 ارب روپے مختص بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی رقم 250 ارب روپے سے بڑھا کر 364 ارب روپے کردی گئی ہے ہائر ایجوکیشن کمیشن کیلئے بجٹ میں 65 ارب روپے کی رقم مختصیوٹیلٹی اسٹور کارپوریشن پر اشیاء کی سبسڈی کیلئے 12 ارب روپے مختص ہیں ہونہار طلبہ کو ایک لاکھ لیپ ٹاپ آسان قسطوں پر فراہم کیے جائیں گے اس طرح ایک ارب روپے سالانہ کی لاگت سے بائنڈنگ فلم فنانس فنڈ قائم کی جارہی ھے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15 فیصد اضافہ کیا گیا ھے اس طرح بجلی کی پیداوار ، ترسیل اور تقسیم کو بہتر بنانے کیلئے 72 ارب روپے کی رقم مختص ہے آبی وسائل کیلئے دیامر بھاشا ڈیم، مہمند، داسو، نئی گاج ڈیم اور کمانڈ ایریا پروجیکٹس کیلئے 100 ارب روپے مختص ہیں ۔شاہراہوں اور بندرگاہوں کیلئے 202 ارب روپے۔ اعلیٰ تعلیم کے منصوبوں کیلئے 51 ارب روپے کی رقم ۔متعدی بیماریوں، طبی آلات کی فراہمی، ویکسینیشن وغیرہ کیلئے 24 ارب روپے۔ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کیلئے تقریباً 10 ارب روپے ۔آئی ٹی برآمدات کو فروغ دینے کیلئے 17 ارب روپے ۔تنخواہ دار طبقے کیلئے انکم ٹیکس کی حد 12لاکھ روپے مقرر۔کرائے سے ہونے والی آمدنی اور جائیداد کی لین دین پر ٹیکس میں اضافہ ۔ادویات اور سولر پینلز پر ٹیکس چھوٹ ۔موبائل فونز کی درآمد پر 100 روپے سے 16 ہزار روپے تک لیوی عائد۔1600 سی سی سے بڑی گاڑیوں پر ایڈوانس ٹیکس بڑھانے کی تجویز فی گئی ھے
مفتاح اسماعیل کاکہنا ھے کہ رواں مالی سال فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر )کے ریونیو 6 ہزار  ارب روپے ہوں گے اور  ریونیو میں صوبوں کا حصہ 3512 ارب روپے رہا، رواں مالی سال وفاق کا نیٹ ریونیو 3803 ارب روپے رہا ، رواں مالی سال وفاق کا نان ٹیکس ریونیو 1315 ارب روپے ہونے کی توقع ہے جبکہ رواں مالی سال وفاق کے کل اخراجات 9118 ارب روپے ہوں گے ، رواں مالی سال پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے اخراجات 550 ارب روپے ہوں گے ۔ مفتاح اسماعیل کے مطابق رواں مالی سال قرضوں کی ادائیگی کی مد میں 3144 ارب روپے خرچ ہوں گے۔وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر میں بتایا کہ رواں مالی سال ڈیفنس پر 1450 ارب روپے، وفاقی حکومت کے اخراجات میں 530 ارب روپے، پنشن پر 525 ارب روپے اور سبسڈیز کی مد میں 1515 ارب روپے خرچ ہوئے۔
وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بجٹ تقریر میں بتایا کہ اگلے مالی سال ایف بی آر کے ریونیو کا تخمینہ 7004 ارب روپے ہے جس میں سے صوبوں کا حصہ 4100 ارب روپے ہوگا۔ وفاقی حکومت کے پاس نیٹ ریونیو 4904 ارب روپے ہوگا جبکہ نان ٹیکس ریونیو میں 2000 ارب روپے آمدن کا تخمینہ ہے۔
وزیرخزانہ کے مطابق مالی سال 23-2022 میں وفاقی حکومت کے کل اخراجات کا تخمینہ 9 ہزار 502 ارب روپے ہے جن میں سے 3950 ارب روپے ڈیٹ سروسنگ پر خرچ ہوں گے۔
وزیر خزانہ نے بتایا کہ پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرامز کیلئے 800 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ مالی سال 23-2022 کیلئے ملکی دفاع کیلئے 1523 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں ، سول انتظامیہ کے اخراجات 550 ارب روپے ہوں گے۔ وفاقی بجٹ میں پنشن کی مد میں 530 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ عوام کی سہولت کیلئے ٹارگیٹڈ سبسڈیز کی مد میں 699 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
مالی سال 23-2022 کیلئے گرانٹ کی صورت میں 1242 ارب روپے رکھے گئے ہیں جس میں بیت المال، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور دیگر محکموں کی گرانٹس شامل ہیں۔
وفاقی بجٹ میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی رقم 250  ارب روپے سے بڑھا کر 364 ارب روپے کردی گئی۔اس کے علاوہ یوٹیلٹی اسٹور کارپوریشن پر اشیاء کی سبسڈی کیلئے 12 ارب روپے مختص کی گئی ہے۔ 5 ارب روپے کی اضافی رقم رمضان پیکج کیلئے مختص کی گئی ہے۔ اگلے مالی سال BISP کے تحت 90 لاکھ خاندانوں کو بے نظیر کفالت کیش ٹرانسفر پروگرام کی سہولت میسر ہوگی جس کیلئے 266 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ہائر ایجوکیشن کمیشن کیلئے بجٹ میں 65 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ 44 ارب روپے ایچ ای سی کے ترقیاتی اسکیموں کیلئے رکھے گئے ہیں۔ ملک بھر کے طلبہ کو ایک لاکھ لیپ ٹاپ آسان قسطوں پر فراہم کیے جائیں گے۔وفاقی بجٹ میں فصلوں اور مویشیوں کی پیداوار بڑھانے کیلئے 21 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بتایا کہ 2018 کی فلم و کلچر پالیسی پر عمل درآمد کا آغاز کرتے ہوئے فلم کو صنعت کا درجہ دیا گیا ہے اور ایک ارب روپے سالانہ کی لاگت سے بائنڈنگ فلم فنانس فنڈ قائم کیا جارہا ہےجبکہ فنکاروں کیلئے میڈیکل انشورنس پالیسی شروع کی جارہی ہے۔انہوں نے بتایا کہ فلم سازوں کو پانچ سال کا ٹیکس ہالی ڈے، نئے سنیما گھروں ، پروڈکشن ہاؤسز اور  فلم میوزیمز کے قیام پر پانچ سال کا انکم ٹیکس اور دس سال کیلئے فلم اور ڈرامہ کی ایکسپورٹ پر ٹیکس ری بیٹ جبکہ سنیما اور پروڈیوسرز کی آمدن کو انکم ٹیکس سے استثنیٰ دیا جارہا ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ملک اس وقت شدید مالی بحران کا شکار ہے پھر بھی سرکاری ملازمین کی مشکلات کا احساس ہے لہٰذا سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15 فیصد اضافہ کیا جارہا ہے۔ بجلی کی پیداوار ، ترسیل  اور تقسیم کو بہتر بنانے کیلئے 72 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے جس میں سے 12 ارب روپے مہمند ڈیم کی جلد تکمیل کیلئے ادا کی جائے گی۔ وفاقی بجٹ میں دیامر بھاشا ڈیم، مہمند، داسو، نئی گاج ڈیم اور کمانڈ ایریا پروجیکٹس کیلئے 100 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ وفاقی بجٹ میں شاہراہوں اور بندرگاہوں کیلئے 202 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔عوام کی زندگی بہتر بنانے کیلئے غیر مراعات یافتہ طبقے کیلئے 70 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔اعلیٰ تعلیم کے منصوبوں کیلئے 51 ارب روپے کی رقم مختص کرنے کی تجویز ہے۔ متعدی بیماریوں، طبی آلات کی فراہمی، ویکسینیشن اور صحت کے  اداروں کی صلاحیت کار میں اضافے کیلئے 24 ارب روپے مختص کی گئی ہے۔وفاقی حکومت نے ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کیلئے تقریباً 10 ارب روپے مختص کی ہیں اس میں شجر کاری اور قدرتی ماحول بہتر بنانے کے دیگر منصوبے شامل ہیں۔ حکومت نے آئی ٹی کے شعبے میں تربیت دینے ، نوجوانوں کو لیپ ٹاپ فراہم کرنے ، نیٹ ورک بہتر بنانے اور آئی ٹی برآمدات کو فروغ دینے کیلئے 17 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
زرعی شعبے میں جدت اور مشینوں کااستعمال بڑھانے اور معیاری بیجوں کی فراہمی و زرعی پیداوار کی برآمد کیلئے 11 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
وفاقی بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کیلئے انکم ٹیکس کی حد 12 لاکھ روپے مقرر کردی گئی۔
وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے آئندہ مالی سال 2022-23 کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا۔وزیر خزانہ کا کہنا تھاکہ ملک میں تنخواہ دار طبقہ سب سے زیادہ معاشی مسائل میں جکڑا ہوا ہے، اس کے باوجود اسی طبقے پر ٹیکس کا اضافی بوجھ ڈالا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ ہماری حکومت نے تنخواہ دار طبقے کی معاشی پریشانیوں کے ازالے کیلئے ٹیکس کی چھوٹ کی موجودہ حد لاکھ روپے سے بڑھا کر 12 لاکھ پر کرنے کی تجویز دی ہے۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھاکہ اس سے تنخواہ دار افراد کو فائدہ ہوگا جس سے ایک مثبت معاشی سائیکل پیدا ہوگا اور یہ رقم کاروبار میں اضافے کا سبب بنے گی۔متفاح اسماعیل کا کہنا تھاکہ اس کے علاوہ مہنگائی کے پیش نظر انفرادی کاروبار اور اے او پیز کیلئے ٹیکس چھوٹ کی بنیادی حد 4 لاکھ سے بڑھا کر 6 لاکھ کرنے کی تجویز ہے۔بجٹ پیش ہونے کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس 13 جون سہ پہر 4 بجے تک ملتوی کردیا گیا ہے۔وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کرتے ہوئے کرائے سے ہونے والی آمدنی پر بھی ٹیکس عائد کرنے کا اعلان کردیا۔ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ صاحب حیثیت افراد کی دولت کا بڑا حصہ پاکستان کے رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں موجود ہے، یہ دو دھاری تلوار ہے، اس سے ایک طرف غیر پیداواری اثاثے جمع ہوتے ہیں اور دوسری طرف غریب اور کم آمدنی والے طبقوں کیلئے مکانات کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں لہٰذا اس عدم توازن کو درست کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔وزیر خزانہ نے بتایا کہ وہ تمام افراد جن کی ایک سے زائد غیر منقولہ جائیداد پاکستان میں موجود ہے اور جس کی مالیت ڈھائی کروڑ روپے سے زیادہ ہے اس پر فیئر مارکیٹ ویلیو کے 5 فیصد کے برابر فرضی آمدن/ کرایہ تصور کیا جائے گا جس کے نتیجے میں پراپرٹی کی فیئر مارکیٹ ویلیو کے ایک فیصد ٹیکس کی شرح مؤثر ہوگی۔ تاہم ہر کسی کا ایک عدد ذاتی رہائشی گھر اس ٹیکس سے مستثنیٰ ہوگا۔ مفتاح اسماعیل نے بتایا کہ اب پاکستان میں واقع غیر منقولہ جائیداد کے کیپیٹل گین پر ایک سال ہولڈنگ پیریئڈ کی صورت میں 15 فیصد ٹیکس لاگو کرنے کی تجویز ہے جو ہر سال ڈھائی فیصد کی کمی کے ساتھ چھ سال کے ہولڈنگ پیریئڈ کی صورت میں صفر ہوجائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ ٹیکس فائلرز کیلئے پراپرٹی کی خرید و فروخت پر ایڈوانس ٹیکس کی شرح ایک فیصد سے بڑھاکر 2 فیصد جبکہ نان فائلرز کی حوصلہ شکنی کیلئے ایڈوانس ٹیکس کی شرح 5 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ اس صورتحال میں ماحول دوست توانائی آگے بڑھنے کا بہترین راستہ ہے اور اسی لیے سولر پینلز کی درآمد اور مقامی سپلائی کو سیلز ٹیکس سے استثنیٰ دینے کی تجویز دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ 200 یونٹ سے کم بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو سولر پینلز کی خریداری پر بینکوں سے آسان اقساط پر قرضے دلائے جائیں گے، جس سے ماحول دوست طریقے سے بجلی کا حصول ممکن ہوگا جبکہ درآمد شدہ مہنگے تیل اور گیس کے استعمال میں کمی آئے گی۔
انہوں نے بجٹ تقریر میں یہ بھی کہا کہ فارماسیوٹیکل سیکٹر کے لیے 30 سے زیادہ ایکٹیو فارماسیوٹیکل انگریڈینٹس (کسی دوا کے لیے درکار اجزا) کو کسٹم ڈیوٹی سے مکمل استثنیٰ دیا گیا ہے۔اس کے علاوہ فرسٹ ایڈ بینڈیجز بنانے والی صنعت کے خام مال کو بھی کسٹم ڈیوٹی سے مزید استثنیٰ دیا گیا ہے تاکہ اس کی پیداواری لاگت مزید کم ہوسکے۔ وفاقی بجٹ میں موبائل فونز کی درآمد پر 100 روپے سے 16 ہزار روپے تک لیوی عائد کردی گئی۔ بجٹ دستاویز کے مطابق بجٹ میں 30 ڈالرز کے موبائل فون پر 100 روپے اور 30 ڈالرز سے 100ڈالرز مالیت کے موبائل فونز پر 200 روپے لیوی عائد کی گئی ہے۔ بجٹ دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ بجٹ میں 200 ڈالرز کے درآمدی موبائل فون پر600 روپے، 350 ڈالرز مالیت کے موبائل فونز پر 1800 روپے اور 500 ڈالرز کے موبائل فون پر 4000 روپے لیوی عائد کی گئی ہے۔ بجٹ میں 700 ڈالرز مالیت کے موبائل فون پر 8000 روپے اور 701 ڈالرزیا اس سے زائد مالیت کے موبائل فون پر 16 ہزار لیوی عائد کی ہے۔ نئے وفاقی بجٹ میں امیر طبقے پر ٹیکسوں کو بڑھایا گیا ہے۔
وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے آئندہ مالی سال کے بجٹ کو پیش کرتے ہوئے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ٹیکس کا بوجھ غریب سے امیر کی طرح منتقل کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ ایسے تمام افراد بشمول کمپنیوں اور  ایسوسی ایشن آف پرسنز (اے او پیز) جن کی سالانہ آمدن 30 کروڑ روپے یا اس سے زائد ہو، ان پر 2 فیصد ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے۔1600 سی سی سے بڑی گاڑیوں پر ایڈوانس ٹیکس بڑھانے کی تجویز ہے۔اسی طرح الیکٹرک انجن کی صورت میں قیمت کے 2 فیصد کی شرح سے ایڈوانس ٹیکس وصول کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ نان فائلرز کے لیے ٹیکس کی شرح کو 100 فیصد سے بڑھا کر 200 فیصد کیا جائے گا۔