تحریک طالبان پاکستان، تحریک طالبان افغانستان مذاکرات ، پارلیمانی کمیٹی تشکیل

 
0
131

اندر کی بات ؛کالم نگار؛اصغرعلی مبارک

اسلام آباد 12 جون 2022 (ٹی این ایس): تحریک طالبان پاکستان سے تحریک طالبان افغانستان کے مذاکرات پر معاملے کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لانے کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔پاکستان اور ٹی ٹی پی کے مختلف دھڑوں کے درمیان اس سے قبل بھی امن معاہدے ہو چکے ہیں جن میں مقامی قبائل بھی شامل تھے۔ 2002 سے 2009 تک نیک محمد وزیر، بیت اللہ محسود، فضل اللہ، مولوری نذیر اور حافظ گل بہادر کا مختلف قبائلی علاقوں میں کافی اثر و رسوخ رہا۔ انھوں نے مقامی بازاروں میں اپنے دفاتر بھی کھول رکھے تھے اور وانا جیسے علاقوں میں اپنا عدالتی نظام چلاتے تھے اور پیسہ اکھٹا کرتے تھے۔ وزیر خارجہ اور چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) بلاول بھٹو زرداری نے سیاسی جماعتوں سے رابطوں اور دہشت گردی کے معاملات پارلیمنٹ میں اٹھانے کے لیے 3 رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے۔ تین رکنی کمیٹی میں شیری رحمٰن، فرحت اللہ بابر اور قمر زمان کائرہ شامل ہیں۔یاد رہے کہ اخونزادہ چٹان پاکستانی قبائل وفود میں شامل تھے جو مہینے کے شروع میں مذکرات کے لیے کابل گیا تھا۔

گزشتہ ماہ حکومت اور ٹی ٹی پی نے غیر معینہ مدت تک کے لیے جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا اور قبائلی سرحدی علاقے میں دو دہائیوں سے جاری عسکریت پسندی کو ختم کرنے کے لیے مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے میڈیا سیل کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے جاری کردہ پیغام میں کمیٹی کے قیام کی تصدیق بھی کی گئی۔خیال رہے کہ گزشتہ روز زرداری ہاؤس میں ہونے والے اجلاس میں تحریک طالبان افغانستان اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے متعلق تبادلہ خیال ہوا تھا۔ اجلاس میں پارلیمان کو وہ پہلا اور واحد فورم قرار دینے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا گیا تھا جہاں ایسے موضوعات پر بحث کی جاسکتی ہے۔بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے جاری مذاکرات سمیت دہشت گردی سے متعلق تمام فیصلے پارلیمنٹ کے ذریعے ہونے چاہئیں۔ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے متعدد مواقع پر بتایا ہے کہ وہ ذاتی طور پر دہشت گردی سے متاثر ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا تھا کہ ان کی جماعت آگے بڑھنے کے راستے پر اتفاق رائے کے لیے اتحادی جماعتوں سے رابطہ کرے گی۔پی پی پی سمجھتی ہے کہ تمام تر فیصلے پارلیمنٹ کو کرنے چاہئیں۔سابق صدر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کے زیرِ صدرات اجلاس میں پارٹی کے سینئر رہنما یوسف رضا گیلانی، راجا پرویز اشرف، مراد علی شاہ، شیری رحمٰن، خورشید شاہ، فریال تالپور، نئیر بخاری، نجم الدین، فیصل کریم کنڈی، ہمایوں خان، قمر زمان کائرہ، چوہدری یٰسین، چوہدری منظور، ندیم افضل چن، اخونزادہ چٹان، رخسانہ بنگش، نثار کھوڑو اور فرحت اللہ بابر نے شرکت کی تھی۔چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے جاری مذاکرات سمیت دہشت گردی سے متعلق تمام فیصلے پارلیمنٹ کے ذریعے ہونے چاہئیں۔وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے متعدد مواقعوں پر بتایا ہے کہ وہ ذاتی طور پر دہشت گردی سے متاثر ہوئے ہیں، انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت آگے بڑھنے کے راستے پر اتفاق رائے کے لیے اتحادی جماعتوں سے رابطہ کرے گی۔ایک ٹوئٹ میں ان کا کہنا تھا کہ پی پی پی نے دہشت گردی کے مسائل، خاص طور پر افغانستان کی موجودہ صورتحال، تحریک طالبان افغانستان (ٹی ٹی اے) اور ٹی ٹی پی کے حوالے سے اعلیٰ سطح کا اجلاس منعقد کیا ہے۔50 اراکین پر مشتمل قبائلی جرگے نے بھی مذاکرات میں حصہ لیا تھا، کابل میں پاکستانی حکام نےبتایا تھا کہ بات چیت میں پیش رفت سنجیدہ مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔گزشتہ ماہ حکومت اور ٹی ٹی پی نے غیر معینہ مدت تک کے لیے جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا اور قبائلی سرحدی علاقے میں دو دہائیوں سے جاری عسکریت پسندی کو ختم کرنے کے لیے مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کہا گیا ہے کہ اگر ٹی ٹی پی کے مطالبات تسلیم کیے گئے تو یہ قبائلی پٹی کے مختلف حصوں میں ریاست کے اختیار کو سرنڈر کرنے کے مترادف ہوگا جہاں عسکریت پسند فعال تھےتحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات اور جنگ بندی کی اطلاعات عید الفطر کے موقع پر میڈیا میں آئیں جن کے بارے میں معتبر عسکری زرائع انکار کرتے رہے اور اس موقف کے حق میں دلائل دیتے ہوئے ان کا کہناتھا کہ اگر کوئی ایسی بات ہوتی تو دہشتگردوں کے آپریشن جاری نہ رہتا جس میں درجنوں کو جہنم واصل کرنے کی خبریں تسلسل کے ساتھ عسکری میڈیا پر آرہی ھیںواضح رہے کہ حکومت پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان جنگ بندی کے لیے حالیہ مذاکرات افغانستان میں افغان طالبان کی ثالثی میں ہوئے جن میں قبائلی عمائدین اور ٹی ٹی پی کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے شرکت کی۔ اطلاعات کے مطابق ان مذاکرات میں پاکستانی فوجی نمائندے بھی شامل تھے۔ان مذاکرات کے سلسلے میں پاکستان فوج کی پشاور کور کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید بھی کابل میں موجود تھے تاہم اس بارے میں پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ٹی ٹی پی اور پاکستانی حکومت کے درمیان مذاکرات کا نیا دور گزشتہ سال فروری میں افغان طالبان اور قبائلی رہنماؤں کی ثالثی میں شروع ہوا تھا۔ اس وقت پاکستانی طالبان نے تین سینیئر ارکان سمیت 100 سے زائد قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔مذاکرات میں شامل تینوں فریقوں کی جانب سے ابھی تک باضابطہ طور پر موقف سامنے نہیں آیا لیکن ٹی ٹی پی کی جانب سے ایک اعلامیہ ضرور سامنے آیاتحریکِ طالبان پاکستان کے اعلامیے میں افغان طالبان کی ثالثی میں مذاکرات کی تصدیق کرتے ہوئے جنگ بندی میں توسیع کے اعلان کے ساتھ ہی کہا گیا تھا کہ پاکستان کے سرکاری وفد کے علاوہ محسود قبیلے اور ملاکنڈ ڈویژن کے مختلف قبائل کی نمائندہ کمیٹیوں نے بھی حکومت پاکستان کے مطالبے پر تحریک طالبان پاکستان کی مذاکراتی کمیٹی سے ملاقاتیں کیں۔ جن میں مطالبہ کیا گیا کہ جب تک مذاکراتی کمیٹیاں بات کر رہی ہیں فریقین کو فائر بندی کرنی چاہیے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستانی وفد سے قیدیوں کی رہائی، وزیرستان اور سابقہ قبائلی علاقوں سے فوج کے انخلا، ماضی کی طرح مقامی ملیشیا کو سیکیورٹی کی ذمہ داریوں کی واپسی اور سابقہ قبائلی علاقوں کا نظام بحال کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اسلامی شرعی قانون کے نفاذ اور امریکہ میں سزا پانے والی پاکستانی شہری ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ٹی ٹی پی کے کچھ قیدیوں کی رہائی میں پیش رفت ہوئی ہے تاہم تین دیگر شرائط پر عمل در آمد کرنا آسان نہیں ہو گا۔ ان میں سے دو اہم شرائط میں شرعی قانون کا نفاذ اور قبائلی علاقوں سے فوج کا انخلا شامل ہیں۔واضح رہے کہ 2009 میں سوات امن معاہدے اور مالاکنڈ میں شرعی نظام عدل بل کی منظوری کے بعد، جس نے سوات اور آس پاس کے علاقوں میں انتہا پسندی کو ہوا دی تھی، پاکستان کی حکومتیں اس معاملے ہر مذید کسی قسم کا سمجھوتا کرنے سے گریزاں رہی ہیں۔پاکستان کی کوشش ہے کہ ان مذاکرات کے ذریعے، اپنی شرائط پر، ٹی ٹی پی کو کم سے کم رعایت دے کر اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ وہ اپنی کارروایاں ختم کر دیں۔پاکستان کو اس وقت یہ فائدہ ضرور حاصل ہے کہ افغانستان سے نیٹو اور امریکی فوج کے انخلا اور انڈیا کے اثر و رسوخ میں کمی کے باعث کابل میں افغان طالبان کی شکل میں ایک ایسی انتظامیہ موجود ہے جو تعاون کے لیے تیار دکھائی دیتی ہے۔سابقہ قبائلی اضلاع میں ٹی ٹی پی کے حملوں میں شدت آنے اور افغان سرزمین پر ان کے ٹھکانوں پر پاکستان کے فضائی حملوں کے بعد افغان طالبان ٹی ٹی پی کے معاملے میں مزید سنجیدہ نظر آتے ہیں۔لیکن پاکستان کی فوج اب بھی افغانستان کی سرحد کے ساتھ سابق قبائلی علاقوں میں موجودگی برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ پاکستان کے قیام کے بعد پہلی بار قبائلی علاقوں میں فوج اتنی بڑی سطح پر موجودگی کو پاکستان کی قومی سلامتی کی ضمانت سمجھتی ہے۔ایسے میں ایک ممکنہ حل یہ نکالا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی حکومت اس بات پر تیار ہو کہ سابقہ قبائلی علاقوں میں ماضی کی طرح سیکیورٹی چوکیاں، تلاشی اور گشت کی ذمہ داری تو مقامی ملیشیا کو سونپ دی جائے لیکن فوج کی موجودگی مخصوص علاقوں اور اڈوں میں برقرار رہے۔افغان طالبان کے پاس دو راستے ہیں۔ہلا یہ کہ وہ ٹی ٹی پی کو مذاکرات کی ترغیب دیں اور آخر کار پاکستان اور قبائلی علاقوں میں ان کے حملے بند ہو جائیں۔ دوسرا راستہ اس صورت میں نکالنا ہو گا اگر مذاکرات ناکام ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں طالبان حکومت کے لیے ضروری ہو گا کہ اگر وہ ٹی ٹی پی کو افغانستان کے شمالی علاقوں یا ڈیورنڈ لائن یعنی پاکستان اور افغانستان کی سرحد سے دور دراز علاقوں میں جانے پر مجبور کر دیں۔ایسا ہی ایک مطالبہ برٹش انڈیا نے افغانستان کے سابق حکمرانوں سے بھی کیا تھا جب وزیرستان میں برطانیہ کے خلاف لڑنے والے زیادہ تر جنگجو اور قبائل افغانستان کے لویہ پکتیا کے علاقے میں رہتے تھے۔ اس علاقے سے قبائلی علاقوں میں رسائی حاصل کرنا، جنگجوؤں کو بھرتی کرنا اور ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف افرادی قوت تیار کرنا آسان تھا۔لیکن جب ان جنگجوؤں اور ان کے خاندانوں کو افغانستان کے شمال اور دیگر صوبوں میں وسیع زمینیں اور دیگر مراعات دی گئیں تو وزیرستان اور قبائل میں ان کی سرگرمیاں محدود ہو گئیں۔ اس حل کو ٹی ٹی پی قبول کرے گی یا نہیں؟ یہ بھی ایک اہم سوال ہے کیوں کہ قبائلی علاقوں سے ان کا فاصلہ جتنا زیادہ ہو گا، اتنا ہی یہ ان کی بھرتیوں، رسد اور مواصلاتی نیٹ ورک کو متاثر کرے گا۔اس کے ساتھ ساتھ افغانستان کے شمال میں پہلے سے سرگرم شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ ان میں زیادہ تر بدخشانی، تخاری، ازبک، اویغور اور ترکمان جنگجو ہیں جن کے ساتھ وزیرستان اور قبائلی علاقوں میں ٹی ٹی پی کے قریبی تعلقات تھے۔ ماضی میں ازبک جنگجو ٹی ٹی پی کے ساتھ اتحاد کر چکے ہیں۔ ٹی ٹی پی بھی شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کی طرف جھکاؤ کی تاریخ رکھتی ہے اور اگر ٹی ٹی پی کو اس علاقے میں منتقل کیا جاتا ہے تو اس کے کچھ جنگجو افغان طالبان کے خلاف جنگ کا حصہ بن سکتے ہیں۔واضح رہے کہ شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ افغانستان میں طالبان کے خلاف کارروایوں میں مصروف ہے۔پاکستان میں کچھ لوگوں کی یہ رائے بھی ہے کہ ٹی ٹی پی کو قبائلی علاقوں میں امن لشکر کے طور پر ذمہ داری دی جائے تاکہ وہ قبائل کو جواب دہ ہوں۔ ایسا تجربہ ماضی میں کیا جا چکا ہے جب ٹی ٹی پی مخالف گروہوں کو ایسا ہی کردار دیا گیا۔لیکن یہ گروہ تنظیمی طور پر ٹی ٹی پی کے خلاف کمزور پوزیشن کے حامل تھے۔ قبائلی علاقوں میں بھی ہر کوئی ٹی ٹی پی کی واپسی کی حمایت نہیں کرے گا. ماضی کے تلخ تجربات کی وجہ سے پی ٹی ایم حالیہ مذاکرات پر تشویش رکھتی ہے۔ ان کو خدشہ ہے کہ ماضی کی طرح کی صورت حال ایک بار پھر جنم لے سکتی ہے۔ تحریک کے ایک سرکردہ رکن عالم زیب محسود نے حال ہی میں جنوبی وزیرستان کے علاقے شوال میں ایک قبائلی امن جرگے میں کہا کہ مقامی قبائل حکومت پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے نتائج کی ذمہ داری نہیں لے سکتے۔انھوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کی فوج چاہتی ہے کہ طالبان کو قبائل کے ذریعے کنٹرول کیا جائے۔ کرم ایجنسی میں بھی ٹی ٹی پی کے بارے میں اچھی رائے نہیں پائی جاتی۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کی حکومت چند قبائل عمائدین کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے۔ اس کے باوجود اب تک ٹی ٹی پی کی شرائط کو دیکھتے ہوئے طویل المدت جنگ بندی کے آثار کم دکھائی دیتے ہیں۔ایسے میں پاکستان کے پاس محدود مگر آپشن موجود ہیں کیوں کہ ٹی ٹی پی کا بطور ایک مضبوط تحریک کے وجود پاکستان کے لیے قابل قبول نہیں۔ریاستوں کے پاس ایسی تحریکوں کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک آپشن قیادت کی تبدیلی بھی ہے۔ ٹی ٹی پی کی قیادت میں تبدیلی اسلام آباد کو اس قابل بنا سکتی ہے کہ وہ گروپ کو آہستہ آہستہ اپنے کنٹرول میں لے آئے۔’ہمیں زیادہ امید نہیں ہے کیونکہ ٹی ٹی پی کے لوگ 20 سال تک افغان طالبان کے ہمراہ افغانستان میں جنگ کا حصہ رہے ہیں، اس لیے وہ ایک دوسرے کے ساتھی رہے ہیں۔ ایک حد تک تعاون تو ممکن ہے مگر زیادہ امید نہیں رکھی جا سکتی۔خیال رہے کہ پاکستان کا مسلسل یہ موقف رہا ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان میں دہشتگردی کی کارروائیاں کرنے کے لیے استعمال کی جا رہی ہے۔ گذشتہ برس افغان طالبان کے حکومت میں آنے کے بعد پاکستان کے متعدد حلقوں کی جانب سے یہ سمجھا جا رہا تھا کہ اب افغانستان سے پاکستان میں حملوں کا سلسلہ ختم ہو جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اگست 2021 کے بعد پاکستان میں دہشت گرد حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔پاکستان حکومت نے گذشتہ برس کے اواخر میں اعلان کیا تھا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات ہو رہے ہیں اور ہتھیار پھینکنے کی صورت میں ان کے بیشتر شدت پسندوں کو قومی دھارے کا حصہ بنایا جائے گا۔ اس سلسلے میں افغان طالبان نے ثالث کا کردار ادا کرتے ہوئے فریقین میں جنگ بندی کا معاہدہ بھی طے کرایا تاہم دونوں جانب سے کہا گیا کہ مذاکرات کا سلسلہ بغیر کسی نتیجے کے ٹوٹ چکا ہے جس کے بعد جنگ بندی کا معاہدہ بھی ختم ہو گیا۔مقامی قبائل کے جرگے، مشران اور ملک آئے روز افغانستان میں مقیم ٹی ٹی پی کے لوگوں سے ملاقات کرتے ہیں۔ ٹی ٹی پی کی نچلی سطح کے یہ جنگجو مقامی قبائل کا حصہ ہیں اور ان کے خاندان ڈیورنڈ لائن (پاکستان اور افغانستان کی سرحد) کے دونوں جانب موجود ہیں۔دونوں طرف کی روایات کے مطابق ان خاندانوں کے کئی مسائل کے حل کے لیے جرگے کیے جاتے ہیں اور مشران ان سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔ مگر ان تمام ملاقاتوں کا ان مذاکرات سے کوئی تعلق نہیں جو حکومت پاکستان کی سطح پر ٹی ٹی پی سے شروع کیے گئے تھے۔’گذشتہ چند ماہ کے دوران افغان طالبان کے اہلکاروں کی جانب سے سرحد پار سے فائرنگ ، اور ٹی ٹی پی کی طرف سے پاکستان کے شہری علاقوں میں بڑے حملے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ افغان طالبان کے بعض رہنماؤں کی جانب سے پاکستان مخالف بیانات بھی سامنے آئے۔پاکستان کی جانب سے مسلح افواج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے بھی بیان دیا تھا کہ افواہوں، غلط فہمیوں اور سپائلرز کا سدِ باب کرنے کے لیے مقامی طور پر پیش آنے والے اِکا دُکا واقعات کو بردباری اور مکمل احتیاط سے حل کرنا ہے۔’۔دریں اثناء ٹی ٹی پی کے ذرائع نے گزشتہ ہفتے بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ گروپ نے جنگ ​​بندی میں توسیع کر دی، عید کی مدت کے لیے امن مذاکرات کے لیے 16 مئی تک اتفاق کیاگیا تھا.ٹی ٹی پی کے ایک خط میں جنگ بندی کا خاکہ پیش کیا گیا جس میں جنگجوؤں کو کہا گیا کہ “مرکزی کمان کے فیصلے کی خلاف ورزی نہ کریں” 30 مارچ کو، ٹی ٹی پی نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف آپریشن البدر شروع کرنے کا اعلان کیا، جس کی وجہ سے قبائلی اضلاع، جنوبی علاقے اور خیبر پختونخواہ کے دیگر حصوں میں اس کے حملوں میں اضافہ ہوادھشتگردی کےخلاف جنگ افواج پاکستان کے مثالی کردار کی دنیامعترف ہے راقم الحروف کےسگے بھائی مظہرعلی مبارک راولپنڈی میں ٹارگٹ کلنگ میں دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بن کر شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے چند ماہ قبل راقم الحروف نے اے پی ایس کے شہدا کی فیملیز کے ہمراہ نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے باہر احتجاج ریکارڈکراتے ہوئے مطالبہ کیاتھاکہ امن دشمن قوتوں کو معاف کرنے کےبجائے انہیں انصاف کٹہرے میں لایا جائے اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستان میں انسداد دھشتگردی عدالتیں ختم کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ دھشتگردی ختم ہوگئی ھے مگر ایسا ہرگز نہیں۔۔ہماری عدالتوں نے سیکورٹی ایجنسوں کی شبانہ روز کی محنت پر پانی پھیرتے ہوئے دہشتگردوں کو شک کافائدہ دے “قتل کرنےکا لائسنس”دےدیا دھشت گردی کے خلاف عدالتوں میں تاحال انصاف کے حصول کیلئے سرگرداں ہے مگر کوئی امید بر نظر نہیں آتی۔سرکاری حکومتی مشینری بھی اس مستعدی سے دھشتگردی کے کیسز میں موثر نظر نہیں آتی جس کا تقاضاکیاجاتاہےخیال رہے کہ گذشتہ برس افغان طالبان کے حکومت میں آنے کے بعد پاکستان کے متعدد حلقوں کی جانب سے یہ سمجھا جا رہا تھا کہ اب افغانستان سے پاکستان میں حملوں کا سلسلہ ختم ہو جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔