آئی ایم ایف سے مذاکرات اتحادی حکومت کا مشکل فیصلوں کاعندیہ

 
0
174

اندر کی بات؛ کالم نگار؛اصغرعلی مبارک

اسلام آباد 21 جون 2022 (ٹی این ایس): اتحادی حکومت کے وزیراعظم شہباز شریف نے مشکل وقت میں مشکل فیصلے کر نے کاعندیہ دیا ہے اور آئی ایم ایف سے مذاکرات پر قوم کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا ہے، آئی ایم ایف سے مذاکرات کی کامیابی کے بعد وزیراعظم شہباز شریف قوم کو اعتماد میں لیں گے۔ اسلام آباد میں وزیراعظم شہباز شریف کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے اجلاس میں بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافےکا آئی ایم ایف سے کوئی تعلق نہیں، اضافہ عالمی سطح پر مہنگائی کی وجہ سے ہے، پہلا بجٹ ہے جب امیروں پر ٹیکس اور غریبوں کو ریلیف دیا گیا۔ آئی ایم ایف سے مذاکرات کا اگلا دور آج اور کل رات کو ہوگا، آئی ایم ایف سے مذاکرات میں پیش رفت ہوگی۔کابینہ اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ امید ہے آئی ایم ایف سے مذاکرات نتیجہ خیز ہوں گے، جلد معاشی بحران پر قابو پالیں گے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا تعلق آئی ایم ایف سے نہیں ہے، مزید مشکل فیصلےکرنا پڑے تو کریں گے۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ گزشتہ حکومت کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے ہمیں بڑا معاشی چیلنج ملا، گزشتہ حکومت نے پیٹرول کی قیمت کم کرکے آنے والی حکومت کےلیے جال بچھایا، دنیا میں معاشی صورت حال گمبھیر ہے، قیمتیں تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ مجبوراً پیٹرول کی قیمتیں بڑھانا پڑیں، 7 کروڑ لوگوں کو ریلیف فراہم کرنےکا فیصلہ کیا گیا ہے، انہیں 2 ہزار روپے مہینہ دیا جارہا ہے، امید ہے ٹیکس کی ادائیگی میں امیر طبقہ اس مشکل وقت میں قوم کا ساتھ دےگا، مشکل فیصلے مزید بھی کرنے پڑے تو کریں گے، بجٹ میں امیر طبقے کو ٹیکس نیٹ میں لایا گیا ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ حکومت نے ساڑھے 3 سال عوام کی فلاح کے لیے کچھ نہ کیا، گزشتہ حکومت نے آئی ایم ایف سے معاہدے کی خلاف ورزی کی، مشکلات ہیں لیکن ہم سب مل کر محنت کریں گے اور پاکستان کو مشکل سے نکالیں گے۔اس وقت معاشی بحران ہمارے سامنے ہے اس سلسلے میں اس انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ یعنی آئی ایم ایف کا پچھلے ایک ہفتے سے ہونے والا جائزہ بھی معنی خیز ہےآئی ایم ایف نے پاکستان کی جانب سے بجٹ متعارف کرنے کے بعد حکومت سے جواب طلب کیا ہے کہ وہ بجٹ کے تحت سرکاری ملازموں کی تنخواہوں میں اضافے کو کیسے پورا کریں گے۔ یعنی اس کے لیے رقم کہاں سے آئے گی؟اس جائزہ سے ایک تاثر تو یہ ملتا ہے کہ پاکستان نے بجٹ پیش کرنے سے پہلے آئی ایم ایف کو اعتماد میں نہیں لیا تھا۔ اور ماہرین کا کہنا ہے کہ بجٹ پیش کرنے سے پہلے آئی ایم ایف سے معاملات طے کر لینے چاہیے تھے اور پھر بجٹ پیش کرنا چاہیے تھا۔آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ پاکستان کو اپنا بجٹ آئی ایم ایف کے بتائے ہوئے مقاصد کے مطابق ڈھالنے کی مزید ضرورت ہے۔ جبکہ پاکستان 9 کھرب روپے کے بجٹ کے تحت آئی ایم ایف سے مزید بیل آؤٹ پیکج لینا چاہتا ہے۔ تاکہ بگڑتی ہوئی معیشت کو سنبھال سکے۔آئی ایم ایف نے ابتدا میں ہی کہہ دیا ہے کہ بجٹ میں پیش ہونے والے نکات حقیقت پسندانہ نہیں ہیں۔اس وقت پاکستان کو یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ امیروں کو مزید ٹیکس کی چھوٹ دینا مناسب ہے یا پھر عوام کو مہنگائی سے نمٹنے کے لیے کچھ رعایتیں دینا ضروری ہے۔وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کا معاملہ آئی ایم ایف کی منظوری سے منسلک ہے کیونکہ آئی ایم ایف نے مطالبہ کیا ہے کہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہیں نہ بڑھائی جائیں۔عالمی مالیاتی ادارے(آئی ایم ایف ) نے قرض پروگرام کی بحالی سے قبل تنخواہ دار طبقے سے مزید ٹیکس وصولی کا مطالبہ کیاہے۔ آئی ایم ایف نے کہنا ہے کہ پاکستان کے تنخواہ دار طبقے سے اضافی 125 ارب روپے ٹیکس وصول کیا جائے۔ آئی ایم ایف قرض بحالی پروگرام سے قبل اخراجات میں کمی اور ریوینو بڑھانے پر زور دے رہا ہے۔اس وقت ملک میں تنخواہ دار طبقے کی تعداد 18 لاکھ ہے جن میں سے 12 لاکھ ٹیکس ریٹرن فائل کرتے ہیں اور ان سے 220 ارب روپے ٹیکس وصول کیا جارہا ہے۔آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ ٹیکس وصولی کوبڑھا کر 125 ارب سے 345 ارب روپے تک لے جایا جائے۔ واضح رہے کہ حکومت نے نئے بجٹ میں 47 ارب روپے کا ریلیف دیا تھا۔ایف بی آر حکام نے بتایا کہ وفاقی بجٹ میں سلیب 12 سے کم کرکے 7 کئے گئےتھے۔آئی ایم ایف کو ٹیکس سلیب پر اعتراضات ہیں اور ان کے مطالبے پر فنانس بل میں ترامیم متوقع ہیں۔ کارپوریٹ انکم ٹیکس میں بھی اضافے کا امکان ہے۔پرسنل انکم ٹیکس کی تبدیلی پر آئی ایم ایف سے پچھلی حکومت نے اتفاق کیا تھا،پیٹرولیم لیوی بھی پچھلی حکومت کا طے شدہ تھا، اگر انرجی یا بجلی کی قیمت بڑھانے کی بات ہے تو وہ بھی پچھلی حکومت سے طے شدہ تھا۔واضح رہے کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی خزانہ کے ارکان کا کہنا تھا کہ امریکہ سے مدد مانگنے کے بجائے آئی ایم ایف سے بات چیت میں بہتر ڈیل کی جائے۔ وزارت خزانہ کے مطابق آئی ایم ایف سے معائدے کے بہت قریب ہیں. میمورنڈم آف اکنامک اینڈ فنانشل پالیسیز کی دستاویز ملنے کے بعد اسٹاف کی سطح پر معاہدہ طے پا جائے گا جس کے بعد آئی ایم ایف کا ایگزیکٹو بورڈ اگلی قسط کی منظوری دے گا۔موجودہ حالات میں حکومت پاکستان نے مناسب بجٹ پیش کیا ہے بجٹ میں غریبوں کے لیے ریلیف اور اشرافیہ پر ٹیکس تاریخی فیصلے ہیں وفاقی حکومت نے نئے مالی سال کے بجٹ میں سرکاری ملازمین کے لئے کئی ریلیف اقدامات کا اعلان کیا ہے اعلان کیا ہے۔ وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15 فیصد اضافے کا اعلان کیا۔ انہوں نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں سابق ایڈہاک ریلیف کو ضم کرنے کا بھی اعلان کیا۔وزیر خزانہ نے انکم ٹیکس کی بالائی حد میں ملازمین کے لئے ریلیف اقدامات کا اعلان کیا۔سرکاری ملازمین کے لئے انکم ٹیکس کی شرح 6 لاکھ روپے سے بڑھا کر 12 لاکھ روپے مقرر کرنے کا اعلان کیا بجٹ میں عوام کو ریلیف دیا گیا ہے۔ 48 فیصد ٹیکسز درآمدات کے ہیں۔ مقامی ٹیکسز 52فیصد ہیں۔ غریب طبقے کو ٹیکس سے بچایا ہے۔ بجٹ میں عام آدمی کو ریلیف فراہم کیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف نے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ اور12 لاکھ سالانہ آمدنی پرٹیکس چھوٹ دینے پرکوئی اعتراض نہیں ، آئی ایم ایف کاتنخواہیں بڑھانے یا کم کرنے کے معاملہ سے کوئی تعلق نہیں،حکومت نے مشکل حالات میں متوازن اورعوام دوست بجٹ دیاہے.حکومت نے کوشش کی ہے کہ امیروں اورصاحب ثروت افراد پرزیادہ بوجھ ڈالا جائے ، اس کے برعکس تنخواہ دار اورکم آمدنی رکھنے والے لوگوں کیلئے ریلیف کے جامع اقدامات کئے گئے ہیں۔اس سال 5818 ارب روپے کا ٹیکس جمع ہوگا۔ تنخواہ دار طبقے کو حکومت نے ریلیف فراہم کیا ہے۔نئے مالی سال کے وفاقی بجٹ میں امیروں پربوجھ ڈالاگیاہے ، 12 لاکھ سالانہ آمدنی پرٹیکس چھوٹ برقراررہیں گی،وزیرخزانہ نے کہناہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان رابطے میں ہے اورامید ہے کہ بہت جلد سٹاف سطح کامعاہدہ ہوجائیگا جس کے بعد پاکستان کیلئے قسط جاری ہوگی