فارن فینڈنگ کیس فیصلہ محفوظ :پاکستان تحریک انصاف پر پابندی لگ جائےگی؟

 
0
196

اندر کی بات ؛کالم نگار؛اصغرعلی مبارک

اسلام آباد 21 جون 2022 (ٹی این ایس): جو حالات نظر آرہے بظاہر ایسالگتاہےکہ فارن فینڈنگ کیس میں پاکستان تحریک انصاف پر پابندی لگ جائےگی .الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی ممنوعہ فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا ہے، پی ٹی آئی ممنوعہ فارن فنڈنگ کیس 8 سال زیر سماعت رہا کیس کے فیصلے کے لیے کوئی حتمی وقت نہیں دیا گیا . مختلف اوقات میں پہلے ہی پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کی طرف سے یہ معاملہ 7 مرتبہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں لے جایا گیا اور یہ مؤقف اپنایا گیا کہ الیکشن کمیشن کے پاس کسی جماعت کے اکاونٹس کی جانچ پڑتال کا اختیار نہیں , 27 اپریل کو پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس کی سماعت چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کا کہنا تھا کہ ان کا ادارہ کسی قسم کا پریشر لینے کو تیار نہیں ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کے آرڈر کے پابند ہیں،انہوں نے کمیشن کو سماعت سے نہیں روکا، 101 سیاسی جماعتوں کی اسکروٹنی کی، 17 کے اکاؤنٹس میں تضاد تھے، ،کمیشن کسی قسم کا پریشر لینے کو تیار نہیں ہے، کسی جماعت کے ساتھ زیادتی نہیں ہو گی، فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ میرٹ پر ہو گا۔ ، 25 اپریل ، 2022 کواسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ 30 روز میں کرنے کا سنگل بینچ کا فیصلہ کالعدم قرار دیدیا تھا پی ٹی آئی نے جسٹس محسن اختر کیانی کے فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ 30 روز میں کرنے کے حکم کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل دائر کی تھی۔ 14 نومبر 2014 کو پی ٹی آئی کے بانی رکن اکبر ایس بابر کی جانب سے الیکشن کمیشن میں یہ کیس دائر کیا گیا تھا جس کی 8 سالہ طویل سماعت میں پی ٹی آئی نے 30 مرتبہ التوا مانگا اور پی ٹی آئی نے 6 مرتبہ کیس کے ناقابل سماعت ہونے یا الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار سے باہر ہونے کی درخواستیں دائر کیں۔ الیکشن کمیشن نے 21 بار پی ٹی آئی کو دستاویزات اور مالی ریکارڈ فراہم کرنے کی ہدایت کی۔فنڈنگ کیس کے لیے پی ٹی آئی نے 9 وکیل تبدیل کیے جب کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی فنڈنگ کی جانچ پڑتال کے لیے مارچ 2018 میں اسکروٹنی کمیٹی قائم کی، اسکروٹنی کمیٹی کے 95 اجلاس ہوئے جس میں 24 بار پی ٹی آئی نے التوا مانگا جب کہ پی ٹی آئی نے درخواست گزار کی کمیٹی میں موجودگی کے خلاف 4 درخواستیں دائر کیں، اسکروٹنی کمیٹی نے 20 بار آرڈر جاری کیے کہ پی ٹی آئی متعلقہ دستاویزات فراہم کرے۔الیکشن کمیشن نے اگست 2020 میں اسکروٹنی کمیٹی کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ رپورٹ نامکمل ہے اور تفصیلی نہیں، اسکروٹنی کمیٹی نے 4 جنوری 2022 کو حتمی رپورٹ الیکشن کمیشن میں جمع کرائی، اسکروٹنی کمیٹی نے پی ٹی آئی بینک اسٹیٹمنٹ سے متعلق اسٹیٹ بینک کے ذریعے حاصل 8 والیمز کو خفیہ رکھا اور الیکشن کمیشن کی ہدایت پر 8 والیم اکبر ایس بابر کے حوالے کیے 12 جون ، 2022کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے فارن فنڈنگ کیس سے متعلق الیکشن کمیشن میں متفرق درخواست دائر کی درخواست میں کیس کا فیصلہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے مقدمات کے ساتھ ہی سنانے کی استدعا کی,درخواست میں مؤقف اپنایا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ قرار دے چکا کہ تمام جماعتوں کےساتھ یکساں سلوک کیا جائے۔پی ٹی آئی، پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی اسکروٹنی کا عمل 2018 میں شروع ہوا تھا، 2022 میں پی ٹی آئی کیس کی 19، پی پی اور ن لیگ کے کیسز کی صرف 2 سماعتیں ہوئیں لہٰذا پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے کیسز سست روی کا شکار ہونے سے یکساں سلوک کا تاثر نہیں ملتا۔رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کو دی گئی دستاویزات میں 31 کروڑ روپے کی رقم ظاہر نہیں کی، تحریک انصاف کو یورپی ممالک اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کے علاوہ امریکا، کینیڈا، برطانیہ، جاپان، سنگاپور، ہانگ کانگ، سوئٹزرلینڈ، نیدرلینڈ اور فن لینڈ سمیت دیگر ممالک سے فنڈ موصول ہوئے۔اسکروٹنی کمیٹی نے امریکا اور دوسرے ملکوں سے فنڈنگ کی تفصیلات سے متعلق سوالنامہ پی ٹی آئی کو دیا مگر واضح جواب نہ دیا گیا، پی ٹی آئی کی جانب سے غیر ملکی اکاؤنٹس تک رسائی نہیں دی گئی۔پی ٹی آئی نے گوشواروں میں ایم سی بی، بینک آف پنجاب اور بینک آف خیبر کے اکاؤنٹس کو ظاہر نہیں کیا جب کہ اسٹیٹ بینک ڈیٹا کے مطابق پی ٹی آئی کے پاکستان میں 26 بینک اکاؤنٹس ہیں۔پی ٹی آئی نے 2008 سے 2013 کے دوران نے 14 بینک اکاؤنٹس چھپائے، پی ٹی آئی نے اسکروٹنی کمیٹی رپورٹ پر جواب میں 11 اکاؤنٹس سے اظہار لاتعلقی کیا اور کہا یہ غیر قانونی طور پر کھولے گئے۔یہ اکاؤنٹس اسد قیصر ، شاہ فرمان ، عمران اسماعیل ، محمود الرشید ، احد رشید ، ثمر علی خان ، سیما ضیاء ، نجیب ہارون ، جہانگیر رحمان ، خالد مسعود ، نعیم الحق اور ظفر اللہ خٹک نے کھولے تھے پی ٹی آئی ممنوعہ فارن فنڈنگ کیس 8 سال زیر سماعت رہا 14 نومبر 2014 کو پی ٹی آئی کے بانی رکن اکبر ایس بابر کی جانب سے الیکشن کمیشن میں یہ کیس دائر کیا گیا تھا جس کی 8 سالہ طویل سماعت میں پی ٹی آئی نے 30 مرتبہ التوا مانگا اور پی ٹی آئی نے 6 مرتبہ کیس کے ناقابل سماعت ہونے یا الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار سے باہر ہونے کی درخواستیں دائر کیںالیکشن کمیشن نے 21 بار پی ٹی آئی کو دستاویزات اور مالی ریکارڈ فراہم کرنے کی ہدایت کی۔فنڈنگ کیس کے لیے پی ٹی آئی نے 9 وکیل تبدیل کیے جب کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی فنڈنگ کی جانچ پڑتال کے لیے مارچ 2018 میں اسکروٹنی کمیٹی قائم کی، اسکروٹنی کمیٹی کے 95 اجلاس ہوئے جس میں 24 بار پی ٹی آئی نے التوا مانگا جب کہ پی ٹی آئی نے درخواست گزار کی کمیٹی میں موجودگی کے خلاف 4 درخواستیں دائر کیں، اسکروٹنی کمیٹی نے 20 بار آرڈر جاری کیے کہ پی ٹی آئی متعلقہ دستاویزات فراہم کرے۔ الیکشن کمیشن نے اگست 2020 میں اسکروٹنی کمیٹی کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ رپورٹ نامکمل ہے اور تفصیلی نہیں، اسکروٹنی کمیٹی نے 4 جنوری 2022 کو حتمی رپورٹ الیکشن کمیشن میں جمع کرائی، اسکروٹنی کمیٹی نے پی ٹی آئی بینک اسٹیٹمنٹ سے متعلق اسٹیٹ بینک کے ذریعے حاصل 8 والیمز کو خفیہ رکھا اور الیکشن کمیشن کی ہدایت پر 8 والیم اکبر ایس بابر کے حوالے کیے گیے۔رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کو دی گئی دستاویزات میں 31 کروڑ روپے کی رقم ظاہر نہیں کی، تحریک انصاف کو یورپی ممالک اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کے علاوہ امریکا، کینیڈا، برطانیہ، جاپان، سنگاپور، ہانگ کانگ، سوئٹزرلینڈ، نیدرلینڈ اور فن لینڈ سمیت دیگر ممالک سے فنڈ موصول ہوئے۔ اسکروٹنی کمیٹی نے امریکا اور دوسرے ملکوں سے فنڈنگ کی تفصیلات سے متعلق سوالنامہ پی ٹی آئی کو دیا مگر واضح جواب نہ دیا گیا، پی ٹی آئی کی جانب سے غیر ملکی اکاؤنٹس تک رسائی نہیں دی گئی۔پی ٹی آئی نے گوشواروں میں ایم سی بی، بینک آف پنجاب اور بینک آف خیبر کے اکاؤنٹس کو ظاہر نہیں کیا جب کہ اسٹیٹ بینک ڈیٹا کے مطابق پی ٹی آئی کے پاکستان میں 26 بینک اکاؤنٹس ہیں۔ پی ٹی آئی نے 2008 سے 2013 کے دوران نے 14 بینک اکاؤنٹس چھپائے، پی ٹی آئی نے اسکروٹنی کمیٹی رپورٹ پر جواب میں 11 اکاؤنٹس سے اظہار لاتعلقی کیا اور کہا یہ غیر قانونی طور پر کھولے گئے.چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں پی ٹی آئی کے ممنوعہ فارن فنڈنگ کیس کی سماعت ہوئی جس میں درخواست گزار اکبر ایس بابر کے فنانشل ایکسپرٹ نے دورانِ سماعت بتایاکہ پی ٹی آئی فنڈز میں آڈٹ کے اصول اور معیارکو نظر اندازکیا گیا ہے، ڈونرز تھرڈ پارٹی نہیں، پی ٹی آئی قیادت کی اپنی بنائی ہوئی کمپنیاں ہیں۔اس موقع پر اکبر ایس بابر نے کہا کہ پہلی بارکوئی سیاسی جماعت الیکشن کمیشن میں فنڈنگ کی تفصیلات دے رہی ہے، ہرسیاسی جماعت کو الیکشن کمیشن کے سامنے جوابدہ ہونا چاہیے۔اس پر چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ دونوں طرف کی سیاسی جماعتوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں، پاکستان تحریک انصاف کا کیس فائنل ہوا ہے، چاہتے ہیں دوسری سیاسی جماعتوں کے کیسزکا بھی اختتام ہو، ووٹر کا اعتماد بحال ہو، ملک کو جمہوری طور پر مضبوط کرنا ہے۔بعد ازاں الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی ممنوعہ فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔چیف الیکشن کمشنر کی جانب سے کیس کے فیصلے کے لیے کوئی حتمی وقت نہیں دیا گیا ہے۔واضح رہے کہ پی ٹی آئی ممنوعہ فارن فنڈنگ کیس 8 سال زیر سماعت رہا۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کے رہنما حنیف عباسی نے جب عمران خان کی اہلیت کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تو اس کے ساتھ ایک متفرق درخواست فارن فنڈنگ کے حوالے سے بھی دی گئی تھی جس پر سپریم کورٹ نے سنہ 2016 میں فیصلہ دیا تھا کہ سیاسی جماعتوں کی فنڈنگز کی تحقیقات کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمشن کو سنہ 2009 سے 2013 کے دوران اس جماعت کو جتنے بھی فنڈز ملے اس کی جانچ پڑتال کا حکم دیا تھا۔ سنہ 2014 سے لے ک 2018 تک یہ معاملہ مختلف عدالتی فورمز پر زیر بحث رہا کبر ایس بابر نے تحریک انصاف میں 23 خفیہ اکاؤنٹس کی موجودگی کا الیکشن کمیشن میں دائر کر رکھا ہے پاکستان تحریک انصاف کا ہمیشہ سےیہ مؤقف رہا ہے کہ بیرون ممالک سے جتنے بھی فنڈز اکھٹے کیے ہیں وہ قانون کے مطابق ہیں پی ٹی آئی کی طرف سے جو بیان سکروٹنی کمیٹی کو پیش کیا گیا اس میں یہ مؤقف اختیار کیا گیاتھا کہ اگر بیرون ممالک سے حاصل ہونے والے چندے یا فنڈز میں کوئی بے ضابطگی ہوئی ہے تو اس کی ذمہ داری تحریک انصاف پر نہیں بلکہ اس ایجنٹ پر عائد ہوتی ہے جس کی خدمات فنڈ جمع کرنے کے کام کے لیے لی جاتی ہیں۔پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں نےاسی جواب کو بنیاد بناتے ہوئے یہ دعویٰ کرنا شروع کر دیاتھا کہ پاکستان تحریک انصاف نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ اُنھوں نے ممنوعہ ذرائع سے فنڈز حاصل کیے ہیں۔جوغیرقانونی عمل ہےالیکشن کمیشن میں پاکستان تحریک انصاف کےوکلا کا یہ موقف رہا کہ سکروٹنی کمیٹی کو بتایا گیا تھا کہ
اکبر ایس بابر نے الزام عائد کیا گیا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف نے بیرون ممالک مقیم پاکستانیوں کے علاوہ غیر ملکیوں سے بھی فنڈز حاصل کیے، جس کی پاکستانی قانون اجازت نہیں دیتا۔مبینہ طور پر ممنوعہ ذرائع سے پارٹی کو ملنے والے فنڈز کا معاملہ اُنھوں نے سنہ 2011 میں پارٹی کے چیئرمین عمران خان کے سامنے اٹھایا تھا اور یہ کہا تھا کہ پارٹی کے ایک اور رکن جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو اس معاملے کو دیکھے لیکن اس پر عمران خان کی طرف سے کوئی کارروائی نہ ہونے کی بنا پر وہ یہ معاملہ الیکشن کمیشن میں لے کر گئے۔ امریکہ اور برطانیہ میں جماعت کے لیے وہاں پر رہنے والے پاکستانیوں سے چندہ اکھٹے کرنے کی غرض سے لمیٹڈ لائبیلیٹیز کمپنیاں بنائی گئی تھیں جن میں آنے والا فنڈ ممنوعہ ذرائع سے حاصل کیا گیا۔ آسٹریلیا اور دیگر ممالک سے بھی ممنوعہ ذرائع سے پارٹی کو فنڈز ملے اور یہ رقم پاکستان تحریک انصاف میں کام کرنے والے کارکنوں کے اکاؤنٹ میں منتقل کی گئی جبکہ مشرق وسطیٰ کے ممالک سے بھی ہنڈی کے ذریعے پارٹی کے فنڈ میں رقم بھجوائی گئی۔ اگر ایجنٹس نے پاکستان کے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کسی غیر ملکی کمپنی یا شخص سے کوئی فنڈزیا چندہ حاصل کیا ہے تو اس کی ذمہ داری ان کی جماعت پر نہیں بلکہ اس کی ذمہ داری ان ایجنٹس پر ہے اور مقامی قانون کے مطابق اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔تاہم جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ اگر کسی ایجنٹ نے قانون کے خلاف ورزی کرتے ہوئے جو رقم اکٹھی کی ہے کیا وہ فنڈز پارٹی کے اکاؤنٹ میں آئے ہیں تو تحریک انصاف کے وکلا کایہ کہنا تھا کہ پارٹی کے پاس جو بھی فنڈز آتے ہیں ان کا آڈٹ کروایا جاتا ہے۔وکلا نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ پاکستان تحریک انصاف نے اس الزام کو تسلیم کیا ہے کہ تحریک انصاف نے بطور سیاسی جماعت ممنوعہ ذرائع سے چندہ اکھٹا کیا۔پاکستان میں سیاسی جماعتیں فنڈز کیسے اکھٹا کر سکتی ہیں، متعلقہ قوانین کیا ہیں، اگر الزامات ثابت ہو جاتے ہیں تو کیا پاکستان تحریک انصاف پر پابندی لگ سکتی ہے اور اس کیس کے پاکستان کے سیاسی مستقبل پر کیا اثرات ہوں گے، یہ سب جاننے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ کیس کب اور کیسے شروع ہوا۔روزانہ کی بنیاد پر الیکشن کمیشن نے فارن فنڈنگ کیس کی سماعت کرنے کا فیصلہ کیا ہےعمران خان اور ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف یہ دعویٰ کرتے آئے ہیں کہ ان کی جاعت نے ممنوعہ ذرائع سے فنڈز حاصل نہیں کیے بلکہ تمام حاصل ہونے والے فنڈز کے دستاویزات موجود ہیں۔ نجی ٹی وی چینل کو دیے گیے ایک حالیہ انٹرویو میں عمران خان نے دعویٰ کیاتھاکہ دو ملکوں نے انھیں انتحابات میں مالی معاونت فراہم کرنے کی پیشکش کی جو انھوں نے قبول نہیں کی تھی۔عمران خان نے ان دو ملکوں کے نام یہ کہہ کر نہیں بتائے کہ ان کے نام بتانے سے پاکستان کے ان ملکوں کے ساتھ تعلقات خراب ہو جائیں گے۔فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ آنے سے قبل پی ٹی آئی الیکشن کمیشن کو دباؤ میں لانا چاہتی ہے سابق وزیراعظم عمران خان نے چیف الیکشن کمشنر کے خلاف ریفرنس لانے کا اعلان کر دیاہے اور کہاہے کہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کا نام اسٹیبلشمنٹ لے کر آئی تھی ، عمران خان کا کہناتھا کہ اس وقت چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے ہوئی ، اس بارے میں حکومت اور اپوزیشن میں ڈیڈ لاک پیدا ہو گیا تھا اور بات آگے نہیں بڑھ رہی تھی جس پر ڈیڈ لاک کو ختم کرنے کیلئے اسٹیبلشمنٹ نے اپنا کردار اد ا کیا۔پی ٹی آئی ممنوعہ فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ محفوظ ہے،اور شنید ھے کہ پاکستان تحریک انصاف پر پابندی لگ جائےگی.