وادی سندھ کو آب و ہوا کی تبدیلی سے شدید خطرات لاحق

 
0
458

کراچی اگست 06.(ٹی این ایس )پاکستان کی وادی سندھ، بھارت کی وادی گنگا اور شمالی علاقہ اور بنگلہ دیش کے زیادہ تر علاقوں کوآب و ہوا کی تبدیلی کے منفی اثرات سے شدید خطرات لاحق ہیں۔اس بات کا انکشاف سائنسی جریدے سائنس ایڈوانسزمیں شائع ایک رپورٹ میں کیا گیاہے ۔رپورٹ میں سائنس دانوں نے خبردار کرتے ہوئے کہاکہ اگر ہم نے اپنے طور اطوار تبدیل نہ کیے تو بائیسویں صدی میں دنیا کے کئی حصے کسی دوزخ سے کم نہیں ہوں گے۔رپورٹ میں میسا چوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے سائنس دان الفتح الطاہر کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ جنوبی ایشیا کے ان علاقوں میں آبادی بہت گنجان ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔ لوگوں کی اکثریت انتہائی خراب اور ناگفتہ بہ حالات میں زندگی گذار رہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ ان کے لیے گرم اور مرطوب ہوتے ہوئے موسم کی سختیاں برداشت کے قابل نہیں رہیں گی۔رپورٹ کے مطابق پاکستان میں آب و ہوا کی تبدیلی کے ہلاکت خیز اثرات کا مظاہرہ کچھ عرصہ پہلے کراچی میں ہو چکا ہے جہاں گرمی کی لہر سے بڑی تعداد میں لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔نئی صدی شروع ہونے میں گو کہ ابھی کئی عشرے باقی ہیں لیکن سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ نئی صدی سے نئی امیدیں اور توقعات نہ باندھی جائیں کیونکہ نئی صدی انسان کے لیے نئے مسائل اور پریشانیاں لے کر آرہی ہے ۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نئی صدی کا سب سے بڑا مسئلہ زمین کے درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافہ ہے۔ماحولیات کے ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ جنوبی ایشیا کے کئی حصے اس قدر گرم ہوجائیں گے کہ وہاں انسانی زندگی کا وجود برقرار رکھنا ممکن نہیں رہے گا۔سائنس دانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر گرین ہاوس گیسوں کے اخراج کو نمایاں طور پر کم نہ کیا گیا تو ان علاقوں میں درجہ حرارت اور رطوبت کی سطح بہت بلند اور کئی دوسرے عوامل انسانی زندگی کے وجود کو مشکل تر بنا دیں گے۔رپورٹ میں ماہرین نے جن دوسرے عوامل کی نشان دہی کی ہے ان میں آبادی میں بیتحاشہ اضافہ، غربت اور زراعت پر مسلسل انحصار شامل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ زمین کے درجہ حرارت میں بتدریج اضافے سے زرعی پیداوار میں کمی ہوگی اور وہ آبادی کی ضروریات پورا نہیں کر سکے گی۔تجربے سے یہ ظاہر ہوا کہ اگردرجہ حرارت 35 ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھ جائے تو کوئی بھی انسان اس حرارت کو برداشت نہیں کر سکے گا چاہے وہ کتنا ہی صحت مند کیوں نہ ہو اور پانی کی کتنی ہی مقدار کیوں نہ پی لے، وہ محض چند گھنٹوں کے اندر ہلاک ہو جائے گا۔سائنس دانوں کا موسم کی تبدیلی کے حوالے سے مزید کہنا ہے کہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ درجہ حرارت مسلسل خطرناک حدود سے تجاوز کرتا رہے گا، لیکن وہ جب بھی ایک خاص حد سے بڑھے گا تو ان لوگوں کے لیے ہلاکت خیز بن جائے گا جن کے پاس ایئر کنڈیشن نہیں ہو گا۔رپورٹ کے حوالے سے امریکہ کی پرڈیو یونیورسٹی کے آب وہوا سے متعلق سائنس دان میتھیو ہوبر کہتے ہیں کہ اس رپورٹ میں کاربن گیسوں کے اخراج کی سطح کا ذکر نہیں کیا گیا۔ ان کے مطابق گیس کے اخراج کے پیمانے آر سی پی 8.5 پر 35 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت دنیا کی ایک بڑی آبادی کے لیے موت کا پروانہ بن سکتا ہے۔